Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے۔
گزشتہ رکوع میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور قوم فرعون کے سامنے جب اپنی دعوت پیش کی اور اپنی تائید کے لیے معجزات دکھائے تو وہ بجائے اس کے کہ اس دعوت کو قبول کر کے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتے انھوں نے مشتعل ہو کر فرعون سے بار بار موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ختم کرنے یا انھیں زیادہ سے زیادہ ایذا پہنچانے کا مطالبہ شروع کردیا ان کے اس مطالبے پر فرعون نے بنی اسرائیل پر وہ پابندیاں جو پہلے سے چلی آرہی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ڈھیل پیدا ہوگئی تھی انھیں مزید سخت کرنے اور پوری طرح بروئے کار لانے کا حکم دے دیا اور اپنی قوم کو اس بات کا یقین دلایا کہ تم ان کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت سے پریشان مت ہو ہم نے ان کی موجودہ نسل کو بیگار میں کس کر عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے اور آئندہ نسل کے بچوں کو ہم زندہ نہیں چھوڑیں گے تاکہ ان کی افرادی قوت میں اضافہ نہ ہو سکے۔ ایسی صورت حال میں وہ بجائے اپنی محرومیوں کو یاد کرنے اور اپنے زخم چاٹنے کے اور کچھ نہیں کرسکیں گے۔ ایک ستم رسیدہ اور محرومیوں کی ماری ہوئی قوم سے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہماری ایک مستحکم حکومت کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ اس طرح جب بنی اسرائیل پر سختیاں بڑھیں تو وہ پہلے سے ہی نہایت پریشان اور غمزدہ لوگ تھے نئی سختیوں نے انھیں بالکل ہلا کر رکھ دیا اس پر وہ مسلسل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کرنے لگے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی ہدایت کے مطابق انھیں بہتر حالات کی امید رکھنے اور موجودہ حالات پر صبر کرنے کی ترغیب دی اور ساتھ ہی پروردگار نے اپنی اس سنت کو آگے بڑھایا جس کا تذکرہ اسی صورت کی آیت نمبر 88 میں کیا گیا ہے چناچہ اسی حکمت اور سنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ۔ (الاعراف : 130) ” ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے “۔ اس آیت کریمہ میں سِنِیْنَ کا لفظ آیا ہے یہ سَنَۃٌ کی جمع ہے۔ عام طور پر اس کا معنی سال کیا جاتا ہے لیکن یہ لفظ قحط اور مصیبت کے سال کے لیے بھی بولا جاتا ہے یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ پروردگار نے اپنی سنت کے مطابق انھیں بھی مختلف کٹھن حالات سے دوچار کیا جیسے ہم اس سے پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ جب بھی کسی قوم کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتے ہیں تو ایک طرف تو رسول اپنی ہمت اور اللہ کی توفیق کے مطابق بگڑی ہوئی قوم کو راہ راست کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے اس میں اس کی جسمانی اور روحانی کاوشیں بتمام و کمال اپنا فرض انجام دیتی ہیں۔ اس کی نہایت دلآویز شخصیت ‘ اس کا مضبوط طریق استدلال ‘ اس کا معجزانہ اسلوب دعوت ‘ لوگوں کو راہ راست کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ کی طرف سے مختلف قسم کی آزمائشوں کی شکل میں اس کی معاونت کی جاتی ہے۔ مختلف مصائب اور مشکلات سے اس قوم کو دوچار کیا جاتا ہے تاکہ ان کی اکڑی ہوئی گردنیں اللہ کے سامنے جھکیں اور ان کے پھرے ہوئے دل اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔ جب بار بار وہ اس طرح کی مشکلات سے دوچار ہوں تو انھیں کبھی نہ کبھی یہ خیال ستانے لگے کہ اگر اس کائنات کا کوئی خالق ومالک نہ ہوتا اور ہم اپنے ارادوں میں پوری طرح مختار ہوتے تو پھر یہ حالات کا پھیر ہمیں پریشان کیوں کرتا اور آئے دن مشکلات ہمارے لیے زندگی مشکل کیوں بنا دیتیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یقینا یہاں کسی بڑی ذات کی حکومت ہے جس کی طرف یہ اللہ کا رسول ہمیں بلا رہا ہے۔ اس طرح سے حالات کا بگاڑ اور مشکلات کا بار بار پیش آنا اللہ کے رسول کی دعوت کے لیے ایک طرح سے تائید و نصرت ثابت ہوتا ہے اور یہی اللہ کی سنت ہے۔ یہاں اسی بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو بھی کئی سالوں تک کبھی پھلوں اور پیداوار میں کمی اور کبھی قحط سالی میں مبتلا کیے رکھا تاکہ وہ لوگ نصیحت پکڑیں اور ان تنبہیات کو سمجھتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ ان حالات سے عبرت پکڑتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر سنجیدگی سے غور کرتے انھوں نے عجیب و غریب رویہ اختیار کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے پروردگار فرماتے ہیں :
Top