Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 4
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود نے وَعَادٌۢ : اور عاد نے بِالْقَارِعَةِ : کھڑکا دینے والی کو
ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والے کو جھٹلایا
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌ م بِالْقَارِعَۃِ ۔ (الحآقۃ : 4) (ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والے کو جھٹلایا۔ ) الْقَارِعَۃِ کا مفہوم اور قیامت کے انکار کا اہتمام سابقہ تین آیات میں قیامت کے یقینی وقوع کا ذکر فرمایا اور اس کے آنے کو عقلاً و اخلاقاً لازمی قرار دیا۔ اب اس پر اضافہ کرتے ہوئے یہ فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کا آنا تو ایک حقیقت ہے، لیکن اسے تسلیم کرنا یا انکار کردینا محض علمی مشغلہ نہیں بلکہ انسانوں کی تعمیر کردار اور باہمی معاملات کی بہتری اور دنیا کی مصلحت کے لیے اس کا آنا ازبس ضروری ہے۔ جو شخص اس کے وجود سے انکار کرتا ہے وہ درحقیقت انسانی زندگی کی تباہی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اور جو شخص اس کا اقرار کرتا ہے وہ نہ صرف اپنی زندگی کی تعمیر چاہتا ہے بلکہ انسانوں کی بھلائی، خیرخواہی اور اجتماعی زندگی کی ہمواری کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ چناچہ اس بنیادی حقیقت کو واضح کرنے اور قیامت کے عقیدے کو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر قرار دینے کے لیے پیش نظر آیات میں تاریخ سے استشہاد کیا گیا ہے۔ اور سب سے پہلے ثمود اور عاد کا ذکر کرتے ہوئے ان کے انجام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ وہ اس انجام کو صرف اس لیے پہنچے تھے کہ انھوں نے القارعہ کا انکار کیا تھا۔ القارعہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قرع عربی زبان میں ٹھونکنے، کوٹنے، کھڑکھڑا دینے اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ قیامت کے لیے یہ لفظ شاید اس لیے بولا گیا ہے کہ وہ سب لوگوں کو مضطرب اور بےچین کرنے والی اور تمام آسمان و زمین کے اجسام کو منتشر کرنے والی ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جس طرح کوئی اچانک آکر دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹاتا اور نچنت ہونے والوں کو ہڑبڑا دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت کے آنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ وہ اس طرح اچانک آدھمکے گی کہ پوری کائنات میں ایک ہلچل برپا کر دے گی۔
Top