Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
پس نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو
فَـلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ ۔ وَمَا لاَ تُبْصِرُوْنَ ۔ اِنَّـہٗ لَـقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ۔ وَّمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْلاً مَّا تُؤْمِنُوْنَ ۔ وَلاَ بِقَوْلِ کَاھِنٍط قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الحآقۃ : 38 تا 43) (پس نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔ اور ان چیزوں کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔ یہ ایک رسول کریم کا قول ہے۔ اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ یہ خداوندِعالم کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ ) ” لا “ کا مفہوم آیت کے شروع میں ” فَـلَآ “ کا لفظ اہل علم کے نزدیک مختلف مفہوم رکھتا ہے۔ بعض اسے زائد قرار دیتے ہیں۔ اس لیے وہ آیت کے ترجمے میں اسے شامل نہیں کرتے۔ لیکن بعض دیگر اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ زائد نہیں ہوتا اور نہ قسم کی نفی کے لیے آتا ہے، بلکہ یہ قسم سے پہلے مخاطب کے اس خیال کی تردید کے لیے آتا ہے جسے رد کرنے کے لیے قسم کھائی گئی ہو۔ ہم اپنی بول چال میں بھی بعض دفعہ قسم کے آغاز میں ” نہیں “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً مخاطب ایک بات کہتا ہے تو ہم اس کی تردید میں قسم کے ساتھ تاکید پیدا کرتے ہوئے جو بات کہتے ہیں اس سے پہلے حرف نفی لاتے ہیں۔ مثلاً ہم اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے یہ اسلوب اختیار کرتے ہیں، نہیں، خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے بلکہ بات اس طرح ہے۔ قرآن کریم نے بھی اس آیت میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے اور اس اسلوب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخاطب یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ متکلم میری بات کو اس قدر غلط سمجھتا ہے کہ وہ اپنی بات کی تردید میں کچھ کہنے سے پہلے حرف نفی لا کر یہ تصور دینا چاہتا ہے کہ تمہاری بات اس قابل نہیں کہ اس پر غور بھی کیا جائے۔ قسم کے بارے میں یہ جان لینا چاہیے کہ قسم کے بعد جو جملہ آتا ہے اسے جوابِ قسم کہتے ہیں اور جوابِ قسم کی حیثیت دعویٰ کی ہوتی ہے۔ اور قسم بالعموم دعویٰ کی شہادت اور اس کی دلیل کے طور پر کھائی جاتی ہے۔ پیشِ نظر آیتوں میں قسم اور جوابِ قسم کا مفہوم پیشِ نظر دو آیتوں میں جو قسم کھائی گئی ہے اس کا جوابِ قسم جس کی حیثیت دعویٰ کی ہے وہ، وہ بات ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں کیا گیا ہے۔ لیکن اس دعوے کی وضاحت میں اہل تفسیر میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض اہل علم کا گمان یہ ہے کہ دعویٰ تو بیشک اگلی آیت ہی ہے لیکن یہ اس دعویٰ کی ظاہری حیثیت ہے۔ اصل دعویٰ وہ ہے جسے سورة کے عمود کی حیثیت حاصل ہے اور وہ اثباتِ جزاء و سزا ہے۔ مخالفین کا اصل انکار اس بات سے تھا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ قیامت آئے گی اور وہ دن جزاء و سزا کا دن ہوگا۔ ہر شخص اپنے زندگی کے اعمال کے اعتبار سے جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، نیکیوں پر جزاء ملے گی اور برائیوں پر سزا ملے گی۔ جس کا نتیجہ جنت یا جہنم ہوگا۔ یہ باتیں سراسر افسانہ معلوم ہوتی ہیں جنھیں عقل تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن وہ اس کے انکار کے لیے ہدف نبی کریم ﷺ کو بناتے تھے کہ تم قیامت کے وجود پر قرآن کریم سے آفاق وانفس اور عقل و نقل کے دلائل پیش کرتے ہو اور اس کے لیے بڑا خوبصورت پیرایہ بیان اختیار کرتے ہو اور اس کے بارے میں تمہارا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے، ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں، تم جو کچھ وحی الٰہی کی صورت میں پیش کررہے ہو یہ دراصل ایک شاعر یا کاہن کا کلام ہے۔ اور جنات یا شیاطین تمہارے دل میں اسے القاء کرتے ہیں۔ اس طریقہ سے وہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کو بےاعتبار ٹھہرا کر عقیدہ قیامت کو بےاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس عقیدے کے اثبات کے لیے قسم کھا کر اپنے دعوے کو مؤکد کیا ہے۔ سب سے پہلے حل طلب بات یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے اس کا مفہوم کیا ہے۔ بات کو اگر لپیٹ کر کہیں تو مطلب بالکل واضح ہے کہ پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ قسم ہے ان تمام چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو یا دیکھ سکتے ہو اور ان تمام چیزوں کی جن کو تم نہ دیکھتے ہو اور نہ دیکھ سکتے ہو۔ ظاہر ہے کہ اس میں تمام مخلوقات کا ذکر آگیا۔ یعنی جہانِ دیدہ بھی اور نادیدہ عالم بھی۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ نہ دیکھنے کی چیزوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات ہے۔ اور دیکھنے کی چیزوں سے مراد، دنیا کی چیزیں ہیں۔ (مظہری) بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس سورة میں جزاء و سزا پر جو دلائل قائم کیے گئے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک کا تعلق اس عالم سے ہے اور دوسرے کا تعلق اس نادیدہ عالم سے جس کو یہاں آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پہلی قسم کی دلیل سابقہ قوموں کی تاریخ اور ان کی تباہی کے آثار سے قائم کی گئی ہے اور یہ وہ دلیل ہے جس کو اہل عرب دیکھتے تھے اور آج بھی دنیا کے مشاہدے میں آتی ہے۔ اور دوسری قسم کی دلیل آخرت کے وہ احوال ہیں جو اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کو پیش آنے والے ہیں۔ ان کا تعلق آخرت سے ہے اور ظاہر ہے آج انہیں آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس جہان میں پیش آنے والے مکافاتِ عمل کے بعد ان کی حقیقت سے آج پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ ان دونوں طرح کے دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دونوں طرح کے واقعات کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جہاں تک تاریخی واقعات کا تعلق ہے ان کو تم آج بھی دیکھ سکتے ہو۔ اس لیے جزاء و سزا پر ان کے دلیل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور جہاں تک عالم آخرت کا تعلق ہے انہیں آج تم اپنے سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، لیکن عقل ان کا انکار نہیں کرسکتی، کیونکہ قوموں کی تاریخ اس پر شاہد ہے اور آفاق وانفس کے شواہد اس پر دلیل ہیں۔ جن اہل علم نے اگلی آیت کے منطوق و مفہوم کو من وعن جوابِ قسم یعنی دعویٰ ٹھہرایا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ قریش مکہ کو اس بات سے انکار تھا کہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتا ہے اور ایک فرشتہ لے کر ان پر اترتا ہے۔ لوگ اس کی فصاحت و بلاغت اور اعجاز آفرینی سے متاثر ہو کر اس کو کلام خداوندی سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ کوئی جن یا شیطان ہے جو آنحضرت ﷺ کے دل پر اس کلام کو القاء کرتا ہے۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، جنات اور شیاطین ہمیشہ شاعروں اور کاہنوں پر اپنا کلام القاء کرتے رہتے ہیں اور وہ اسی کی مدد سے شعر کہتے اور عالم غیب کی خبریں دیتے ہیں، اس لیے آپ درحقیقت ایک شاعر اور کاہن ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں جن پر وحی اترا کرتی ہے۔ اس کی تردید کرتے ہوئے پروردگار نے ان چیزوں کی قسم کھائی ہے جن کو انسانی نگاہیں دیکھتی ہیں اور ان چیزوں کی قسم کھائی ہے جو نگاہوں کی حدود سے ماورا ہیں۔ اس سلسلے میں ان اہل علم کا خیال یہ ہے کہ رسول کریم سے مراد نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سورة تکویر آیت 19 میں بالکل انہیں الفاظ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بعد جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ہیں، کسی اور کی نہیں۔ لیکن یہاں اس لیے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مراد نہیں لیے جاسکتے کہ قریش حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو شاعر یا کاہن نہیں کہتے تھے اور نہ حضرت جبرائیل کی ذات زیربحث تھی۔ شاعر اور کاہن ہونے کا الزام وہ آنحضرت ﷺ پر لگاتے تھے۔ اس لیے یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن کو آنحضرت ﷺ یا حضرت جبرائیل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بات یہ ہے کہ قول کا معنی ہمیشہ کلام نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ کسی کا کلام جس شخص کی زبان سے نکلتا ہے اسے اس کا قول قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اسی لیے اس کو آنحضرت ﷺ کا قول کہا گیا ہے کہ لوگ اسے حضور ﷺ کی زبان سے سنتے تھے۔ اور حضرت جبرائیل کا قول اس معنی میں ہے کہ حضور ﷺ قرآن کریم کو حضرت جبریل سے سنتے تھے لیکن آگے چل کے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ یہ فی الحقیقت رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ آنحضرت ﷺ اور حضرت جبریل کی حیثیت بقول شاعر صرف یہ ہے کہ : میں ان کے مطلب کی کہہ رہا ہے، زبان میری ہے بات ان کی میں ان کی محفل سجا رہا ہوں، چراغ میرا ہے رات ان کی اس پر قسم کی صورت میں دو طرح کے دلائل دیئے گئے۔ ایک تو وہ دلائل ہیں جنھیں اہل مکہ جانتے اور پہچانتے تھے اور ان کی آنکھیں انہیں دیکھتی تھیں۔ اور دوسرے وہ دلائل ہیں جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن دل اس کی گواہی دیتا تھا۔ پہلی قسم کی دلائل میں سے چند ایک کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ 1 اس کلام کو ” محمد ﷺ “ کے اسم گرامی سے پہچانی جانے والی جو ذات عزیز پیش کرتی ہے مکہ کا ایک ایک فرد اس کی شرافتِ نفس، اس کی اخلاقی بلندی، اس کی امانت و صداقت اور اس کے حُسنِ کردار کا معترف تھا۔ کبھی کسی نے اس سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ ایسی ذات سے یہ توقع کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ خداوندِعالم پر جھوٹ باندھے اور غلط بات اس کی طرف منسوب کرے۔ 2 ہر سمجھدار آدمی اس بات کو جانتا تھا کہ قرآن کریم کو پیش کرنے میں نبی کریم ﷺ کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ قرآن کریم کی دعوت کو پیش کرنے کے نتیجہ میں کوئی مفاد تو کیا ہاتھ آتا، زندگی کے لالے ضرور پڑگئے۔ کوئی دکھ ایسا نہیں جس سے اس راستے میں واسطہ پیش نہ آیا ہو۔ وہ معاشرہ جو آپ ﷺ کو سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا وہ آپ ﷺ کا بدترین دشمن ہوگیا۔ کیا کوئی شخص کسی غلط دعوے کے لیے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اور مستقبل کو دائو پر لگا سکتا ہے۔ 3 مکہ کے لوگ دیکھ رہے تھے کہ جو شخص اس دعوت کو قبول کرتا ہے اور اس کلام پر مبنی نظام زندگی کو اپنا رہنما بنا لیتا ہے اس کی زندگی میں یک لخت ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ کیا آج تک کسی شاعر یا کاہن کے کلام نے کہیں بھی کوئی صالح تبدیلی پیدا کی اور ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جن کے اندر قربانی اور ایثار کی بےپناہ روح پیدا ہوجائے۔ اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کیا اس کلام اور اس کے پیش کرنے والی کی سچائی میں شبہ کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے۔ 4 عرب کا ہر ذی فہم آدمی جانتا تھا کہ شعر کی زبان کیا ہوتی ہے اور کاہنوں کا کلام کیسا ہوتا ہے اور وہ شاعروں اور کاہنوں کی سیرت و کردار سے بھی ناواقف نہ تھے۔ تو کیا قرآن کریم کی زبان شاعری یا کہانت کی زبان ہے اور کیا اس دعوت کو پیش کرنے والی ذات گرامی شاعروں یا کاہنوں کی کمزوریوں کی حامل ہے ؟ 5 قرآن کریم جس طرح کی دعوت پیش کررہا تھا، جس طرح کے تاریخی واقعات سے پردہ اٹھا رہا تھا، جس طرح اخلاقی مسلمات پیش کررہا تھا اور جن علوم اور مضامین پر مشتمل تعلیم پیش کررہا تھا ان میں سے کوئی بات بھی لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی زبان سے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ اور مکہ بھر میں ایسے علمی سرمائے سے کوئی معمور نہ تھا جس سے آپ ﷺ کبھی استفادہ کرسکتے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ نے ایک ایسا نظام زندگی جو ہر طرح کے اختلاف سے پاک، ایک ایسا نظام اخلاق جو انسانی آداب و خصائل کی اصلاح کا ضامن، ایک ایسا نظام عدالت جو زندگی کے ہر معاملے میں عدل و احسان کا مرقع اور ایک ایسا نظام عبادت جو شرک کی ہر آلودگی سے پاک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا تصور دلوں میں راسخ کردینے والا انسانوں کو عطا کیا۔ یہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تو اس کا سرچشمہ کہاں ہے۔ یہ تو وہ شواہد تھے جنھیں ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکتی اور ہر سمجھنے والی عقل باور کرسکتی تھی۔ لیکن کچھ حقائق ایسے ہیں جنھیں انسانی نگاہ دیکھ نہیں سکتی۔ مثلاً : وہ یہ بات نہ دیکھ سکتے تھے اور نہ سمجھنے پر قادر تھے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق ومالک اور فرمانبروا ہے۔ کائنات میں سب بندے ہی بندے ہیں، خدا اس کے سوا کوئی نہیں۔ قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مقرر کیا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے یہ قرآن نازل ہورہا ہے۔ یہ ہیں وہ دونوں قسم کے حقائق جن کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا قول ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام جسے ہمارے رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچایا ہے اور یہ نہ کسی شاعر کا کلام ہے اور نہ کسی کاہن کا کلام۔ قَلِیْلاً مَّاتُوْمِنُوْنَ اور قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ کا مفہوم گزشتہ آیات میں سے آیت 41 کے آخر میں فرمایا قَلِیْلاً مَّاتُوْمِنُوْنَ اور آیت 42 کے آخر میں فرمایا قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ ان دونوں جملوں میں قسموں کی صورت میں جو دلائل اور شواہد پیش فرمائے گئے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان دلائل کی موجودگی میں کوئی آدمی جس کے اندر شعور کی روشنی مری نہیں اور جس کے ضمیر کا نور بجھ نہیں گیا۔ اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرسکتا جسے نبی کریم ﷺ لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور آپ ﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت میں کبھی شبہ کا اظہار نہیں کرسکتا، لیکن تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم نے کبھی اپنے اندر ایمان کی خواہش اور بات سمجھنے کی طلب پیدا ہی نہیں ہونے دی۔ تمہاری طبیعت میں کبھی اس داعیے نے سر نہیں اٹھایا کہ مکہ کا سب سے قابل فخر انسان جس کے سیرت و کردار کی پاکیزگی کی دشمن بھی گواہی دیتا ہے ایک حقیقت کا علم لے کر اٹھا ہے اور ہماری ہی بھلائی اور خیرخواہی کے لیے ہماری زبانوں کے تیر برداشت کررہا ہے، ہم کبھی تو اس کی بات سنیں اور کبھی اس کی دعوت پر غور کرکے دیکھیں، یہ ہے اصل وہ بیماری جس نے تمہیں آج تک اسلام سے دور رکھا ہے، ورنہ تمہارے لیڈر اور سردار ایسے بدذوق اور بےدماغ نہیں تھے کہ وہ اگر سننے کی زحمت کرتے اور غور و فکر سے کام لیتے تو وہ اسلام کی حقانیت اور آنحضرت ﷺ کے پیغام کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے۔ کیونکہ قرآن کریم جس زبان میں نازل ہوا ہے اور جس شان و شکوہ سے وہ دعوت کو پیش کرتا ہے اور جس بلند مقام سے انسانوں کو خطاب کرتا ہے اور اس کا پیش کرنے والا جس حُسنِ کردار کا حامل ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے کہ ایسی دلآویز شخصیت ایسے بلند پایہ کلام کو لوگوں کے سامنے پڑھے اور لوگ اس سے متاثر نہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی نے دل کی آمادگی سے اس کو سنا ہے بیشک اس کے اندر کی جاہلی عصبیت اور آبائواجداد کے دین کی عظمت اسے اسلام کی طرف نہ آنے دے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ قرآن کریم کی عظمت کا قائل نہ ہو۔ حضرت عمرفاروق ( رض) کے اسلام لانے سے متعلق مختلف روایات بیان کی گئی ہیں۔ یہ تمام روایات اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حضرت عمر فاروق ( رض) ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے، وہ مختلف وقتوں میں اسلام سے متاثر ہوتے رہے، لیکنآغوشِ اسلام میں آنے کے لیے انہیں بہرحال وقت لگا۔ جن واقعات نے ان کے اندر اسلام کی تخم ریزی کی ان میں سے ایک واقعہ ایسا ہے جو پیش نظر آیات کریمہ سے تعلق رکھتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورة الحاقۃ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمر فاروق ( رض) قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے جی میں کہا ” خدا کی قسم یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں۔ “ لیکن اتنے میں آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
Top