Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 10
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور بیشک مَكَّنّٰكُمْ : ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : زندگی کے سامان قَلِيْلًا : بہت کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور ہم نے تمہیں زمین میں اقتدار بخشا اور تمہارے لیے معاش کی راہیں کھولیں پر تم بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہو۔
وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ۔ (الاعراف : 10) ” اور ہم نے تمہیں زمین میں اقتدار بخشا اور تمہارے لیے معاش کی راہیں کھولیں پر تم بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہو “۔ احسانات کے ذکر سے ملامت بھی اور دعوت بھی اس آیت کے الفاظ کو دیکھیں تو ان میں چونکہ عمومیت پائی جاتی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں خطاب پوری نوع انسانی کو ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ تمام نوع انسانی کی طرف اللہ کے رسول بن کے آئے اور یہ قرآن سب کی طرف اللہ کا پیغام ہے اس لیے تمام انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو اس زمین پر اللہ نے تمہیں رہنے کی سہولتیں عطا فرمائیں اور اسی میں تمہاری زندگی کے امکانات رکھے اور تمہارے پھلنے پھولنے کے اسباب پیدا فرمائے۔ زمین کا ایک ایک انچ اس نے تمہارے لیے مسخر کردیا اور زمین میں مضمر قوتیں تمہاری خدمت میں لگا دیں اس کے مدفون خزانے تمہاری قوت تسخیر کے لیے ہموار کردیئے گئے۔ اس کی فضائیں اس کی ہوائیں اس کے سمندر ‘ اس میں چمکنے والے سورج اور چاند اور اس پر تنی ہوئی آسمان کی چھت سب تمہاری خدمت میں لگا دی گئی اور پھر اس میں تمہارے لیے روزی کا سامان رکھا گیا ‘ معیشت کی راہیں کھولی گئیں ‘ قسم قسم کے غلے اگائے گئے اور نوع بہ نوع پھل پیدا کیے گئے۔ خوبصورتی کے وہ وہ مناظر رکھے گئے کہ آدمی دیکھ کر دنگ رہ جائے آنے جانے کے لیے راستے کھول دیئے گئے ‘ پانی کو حکم دیا گیا کہ ہماری کشتیوں کو اٹھائے پھرے ‘ ہوائوں نے ہمارے بادبانوں کو سہارا دیا اور ہمارے لیے جوہر عقل کی وہ نعمت عطا کی گئی جس نے ہمیں ایجادات کی دولت مرحمت کی اور ہم اس قابل ہوئے کہ ہوائوں میں اڑنے لگے اور سمندر کی گہرائیوں کی خبر لانے لگے اور پوری زمین ہماری لیے ہاتھ کی لکیروں کی طرح سمٹ کے رہ گئی۔ ان تمام احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے لیے چھوڑ دیا گیا کہ خود سوچو کہ اس کے بعد تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی محسن کے احسانات کا بدلہ احسان شناسی سے ہوتا ہے اور احسان شناسی کا حق اطاعت اور خدمت کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ اللہ کے احسانات کا بدلہ بھی انسان کی طرف سے یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت کرے اور اس کے احکام کو قبول کر کے اس کے عطا کردہ مقاصد کو اپنی زندگی کے مقاصد بنائے اور اس کی طرف سے آنے والے رسول کی زندگی کو اپنے لیے رہنما سمجھے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس کو ادائے شکر نہیں بلکہ کفرانِ نعمت کہا جائے گا۔ انسانوں نے چونکہ بالعموم یہی رویہ اختیار کیا اس لیے نہایت افسوس سے فرمایا گیا کہ تم بہت کم شکر بجا لاتے ہو۔ بجائے اللہ کی عبادت و اطاعت کے تم نے اس کے شریک بنا رکھے ہیں اور بجائے اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے کے تم نے اس کے رسول کی مخالفت میں کمر باندھ رکھی ہے۔ اگر سیاق کلام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خطاب قریش مکہ سے ہے اور ان پر جو اللہ نے احسانات کیے ان کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے اس لحاظ سے اس آیت کی تشریح یہ ہوگی کہ اے قریش ہم نے تمہیں اس سرزمینِ حرم میں اقتدار بخشا اور تمہیں یہاں کے اختیارات کا مالک بنایا کیونکہ تمکین فی الارض کا معنی زمین میں اختیار و اقتدار بخشنا ہے۔ سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حوالے سے یہی لفظ اختیار کیا گیا اور یہاں چونکہ خطاب قریش سے ہے اس لیے الارض سے مراد سرزمین حرم ہوگا اور معایش سے اشارہ ان معاشی سہولتوں اور برکتوں کی طرف ہے جو ایک وادی غیر زی زرع میں حضرت ابراہیم کی دعا اور بیت اللہ کی برکت سے اہل عرب کو عموماً اور قریش کو خصوصاً حاصل ہوئیں ہم جانتے ہیں کہ مکہ کے سرزمین میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی۔ وہاں تو کھجور کے درخت بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ خشک پہاڑ اور پتھریلی زمین کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی اولاد کو یہاں ٹھہرایا اور اللہ کا گھر تعمیر کیا تو اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ میری اولاد کے دل میں اپنے گھر کی محبت پیدا فرما اور ان کو پھلوں کا رزق عطا فرما۔ چناچہ اللہ نے ان کی دعا ایسی قبول فرمائی کہ حرم کی سرزمین مرجع خلائق بن گئی اور دنیا بھر کی نعمتیں اس سرزمین میں کھینچ کے آنے لگیں۔ اس سے چند میل کے فاصلے پر ایسی وادیاں بسائی گئیں جس میں ضرورت کی ہر چیز اگنے لگی اور قسم قسم کے پھل مکہ کے بازاروں میں دستیاب ہونے لگے۔ آنحضرت کی بعثت کے وقت بھی مکہ میں ہر طرح کی نعمتیں میسر تھیں اور آج بھی وہاں جانے والا ہر شخص اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتا ہے کہ وہاں بظاہر کوئی چیز اگتی نظر نہیں آتی لیکن دنیا کی ہر نعمت اس کے بازاروں میں دکھائی دیتی ہے اور پھر اللہ نے مزید احسان قریش پر یہ فرمایا کہ حضور کی بعثت سے پہلے پورا عرب نفرتوں کا جہنم بن چکا تھا۔ کسی کی نہ جان سلامت تھی نہ مال ‘ راہ چلتے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ‘ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کے لیے درندوں سے کم نہ تھا۔ لیکن قریش کو اللہ کے گھر کے متولی ہونے کے باعث احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا یہ اپنا تجارتی قافلہ لے کر جب دوسرے ملکوں کی طرف جاتے تھے تو راستے میں پڑنے والے عرب قبیلے نہ صرف کہ ان پر حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی حفاظت کرنا اور ان کو سہولتیں بہم پہنچانا اپنا فرض سمجھتے تھے اس طرح قریش کو تجارت میں وہ آسانی پیدا ہوئی کہ جس کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور اللہ کے اس گھر کی وجہ سے سرزمین حرم امن کا گہوارہ بن گئی۔ کوئی شخص حرم کی حدود میں اور خاص طور پر بیت اللہ کے پاس اپنے باپ کے قاتل پر بھی ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ پورا عرب جو نفرتوں کی آگ میں جل رہا تھا اس میں مکہ کی سرزمین ایک جنت کا نمونہ تھی۔ جس میں قریش کو اللہ نے اقتدار اور اختیار بخش رکھا تھا اور انھیں حصول رزق کی آسانیاں بہم پہنچا رکھی تھیں چناچہ ان پر اپنے احسانات کا ذکر فرما کر انھیں یاد دلایا جا رہا ہے کہ تمہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے ان احسانات کا تم شکر ادا کرتے اور تم اللہ کی بندگی کرتے ہوئے شیطانی قوتوں کے راستے پر چلنے سے انکار کردیتے لیکن افسوس یہ ہے کہ تم نے اللہ کی اطاعت کی بجائے شیطان کی اطاعت کی اور اللہ کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے تم نے رسول کی مخالفت پر کمر باندھ لی حالانکہ شیطان پہلے دن سے تمہارا دشمن چلا آرہا ہے لیکن تم عجیب بیوقوف ہو کہ اپنے دشمن کو پہچاننے کی بجائے اس کی اطاعت کر رہے ہو چناچہ اگلی آیات میں انسان اور ابلیس کے تعلق کی تاریخ کو دھرایا جا رہا ہے تاکہ بالعموم نوع انسانی اور بالخصوص قریش اپنے رویے کی غلطی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ارشاد فرمایا جاتا ہے :
Top