Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 33
اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا لَا يُؤْمِنُ : نہیں ایمان رکھتا بِاللّٰهِ : اللہ پر الْعَظِيْمِ : جو بڑا ہے
یہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان نہیں رکھتا تھا
اِنَّـہٗ کَانَ لاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ۔ (الحآقۃ : 33، 34) (یہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ ) اصحابُ الشمال کے بنیادی جرائم جن لوگوں کو یہ سزا دی جائے گی کہ وہ جہنم میں بھی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں گے ان کے بنیادی جرائم یہ ہیں کہ ان میں کا ہر شخص نہ تو خدائے بزرگ و برتر پر ایمان رکھتا تھا۔ ایمان کا ایک معنی تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ویسے نہیں مانتا تھا جیسے ماننا چاہیے۔ اس کی ذات اور اس کی صفات میں شریک ٹھہراتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے رسول کو ماننے اور آخرت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا تھا۔ وہ اس سے پہلے کی آیت میں چونکہ خاص طور پر مال کا ذکر آیا ہے تو اس سیاق میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے مال کو اپنی ذاتی کوششوں کا نتیجہ اور اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ اور دوسرا جرم اس کا یہ تھا کہ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا تھا اور اس کی حدود کو پامال کرتا تھا، اسی طرح وہ بندوں کے حقوق سے بھی ناآشنا تھا اور مال و دولت کے بارے میں اس کے تصور نے اسے بندوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے محروم کردیا تھا اور دولت سے بےپناہ عشق کی وجہ سے بخل کا ایسا شکار ہوا تھا کہ فقراء اور مساکین کو دھکے دیتا اور کسی غریب کی غربت اس کے دل میں رحم کے جذبات پیدا نہ کرسکتی تھی۔ اور اس کے بخل نے اسے انسانیت سے اتنا بیگانہ کردیا تھا کہ نہ وہ خود کسی کی مدد کرتا اور نہ کسی کو ترغیب دیتا کہ وہ کسی مسکین کو کھانا کھلائے۔ کھانا کھلانا چونکہ ضروریاتِ زندگی میں سب سے پہلی ضرورت ہے اور نسبتاً آسان بھی۔ اس لیے اس کا ذکر فرمایا۔ ورنہ مقصود صرف کھانا کھلانا نہیں بلکہ فقراء کی ہر طرح کی مدد اس سے مراد ہے۔ نہ وہ خود کسی غریب کی مدد کرتا تھا اور نہ کسی کو اس کی ترغیب دیتا تھا۔ بخیل لوگوں کا عام حال یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ حاجت مندوں کی مدد کریں تاکہ ان کے بخل پر پردہ پڑا رہے۔
Top