Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 115
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِمَّآ : یا اَنْ : یہ کہ تُلْقِيَ : تو ڈال وَاِمَّآ : اور یاد (ورنہ) اَنْ : یہ کہ نَّكُوْنَ : ہوں نَحْنُ : ہم الْمُلْقِيْنَ : ڈالنے والے
بولے اے موسیٰ ! یا تو پہلے تم پیش کرو یا ہم ہی پیش کرنے والے بنتے ہیں اس نے کہا تم ہی پیش کرو
قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ ۔ قَالَ اَلْقُوْا ج فَلَمَّآ اَلْقَوْا اسَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَ جَآئُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ۔ (الاعراف : 115، 116) ” بولے اے موسیٰ یا تو پہلے تم پیش کرو یا ہم ہی پیش کرنے والے بنتے ہیں اس نے کہا تم ہی پیش کرو تو جب انھوں نے پیش کیا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور ان پر دہشت طاری کردی اور بہت بڑا کرتب دکھایا “۔ جادوگروں کے جادو کی حقیقت جادوگروں نے کہا : اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم پہلے اپنے کمال فن کا اظہار کرو گے اور لوگوں کے سامنے اپنا ساحرانہ کارنامہ دکھائو گے اور یا اگر تم چاہو تو ہم پہل کرنے کے لیے تیار ہیں یعنی ہمیں اپنی مہارت پر پوری طرح اعتماد ہے اور ہم تو ظاہر ہے کہ اسی کے لیے چل کر آئے ہیں تم چاہو پہل کرو اور چاہے ہمیں پہل کرنے کی اجازت دے دو ‘ اب یہ فیصلہ ہو ہی جانا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اللہ پر بےپناہ اعتماد رکھتے تھے انھوں نے محض اللہ کے بھروسے پر جواب دیا کہ تم ہی اپنے کرتب دکھائو کیونکہ میرے پاس تو کوئی کرتب نہیں۔ میں تو تمہارے کرتبوں کا توڑ کروں گا میں کوئی جادوگر تو نہیں کہ شعبدہ بازیاں دکھائوں۔ میں تو جس طرح دنیا کا چلن بدلنے کے لیے اٹھا ہوں اسی طرح ہر غلط بات کو ختم کرنا بھی میری ذمہ داری ہے اس لیے تم جادو کے زور سے جس طرح لوگوں کو گمراہ کرتے ہو تم اپنا کام کرو میں تو اس کا ازالہ کروں گا۔ چناچہ جادوگروں نے اپنے کمال فن کا اس طرح اظہار کیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں انھوں نے لوگوں کے سامنے لاٹھیاں اور رسیاں بچھا دیں اور پھر کوئی منتر پھونکا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تمام لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں کی طرح حرکت کرنے لگیں۔ اندازہ فرمایئے کہ بےپناہ ہجوم کے درمیان ہزاروں لاٹھیوں رسیوں کا سانپوں کی طرح حرکت کرتے ہوئے لہرانے لگنا کس قدر وحشت ناک منظر ہوگا۔ لوگ سراسیمہ ہو رہے ہوں گا کہ اگر ان سانپوں نے ہماری طرف رخ کرلیا تو ہمارا کیا حال ہوگا اور جادوگر یقینا اپنے کرتب پر اترا رہے ہوں گے اور فرعون اور اس کے اعیانِ حکومت یقینا فخر کر رہے ہوں گے کہ اتنے بڑے جادو کا توڑ کون کرسکتا ہے چناچہ اسی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے اور ساتھ ہی ان کے جادو کی حقیقت بھی واشگاف کرتا ہے کہ یہ جو کچھ انھوں نے کیا تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ ان کی آنکھیں یہی دیکھ رہی تھیں کہ میدان میں سانپ حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ منظر دیکھ کر ان کے دل دحشت زدہ ہوگئے تھے اور ان کے نزدیک واقعی جادوگر ایک بہت بڑا جادو لائے تھے جس سے بڑھ کر شاید ناظرین کی نگاہوں میں کسی اور جادو کا تصور بھی ممکن نہ تھا لیکن اس سے یہ حقیقت خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ ان جادوگروں نے جو کچھ بھی کیا وہ فریب نظر کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ لاٹھیوں کی حقیقت بدلی تھی اور نہ رسیوں کی ماہیت تبدیل ہوئی تھی۔ صرف جادوگروں کے جادو کے اثر سے نگاہوں نے غلط دیکھنا شروع کردیا تھا اور وہ وہ کچھ دیکھ رہی تھیں جو انھیں جادوگر دکھانا چاہتے تھے۔ جیسے آج کے دور میں ہپناٹزم ‘ اور میسمریزم کا بہت چرچا ہے۔ یورپ میں جابجا اس کا کھیل دکھانے والے نظر آتے ہیں بلکہ لوگ اس کے ذریعے روزی کماتے ہیں اور اس میں بھی اسکے سوا اور کیا ہوتا ہے کہ ایک شخص دیکھنے والوں کو ہپناٹائز کرلیتا ہے اس کی توجہ کے اثر سے دیکھنے والے وہی کچھ دیکھتے ہیں جو وہ دکھانا چاہتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنی توجہ کے زور سے ایک شخص کو بیہوش کردیتا ہے اور اسکی زبان سے وہی الفاظ ادا ہوتے ہیں جو ہپناٹائز کرنے والا اس سے کہلوانا چاہتا ہے اور بعض دفعہ ایک شخص کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے اور ہپناٹائز کرنے والا شخص اس کے دل میں وہ بات ڈال دیتا ہے جس کی طرف وہ اسے لے جانا چاہتا ہے۔ یہ کھیل آج کی دنیا کا جانا پہچانا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں معلوم ہوتا ہے جادوگروں نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ انھوں نے کسی چیز کی ماہیت نہیں بدلی تھی البتہ ایک طلسم ضرور پیدا کردیا تھا جس نے ناظرین کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے کہ اللہ کی طرف سے وحی آئی :
Top