Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا
: اور ہم نے لکھدی
لَهٗ
: اس کے لیے
فِي
: میں
الْاَلْوَاحِ
: تختیاں
مِنْ
: سے
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
مَّوْعِظَةً
: نصیحت
وَّتَفْصِيْلًا
: اور تفصیل
لِّكُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز کی
فَخُذْهَا
: پس تو اسے پکڑ لے
بِقُوَّةٍ
: قوت سے
وَّاْمُرْ
: اور حکم دے
قَوْمَكَ
: اپنی قوم
يَاْخُذُوْا
: وہ پکڑیں (اختیار کریں)
بِاَحْسَنِهَا
: اس کی اچھی باتیں
سَاُورِيْكُمْ
: عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا
دَارَ الْفٰسِقِيْنَ
: نافرمانوں کا گھر
اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پس اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو ہدایت کرو کہ اس کے بہتر طریقہ کو اپنائیں میں تم کو عنقریب نافرمانوں کا ٹھکانا دکھائوں گا۔
وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کَُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکَُلِّ شَیْئٍ ج فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ط سَاُورِیْکُمْ دَارَالْفٰسِقِیْنَ ۔ (الاعراف : 145) ” اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پس اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو ہدایت کرو کہ اس کے بہتر طریقہ کو اپنائیں میں تم کو عنقریب نافرمانوں کا ٹھکانا دکھائوں گا “۔ تورات کا تعارف اور اس کے مقتضیات اس آیت کریمہ میں متعدد باتیں ہماری توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اس میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو تختیاں لکھ کے دی تھیں اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات تختیوں کی صورت میں تحریری شکل میں نازل کی گئی ورنہ عموماً پروردگار کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے رسول کے دل پر اپنا کلام اتارتا ہے اور پھر رسول اسے دوسروں کے ذریعہ سے لکھواتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے تحریری شکل میں اپنی کتاب عطا فرمائی اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کو شریعت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص اہتمام فرمایا جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دوسری امتوں کو تو زبانی تعلیم دی گئی لیکن بنی اسرائیل کے لیے تحریری تعلیم کا انتظام فرمایا تاکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی شریعت زیادہ محفوظ حالت میں ملے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل قدم قدم پر جس طرح اپنی نااہلی اور لاپرواہی کا اظہار کر رہے تھے اس کے پیش نظر یہ اندیشہ تھا کہ اگر انھیں زبانی تعلیم کے ذریعے شریعت دی گئی تو یہ کہیں اسے ضائع نہ کردیں اور دوسری اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کے سلسلے میں بالعموم یہ روایت رہی ہے کہ پیغمبر براہ راست اللہ کے شاگرد ہوتے ہیں۔ پہلے فطرت ان کو سکھاتی ہے اور پھر براہ راست اللہ کی جانب سے ان کی تعلیم و تربیت کا سامان کیا جاتا ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بچپن اور لڑکپن میں مروجہ تعلیم سے بہرہ ورہو چکے تھے انھوں نے شہزادوں کی طرح تربیت پائی اور دوسرے شہزادوں کے ساتھ اس زمانے کے اداروں میں مختلف علوم بھی حاصل کیے اور فوجی ٹریننگ بھی پائی اور پھر اسرائیلی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض اہم عہدوں پر فائز بھی رہے اور افریقہ کے بعض محاذوں پر ایک کمانڈر کی حیثیت سے داد شجاعت بھی دیتے رہے۔ اس لحاظ سے آپ چونکہ ایک پڑھے لکھے آدمی تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھی ہوئی تختیوں کی صورت میں کتاب عطا فرمائی۔ دوسری بات : جس کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تختیوں کی صورت میں آپ کو جو کچھ دیا گیا تھا کیا یہ واقعی تورات تھی یا صرف احکام عشرہ تھے جو تختیوں پر کندہ کر کے آپ کو دیئے گئے تھے۔ علماء نصاریٰ میں سے بیشتر لوگ تو اسے صرف احکام عشرہ ہی قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کریم سے اور یہود علماء کی وضاحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف احکام عشرہ نہیں بلکہ مکمل تورات تھی جس میں ہر طرح کی ضروری ہدایات اور تفصیلات موجود تھیں یعنی دین و شریعت کی جو باتیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے ضروری تھیں وہ سب اس میں موجود تھیں اور جماعتی تنظیم و تشکیل سے متعلق جو تفصیلات درکار تھیں وہ بھی ان الواح میں درج تھیں۔ اس لیے کتاب خروج میں یہ صراحت موجود ہے کہ تختیاں دو تھیں اور وہ دونوں اپنی دونوں جانب سے بھری ہوئی تھیں اگر ان میں صرف احکام عشرہ ہوتے تو تختیوں کا دونوں طرف سے بھرا ہونا کسی طرح بھی قرین عقل نہیں اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم نے تختیوں کے لیے الواح کا لفظ استعمال کیا ہے۔ الواح ‘ لوح کی جمع ہے اور عربی زبان میں جمع کا اطلاق کم از کم تین افراد پر ہوتا ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں اس لیے تورات کے راویوں کا دو تختیاں روایت کرنا معلوم ہوتا ہے ترجمے کی غلطی ہے صحیح بات وہی ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تختیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور پھر اس کا سائز بھی یقینا عام تختی کی طرح تو نہیں ہوگا۔ تورات کے مطابق یہ پتھر سے تیار کردہ تھیں اور یقینا ان کا حجم ایسا ہوگا جس کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) کو اسے مضبوطی اور احتیاط سے اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے خطاط موجود رہے ہیں جو چند اوراق میں پورا قرآن کریم لکھ دیتے تھے اگر انسانی صلاحیت سے یہ بات ممکن ہے تو چند تختیوں پر پوری تورات کا لکھا جانا بھی مستبعد نہیں سمجھنا چاہیے۔ جہاں تک قرآن کریم کی تورات سے متعلق صراحتوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں قرآن کریم کی چند آیات کو دیکھ لینا ضروری ہے جس میں تورات کی چند صفات کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً سورة البقرہ میں قرآن کریم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چلہ کا ذکر کرتے ہوئے جب نزول احکام کا تذکرہ کیا ہے تو اس کو کتاب اور فرقان کہا ہے اور یہ دونوں صفات قرآن عزیز میں تورات کے لیے بولی گئی ہیں احکام عشرہ کے لیے نہیں۔ وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (البقرہ : 6) ” اور جب عہد کیا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا پھر بنا لیا تم نے اس کے پیچھے گو سالہ اور تم اس بارے میں ظالم تھے پھر ہم نے اس کے بعد تم کو معاف کردیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والی (فرقان) چیز عطا کی تاکہ تم راہ پائو “۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْم بَعْدِ مَٓا اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَٓائِرَ لِلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لَّعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ۔ (قصص : 5) ” اور بیشک ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرتیں مہیا کرنے والی اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں “۔ اور اگرچہ تورات (موجودہ بائبل) کے سفر خروج ‘ استثناء اور کتاب یسوع میں موسیٰ (علیہ السلام) کے چلہ کے بعد احکام عہد یا شریعت کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن مولانا رحمت اللہ کیرانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اظہار الحق میں فارسی ‘ عربی اور اردو قدیم تراجم کے حوالہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ تورات کے ان نسخوں میں ان ہر دو الفاظ کی جگہ ” تورات “ لکھا ہوا پایا جاتا ہے چناچہ مولانا عبدالحق ( رح) نے بھی تفسیر حقانی میں اردو فارسی بائبل مطبوعہ 1845 ء و 1839 ء سے حسب ذیل حوالے نقل کیے ہیں۔ 1 و برآں سنگہا تمامی کلمات ایں تورات رابخط روشن بنویس۔ (استثناء باب 27‘ آیت 27) 2 بنی اسرائیل نے بموجب حکم موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک مذبح بنایا اور اس کے پتھروں پر توریت کو لکھ دیا۔ (یسوع : باب 8‘ آیت 15 1845) ان حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر جو الواح چلہ کے بعد دی گئیں وہ تورات کی تھیں ‘ احکام عہد کی الواح نہیں تھیں اور انگریزی نسخہ کے ترجمہ میں لا (Law) اور عربی و اردو نسخوں میں شریعت کو بھی صحیح مان لیا جائے تو یہ لفظ بھی اپنے معنی کی وسعت پر تورات پر صادق آتا ہے اور تورات ‘ شریعت اور قانون سب کا مصداق ایک ہی چیز ہے اور قدیم عیسائی دنیا میں یہی معنی سمجھے جاتے رہے ہیں اور احکام عہد اسی کا ایک جز ہیں اور اس کو مستقل قرار دینا بہت بعد کی پیداوار ہے۔ تیسری بات : موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اسے قوت سے پکڑیں اور اپنی قوم کو اس کا حکم دیں قوت سے پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی حفاظت کا انتظام کریں ‘ خود اس پر پوری طرح عمل کریں ‘ دوسروں کو اس پر عمل کرنے کے لیے کہیں اور پوری طرح اس کے احکام کو نافذ کرنے کی کوشش فرمائیں۔ اس سے پہلی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس پیغمبر پر کوئی کتاب اترتی ہے وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے اس کی ایمانیات پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہے اور اس کی شریعت پر عمل کر کے عمل کا نمائندہ بن جاتا ہے اور اگر کتاب میں کسی حکم کو مجمل بیان کیا گیا ہے تو پیغمبر کا عمل اس کی تفصیل مہیا کرتا ہے اور اگر کسی حکم کو مبہم بیان کیا گیا ہے تو پیغمبر کا عمل اس کی مراد واضح کرتا ہے اور اگر کسی حکم کا درجہ صرف اصول کا ہے تو پیغمبر اپنی سنت سے اس کی فروع طے کرتا ہے۔ غرضیکہ کتاب کا ایک ایک قول پیغمبر کے عمل سے زندگی کی روایت بنتا ہے اور آئین اور قانون کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جس طرح کتاب کے احکام کی پابند ہوتی ہے اسی طرح جس رسول پر وہ کتاب اترتی ہے اس کی قوم اور امت اس رسول کی سنت اور حدیث کی بھی پابند ہوتی ہے۔ دونوں میں عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ پیغمبر کی حیثیت صرف کتاب پہنچانے والے کی نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی ذات میں مبلغ ‘ معلم ‘ شارع ‘ واجب الاطاعت سب کچھ ہوتا ہے۔ دوسری بات اس سے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ ایک ایک حکم پر اپنی قوم کو چلنے کا حکم دے اللہ کی شریعت کے مطابق احکام کا نفاذ کرے زندگی کی ضروریات کے حوالے سے ادارے قائم کرے اور ان اداروں میں اللہ کے احکام کو نافذ کرے اس طرح سے زندگی کا ایک ایک شعبہ اللہ کے احکام کے مطابق ڈھال کر اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا پیغمبر کی ذمہ داری ہے۔ چوتھی بات : اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اپنی قوم کو اس بات کا حکم دیجئے کہ وہ اس کتاب کے احسن کو اختیار کریں۔ اس کے دو مطلب مراد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دنیا میں زندگی کی راہنمائی کے لیے انسانوں کے خود ساختہ وضعی قوانین اور ہدایات کی کمی نہیں۔ جو قوم جس خطے میں بھی آباد ہے انھوں نے اپنی راہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کر رکھا اور کوئی نہ کوئی نظام تشکیل دے رکھا ہے اور کوئی نہ کوئی قانون اس کی زندگی کو منظم اور مرتب کرنے کا فرض انجام دے رہا ہے لیکن حقیقت میں انسانوں کے بنائے ہوئے یہ تمام طریقے انسانی دماغی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ انسانی عقل اللہ کا سب سے بڑا انعام ہونے کے باوجود نارسائی اور غلطی سے مبرا نہیں۔ زندگی کے کتنے ایسے معاملات ہیں جس میں انسانی عقل بےبس ہوجاتی ہے اور کتنے ایسے مائوف لمحے ہیں جس میں انسانی فکر ‘ خواہشات ‘ اشتعال اور مفادات کا شکار ہو کر غلط فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اس لیے اگر انسانی زندگی کی بھلائی مقصود ہے تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ انسانی زندگی جس نے عطا کی ہے وہی سب سے بہتر اس کی ضرورتوں کو سمجھتا ہے اس لیے اسی کی عطا کردہ راہنمائی کو قبول کرلیا جائے یہاں اسی راہنمائی کو احسن قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی کتاب بھی انہی الفاظ سے وجود میں آتی ہے جو انسانی زبانوں میں متداول ہیں اور ان الفاظ کے معانی بھی وہی معتبر ہیں جو انسانوں کی مرتب کردہ ڈکشنریاں متعین کرتی ہیں۔ بایں ہمہ ! ہم دیکھتے ہیں کہ جب نیت میں فتور پیدا ہوتا ہے اور مقاصد میں اختلال آتا ہے تو الفاظ کے نہ صرف کہ معانی بدلنے لگتے ہیں بلکہ مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ ہم عدالتوں میں وکلاء کو بحث کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ موافق اور مخالف دونوں وکیل ایک ہی قانون سے استشہاد کرتے ہیں لیکن دونوں اپنے اپنے مطلب کی بات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں الفاظ کا وہ مفہوم جو صاف اور سیدھا ہے جسے عقل عام بڑی آسانی سے متعین کرسکتی ہے زاویہ نگاہ کے بدلنے اور مفادات کی تبدیلی سے کچھ سے کچھ ہو کے رہ جاتا ہے یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اپنی قوم کو یہ حکم دیجئے کہ احکام الٰہی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے ‘ جس کی نیت میں فساد یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو یہ قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی ایچ پیچ اور حیلوں کے راستے فتنوں کی گنجائش نکالتے ہیں کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے اس لیے جب بھی وہ کتاب اللہ کے کسی حکم کی مراد متعین کرنے لگیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے وہ مفہوم مراد لیں جسے ہر صاحب عقل آدمی آسانی سے سمجھ سکے۔ یہی اس کا احسن طریقہ اور یہی اس کی احسن مراد ہے۔ دارالفاسقین کا مفہوم آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا ہے کہ میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھائوں گا۔ سوال یہ ہے کہ اس دار سے مراد کون سا مقام ہے ؟ اس سلسلہ میں قصص القرآن کے مصنف کے مطابق کہنے والوں نے قیاس اور تخمین سے مختلف جواب دیئے ہیں (1) اس ” دار “ سے عاد وثمود کے کھنڈر مراد ہیں (2) مصر مراد ہے کہ بنی اسرائیل دوبارہ اس میں داخل ہوں گے (3) قتادہ ( رح) کہتے ہیں کہ اس سے شام کی مقدس سرزمین مراد ہے جہاں اس زمانہ میں عمالقہ کے جابر بادشاہوں کی حکومت تھی اور جہاں بنی اسرائیل کو داخل ہونا تھا۔ نجار نے اسی کو ترجیح دی ہے اور میرے نزدیک یہی صحیح ہے ‘ رہا یہ امر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے بوڑھے ان بستیوں میں داخل نہیں ہو سکے۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال ارض مقدس میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہوگیا تھا اور اسی طرح بنی اسرائیل کے بوڑھوں پر بھی آنے والی تفصیل کے مطابق اس کا داخلہ حرام کردیا گیا تھا۔ تو آیت کی یا تو یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل کے نوجوانوں کا داخلہ جن کی اکثریت تھی سب کا داخلہ ہے اور اس طرح کا استعمال شائع ذائع ہے اور یا یہ مراد ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون اور کالب بن یوفنہ اور چند بنی اسرائیل کے بہادروں کو ارض مقدس میں اس لیے بھیجا تھا کہ وہ وہاں کے مفصل حالات معلوم کر کے آئیں کہ ہم کس طرح دشمن کو شکست دے کر پاک سرزمین میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اور انھوں نے آکر تمام حالات بنی اسرائیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیے تھے تو گویا ان معدودے چند افراد کا ارض مقدس میں داخل ہو کر اس کو دیکھ آنا اور پھر سب کو وہاں کے حالات سے آگاہ کرنا ‘ آیت میں اسی معاملہ کی جانب اشارہ ہے قتادہ ( رح) کے قول کے مقابلہ میں پہلا قول اس لیے مرجوح ہے کہ اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل کبھی قومی اور جماعتی حیثیت سے مصر میں داخل نہیں ہوئے اور دوسرا قول اس لیے قابل اعتناء نہیں ہے کہ اگرچہ ثمود کے آثار وادی سینا کے قریب ضرور تھے مگر عاد کے آثار و کھنڈرات تو عرب کے مغربی حصہ میں واقع تھے جو وادیٔ سینا سے مہینوں کی راہ تھی تو ایسی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بنی اسرائیل کو صرف ان محو شدہ آثار و کھنڈرات کو دکھانے کے لیے بھیجا جاتا اور اس کے لیے خدا کا وعدہ اس شان کے ساتھ بیان ہوتا ؟ مگر ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے جہنم مراد ہے اور کافروں کی تہدید کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ اقوال اگرچہ باہم مختلف ہیں لیکن سب میں جو چیزقدرِ مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے وہی حقیقت میں اس کا مفہوم ہے یعنی آگے چل کر تم لوگ مختلف قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزرو گے ان میں سے ہر قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی اور ان کی تباہی کا سبب صرف یہ تھا کہ وہ اپنی روش میں اللہ کے نافرمان اور اس کے فاسق تھے اور انھوں نے خدا کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑ کر غلط روی پر اصرار جاری رکھا تھا۔ ان کے تباہ شدہ کھنڈرات کو دیکھ کر تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم نے اگر ان علاقوں سے گزرتے ہوئے واقعی عبرت حاصل کی تو یہ تمہاری آئندہ زندگی کی بقاء کی ضمانت ہوگی ورنہ تم بھی اسی انجام سے دوچار کیے جاؤ گے جس سے وہ فاسق قومیں دوچار ہوئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو کتاب ہدایت دینے کے بعد اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ تمہاری دنیوی اور اخروی سرفرازی کا دارومدار اسی کتاب کی دی ہوئی راہنمائی کے اتباع میں ہے لیکن یہ یاد رکھو اللہ کے کچھ مقرر کردہ ضابطے ہیں جو قوم ان ضابطوں کی پابندی نہیں کرتی وہ اللہ کی کتاب سے فائدہ اٹھانے سے ہمیشہ محروم رہتی ہے اس لیے تم اگر اس محرومی سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں اس آیت کریمہ کی روشنی میں ان ضوابط کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
Top