Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
’ اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا پھر تمہاری صورت گری کی پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا “۔
وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ صلے ق فَسَجَدُوْٓا اِلَّا اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ۔ (الاعراف : 11) ” اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا پھر تمہاری صورت گری کی پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا “۔ تخلیقِ انسان کا اسلامی نقطہ نگاہ اور اس کی وضاحت سب سے پہلے آیت کے بعض الفاظ پر غور فرمایئے۔ سب سے پہلے فرمایا خَلَقْنٰکُمْ اور پھر فرمایا صَوَّرْنٰکُمْ ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جب خَلَقَ کا لفظ اکیلا استعمال ہوتا ہے تو یہ اپنے لوازم سمیت استعمال ہوتا ہے یعنی اس میں تخلیق کے تمام مدارج شامل ہوتے ہیں لیکن جب اس کے متعلقات میں سے کوئی متعلق اس کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے خاکہ بنانا۔ تو یہاں اس کے ساتھ چونکہ صَوَّرْنٰکُمْ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہارا مادہ آفرینش تیار کیا پھر اس مادے کو انسانی صورت عطا کی۔ پھر جب یہ ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔ تخلیق انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ مواد ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ‘ پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ‘ ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاردن کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطہ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ” نوع انسانی “ کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتنہ نہیں رکھتی وہ اول روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے دو بالکل مختلف تصور پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصل حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین ‘ حتیٰ کہ اخلاقی قوانین کے لیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرز عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرز عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کرے۔ اس کے برعکس دوسرا تصور اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کی بجائے ” انسان “ ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ” حیوانِ ناطق “ یا ” متمدن جانور “ نہیں ہوگا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہوگی بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہوگی جسے اللہ نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہوجائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرے ہی نظام اخلاق و تمدن و قانون طلب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اٹھنے لگے گی۔ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا جائے جو سائنٹفک دلائل سے ثابت ہے لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹفک دلائل سے ثابت ہوچکا ہے ‘ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بیشک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظریہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سروسامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائلِ ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائلِ امکان ہیں یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہ راست عمل تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔ سجدہ کے حکم کی توضیحات مزید اس آیت میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں حضرت آدم کو خطاب نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری نوع انسانی کو ہے تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فردہونے کی حیثیت سے تھا تو آدم (علیہ السلام) کے حوالے سے جو شرف یا جو ذمہ داری یہاں مفہوم ہو رہی ہے اس میں پوری نوع انسانی برابر کی شریک ہے۔ تیسری بات جو اس میں ذکر کی گئی ہے وہ آدم کو سجدہ کرنے کی ہے تو یہاں جو سجدہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس کو اصطلاحی سجدہ کے معنی میں لیا جائے جس طرح ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سجدہ میں حضرت آدم صرف جہت کا کام دے رہے تھے۔ مقصود انھیں سجدہ کرنا نہ تھا بلکہ ان کی طرف سجدہ ان کو نہیں بلکہ اللہ کو کیا جا رہا تھا کیونکہ ان کو سجدہ کرنے کا حکم اللہ نے دیا تھا اس لیے ان کی طرف منہ کر کے سجدہ کرنا درحقیقت اللہ کو سجدہ کرنا تھا جس طرح آج ہم بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں تو وہ سجدہ بیت اللہ کو نہیں بلکہ اللہ کو ہوتا ہے اگر کوئی آدمی اللہ کی بجائے صرف بیت اللہ کو سجدہ کرنے کی نیت کرے تو یقین جانیئے کہ نہ صرف کہ اس کی نماز نہیں ہوگی بلکہ ایسا سجدہ بت پرستی کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ( رض) نے اپنے دور خلافت میں جب حج ادا کیا تو حجر اسود کو بوسہ دینے سے پہلے اس کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے حجر اسود تو صرف ایک پتھر ہے تو نہ مجھے نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اگر تجھے رسول اللہ ﷺ نے نہ چوما ہوتا اور ہمیں چومنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔ دین چونکہ اتباع رسول کا نام ہے اس لیے ہم ہر اس کام کے کرنے کے پابند ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو اس لیے کوئی ذات یا کوئی چیز کتنی بھی محترم ہو ہم اس کے ساتھ وہی تعلق استوار کریں گے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سجدہ یہاں اصطلاحی معنوں میں مراد نہ لیاجائے بلکہ لغوی معنوں میں مراد لیا جائے۔ لغت میں سجدے کا معنی صرف جھکنا ہے یعنی کسی کے احترام میں سر جھکا دینا یا رکوع کی حالت اختیار کرلینا اس کیفیت کو سجدہ تعظیمی یا سجدہ تحیت کہا جاتا تھا اور پہلی شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ ہماری شریعت میں چونکہ ہر کام کی تکمیل کردی گئی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے سوا ہر ایک کے لیے ہاتھ باندھ کے قیام کرنا یا رکوع کرنا بھی حرام ٹھہرا دیا۔ چناچہ فرشتوں کو یہی سجدہ تعظیمی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مسخر ہوجانے کا حکم دیا گیا چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جا رہا تھا اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کرلینے کا موقع دے دیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل سے وہ کام متعلق ہو وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے ‘ نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے ‘ دونوں صورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اذن دے رہے ہیں تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیئے کہ ایک فرماں روا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صوبے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے ‘ اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں ‘ قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام ہیں۔ البتہ ! جب جس کام کے بارے میں بھی فرماں روا کا اشارہ ہوجائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے اور انھیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کردی ہے۔ حتیٰ کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کی معزولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے تو وہی ماتحت و خدام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے ‘ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر انھیں کشاں کشاں دارالفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجود ہوجانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اسی قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخر ہوجانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ سرگزشتِ آدم وابلیس پر مکرر نظر آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک نظر حضرت آدم اور ابلیس کی سرگزشت پر ڈال لینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے لیکن اس نے اس حکم کی تعمیل کی بجائے جو رویہ اختیار کیا اس میں سرسری نگاہ سے بھی جو باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں وہ ہمارے لیے راہنمائی کا اپنے اندر بہت بڑا ذخیرہ رکھتی ہیں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا لیکن کسی بھی حکم کی تعمیل سے انکار کبھی تو اس لیے ہوتا ہے کہ جسے حکم دیا جا رہا ہے وہ حکم کو سمجھ نہیں سکا اور یا اس لیے ہوتا ہے کہ اس پر ہوائے نفس کا غلبہ ہوا اور وہ اس غلبے سے مغلوب ہو کر تعمیل حکم میں کوتاہی کر گیا لیکن اس دونوں صورتوں میں وہ حکم دینے والے سے نہ کٹتا ہے اور نہ بغاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنی اس بدعملی یا نافرمانی میں کتنا بھی دور نکل جائے اس کی واپسی کا امکان ہر وقت رہتا ہے لیکن ابلیس نے حکم کی تعمیل سے پورے شعور کے ساتھ انکار کیا اور پھر کبھی اپنے اس انکار پر ندامت تو دور کی بات ہے غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوا بلکہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دیتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا یہ انکار اسے بغاوت تک لے گیا۔ اس کے مقابلے میں تعمیلِ حکم میں کوتاہی تو حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی ہوئی لیکن ان کی اس کوتاہی میں انکار کو دخل نہ تھا وہ کبھی اس کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ اللہ کا حکم ماننے سے انکار بھی ہوسکتا ہے ان سے جو کچھ بھی سرزد ہوا وہ ان کے ارادے سے نہیں ہوا بلکہ ابلیس نے حکم کے فہم میں خلط مبحث سے کام لیا اور ان کو اس بات میں الجھا دیا کہ تمہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کا مقصود تم نہیں سمجھ سکے اس طرح جب ان کے سامنے اصل حکم کا مفہوم غیر واضح کردیا گیا تو ان کے لیے تعمیلِ حکم میں ابہام پیدا ہوگیا اور مزید یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ شیطان نے بار بار انھیں اپنی ہمدردی اور خیر خواہی کا یقین دلایا لیکن جب وہ اس پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو اس نے اللہ کے نام کی قسم کھا کر انھیں یقین دلایا اور وہ اس طرح سے اس کی باتوں میں آگئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں تعمیلِ حکم سے شیطان کے بہکاوے نے روکا ورنہ ان کے اندر تعمیل حکم کے سوا کوئی جذبہ نہ تھا اس لیے سب سے پہلے اس سرگزشت سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ابلیس اللہ کے حکم کا انکار کرتا ہے۔ حضرت آدم اور حضرت حوا اللہ کے حکم سے انکار نہیں کرتے بلکہ وہ ایک ابہام کا شکار ہو کر اور ایک بہکاوے میں مبتلا ہو کر تعمیلِ حکم سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ دوسری بات جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیطان سے جب پروردگار نے یہ فرمایا کہ تم نے میرے حکم کی تعمیل سے انکار کیوں کیا ؟ تمہیں میرے حکم کو نہ ماننے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ تو اس نے ایک لمحے کے لیے بھی عذر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اسے اپنے رویے پر کوئی ندامت ہوئی بلکہ اس نے اپنے رویے پر اصرار کرتے ہوئے یہ کہا کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ آگ کی فطرت میں بلندی اور رفعت ہے اور مٹی کی فطرت میں پستی ہے تو میں بلندی اور رفعت کا نمائندہ ہو کر پستی کی نمائندہ مخلوق کے سامنے کیسے جھک سکتا تھا اس لیے اگر میں نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے تو مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا لیکن جب حضرت آدم سے پروردگار نے یہ فرمایا کہ اے آدم اور حوا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا اور یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے تو پھر تم نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے میرے حکم سے سرتابی کیوں کی تو حضرت آدم اور حوا نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اس عمل کی کوئی تأویل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے ہی انھیں تنبہ ہوا وہ سرتاپا عجز کی تصویر بن کر اللہ کے سامنے جھک گئے اور مسلسل اللہ کے سامنے اپنی اس غلطی کی معافی مانگتے ہوئے روتے اور گڑگڑاتے رہے۔ سورة البقرہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حضرت آدم کو چونکہ پہلی دفعہ ایسی صورت حال سے واسطہ پیش آیا تھا اس لیے وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ اگر کبھی غلطی ہوجائے تو اس کے بعد کیا کرنا چاہیے چناچہ جب ان سے اس غلطی کا صدور ہوا تو انھیں یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ اب ہم اپنے پروردگار سے اس غلطی کی معافی کیسے مانگیں۔ ان کے ذہن میں وہ الفاظ نہیں آتے تھے جو پروردگار کی شان کے لائق ہوں اور ان کے ذریعہ وہ اپنے رب کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں چناچہ ان کی عاجزی اور گریہ وزاری نے اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے ان کو وہ الفاظ سکھائے جن الفاظ کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ تیسری بات جو یہاں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابلیس نے صرف اپنی برتری ہی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی گمراہی کا الزام بھی اپنے پروردگار کو دیا اور صاف کہا کہ پروردگار آپ نے مجھے اس گمراہی میں ڈالا کیونکہ آپ نے مجھے ایک ایسے امتحان میں ڈالا جس میں سرخرو ہونا میرے بس کی بات نہ تھی اب جبکہ میں اس بارگاہ سے نکالا جا چکا ہوں اور اس کا سبب آدم بنے ہیں تو اب میں زندگی بھر انھیں اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ آدم کو جو مجھ پر فضیلت دی گئی ہے وہ ہرگز اس کے حقدار نہ تھے لیکن اس کے برعکس ہم حضرت آدم کو دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ان کے رب نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکا تو وہ بجائے اپنی غلطی کا الزام اپنے رب کو دینے کے فوراً اللہ کے سامنے جھک گئے اور بار بار اس بات کا اعتراف کیا کہ مجھ سے اور حوا سے یہ غلطی ہوئی ہے اس کے ذمے دار بھی ہم خود ہیں۔ چناچہ انہی باتوں کی طرف پیش نظر آیت کریمہ میں اشارات فرمائے گئے۔
Top