Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ
: اور البتہ
خَلَقْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں پیدا کیا
ثُمَّ
: پھر
صَوَّرْنٰكُمْ
: ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی
ثُمَّ قُلْنَا
: پھر ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِكَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْٓا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّآ
: سوائے
اِبْلِيْسَ
: ابلیس
لَمْ يَكُنْ
: وہ نہ تھا
مِّنَ
: سے
السّٰجِدِيْنَ
: سجدہ کرنے والے
’ اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا پھر تمہاری صورت گری کی پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا “۔
وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ صلے ق فَسَجَدُوْٓا اِلَّا اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ۔ (الاعراف : 11) ” اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا پھر تمہاری صورت گری کی پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا “۔ تخلیقِ انسان کا اسلامی نقطہ نگاہ اور اس کی وضاحت سب سے پہلے آیت کے بعض الفاظ پر غور فرمایئے۔ سب سے پہلے فرمایا خَلَقْنٰکُمْ اور پھر فرمایا صَوَّرْنٰکُمْ ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جب خَلَقَ کا لفظ اکیلا استعمال ہوتا ہے تو یہ اپنے لوازم سمیت استعمال ہوتا ہے یعنی اس میں تخلیق کے تمام مدارج شامل ہوتے ہیں لیکن جب اس کے متعلقات میں سے کوئی متعلق اس کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے خاکہ بنانا۔ تو یہاں اس کے ساتھ چونکہ صَوَّرْنٰکُمْ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہارا مادہ آفرینش تیار کیا پھر اس مادے کو انسانی صورت عطا کی۔ پھر جب یہ ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔ تخلیق انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ مواد ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ‘ پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ‘ ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاردن کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطہ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ” نوع انسانی “ کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتنہ نہیں رکھتی وہ اول روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے دو بالکل مختلف تصور پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصل حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین ‘ حتیٰ کہ اخلاقی قوانین کے لیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرز عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرز عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کرے۔ اس کے برعکس دوسرا تصور اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کی بجائے ” انسان “ ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ” حیوانِ ناطق “ یا ” متمدن جانور “ نہیں ہوگا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہوگی بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہوگی جسے اللہ نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہوجائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرے ہی نظام اخلاق و تمدن و قانون طلب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اٹھنے لگے گی۔ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا جائے جو سائنٹفک دلائل سے ثابت ہے لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹفک دلائل سے ثابت ہوچکا ہے ‘ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بیشک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظریہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سروسامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائلِ ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائلِ امکان ہیں یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہ راست عمل تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔ سجدہ کے حکم کی توضیحات مزید اس آیت میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں حضرت آدم کو خطاب نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری نوع انسانی کو ہے تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فردہونے کی حیثیت سے تھا تو آدم (علیہ السلام) کے حوالے سے جو شرف یا جو ذمہ داری یہاں مفہوم ہو رہی ہے اس میں پوری نوع انسانی برابر کی شریک ہے۔ تیسری بات جو اس میں ذکر کی گئی ہے وہ آدم کو سجدہ کرنے کی ہے تو یہاں جو سجدہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس کو اصطلاحی سجدہ کے معنی میں لیا جائے جس طرح ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سجدہ میں حضرت آدم صرف جہت کا کام دے رہے تھے۔ مقصود انھیں سجدہ کرنا نہ تھا بلکہ ان کی طرف سجدہ ان کو نہیں بلکہ اللہ کو کیا جا رہا تھا کیونکہ ان کو سجدہ کرنے کا حکم اللہ نے دیا تھا اس لیے ان کی طرف منہ کر کے سجدہ کرنا درحقیقت اللہ کو سجدہ کرنا تھا جس طرح آج ہم بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں تو وہ سجدہ بیت اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کو ہوتا ہے اگر کوئی آدمی اللہ کی بجائے صرف بیت اللہ کو سجدہ کرنے کی نیت کرے تو یقین جانیئے کہ نہ صرف کہ اس کی نماز نہیں ہوگی بلکہ ایسا سجدہ بت پرستی کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ( رض) نے اپنے دور خلافت میں جب حج ادا کیا تو حجر اسود کو بوسہ دینے سے پہلے اس کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے حجر اسود تو صرف ایک پتھر ہے تو نہ مجھے نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اگر تجھے رسول اللہ ﷺ نے نہ چوما ہوتا اور ہمیں چومنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔ دین چونکہ اتباع رسول کا نام ہے اس لیے ہم ہر اس کام کے کرنے کے پابند ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو اس لیے کوئی ذات یا کوئی چیز کتنی بھی محترم ہو ہم اس کے ساتھ وہی تعلق استوار کریں گے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سجدہ یہاں اصطلاحی معنوں میں مراد نہ لیاجائے بلکہ لغوی معنوں میں مراد لیا جائے۔ لغت میں سجدے کا معنی صرف جھکنا ہے یعنی کسی کے احترام میں سر جھکا دینا یا رکوع کی حالت اختیار کرلینا اس کیفیت کو سجدہ تعظیمی یا سجدہ تحیت کہا جاتا تھا اور پہلی شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ ہماری شریعت میں چونکہ ہر کام کی تکمیل کردی گئی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے سوا ہر ایک کے لیے ہاتھ باندھ کے قیام کرنا یا رکوع کرنا بھی حرام ٹھہرا دیا۔ چناچہ فرشتوں کو یہی سجدہ تعظیمی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مسخر ہوجانے کا حکم دیا گیا چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جا رہا تھا اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کرلینے کا موقع دے دیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل سے وہ کام متعلق ہو وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے ‘ نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے ‘ دونوں صورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اذن دے رہے ہیں تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیئے کہ ایک فرماں روا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صوبے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے ‘ اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں ‘ قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام ہیں۔ البتہ ! جب جس کام کے بارے میں بھی فرماں روا کا اشارہ ہوجائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے اور انھیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کردی ہے۔ حتیٰ کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کی معزولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے تو وہی ماتحت و خدام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے ‘ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر انھیں کشاں کشاں دارالفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجود ہوجانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اسی قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخر ہوجانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ سرگزشتِ آدم وابلیس پر مکرر نظر آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک نظر حضرت آدم اور ابلیس کی سرگزشت پر ڈال لینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے لیکن اس نے اس حکم کی تعمیل کی بجائے جو رویہ اختیار کیا اس میں سرسری نگاہ سے بھی جو باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں وہ ہمارے لیے راہنمائی کا اپنے اندر بہت بڑا ذخیرہ رکھتی ہیں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا لیکن کسی بھی حکم کی تعمیل سے انکار کبھی تو اس لیے ہوتا ہے کہ جسے حکم دیا جا رہا ہے وہ حکم کو سمجھ نہیں سکا اور یا اس لیے ہوتا ہے کہ اس پر ہوائے نفس کا غلبہ ہوا اور وہ اس غلبے سے مغلوب ہو کر تعمیل حکم میں کوتاہی کر گیا لیکن اس دونوں صورتوں میں وہ حکم دینے والے سے نہ کٹتا ہے اور نہ بغاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنی اس بدعملی یا نافرمانی میں کتنا بھی دور نکل جائے اس کی واپسی کا امکان ہر وقت رہتا ہے لیکن ابلیس نے حکم کی تعمیل سے پورے شعور کے ساتھ انکار کیا اور پھر کبھی اپنے اس انکار پر ندامت تو دور کی بات ہے غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوا بلکہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دیتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا یہ انکار اسے بغاوت تک لے گیا۔ اس کے مقابلے میں تعمیلِ حکم میں کوتاہی تو حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی ہوئی لیکن ان کی اس کوتاہی میں انکار کو دخل نہ تھا وہ کبھی اس کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ اللہ کا حکم ماننے سے انکار بھی ہوسکتا ہے ان سے جو کچھ بھی سرزد ہوا وہ ان کے ارادے سے نہیں ہوا بلکہ ابلیس نے حکم کے فہم میں خلط مبحث سے کام لیا اور ان کو اس بات میں الجھا دیا کہ تمہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کا مقصود تم نہیں سمجھ سکے اس طرح جب ان کے سامنے اصل حکم کا مفہوم غیر واضح کردیا گیا تو ان کے لیے تعمیلِ حکم میں ابہام پیدا ہوگیا اور مزید یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ شیطان نے بار بار انھیں اپنی ہمدردی اور خیر خواہی کا یقین دلایا لیکن جب وہ اس پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو اس نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر انھیں یقین دلایا اور وہ اس طرح سے اس کی باتوں میں آگئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں تعمیلِ حکم سے شیطان کے بہکاوے نے روکا ورنہ ان کے اندر تعمیل حکم کے سوا کوئی جذبہ نہ تھا اس لیے سب سے پہلے اس سرگزشت سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ابلیس اللہ کے حکم کا انکار کرتا ہے۔ حضرت آدم اور حضرت حوا اللہ کے حکم سے انکار نہیں کرتے بلکہ وہ ایک ابہام کا شکار ہو کر اور ایک بہکاوے میں مبتلا ہو کر تعمیلِ حکم سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ دوسری بات جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیطان سے جب پروردگار نے یہ فرمایا کہ تم نے میرے حکم کی تعمیل سے انکار کیوں کیا ؟ تمہیں میرے حکم کو نہ ماننے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ تو اس نے ایک لمحے کے لیے بھی عذر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اسے اپنے رویے پر کوئی ندامت ہوئی بلکہ اس نے اپنے رویے پر اصرار کرتے ہوئے یہ کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ آگ کی فطرت میں بلندی اور رفعت ہے اور مٹی کی فطرت میں پستی ہے تو میں بلندی اور رفعت کا نمائندہ ہو کر پستی کی نمائندہ مخلوق کے سامنے کیسے جھک سکتا تھا اس لیے اگر میں نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے تو مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا لیکن جب حضرت آدم سے پروردگار نے یہ فرمایا کہ اے آدم اور حوا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا اور یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے تو پھر تم نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے میرے حکم سے سرتابی کیوں کی تو حضرت آدم اور حوا نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اس عمل کی کوئی تأویل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے ہی انھیں تنبہ ہوا وہ سرتاپا عجز کی تصویر بن کر اللہ کے سامنے جھک گئے اور مسلسل اللہ کے سامنے اپنی اس غلطی کی معافی مانگتے ہوئے روتے اور گڑگڑاتے رہے۔ سورة البقرہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حضرت آدم کو چونکہ پہلی دفعہ ایسی صورت حال سے واسطہ پیش آیا تھا اس لیے وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ اگر کبھی غلطی ہوجائے تو اس کے بعد کیا کرنا چاہیے چناچہ جب ان سے اس غلطی کا صدور ہوا تو انھیں یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ اب ہم اپنے پروردگار سے اس غلطی کی معافی کیسے مانگیں۔ ان کے ذہن میں وہ الفاظ نہیں آتے تھے جو پروردگار کی شان کے لائق ہوں اور ان کے ذریعہ وہ اپنے رب کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں چناچہ ان کی عاجزی اور گریہ وزاری نے اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے ان کو وہ الفاظ سکھائے جن الفاظ کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ تیسری بات جو یہاں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابلیس نے صرف اپنی برتری ہی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی گمراہی کا الزام بھی اپنے پروردگار کو دیا اور صاف کہا کہ پروردگار آپ نے مجھے اس گمراہی میں ڈالا کیونکہ آپ نے مجھے ایک ایسے امتحان میں ڈالا جس میں سرخرو ہونا میرے بس کی بات نہ تھی اب جبکہ میں اس بارگاہ سے نکالا جا چکا ہوں اور اس کا سبب آدم بنے ہیں تو اب میں زندگی بھر انھیں اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ آدم کو جو مجھ پر فضیلت دی گئی ہے وہ ہرگز اس کے حقدار نہ تھے لیکن اس کے برعکس ہم حضرت آدم کو دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ان کے رب نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکا تو وہ بجائے اپنی غلطی کا الزام اپنے رب کو دینے کے فوراً اللہ کے سامنے جھک گئے اور بار بار اس بات کا اعتراف کیا کہ مجھ سے اور حوا سے یہ غلطی ہوئی ہے اس کے ذمے دار بھی ہم خود ہیں۔ چناچہ انہی باتوں کی طرف پیش نظر آیت کریمہ میں اشارات فرمائے گئے۔
Top