Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 144
قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ١ۖ٘ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ
قَالَ : کہا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنِّى : بیشک میں اصْطَفَيْتُكَ : میں نے تجھے چن لیا عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ بِرِسٰلٰتِيْ : اپنے پیغام (جمع) وَبِكَلَامِيْ : اور اپنے کلام سے فَخُذْ : پس پکڑ لے مَآ اٰتَيْتُكَ : جو میں نے تجھے دیا وَكُنْ : اور رہو مِّنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
فرمایا : اے موسیٰ ! میں نے تم کو لوگوں پر اپنے پیغام اور اپنے کلام سے برگزیدہ کیا تو میں نے جو کچھ تم کو دیا اس کو لو اور شکر گزاروں میں سے بنو۔
ارشاد فرمایا : قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِیّ اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْ ز فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُکَ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 144) ” فرمایا : اے موسیٰ ! میں نے تم کو لوگوں پر اپنے پیغام اور اپنے کلام سے برگزیدہ کیا تو میں نے جو کچھ تم کو دیا اس کو لو اور شکر گزاروں میں سے بنو “۔ انسان کی رسائیِ فکر اور تقرب خدا وندی کی انتہا اس آیت کریمہ میں حقیقت تو اللہ جانتا ہے بظاہر تین باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ 1 اللہ کی ذات سے انسان کے تقرب کی جو انتہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنی پیغامبری کے لیے چن لے اور اسے شرف ہم کلامی سے نوازدے اس سے زیادہ پیغمبر ہوتے ہوئے بھی کسی انسان کے بس کی بات نہیں اگر اس سے زیادہ کسی انسان کی استطاعت ہوتی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی سے ممتاز فرمایا انھیں ضرور اپنے دیدار سے بھی مشرف فرماتے لیکن انھیں یہ کہہ کر کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے واضح فرمادیا کہ انسان اور اس کے پروردگار کے درمیان کچھ حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ پیغمبروں کے علاوہ دوسرے انسان وہ تو اس وادی میں اجنبیوں کی مانند ہیں لیکن پیغمبر جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں جب ان کی رسائی اس خاص حد سے ناممکن ہے تو پھر دوسروں کو اللہ کریم کے معاملہ میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ 2 انسانوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے معاملے میں ٹھوکر کھائی ہے اسی طرح نبوت کے معاملے میں بھی انسان ہمیشہ ٹھوکر کھاتے رہے ہیں کبھی انھوں نے اللہ کے نبیوں کو اتنا اوپر اٹھایا کہ اللہ کی صفات میں شریک کر ڈالا اور کبھی اتنا نیچے گرایا کہ انھیں نبوت کے قابل بھی نہ سمجھا یعنی کبھی تو یہ دعویٰ کیا کہ اللہ کے نبی انسان نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی نبوت کے مقام کے باعث انسان سے ماورا ہوتے ہیں اور کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ پیغمبر صرف انسان ہوتے ہیں ان کی صفات بھی ایک عام انسان کی صفات ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی پیغام رسانی کے لیے منتخب ضرور کرتا ہے لیکن ان میں ایسی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ ان دونوں انتہائوں کو متوازن کرتے ہوئے پروردگار یہاں فرما رہے ہیں کہ اے موسیٰ تم ہمارے برگزیدہ پیغمبر ہو لیکن یاد رکھو پیغمبر ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی ذات وصفات کے معاملے میں انسانی صفات سے بلند نہیں ہوسکتے۔ عالم ناسوت میں جن حدود وقیود کا تمہیں پابند بنایا گیا ہے ان حدود وقیود سے تجاوز کرنا تمہارے لیے کسی طرح جائز نہیں۔ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے تمہارے مقام کی انتہا یہ ہے اور یہ بھی تمہارا امتیاز ہے کہ ہم نے تمہیں پیغام رسانی اور پیغمبری کے ساتھ ساتھ شرف ہم کلامی سے بھی نوازا ہے جبکہ دوسرے کسی پیغمبر کو یہ مقام حاصل نہیں۔ اس سے زائد کسی اور مرتبے کی خواہش کرنا تمہارے مقام و مرتبہ سے ماورا چیز ہے اور اسی کے آئینہ میں نوع انسانی کو یہ درس دیا گیا ہے کہ پیغمبر انسان ہی ہوتے ہیں لیکن ان کا مقام و مرتبہ عام انسانوں سے اس لیے بالا بلند ہوتا ہے کہ اللہ انھیں اپنی پیغام رسانی کے لیے چنتا ہے اور چاہے تو شرف ہم کلامی سے بھی نوازتا ہے یہ دونوں باتیں پیغمبروں کے علاوہ کسی اور انسان کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتیں۔ اپنی ذاتی تگ و دو اور ذہنی صلاحیت سے کوئی آدمی چاہے کہ میں ان مقامات کو حاصل کرلوں تو یہ ہرگز ممکن نہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے نبیوں کے بارے میں دونوں افراط وتفریط پر مبنی تصورات کو متوازن کرتے ہوئے ایک معتدل تصور دیا جسے صراط مستقیم کہنا چاہیے۔ 3 جن باتوں نے انسانی زندگی کو تباہ کیا ہے ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے اپنے طور سے راہنمائی کے اصول ‘ راہنمائی کا طریقہ اور راہنمائی کے آداب متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو اپنا حق سمجھ کر اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اسے یہ بات گراں گزرتی ہے کہ اسے یہ کہا جائے کہ اجتماعی زندگی کی نزاکتیں ایسی ہیں جن کا ادراک انسانی عقل سے بالا ہے۔ انسان اپنے حواس اور اپنی عقل سے زندگی کے بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے لیکن جہاں تک نوع انسانی کی اقدار حیات ‘ اجتماعی تہذیب اور اصول بقاء کا تعلق ہے اس کا بہ ہمہ وجوہ ادراک کرنا انسانی عقل کے لیے ممکن نہیں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے لیے راہنمائی نازل کی جائے۔ چناچہ پروردگار نے محض اپنے فضل و کرم سے اس ذمہ داری کو اپنے سر لے لیا اور فرمایا : اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی (بےشک راہنمائی دینا ہماری ذمہ داری ہے) چناچہ اللہ کی جانب سے راہنمائی کا مل جانا وہ انسانیت کی معراج ہے اسی سے انسانی زندگی کا سفر آسان ہوتا ہے اور زندگی نشیب و فراز کے ہچکولوں سے محفوظ ہوتی ہے اس کا ایک ایک شعبہ اور ایک ایک ادارہ ٹھیک ٹھیک کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے افراط وتفریط اور ناتمامی ٔ فکر کے اندیشے زندگی سے نکل جاتے ہیں اس لیے پروردگار جب اتنی بڑی دولت کسی قوم کو دینے کے لیے اپنے کسی بندے کا انتخاب کرتا ہے تو حقیقت میں وہ اتنے بڑے اعزاز سے نوازا جاتا ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور اعزاز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے یہ دولت تمہیں عطا کی ہے ‘ تمہارا کام یہ ہے کہ اس کی عظمت کے پیش نظر پوری قوت سے اس کا حق ادا کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجاؤ اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اتنے بڑے اعزاز کا مستحق جانا۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں وہ دولت جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واسطے سے عطا کی جا رہی ہے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے :
Top