Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 121
قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِرَبِّ : رب پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان (جمع)
اور پکار اٹھے کہ ہم اس رب العالمین پر ایمان لے آئے
قَا لُوْآاِنَّآ اِلیٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ۔ وَمَا تَنْقِمُ مِنَّٓآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰ یٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآئَتْنَا ط رَبّنَآ آفِرْغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ۔ (الاعراف : 125، 126) ” انھوں نے جواب دیا بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا اے رب ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں “۔ جادگروں کا جواب جو ایمان کی رفعتوں کا امین ہے اے فرعون ! تم ہمیں موت سے ڈراتے ہو اور سولی پر چڑھانے اور ہاتھ پائوں میں میخیں گاڑھنے کی دھمکیاں دیتے ہو لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو لوگ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں وہ پہلے سے اس بات کا فیصلہ کر کے ایمان کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ زندگی اللہ کی عطا ہے جب ضرورت پڑے گی اسی کے لیے اس کے دین کی خاطر قربان کردیں گے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے لیکن ایک مومن کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کی موت اللہ کے دین کے راستے میں آئے وہ تو اس بات کے انتظار میں رہتا ہے کہ یہ سر کا بوجھ جو میں کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہوں یہ اللہ کی امانت ہے۔ کب وہ موقع آئے جب اللہ مجھ سے اس کا مطالبہ کرے اور میں اسے اس کے حوالے کر دوں یہ یقین وہ قوت ہے جو ایک مومن کو موت پر غلبہ دے دیتی ہے وہ موت کو لقائے رب کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتا ہے اور اللہ سے ملاقات ایک مومن کی معراج ہے اس لیے اس کے دین کی خاطر موت کی وہ اس لیے تمنا کرتا ہے تاکہ اللہ کے حضور حاضری کا موقع ملے اور وہ اپنے آپ کو اس بحر ناپیدا کنار میں شامل کر کے لافانی بنا لے۔ چناچہ تم ہمیں جس چیز سے ڈرا رہے ہو وہ چونکہ ہمارا مقصود ہے اس لیے اس سے ڈر کیسا ہمارے لیے تو وہ نہ صرف عین سعادت ہے بلکہ ہمارا مطلوب بھی ہے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہم اس حقیقت کو بار بار ایک زندہ قوت کے طور پر ابھرتا ہوا دیکھتے ہیں کہ جب بھی کبھی لوگوں میں اللہ سے محبت کا شعلہ روشن ہوا ہے اور موت کے آئینہ میں انھوں نے روئے دوست کی جھلک دیکھ لی ہے تو پھر ان کے لیے زندگی دشوار اور موت آسان ہوگئی ہے۔ ہماری قریبی تاریخ میں اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے جرم میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں ایک محمد یحییٰ تھا نیسری اور ان کے ساتھی بھی تھے جب ان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اس کے چند دنوں بعد ان کے بارے میں رپورٹ مانگی گئی تو جیل کے آفیسرز یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مولانا اور ان کے ساتھی پہلے سے کہیں زیادہ صحت مند اور نہایت خوش و خرم شب و روز گزار رہے ہیں۔ انھیں حیرت ہوئی کہ پھانسی کے قیدی تو وقت سے پہلے ہی قریب المرگ ہوجایا کرتے ہیں۔ آخر ان کی خوشی اور صحت کا باعث کیا ہے۔ انھوں نے جب تحقیق کی تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ لوگ چونکہ شہادت کو اپنے لیے خوشی کا باعث سمجھتے ہیں اور یہی ان کی زندگی کا حقیقی مطلوب بھی ہے اس لیے جیسے جیسے شہادت کا دن قریب آتا جاتا ہے ان کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جس عشق کی وارفتگیوں نے انھیں مسحور کر رکھا ہے اس میں موت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ ان میں سے ہر ایک کا عزم یہ ہے ؎ اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں اسی جذبہ سے سرشار ان نوواردانِ ایمان نے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ تم ہمیں جو جان لینے کی دھمکیاں دے رہے ہو آخر یہ کس جرم کی سزا ہے ؟ ہم نے اس شہر میں کوئی قانون شکنی نہیں کی ‘ کوئی اخلاقی جرم نہیں کیا۔ ہمارا جرم اگر کوئی ہے تو صرف یہ ہے کہ ہمارے سامنے اللہ کی نشانیاں آئیں ‘ اللہ کے دو بندوں کے ذریعے ہم نے اللہ کی وہ نشانیاں جب اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں یقین ہوگیا کہ جن نشانیوں کو تم جادو سمجھ رہے ہو حقیقت میں وہ اللہ کے بندوں کی شناخت اور ان کی حقانیت کے دلائل ہیں جو اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ حقیقی رب اس کائنات کا صرف وہ اللہ ہے جو رب العالمین ہے اور یہ موسیٰ اور ہارون دونوں اس کے نمائندہ ہیں۔ ہم پر جب یہ حقیقت منکشف ہوئی تو ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے۔ ہم نے اس رب کو پہچان لیا جس کی طرف موسیٰ اور ہارون دعوت دے رہے ہیں یہ اگر جرم ہے تو ہمیں اس جرم کا اقرار ہے ؎ خونے نہ کردہ ایم و کسے را نہ کشتہ ایم جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم (ہم نے کوئی جرم نہیں کیا اور نہ کسی کو قتل کیا ہے ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم تیرے روئے زیبا کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں) یہ اگر جرم ہے تو ہمیں اس کا سو بار اقرار ہے ہم اس جرم کی خاطر ہر سزا برداشت کرنے کو تیار ہیں تو نے اس جرم کی اگر سزا کا اعلان کردیا ہے تو ہم اس سے خوفزدہ نہیں۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ایمان کے نتیجے میں ایسی ہی قیامتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے البتہ ہمیں اپنے عجز کا بھی اعتراف ہے اس لیے اب ہم یہ معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں کہ یا اللہ ہم نے تیری رضا کی خاطر ایک اقدام کر ڈالا ہے لیکن اس کے نتائج برداشت کرنا ہماری ہمت سے فزوں تر ہے۔ اس کے لیے جس صبر کی ضرورت ہے وہ صبر صرف تیری بارگاہ سے ملتا ہے اس لیے تجھ سے التجا ہے کہ تو اس صبر کی دولت سے ہمارے دل کو مضبوط کر دے اور ہمیں اتنی قوت عطا فرما کہ اس راستے میں ہم جو آخری سانس لیں وہ سانس تیری اطاعت اور تیری فرمانبرداری میں آنا چاہیے۔ اس منظر کو دوبارہ اپنے تصور میں تازہ کیجیے کہ یہ وہی جادوگر ہیں کہ جب وہ فرعون کے دربار میں اپنے کمال فن کے اظہار کے لیے لائے گئے تو کس طرح انھوں نے بھانڈوں اور نقالوں کی طرح انتہائی دناءت اور کمینگی کا ثبوت دیتے ہوئے حق و باطل کے اس معرکے میں اپنی قیمت وصول کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی بلند نگاہی میں سب سے بڑا مرتبہ یہ ہے کہ انھیں دولت دنیا سے کچھ ہاتھ آجائے اور بادشاہِ وقت کے تقرب کا سایہ انھیں نصیب ہوجائے لیکن اب یہی لوگ جب ایمان سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور ایمان کی روشنی ان کے دلوں میں پہنچتی ہے تو کس طرح ان کا دل اس روشنی سے جگمگا اٹھتا ہے کہ پست ہمتی اور دنیا طلبی کی کوئی پرچھائیں بھی ان کے سیرت و کردار میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ حق کے لیے قربانی اور مصائب کے مقابلے میں استقامت کی وہ ایسی تصویر بن جاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ وہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان نہیں بلکہ عزیمت و استقامت کے پہاڑ ہیں اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت تو دور کی بات ہے اس فانی دنیا میں رہنے کی ہوس بھی اس طرح نکل جاتی ہے کہ وہ آخرت کو اپنی منزل بنا کر باقی ہر چیز سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور اس سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں جس سفر میں قدم قدم پر کھائیاں اور گھاٹیاں ہیں جس میں اللہ کی توفیق کے بغیر کوئی آدمی کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس لیے وہ دنیا سے ہر طرح کا تعلق توڑ کر صرف اللہ سے تعلق جوڑنے کی استدعا کرتے ہوئے اللہ ہی سے توفیق کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اس سے ہمیں ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان اپنی ذات میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں۔ وہ دنیا میں چاہے دنیا کے کیسے ہی عظیم منصب کو حاصل کرلے اور دولت دنیا سے بیشک اس کی تجوریاں بھر جائیں اور بیشک دنیا کی ہر نعمت اسے میسر آجائے لیکن سیرت و کردار کی کوئی بلندی بھی اس کے قریب سے نہیں گزرتی۔ انسانیت ہمیشہ اس سے دامن کشاں رہتی ہے۔ وہ اللہ کی دھرتی پر اپنے آپ کو چاہے کتنا بڑا سمجھے لیکن حقیقت میں وہ دھرتی کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حالات کا معمولی سا جھٹکا بھی اسے زمین پر ڈھیر کر کے رکھ دیتا ہے لیکن جب اسی شخص کو ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے تو وہ چیتھڑوں میں لپٹ کر بھی شاہوں کے تاج نوچتا ہے وہ فاقے میں ہو کر بھی سیر چشمی اور استغناء کی چلتی پھرتی تصویر ہوتا ہے۔ نہ اسے دولت اور عہدہ و منصب جھکنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ بڑی سے بڑی آزمائش کبھی اسے گرا سکتی ہے۔ وہ بظاہر نہایت نرم ‘ نہایت سادہ اور نہایت متواضع ہوتا ہے لیکن اس کے اندر کا انسان پہاڑوں سے زیادہ بلند ‘ سمندروں سے زیادہ گہرا ‘ پھولوں سے زیاد دلآویز اور آندھیوں سے زیادہ پر عزم ہوتا ہے۔ ٹھیک کہا جگر مراد آبادی نے کہ انسان کی ساری کہانی کا حاصل یہ ہے ؎ گرے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے جادوگروں کی ساری سرگزشت ہمارے سامنے اسی حقیقت کو واشگاف کرتی ہے کہ انسان کی ضرورتیں بیشمار ہیں جن میں ایک بہت اہم ضرورت سائنس اور ٹیکنالوجی بھی ہے لیکن اس کی حقیقی قوت سیرت و کردار کی وہ پختگی ہے جسے ایمان کہتے ہیں جب وہ آدمی میں نہیں ہوتا تو آدمی سے زیادہ حقیر شے کوئی نہیں ہوتی وہ ٹیکنالوجی کا بادشاہ بھی بن جائے تو وہ انسان نہیں درندہ بن کر تاریخ کے افق پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ اگر ایمان جمع ہوجائے تو پھر وہ قوت وجود میں آتی ہے جو اسلام کا اصل مطلوب ہے۔ حق و باطل کے معرکے میں فرعون اور آل فرعون کی ناکامی اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کی کامیابی سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس نے فوری طور پر کیا صورت اختیار کی ؟ جادوگروں کو انتہائی سزائوں کی دھمکی کے علاوہ قرآن کریم اور کسی چیز کا ذکر نہیں کرتا۔ یقینا اس کے بعد حالات میں کشیدگی بڑھ گئی ہوگی ہوسکتا ہے مخالف قوتوں نے نئی حکمت عملی کی تیاری میں چند دن انتظار کیا ہو۔ اگلی آیت کریمہ سے انتظار ہی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے البتہ یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اپنے زخم چاٹ رہی ہے لیکن عمائدین حکومت غصے میں جلے بھنے حکومت اور دوسرے لوگوں کو کو سنے دے رہے ہیں اسی کیفیت میں انھوں نے فرعون سے بھی ملاقات کی اور اسے حالات کی نزاکت سمجھاتے ہوئے یہ کہا .
Top