Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 117
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ۚ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ : کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَاِذَا : تو ناگاہ هِىَ : وہ تَلْقَفُ : نگلنے لگا مَا : جو يَاْفِكُوْنَ : انہوں نے ڈھکوسلا بنایا تھا
اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو وہ دفعتاً نگلنے لگا اس کو جو وہ گھڑتے تھے
وَ اَوْحَیْنَٓا اِلیٰ مُوسٰٓی اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ ج فَاِذَ ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْ فِکُوْنَ ۔ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ فَغُلِبُوْا ھُنَالِکَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 117، 118، 119) ” اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو وہ دفعتاً نگلنے لگا اس کو جو وہ گھڑتے تھے تو حق ظاہر ہوگیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے وہ سب باطل ہوگیا تو تب وہ مغلوب ہوئے اور ذلیل ہو کر رہ گئے “۔ اللہ کے حکم کے مطابق جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک اژدھا بن گیا لوگ جو اب تک جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپوں کی طرح لہراتا ہوا محسوس کرتے مبہوت اور مرعوب ہو رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر خوش بھی تھے کہ ہمارے جادوگر جیت رہے ہیں ‘ ہمارا نقطہ نگاہ غالب آگیا ہے اب موسیٰ اور ہارون کو فرار کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ملے گا وہ اتنے بڑے جادو کے مقابلے میں کیا کرسکیں گے اور یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ موسیٰ اور ہارون نبوت اور رسالت کے نام پر جو کھڑاک رچا رہے تھے وہ سراسر ایک فریب تھا حقیقت میں وہ بھی جادوگر تھے اور ان کا جادو دوسرے عظیم جادوگروں کے مقابلے میں شکست کھا گیا لیکن جیسے ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا اور وہ اژدھا بن کر سامنے آیا تو دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سب کچھ نگل گیا جس سے جادوگروں نے ایک تہلکہ مچا رکھا تھا۔ بعض لوگوں نے اس نگل جانے سے یہ مراد لیا ہے کہ وہ تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل گیا لیکن یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جادو کسی چیز کی ماہیت کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ نظروں پر اثر انداز ہو کر زاویہ نگاہ کو بگاڑ دیتا ہے جس سے چیز کی حقیقت اوجھل ہوجاتی ہے اور نظروں کو وہ کچھ دکھائی دیتا ہے جو جادوگر چاہتا ہے۔ یہاں بھی جادوگروں نے یہی کیا تھا، یہ اژدھا جب ان رسیوں اور لاٹھیوں کے اوپر سے گزرا تو جادوگروں نے جو طلسم برپا کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں فریبِ نظر کی ایک کیفیت پیدا ہوگئی تھی وہ اس سارے طلسم کو ہڑپ کر گیا اور دیکھنے والوں کو نظر آنے لگا کہ یہ لاٹھیاں تو لاٹھیاں ہی ہیں اور رسیاں رسیاں ہی ہیں اور ہم جو سمجھ رہے تھے وہ فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس انقلابِ حال کے بعد آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہوگی۔ فرعون ‘ اس کے اعیانِ حکومت ‘ اس کے امراء ‘ اس کی فوجیں اور دیکھنے والوں کا جم غفیر فتح کی جس خوشی میں اب تک سرشار نعرے لگا رہا تھا وہ یکسر ختم ہو کر رہ گیا۔ نعروں پر اوس پڑگئی ‘ پہلے ایک سناٹا طاری ہوا پھر تنی ہوئی گردنیں جھکنے لگیں۔ ہر ایک نے نہایت ندامت اور شرمندگی محسوس کی اور دل اس بات کا اقرار کرنے لگے کہ واقعی حق وہی ہے جسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) پیش کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں عصا کی صورت میں اللہ کی تائید و نصرت کا ایک نشان اور اللہ کی جانب سے سند ماموریت ہے جس کو یہ لوگ جادو کا کرشمہ سمجھ رہے تھے۔ اس طرح اس پورے ماحول اور دلوں کی گہرائیوں میں حق غالب آگیا اور ان کی ساری کاوشیں باطل اور برباد ہو کر رہ گئیں۔ اب وہ زبان سے چاہے بولیں یا نہ بولیں لیکن فضا کی ایک ایک لہر بول رہی تھی کہ کس حد تک عبرت کا مقام ہے کہ اپنے آپ کو رب الاعلیٰ کہلانے والا کس ذلت سے دوچار ہو رہا ہے۔ وہ دو بےنوا فقیروں کے سامنے سر جھکائے بیٹھا ہے اور اس کی فوجیں جن کی شجاعت کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھی ہوئی تھی وہ نہایت سراسیمگی کی حالت میں کھڑی ہیں۔ اس طرح یہ پورا مجمع ذلت اور رسوائی کی تصویر بن کر رہ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی رسوائی اور یہی ذلت اتنی بڑی تھی کہ فرعون اور اس کے حواریوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ لیکن ابھی وہ اس پر سوچ ہی رہے تھے کہ ذلت کا ایک اور زور دار حملہ ان پر ہوا جس نے انھیں بری طرح پامال کر کے رکھ دیا۔
Top