Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 24
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓئًۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ
كُلُوْا : کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو هَنِيْٓئًۢا : مزے سے بِمَآ اَسْلَفْتُمْ : بوجہ اس کے جو کرچکے تم فِي الْاَيَّامِ : دنوں میں الْخَالِيَةِ : گذشتہ
کھائو اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ھَنِیْئًا م بِمَـآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ ۔ (الحآقۃ : 24) (کھائو اور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے۔ ) ھَنِیْئًا … فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ اس کے معنی ہیں ” راس آنے والی اور مزیدار چیز۔ “ بعض اہل علم نے اسے حال کے مفہوم میں لیا ہے۔ لیکن بعض اہل علم کے نزدیک اس آیت میں یہ مصدر محذوف کی صفت واقع ہے۔ پورا جملہ اس طرح ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا اَکَلاً وَ شَرْبًا ھَنِیًٔا۔ جنت کی نعمتوں کی خصوصیت اور اہل جنت کا اعزاز اہلِ جنت کو بلند وبالا باغوں میں اتار کر یہ کہا جائے گا کہ تم نہایت اطمینان، خوشدلی اور چاہت سے جنت کی نعمتیں کھائو اور پیو۔ یہاں کی نعمتیں تمہارے لیے کسی مشکل کا باعث نہیں ہوں گی۔ دنیا میں انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نعمتیں دے رکھی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر نعمت ہر کھانے والے کے لیے آسودگی کا باعث ہو۔ بعض چیزیں بعض عوارض کے سبب بعض لوگ نہیں کھا سکتے۔ شوگر کا مریض میٹھی چیزوں سے بچتا ہے اور بلڈ پریشر کا شکار نمک سے پرہیز کرتا ہے، معدے کے امراض میں مبتلا پرہیزی غذا کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تو عوارض کی مجبوریاں ہیں لیکن جن لوگوں کو کسی طرح کے عوارض درپیش نہیں ہوتے وہ بھی غذا نہایت احتیاط سے لیتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ سے جسم بھاری ہوسکتا ہے اور کئی عوارض پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جنت میں تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائے گا ان میں سے ہر نعمت ہر کھانے والے کو آسودگی دے گی۔ کوئی نعمت کسی کھانے والے کے لیے کسی طرح کی مشکل پیدا نہیں کرے گی۔ اس کی کثرت و قلت کسی مسئلے کا باعث نہیں ہوگی۔ نعمتوں کا استعمال جن مسائل کو جنم دیتا ہے ان میں ایک تو وہ مسائل ہیں جو جسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ابھی ہم ذکر کرچکے ہیں، لیکن ایک مسئلہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کی روح، اس کے ایمان اور اس کی عاقبت سے ہے۔ یعنی اگر نعمت سے فائدہ اٹھانے والا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور نعمت دینے والے کا حق پہچانتا ہے تو وہ نعمت اس کے لیے ایمان میں اضافے اور آخرت میں اجروثواب کا باعث بنتی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نعمتوں میں اضافہ بھی فرماتا ہے۔ لیکن اگر وہ شکر بجا نہیں لاتا بلکہ کفرانِ نعمت کرتا ہے اور نعمت دینے والے کا حق نہیں پہچانتا بلکہ اس نعمت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر من مرضی اختیار کرتا ہے، تو یہی نعمت اس کے لیے وبال کا باعث بن جاتی ہے اور آخرت میں جوابدہی مشکل ہوجائے گی۔ ان دونوں حوالوں سے یہاں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ جنت کی نعمتیں نہ تمہارے لیے جسمانی مسائل پیدا کریں گی اور نہ اس میں کفرانِ نعمت کا کوئی اندیشہ ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں ایک اور بات ارشاد فرمائی گئی ہے جو اہل جنت کے لیے سرمایہ افتخار بھی ہے اور شکر کا موقع بھی۔ وہ بات یہ ہے کہ اہل جنت کو جن نعمتوں سے نوازا جائے گا، اسے اپنے فضل کا نتیجہ قرار نہیں دیا حالانکہ اہل جنت کا جنت میں دخول اور وہاں نعمتوں کی بارش یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اہل جنت کے احساس کو سرشار کرنے اور ان کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنے کے لیے ارشاد فرمائے گا کہ یہ جو کچھ تمہیں ملا ہے یہ تمہارے اعمال کا صلہ اور تمہارے کارناموں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح ایک مزدور اجرت پا کر ایک خاص قسم کے اعتماد سے بہرہ ور ہو کر مسرت اور شادمانی کے جھولے میں جھولنے لگتا ہے یہی کیفیت اہل جنت کی بھی ہوگی۔
Top