Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 21
فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍۙ
فَهُوَ : تو وہ فِيْ عِيْشَةٍ : عیش میں ہوگا۔ زندگی میں ہوگا رَّاضِيَةٍ : دل پسند
پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا
فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ۔ فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ۔ قُطُوْفُھَا دَانِیَۃٌ۔ (الحآقۃ : 21 تا 23) (پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا۔ ایک بلند وبالا باغ میں۔ اس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ ) اعمال نامے کا دائیں ہاتھ میں ملنا گویا جنت میں داخلے کی علامت کہئے یا سرٹیفکیٹ۔ اس کے بعد کے مراحل آسانی سے سر ہوجائیں گے۔ آخر یہ خوش قسمت جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس جنت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں انسان کو وہ زندگی، وہ ماحول، وہ سہولت اور وہ نعمتیں میسر آئیں گی جو اس کے لیے دل پسند ہوں گی۔ وہ جس چیز کی خواہش کرے گا چاہے وہ آج کی دنیا میں ناممکنات میں سے ہو، وہ اسے فوراً عطا کردی جائے گی اور کسی نعمت کے زوال یا خلاف طبیعت کسی امر کے ظہور کا اندیشہ تک نہیں ہوگا۔ ہر خوشی دائمی ہوگی اور ہر مسرت اندیشہ زوال سے پاک ہوگی۔ یہ وہ زندگی ہے جو بادشاہوں کو بھی دنیا میں نصیب نہیں ہوسکتی۔ لیکن اہل جنت میں سے ہر شخص اسی زندگی سے بہرہ ور ہوگا۔ اہل جنت کو جن باغوں میں رکھا جائے گا وہ ہر لحاظ سے بلند وبالا ہوں گے۔ اپنی قیمت، اپنی قامت، اپنی وجاہت، اپنی صورت، ہر لحاظ سے ان کی مثال نہیں ہوگی۔ اس کے پیڑ اور درخت تو یقینا بلند وبالا ہوں گے لیکن اس کے پھل اور خوشے جو اصل مطلوب ہیں وہ نہایت قریب ہوں گے۔ اہل عرب جن باغوں کو بہت بیش قیمت اور بہت خوبصورت سمجھتے تھے ان کے کنارے کنارے کھجوروں کی قطاریں اور بیچ بیچ میں اناروں کے درخت اور انگوروں کی بیلیں ہوتی تھیں۔ شاید اسی ذوق کی تسکین کے لیے عالیہ اور دانیہ دو صفات لائی گئی ہیں۔ اور ویسے بھی کسی بھی باغ کی اس سے زیادہ اور خوبصورتی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ بلندی پر ہو، اس کے پودے سروقامت ہوں، لیکن اس کے خوشے سروں پر لٹک رہے اور دسترس کے اندر ہوں۔
Top