Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلٌ : رسول مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور موسیٰ نے کہا اے فرعون میں خداوندِعالم کا فرستادہ ہوں سزاوار ہوں
ارشاد ہوتا ہے : وَقَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ حَقِیْقٌ عَلٰیٓ اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللہِ اِلَّا الْحَقَّ ط قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکْمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ ۔ (الاعراف : 104، 105) ” اور موسیٰ نے کہا اے فرعون میں خداوندِ عالم کا فرستادہ ہوں سزاوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف حق کے سوا کوئی اور بات منسوب نہ کروں میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے کھلی ہوئی نشانی لے کر آیا ہوں تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے “۔ دوسری آیت کریمہ میں حَقِیْقٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا معنی سمجھ لینا چاہیے حَقِیْقٌ حَقَ اور حُقَ سے فعیل کا وزن ہے اور یہ مفعول کے معنی میں آتا ہے اس کے معنی ہیں لائق ‘ اہل اور سزاوار۔ مثلاً کہیں گے ھُوَ حَقِیقٌ بِہٖ وہ اس کا اہل اور سزاوار ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تعارف، ان کی اپنی زبانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے سب سے پہلے اپنا تعارف کروایا کہ تم شخصی طور پر تو مجھے جانتے ہو لیکن اس وقت میں جس حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں اس کا جاننا تمہارے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میں وہ موسیٰ نہیں ہوں جو تمہارے ساتھ کھیلتا رہا ہے بلکہ میں رب العالمین کا فرستادہ ہوں۔ تم اپنے آپ کو رب کہتے ہو حالانکہ تم انسانوں کی طرح ایک انسان ہو۔ تم خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی تم نے فریب دے رکھا ہے۔ تمہاری حیثیت ایک آدمی سے زیادہ نہیں۔ رب اصل میں وہ ہے جو صرف مصر کا رب نہیں بلکہ رب العالمین ہے وہ سارے جہانوں کا رب ہے میری حیثیت یہ ہے کہ مجھے اس رب العالمین نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ پر اس نے اپنے پیغام نازل کیا ہے اور مجھے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ میں تمہیں صحیح صورت حال سے آگاہ کروں اور تمہیں بتائوں کہ پوری کائنات کا ایک رب ہے اس نے انسانوں کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ انھیں زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بھی دیا ہے اور پھر وہ ایک ایسا دن لائے گا جس میں تمام انسانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور ہر انسان سے اس کی زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا پھر اس کے نتیجے میں کسی کو جنت عطا ہوگی اور کسی کو جہنم۔ میں اس کا نمائندہ بن کر تمہیں اس کا حقیقی پیغام پہنچانے آیا ہوں اور تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر تم آخرت کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری دعوت کو قبول کرو اور اپنی حیثیت کی مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ یوں تو جھوٹ بولنا کسی کے لیے بھی روا نہیں لیکن بطور خاص وہ شخص جو رب العالمین کا رسول بن کے آیا ہو وہ تو اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ رب العالمین کے حوالے سے کوئی ایسی بات کہے جو صحیح نہ ہو کیونکہ جو رب العالمین کی طرف سے پیغمبر بن کر آتے ہیں وہ اپنے سیرت و کردار میں بےداغ ہوتے ہیں۔ اللہ انھیں معصوم پیدا فرماتا ہے۔ ان کی بےداغ زندگی اور ان کا اعلیٰ کردار ان کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل ہوتا ہے اس لیے میرے بارے میں تمہیں اطمینان ہونا چاہیے کہ میں رب العالمین کی طرف سے تمہیں جو بات کہوں گا اس میں کسی طرح کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر میں اس بات کو جانتا ہوں کہ تمہیں میری اس حیثیت کو تسلیم کرنا آسان نہیں اس لیے میں اپنے رب کی جانب سے ایسی نشانیاں لے کر آیا ہوں جس سے تمہیں یقین کرنے میں آسانی ہوگی کہ اگر میں اللہ کا رسول نہ ہوتا تو اس طرح کی نشانیوں کا ظہور مجھ سے کبھی نہ ہوتا۔ میرا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ تم میری رسالت کو قبول کرو اور اللہ کا جو پیغام میں لے کر آیا ہوں اسے تسلیم کرو اور دوسری یہ بات کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو ۔ صرف بنی اسرائیل کا مطالبہ کیوں ؟ اب سوال یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے صرف یہی ایک بات رکھی کہ تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیجو حالانکہ اللہ کے رسول دنیا میں کسی ایک گروہ کو آزادی دلانے کے لیے تو تشریف نہیں لاتے وہ تو سب کی اصلاح کے لیے تشریف لاتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ آپ نے صرف بنی اسرائیل کی بات کی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ قرآن کریم میں انبیاء اور اقوام کی جو سرگزشتیں بیان ہوئی ہیں وہ مختلف سورتوں میں سورتوں کے مرکزی مضمون کے اعتبار سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیان ہوئی ہیں۔ ہر سورت میں سرگزشت کا اتنا ہی حصہ زیر بحث آیا ہے جتنے کے لیے سورت کا مزاج مقتضی ہوا ہے یہ سورت چونکہ ان قوموں کے انجام کا تذکرہ کر رہی ہے جنھوں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت سے انکار کیا اس لیے یہاں بھی حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت کا صرف وہی حصہ نمایاں کیا جا رہا ہے جو سورت کے موضوع کو اجاگر کرنے والا ہے۔ اس کے بقیہ اجزاء دوسری سورتوں میں بیان کیے گئے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ تو قرآن کریم میں نہایت تکرار کے ساتھ ذکر ہوا ہے لیکن ہر جگہ اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے جس کی موقع محل کے مطابق ضرورت ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کے لیے مطالبہ کیوں کیا تو اس کی دو وجہ سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ وجہ کہ بنی اسرائیل فرعون اور آل فرعون کے ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے۔ آپ جس طرح فرعون اور آل فرعون کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح بنی اسرائیل کی اصلاح بھی آپ کے پیش نظر تھی لیکن وہ آل فرعون کے ظلم کے باعث اس حال میں نہیں تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کرسکتے اور پھر وہ قبول یا عدم قبول کے حوالے سے اپنے طور سے کوئی فیصلہ کرسکتے۔ ان کی اصلاح کے حوالے سے یہ بات ضروری تھی کہ سب سے پہلے ان کو ظلم کی چکی سے نکالا جاتا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ حقیقت میں وہ آل فرعون کی طرح آخری درجہ کے کافر نہیں تھے۔ اگرچہ وہ اپنے اندر کفر اور شرک کے بہت سے اثرات رکھتے تھے لیکن اصلاً وہ بگڑے ہوئے مسلمان تھے ان کے سامنے دعوت پیش کرنے کا طریقہ یقینا آل فرعون کے سامنے دعوت پیش کرنے سے مختلف تھا اس لیے ضروری تھا کہ پہلے ان کو ایک آزاد فضا مہیا کی جاتی اور پھر ان کے سامنے دعوت پیش کی جاتی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے ہی مرحلے میں فرعون سے ان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ایک اور سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو کہاں لے جانا چاہتے تھے۔ قرآن میں تو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں لیکن تورات کی کتاب خروج کے مطالعہ سے جو صورت حال سامنے آتی ہے ہم اسے تدبر قرآن کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ابتداء ً یہ مطالبہ فرعون کے سامنے اس شکل میں رکھا کہ بنی اسرئیل کو میرے ساتھ عبادت کے لیے جانے دے۔ فرعون نے اس مطالبہ کو ماننے سے صاف انکار کردیا بلکہ غصہ میں آکر بنی اسرئیل کی بیگار اور مشقت میں اس نے مزید اضافہ کرنے کے احکام جاری کردیے کہ یہ کاہل اور کام چور ہوگئے ہیں اسی وجہ سے عبادت وغیرہ کے بہانے تلاش کررہے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ کے معجزوں سے زچ ہو کر جب وہ ذرا نرم پڑا تو اس نے دریافت کیا کہ تم کہاں عبادت کے لیے جانا چاہتے ہو ‘ یہ عبادت اسی شہر میں کیوں نہیں کرلیتے ؟ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ ہم اس عبادت کے لیے تین دن کی راہ بیابان میں جائیں گے ‘ یہاں ہم یہ عبادت اس لیے نہیں کرسکتے کہ ہم جس چیز کی قربانی کرنا چاہتے ہیں اس کی قربانی اگر ہم نے یہاں کی تو یہ مصری ہمیں سنگسار کردیں گے۔ یہ جھگڑا عرصہ تک حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان چلتا رہا۔ بالآخر ان آفتوں سے تنگ آکر جو حضرت موسیٰ کے معجزوں سے ظاہر ہوئیں ‘ درباریوں نے فرعون کو مجبور کیا کہ وہ بنی اسرئیل کو جہاں جانا چاہتے ہیں جانے دے ورنہ موسیٰ کے ہاتھوں مصر تباہ ہوجائے گا۔ فرعون نے مجبور ہو کر اجازت تو دے دی لیکن جب حضرت موسیٰ اپنی پوری قوم کے زن و فرزند ‘ مال مویشی اور جملہ اسباب و سامان کے ساتھ لے کر نکلے تو اس کو احساس ہوا کہ یہ اجازت دینے میں اس نے غلطی کی چناچہ اس نے اپنے پورے لاؤلشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا کہ مجبور کر کے ان کو واپس لائے لیکن یہ تعاقب اس نتیجہ پر منتہی ہوا کہ فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق کردیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے اپنی پوری اسکیم واضح نہیں فرمائی تھی۔ صرف اتنا ظاہر کیا کہ وہ تین دن کی راہ بیابان میں جا کر اللہ کی عبادت اور قربانی کرنا چاہتے ہیں اور قربانی بھی خاص طور پر گائے کی کرنا چاہتے ہیں جس سے قبطیوں نے بنی اسرئیل کو اسی طرح محروم کر رکھا تھا جس طرح بھارت میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو محروم کر رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ نے چاہا کہ مصر کے غلامانہ ماحول سے الگ لے جاکر بنی اسرئیل کو منظم کریں اور ان کے اندر ان تمام دینی روایات کو ازسرنو زندہ کریں جو مصر کی محکومانہ زندگی میں بالکل مردہ ہوچکی تھیں ہمارا قیاس ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ سینا کے اسی علاقے میں جانا چاہتے ہوں گے جہاں انھوں نے مدین سے واپسی کے موقع پر اللہ کی تجلی دیکھی تھی اور پھر جہاں ان کو اس ہجرت کے سفر میں احکام عشرہ کی الواح عطاہوئیں۔ حاصل کلام یہ کہ زیر بحث آیت کریمہ میں زیادہ زور اس بات پر تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوں اور پھر اپنے تعارف میں چند بنیادی باتیں ارشاد فرمائیں اور مزید یہ فرمایا کہ میں اپنے ساتھ چند نشانیاں بھی لے کر آیا ہوں کیونکہ فرعون کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول ماننا اس لیے بھی مشکل تھا کہ وہ خود اپنے آپ کو رب کہتا تھا تو اپنے دعویٰ ربوبیت کے ہوتے ہوئے وہ کسی اور کو رب تسلیم کرنے پر کیسے تیار ہوسکتا تھا اور جب اسے کسی اور کا رب ہونا ہی قابل تسلیم نہیں تھا تو وہ کسی کو اس کا رسول کیسے تسلیم کرلیتا اس لیے ضروری تھا کہ کوئی نہ کوئی ایسی نشانی ظاہر کی جائے جس میں ایک طرف رب العالمین کی قدرت کا ظہور ہوتا ہو اور دوسری طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کی تصدیق ہوتی ہو۔ چناچہ اس نے یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کے مطالبے پر تو توجہ نہیں دی لیکن اس بات کا فوراً نوٹس لیا اور بےساختہ پکارا جس کو اگلی آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
Top