Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھدی لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاَلْوَاحِ : تختیاں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مَّوْعِظَةً : نصیحت وَّتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی فَخُذْهَا : پس تو اسے پکڑ لے بِقُوَّةٍ : قوت سے وَّاْمُرْ : اور حکم دے قَوْمَكَ : اپنی قوم يَاْخُذُوْا : وہ پکڑیں (اختیار کریں) بِاَحْسَنِهَا : اس کی اچھی باتیں سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کا گھر
اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پس اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو ہدایت کرو کہ اس کے بہتر طریقہ کو اپنائیں میں تم کو عنقریب نافرمانوں کا ٹھکانا دکھائوں گا۔
وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کَُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکَُلِّ شَیْئٍ ج فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ط سَاُورِیْکُمْ دَارَالْفٰسِقِیْنَ ۔ (الاعراف : 145) ” اور ہم نے اس کے لیے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پس اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو ہدایت کرو کہ اس کے بہتر طریقہ کو اپنائیں میں تم کو عنقریب نافرمانوں کا ٹھکانا دکھائوں گا “۔ تورات کا تعارف اور اس کے مقتضیات اس آیت کریمہ میں متعدد باتیں ہماری توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اس میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو تختیاں لکھ کے دی تھیں اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات تختیوں کی صورت میں تحریری شکل میں نازل کی گئی ورنہ عموماً پروردگار کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے رسول کے دل پر اپنا کلام اتارتا ہے اور پھر رسول اسے دوسروں کے ذریعہ سے لکھواتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے تحریری شکل میں اپنی کتاب عطا فرمائی اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کو شریعت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص اہتمام فرمایا جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دوسری امتوں کو تو زبانی تعلیم دی گئی لیکن بنی اسرائیل کے لیے تحریری تعلیم کا انتظام فرمایا تاکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی شریعت زیادہ محفوظ حالت میں ملے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل قدم قدم پر جس طرح اپنی نااہلی اور لاپرواہی کا اظہار کر رہے تھے اس کے پیش نظر یہ اندیشہ تھا کہ اگر انھیں زبانی تعلیم کے ذریعے شریعت دی گئی تو یہ کہیں اسے ضائع نہ کردیں اور دوسری اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کے سلسلے میں بالعموم یہ روایت رہی ہے کہ پیغمبر براہ راست اللہ کے شاگرد ہوتے ہیں۔ پہلے فطرت ان کو سکھاتی ہے اور پھر براہ راست اللہ کی جانب سے ان کی تعلیم و تربیت کا سامان کیا جاتا ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بچپن اور لڑکپن میں مروجہ تعلیم سے بہرہ ورہو چکے تھے انھوں نے شہزادوں کی طرح تربیت پائی اور دوسرے شہزادوں کے ساتھ اس زمانے کے اداروں میں مختلف علوم بھی حاصل کیے اور فوجی ٹریننگ بھی پائی اور پھر اسرائیلی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض اہم عہدوں پر فائز بھی رہے اور افریقہ کے بعض محاذوں پر ایک کمانڈر کی حیثیت سے داد شجاعت بھی دیتے رہے۔ اس لحاظ سے آپ چونکہ ایک پڑھے لکھے آدمی تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھی ہوئی تختیوں کی صورت میں کتاب عطا فرمائی۔ دوسری بات : جس کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تختیوں کی صورت میں آپ کو جو کچھ دیا گیا تھا کیا یہ واقعی تورات تھی یا صرف احکام عشرہ تھے جو تختیوں پر کندہ کر کے آپ کو دیئے گئے تھے۔ علماء نصاریٰ میں سے بیشتر لوگ تو اسے صرف احکام عشرہ ہی قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کریم سے اور یہود علماء کی وضاحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف احکام عشرہ نہیں بلکہ مکمل تورات تھی جس میں ہر طرح کی ضروری ہدایات اور تفصیلات موجود تھیں یعنی دین و شریعت کی جو باتیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے ضروری تھیں وہ سب اس میں موجود تھیں اور جماعتی تنظیم و تشکیل سے متعلق جو تفصیلات درکار تھیں وہ بھی ان الواح میں درج تھیں۔ اس لیے کتاب خروج میں یہ صراحت موجود ہے کہ تختیاں دو تھیں اور وہ دونوں اپنی دونوں جانب سے بھری ہوئی تھیں اگر ان میں صرف احکام عشرہ ہوتے تو تختیوں کا دونوں طرف سے بھرا ہونا کسی طرح بھی قرین عقل نہیں اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کریم نے تختیوں کے لیے الواح کا لفظ استعمال کیا ہے۔ الواح ‘ لوح کی جمع ہے اور عربی زبان میں جمع کا اطلاق کم از کم تین افراد پر ہوتا ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں اس لیے تورات کے راویوں کا دو تختیاں روایت کرنا معلوم ہوتا ہے ترجمے کی غلطی ہے صحیح بات وہی ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تختیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور پھر اس کا سائز بھی یقینا عام تختی کی طرح تو نہیں ہوگا۔ تورات کے مطابق یہ پتھر سے تیار کردہ تھیں اور یقینا ان کا حجم ایسا ہوگا جس کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) کو اسے مضبوطی اور احتیاط سے اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے خطاط موجود رہے ہیں جو چند اوراق میں پورا قرآن کریم لکھ دیتے تھے اگر انسانی صلاحیت سے یہ بات ممکن ہے تو چند تختیوں پر پوری تورات کا لکھا جانا بھی مستبعد نہیں سمجھنا چاہیے۔ جہاں تک قرآن کریم کی تورات سے متعلق صراحتوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں قرآن کریم کی چند آیات کو دیکھ لینا ضروری ہے جس میں تورات کی چند صفات کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً سورة البقرہ میں قرآن کریم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چلہ کا ذکر کرتے ہوئے جب نزول احکام کا تذکرہ کیا ہے تو اس کو کتاب اور فرقان کہا ہے اور یہ دونوں صفات قرآن عزیز میں تورات کے لیے بولی گئی ہیں احکام عشرہ کے لیے نہیں۔ وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (البقرہ : 6) ” اور جب عہد کیا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا پھر بنا لیا تم نے اس کے پیچھے گو سالہ اور تم اس بارے میں ظالم تھے پھر ہم نے اس کے بعد تم کو معاف کردیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والی (فرقان) چیز عطا کی تاکہ تم راہ پائو “۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْم بَعْدِ مَٓا اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَٓائِرَ لِلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لَّعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ۔ (قصص : 5) ” اور بیشک ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرتیں مہیا کرنے والی اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں “۔ اور اگرچہ تورات (موجودہ بائبل) کے سفر خروج ‘ استثناء اور کتاب یسوع میں موسیٰ (علیہ السلام) کے چلہ کے بعد احکام عہد یا شریعت کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن مولانا رحمت اللہ کیرانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اظہار الحق میں فارسی ‘ عربی اور اردو قدیم تراجم کے حوالہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ تورات کے ان نسخوں میں ان ہر دو الفاظ کی جگہ ” تورات “ لکھا ہوا پایا جاتا ہے چناچہ مولانا عبدالحق ( رح) نے بھی تفسیر حقانی میں اردو فارسی بائبل مطبوعہ 1845 ء و 1839 ء سے حسب ذیل حوالے نقل کیے ہیں۔ 1 و برآں سنگہا تمامی کلمات ایں تورات رابخط روشن بنویس۔ (استثناء باب 27‘ آیت 27) 2 بنی اسرائیل نے بموجب حکم موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک مذبح بنایا اور اس کے پتھروں پر توریت کو لکھ دیا۔ (یسوع : باب 8‘ آیت 15 1845) ان حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر جو الواح چلہ کے بعد دی گئیں وہ تورات کی تھیں ‘ احکام عہد کی الواح نہیں تھیں اور انگریزی نسخہ کے ترجمہ میں لا (Law) اور عربی و اردو نسخوں میں شریعت کو بھی صحیح مان لیا جائے تو یہ لفظ بھی اپنے معنی کی وسعت پر تورات پر صادق آتا ہے اور تورات ‘ شریعت اور قانون سب کا مصداق ایک ہی چیز ہے اور قدیم عیسائی دنیا میں یہی معنی سمجھے جاتے رہے ہیں اور احکام عہد اسی کا ایک جز ہیں اور اس کو مستقل قرار دینا بہت بعد کی پیداوار ہے۔ تیسری بات : موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اسے قوت سے پکڑیں اور اپنی قوم کو اس کا حکم دیں قوت سے پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی حفاظت کا انتظام کریں ‘ خود اس پر پوری طرح عمل کریں ‘ دوسروں کو اس پر عمل کرنے کے لیے کہیں اور پوری طرح اس کے احکام کو نافذ کرنے کی کوشش فرمائیں۔ اس سے پہلی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس پیغمبر پر کوئی کتاب اترتی ہے وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے اس کی ایمانیات پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہے اور اس کی شریعت پر عمل کر کے عمل کا نمائندہ بن جاتا ہے اور اگر کتاب میں کسی حکم کو مجمل بیان کیا گیا ہے تو پیغمبر کا عمل اس کی تفصیل مہیا کرتا ہے اور اگر کسی حکم کو مبہم بیان کیا گیا ہے تو پیغمبر کا عمل اس کی مراد واضح کرتا ہے اور اگر کسی حکم کا درجہ صرف اصول کا ہے تو پیغمبر اپنی سنت سے اس کی فروع طے کرتا ہے۔ غرضیکہ کتاب کا ایک ایک قول پیغمبر کے عمل سے زندگی کی روایت بنتا ہے اور آئین اور قانون کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جس طرح کتاب کے احکام کی پابند ہوتی ہے اسی طرح جس رسول پر وہ کتاب اترتی ہے اس کی قوم اور امت اس رسول کی سنت اور حدیث کی بھی پابند ہوتی ہے۔ دونوں میں عمل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ پیغمبر کی حیثیت صرف کتاب پہنچانے والے کی نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی ذات میں مبلغ ‘ معلم ‘ شارع ‘ واجب الاطاعت سب کچھ ہوتا ہے۔ دوسری بات اس سے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ ایک ایک حکم پر اپنی قوم کو چلنے کا حکم دے اللہ کی شریعت کے مطابق احکام کا نفاذ کرے زندگی کی ضروریات کے حوالے سے ادارے قائم کرے اور ان اداروں میں اللہ کے احکام کو نافذ کرے اس طرح سے زندگی کا ایک ایک شعبہ اللہ کے احکام کے مطابق ڈھال کر اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا پیغمبر کی ذمہ داری ہے۔ چوتھی بات : اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اپنی قوم کو اس بات کا حکم دیجئے کہ وہ اس کتاب کے احسن کو اختیار کریں۔ اس کے دو مطلب مراد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دنیا میں زندگی کی راہنمائی کے لیے انسانوں کے خود ساختہ وضعی قوانین اور ہدایات کی کمی نہیں۔ جو قوم جس خطے میں بھی آباد ہے انھوں نے اپنی راہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کر رکھا اور کوئی نہ کوئی نظام تشکیل دے رکھا ہے اور کوئی نہ کوئی قانون اس کی زندگی کو منظم اور مرتب کرنے کا فرض انجام دے رہا ہے لیکن حقیقت میں انسانوں کے بنائے ہوئے یہ تمام طریقے انسانی دماغی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ انسانی عقل اللہ کا سب سے بڑا انعام ہونے کے باوجود نارسائی اور غلطی سے مبرا نہیں۔ زندگی کے کتنے ایسے معاملات ہیں جس میں انسانی عقل بےبس ہوجاتی ہے اور کتنے ایسے مائوف لمحے ہیں جس میں انسانی فکر ‘ خواہشات ‘ اشتعال اور مفادات کا شکار ہو کر غلط فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اس لیے اگر انسانی زندگی کی بھلائی مقصود ہے تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ انسانی زندگی جس نے عطا کی ہے وہی سب سے بہتر اس کی ضرورتوں کو سمجھتا ہے اس لیے اسی کی عطا کردہ راہنمائی کو قبول کرلیا جائے یہاں اسی راہنمائی کو احسن قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کی کتاب بھی انہی الفاظ سے وجود میں آتی ہے جو انسانی زبانوں میں متداول ہیں اور ان الفاظ کے معانی بھی وہی معتبر ہیں جو انسانوں کی مرتب کردہ ڈکشنریاں متعین کرتی ہیں۔ بایں ہمہ ! ہم دیکھتے ہیں کہ جب نیت میں فتور پیدا ہوتا ہے اور مقاصد میں اختلال آتا ہے تو الفاظ کے نہ صرف کہ معانی بدلنے لگتے ہیں بلکہ مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ ہم عدالتوں میں وکلاء کو بحث کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ موافق اور مخالف دونوں وکیل ایک ہی قانون سے استشہاد کرتے ہیں لیکن دونوں اپنے اپنے مطلب کی بات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں الفاظ کا وہ مفہوم جو صاف اور سیدھا ہے جسے عقل عام بڑی آسانی سے متعین کرسکتی ہے زاویہ نگاہ کے بدلنے اور مفادات کی تبدیلی سے کچھ سے کچھ ہو کے رہ جاتا ہے یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اپنی قوم کو یہ حکم دیجئے کہ احکام الٰہی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے ‘ جس کی نیت میں فساد یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو یہ قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی ایچ پیچ اور حیلوں کے راستے فتنوں کی گنجائش نکالتے ہیں کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے اس لیے جب بھی وہ کتاب اللہ کے کسی حکم کی مراد متعین کرنے لگیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے وہ مفہوم مراد لیں جسے ہر صاحب عقل آدمی آسانی سے سمجھ سکے۔ یہی اس کا احسن طریقہ اور یہی اس کی احسن مراد ہے۔ دارالفاسقین کا مفہوم آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا ہے کہ میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھائوں گا۔ سوال یہ ہے کہ اس دار سے مراد کون سا مقام ہے ؟ اس سلسلہ میں قصص القرآن کے مصنف کے مطابق کہنے والوں نے قیاس اور تخمین سے مختلف جواب دیئے ہیں (1) اس ” دار “ سے عاد وثمود کے کھنڈر مراد ہیں (2) مصر مراد ہے کہ بنی اسرائیل دوبارہ اس میں داخل ہوں گے (3) قتادہ ( رح) کہتے ہیں کہ اس سے شام کی مقدس سرزمین مراد ہے جہاں اس زمانہ میں عمالقہ کے جابر بادشاہوں کی حکومت تھی اور جہاں بنی اسرائیل کو داخل ہونا تھا۔ نجار نے اسی کو ترجیح دی ہے اور میرے نزدیک یہی صحیح ہے ‘ رہا یہ امر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے بوڑھے ان بستیوں میں داخل نہیں ہو سکے۔ اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال ارض مقدس میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہوگیا تھا اور اسی طرح بنی اسرائیل کے بوڑھوں پر بھی آنے والی تفصیل کے مطابق اس کا داخلہ حرام کردیا گیا تھا۔ تو آیت کی یا تو یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل کے نوجوانوں کا داخلہ جن کی اکثریت تھی سب کا داخلہ ہے اور اس طرح کا استعمال شائع ذائع ہے اور یا یہ مراد ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون اور کالب بن یوفنہ اور چند بنی اسرائیل کے بہادروں کو ارض مقدس میں اس لیے بھیجا تھا کہ وہ وہاں کے مفصل حالات معلوم کر کے آئیں کہ ہم کس طرح دشمن کو شکست دے کر پاک سرزمین میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اور انھوں نے آکر تمام حالات بنی اسرائیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیے تھے تو گویا ان معدودے چند افراد کا ارض مقدس میں داخل ہو کر اس کو دیکھ آنا اور پھر سب کو وہاں کے حالات سے آگاہ کرنا ‘ آیت میں اسی معاملہ کی جانب اشارہ ہے قتادہ ( رح) کے قول کے مقابلہ میں پہلا قول اس لیے مرجوح ہے کہ اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل کبھی قومی اور جماعتی حیثیت سے مصر میں داخل نہیں ہوئے اور دوسرا قول اس لیے قابل اعتناء نہیں ہے کہ اگرچہ ثمود کے آثار وادی سینا کے قریب ضرور تھے مگر عاد کے آثار و کھنڈرات تو عرب کے مغربی حصہ میں واقع تھے جو وادیٔ سینا سے مہینوں کی راہ تھی تو ایسی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بنی اسرائیل کو صرف ان محو شدہ آثار و کھنڈرات کو دکھانے کے لیے بھیجا جاتا اور اس کے لیے خدا کا وعدہ اس شان کے ساتھ بیان ہوتا ؟ مگر ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے جہنم مراد ہے اور کافروں کی تہدید کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ اقوال اگرچہ باہم مختلف ہیں لیکن سب میں جو چیزقدرِ مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے وہی حقیقت میں اس کا مفہوم ہے یعنی آگے چل کر تم لوگ مختلف قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزرو گے ان میں سے ہر قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی اور ان کی تباہی کا سبب صرف یہ تھا کہ وہ اپنی روش میں اللہ کے نافرمان اور اس کے فاسق تھے اور انھوں نے خدا کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑ کر غلط روی پر اصرار جاری رکھا تھا۔ ان کے تباہ شدہ کھنڈرات کو دیکھ کر تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم نے اگر ان علاقوں سے گزرتے ہوئے واقعی عبرت حاصل کی تو یہ تمہاری آئندہ زندگی کی بقاء کی ضمانت ہوگی ورنہ تم بھی اسی انجام سے دوچار کیے جاؤ گے جس سے وہ فاسق قومیں دوچار ہوئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو کتاب ہدایت دینے کے بعد اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ تمہاری دنیوی اور اخروی سرفرازی کا دارومدار اسی کتاب کی دی ہوئی راہنمائی کے اتباع میں ہے لیکن یہ یاد رکھو اللہ کے کچھ مقرر کردہ ضابطے ہیں جو قوم ان ضابطوں کی پابندی نہیں کرتی وہ اللہ کی کتاب سے فائدہ اٹھانے سے ہمیشہ محروم رہتی ہے اس لیے تم اگر اس محرومی سے بچنا چاہتے ہو تو تمہیں اس آیت کریمہ کی روشنی میں ان ضوابط کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
Top