Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 157
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ١٘ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠ ۧ
اَلَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَتَّبِعُوْنَ
: پیروی کرتے ہیں
الرَّسُوْلَ
: رسول
النَّبِيَّ
: نبی
الْاُمِّيَّ
: امی
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
يَجِدُوْنَهٗ
: اسے پاتے ہیں
مَكْتُوْبًا
: لکھا ہوا
عِنْدَهُمْ
: اپنے پاس
فِي
: میں
التَّوْرٰىةِ
: توریت
وَالْاِنْجِيْلِ
: اور انجیل
يَاْمُرُهُمْ
: وہ حکم دیتا ہے
بِالْمَعْرُوْفِ
: بھلائی
وَيَنْهٰىهُمْ
: اور روکتا ہے انہیں
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برائی
وَيُحِلُّ
: اور حلال کرتا ہے
لَهُمُ
: ان کے لیے
الطَّيِّبٰتِ
: پاکیزہ چیزیں
وَيُحَرِّمُ
: اور حرام کرتا ہے
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْخَبٰٓئِثَ
: ناپاک چیزیں
وَيَضَعُ
: اور اتارتا ہے
عَنْهُمْ
: ان کے بوجھ
اِصْرَهُمْ
: ان کے بوجھ
وَالْاَغْلٰلَ
: اور طوق
الَّتِيْ
: جو
كَانَتْ
: تھے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فَالَّذِيْنَ
: پس جو لوگ
اٰمَنُوْا بِهٖ
: ایمان لائے اس پر
وَعَزَّرُوْهُ
: اور اس کی رفاقت (حمایت کی)
وَنَصَرُوْهُ
: اور اس کی مدد کی
وَاتَّبَعُوا
: اور پیروی کی
النُّوْرَ
: نور
الَّذِيْٓ
: جو
اُنْزِلَ
: اتارا گیا
مَعَهٗٓ
: اس کے ساتھ
اُولٰٓئِكَ
: وہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
جو پیروی کریں گے اس نبی امی رسول کی ‘ جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے بدی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز ٹھہراتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اٹھاتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں ‘ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور جو اس کا احترام بجا لائے اور جنھوں نے اس کی مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے ‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
ارشاد فرمایا : اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلَز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھاھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبِِٰٓئِثَ وَیضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الاعراف : 157) (جو پیروی کریں گے اس نبی امی رسول کی ‘ جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے بدی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں جائز ٹھہراتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور پابندیاں اٹھاتا ہے جو ان پر اب تک رہی ہیں ‘ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور جو اس کا احترام بجا لائے اور جنھوں نے اس کی مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے ‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ) موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے مصداق اور آنحضرت ﷺ کی صفات کی وضاحت اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کو ایمان لانے کی دعوت اور تمام انسانوں کو نجات کا راستہ دکھایا گیا ہے کہ اب فوزو فلاح ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو اس رسول نبی امی پر ایمان لائیں گے یہاں آنحضرت ﷺ کا تذکرہ تین الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے اور یہ تینوں الفاظ آپ کے تعارف کے لیے استعمال ہوئے ہیں یعنی اب جس آخری پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے وہ نبی بھی ہے رسول بھی ہے اور امی بھی ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے چونکہ نوع انسانی کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور وہ اپنی قوم کو بنیاد بنا کر تمام انسانوں کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اس لحاظ سے وہ اللہ کا نبی ہے لیکن اس کی اصلاح اور تربیت کا دارومدار کسی سابقہ شریعت پر نہیں کیونکہ اہل کتاب نے سابقہ شریعتوں اور آسمانی کتابوں کو ترمیم اور تحریف کے ذریعے غیر محفوظ کردیا ہے اب ان کتابوں کی بنیاد پر دنیا کی اصلاح کرنا ممکن نہیں رہا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو رسول بھی بنایا اور ان پر کتاب اتاری اور نئی شریعت عطا کی کیونکہ رسول وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نئی کتاب اور نئی شریعت عطا فرماتا ہے اور مزید برآں یہ کہ نبی کی زندگی اور دعوت کے نتیجہ میں احقاقِ حق تو ضرور ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ابطالِ باطل مکمل ہوجائے اور حق کو عمومی غلبہ نصیب ہو لیکن رسول کی بعثت سے یہ دونوں کام مکمل کر دئیے جاتے ہیں۔ حق کی دعوت اس قوت اور صراحت سے پیش کی جاتی ہے کہ اسے قبول نہ کرنے والے دلوں میں اس کی حقانیت کے قائل ہوجاتے ہیں اور باطل کو جھنجھلانے اور پیغمبر کے خلاف انتہائی مخالفت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا وہ جب دیکھتا ہے کہ دلائل کی دنیا میں باطل کو لا جواب کردیا گیا ہے تو پھر وہ پیغمبر کو قتل کرنے کے منصوبے باندھتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے اور دعوت حق کا انکار کرنے والوں پر عذاب نازل کرتا ہے اس طرح سے رسول جس انقلاب کی نوید بن کر آتا ہے وہ انقلاب مکمل کردیا جاتا ہے ‘ تو رسول کا لفظ کہہ کر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ آنحضرت کو صرف نبی نہ سمجھنا کہ وہ تمہیں حق کی خبر دے کر واپس چلے جائیں گے بلکہ وہ اللہ کی طرف سے کامل حجت اور کامل عدالت بن کر تشریف لائے ہیں ان کے آنے سے تم پر حجت تمام کردی گئی ہے اب اگر تم نے انکار کی روش نہ چھوڑی تو تمہیں تباہ کردیا جائے گا اور تیسرا لفظ آپ کے لیے استعمال ہوا ہے (امی) ‘ اس لفظ کے استعمال کا سبب یہ ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں میں عموماً اسی لفظ کے ساتھ آپ کی تشریف آوری کی خبر دی گئی ہے یعنی یہ لفظ آپ کے لیے ایک شناخت کا درجہ بھی رکھتا ہے اور اعزاز کا بھی ‘ شناخت سے مراد یہ ہے کہ امی کا لفظ تمام عربوں کے لیے عموماً اور قریش کے لیے خصوصاً اس لیے بولا جاتا تھا کہ قریش اور عرب لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی پیغمبر بنی اسماعیل میں نہیں آیا تھا جب کہ کہ بنی اسرائیل میں اس دوران سینکڑوں انبیاء تشریف لائے تو چونکہ ایک طویل مدت تک یہ سرِ زمین وحی الٰہی سے محروم رہی اس لیے قریش اور عرب کتاب و شریعت کی تعلیم سے یکسر نا آشنا رہے۔ انھوں نے اپنے رسوم و رواج کو اپنا دین سمجھ رکھا تھا وہ شریعت کے نام سے کسی چیز سے واقف نہیں تھے تو لکھنے پڑھنے سے نا واقفیت اور دین و شریعت سے جہالت کے باعث نہ صرف اہل کتاب ان کو امی کہتے تھے بلکہ خود عرب بھی اپنے آپ کو شناخت کے طور پر امی کے لفظ سے یاد کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کو اپنی اس شناخت پر فخر تھا انھیں روایتی تعلیم و تعلم سے کوئی دلچسپی نہ تھی البتہ زندگی کے کمالات اور فضائل سے وہ ضرور آگاہ تھے جن انسانی فضائل کو وہ انسانیت کا جوہر سمجھتے تھے انھیں حاصل کرنا اپنے لیے ضروری جانتے تھے ایک عرب کو عزت حاصل کرنے کے لیے تلوار کا دھنی ‘ دل کا غنی ‘ ارادے کا مستحکم اور مسائل اور مشکلات کے مقابلے میں صبر مجسم زبان کا تیور شناس اور قومی احساسات میں حد درجہ حساس ہونا ضروری تھا انھیں چیزوں کو وہ حاصل کرنا اپنی زندگی کے لیے کافی سمجھتے تھے لیکن اہل کتاب امی کے لفظ کو ان کے لیے شناخت کے طور پر استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ تحقیر کے لیے استعمال کرتے تھے ان کا قومی فخر و غرور عربوں کو اپنے برابر سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا ان کے قومی پندار نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا تھا کہ وہ عربوں کو اپنے مقابل انسانی حقوق کا حامل بھی نہیں سمجھتے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں اس لیے ہم عربوں کے کچھ حقوق دبا بھی لیں تو بھی عربوں کو اس پر شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں اور یہ خباثت معلوم ہوتا ہے یہود کے ذہنوں میں آج تک موجود ہے ان کے نیشنل پروٹوکول کے نام سے بعض در پردہ جو کتابیں چھپتی ہیں اور جس کی اشاعت بہت سارے تحفظات کے ساتھ کی جاتی ہے اس میں وہ دنیا کی کسی قوم کو اپنے مقابل سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے آپ کو دوسری قوموں کے مقابلے میں ایک برتر مخلوق تصور کرتے ہیں جب آج روشی کے زمانے میں ان کا یہ حال ہے تو اسوقت ان کے قومی فخر و غرورکا کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کے لیے اس لفظ کے استعمال کا تعلق ہے وہ صرف شناخت ہی نہیں اعزاز بھی ہے۔ اعزاز ان معنوں میں کہ اللہ کا یہ رسول قریش کے انسانی قافلے کا ایک فرد ہے مکہ میں وہ پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا اسی کی فضاء میں اس نے شعور کی آنکھ کھولی بچپن بکریاں گزارتے گزرا اور جوانی کی عمر میں چند تجارتی سفروں کے سوا باہر کی دنیا کو دیکھنے کا اتفاق تک نہیں ہوا اور مکہ کی سر زمین میں نہ کسی تعلیمی ادارے کا وجود تھا اور نہ تعلیمی فضاء میسر تھی اور پھر آپ کی معلومات کے سرچشمے بھی وہی تھے جو باقی عربوں کے تھے بایں ہمہ چالیس سال کی عمر کو پہنچتے ہی غار حرا کی تنہائی سے نکلنے والی اس ذات عزیز کی زبان مبارک سے علم و حکمت کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ ایک ایسا کلام جس کے فصاحت و بلاغت کے سامنے سارے عرب کی فصاحت گنگ ہو کر رہ گئی جس کے علوم و معارف نے دنیا بھر کے صاحبانِ علم و فضل کو سوچنے کی نئی نئی راہیں دیں اور راہنمائی کے وہ اصول بتا دئیے جس تک انسانی فکر کی رسائی ممکن نہ تھی انسانی زندگی کے وہ گوشے جو علم و دانش کے فیضان کے باوجود آج تک تاریک تھے انھیں معرفتِ ذات ‘ معرفت کائنات ‘ معرفتِ حقوق و فرائض اور معرفتِ حق کے نور سے منور کردیا گیا اور دستور اور قانون کی زبان میں ایک ایسا آئین دیا گیا جس کی ہر ادا نئے بانکپن کی حامل اور جس کا ہر لفظ شعور و آگہی کا خزانہ ہے اور یہ سب کچھ اس زبان مبارک سے ادا ہو رہا ہے جس نے کسی ادارے میں علم حاصل نہیں کیا جس نے کسی شخص کے سامنے زانوے تلمذ تہہ نہیں کیا اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم آپ کو امی کے لفظ سے یاد کر رہا ہے تو یقینا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لوگو ! اس شخص کے اعزاز کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو اور اس کی عظمت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ وہ تمہارے طرح ایک امی اور ان پڑھ ہے لیکن دنیا بھر کے علوم و معارف اس کی علمی عظمتوں کے سامنے سرنگوں ہیں اگر وہ پڑھا لکھا ہوتا تو شائد یہ کمالات ‘ کمالات ہوتے ہوئے بھی اس درجہ اعزاز کا مستحق نہ ہوتے اصل وجہ اعزاز تو یہ ہے کہ دنیا نے تعلیم و تعلم کے حوالے سے کوئی چیز اس کے حوالے نہیں کی لیکن اس نے امی ہوتے ہوئے بھی دنیا کو علوم کے خزانوں سے مالامال کردیا ‘ مزید فرمایا کہ وہ ذات جو رسول نبی اور امی ہے امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی نگاہوں نے تو اسے اب دیکھا ہے لیکن اہل کتاب تو اپنی کتابوں میں اسے صدیوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اس کی علامتیں موجود نہ ہوں اور کوئی رسول ایسا نہیں جس نے اس کے آنے کی خبر نہ دی ہو تورات اور انجیل میں اس کی علامتیں لکھی گئی تھیں اگرچہ اہل کتاب نے پوری کوشش کر ڈالی کہ کوئی علامت باقی رہنے نہ دی جائے لیکن ان کی ساری کوششوں کے باوجود آج بھی ان کی کتابوں میں ایسی آیات موجود ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کی خبر ملتی ہے۔ ان میں سے چند کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ” خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ‘ تم اس کی سننا… اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ (استثناء ب 18۔ 15۔ 19) اس سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل پر خود حضرت موسیٰ ہی نے یہ حقیقت واضح کردی تھی کہ آنے والا نبی بنی اسماعیل یعنی امیوں میں پیدا ہوگا اس لیے کہ اس سیاق میں ‘ تیرے بھائیوں میں سے ” یا “ انہی کے بھائیوں میں سے کا مطلب اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بنی اسمعیٰل میں سے ہوگا۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے گویا اسی بشارت کا اعادہ تھا جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ایک رسول کی بعثت کی دی تھی۔ تفصیلات اسکی بقرہ میں گزر چکی ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ وہ صرف نبی نہیں ہوگا بلکہ رسول بھی ہوگا اس لیے کہ ” میری مانند “ اور ” تیری مانند “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مانند ہے اور حضرت موسیٰ u‘ فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ جن کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو نجات حاصل ہوئی اور فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کردیا۔ آنحضرت ﷺ بھی اسی طرح اپنی قوم قریش اور اہل عرب کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ ” خدا سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی “۔ (اشتثنا ب 33 2) ” آتشی شریعت “ سے میرے نزدیک اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جو سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے ظاہر فرمائی ہے کہ اس کے ہاتھ میں اس کا چھاج ہوگا ‘ وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا ‘ دانے کو بھس سے الگ کرے گا پھر دانے کو محفوظ کرے گا اور بھس کو جلا دے گا یہ ٹھیک ٹھیک رسول کی وہ خصوصیت بیان ہوئی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ وہ اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتا ہے اور حق و باطل کے درمیان اس کے ذریعے سے فیصلہ ہوجاتا ہے۔ یسعیاہ نبی کی پیشنگوئی ان لفاظ میں مذکور ہے۔ ” دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا ‘ بڑا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے۔ میں نے اپنی روح اس پرر کھی وہ قوموں کے درمیان عدالت جاری کرے گا ‘ اس کا زوال نہ ہوگا اور نہ مسلا جائے گا جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے گا۔ “ یسعیاہ ب 24 (1۔ 4) سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیشن گوئی ملاحظہ ہو یسوع نے ان سے کہا کہ کیا تم نے کتاب مقدس میں پڑھا نہیں کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ “ متی 21 (42۔ 44) ” اور میں باپ سے درخواست کروں گا ‘ تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے “ یوحنا 14 (17) ” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔ “ یوحنا 14 (31) ان پیشنگوئیوں پر غور کیجیے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی بنی اسرائیل میں نہیں آیا۔ پھر ان پیشنگوئیوں کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ؟ آخر وہ پتھر کون ہوسکتا ہے جس کو معماروں نے تو رد کردیا تھا لیکن بالآخر وہی کونے کے سرے کا پتھر بن گیا ؟ یہ کس کی شان ہے کہ جو اس پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور جس پر وہ گرے گا اس کو پیس ڈالے گا ؟ یہ کس کا مرتبہ بیان ہوا ہے کہ وہ دنیا کا سردار ہے جو ابد تک لوگوں کے ساتھ رہے گا اور وہ باتیں بتائے گا جو حضرت مسیح (علیہ السلام) بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ضد اور مکابرت کی بات اور ہے لیکن جو شخص بھی ان پیشنگوئیوں پر انصاف اور غیر جانبداری کے ساتھ غور کرے گا وہ پکار اٹھے گا کہ یہ اگر کسی پر راست آسکتی ہیں تو صرف نبی امی اور رسول خاتم محمد ﷺ پر ہی راست آسکتی ہیں۔ نبی امی کے سوا اور کوئی ان کا مصداق نہیں ہوسکتا۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے ان کی روایت سے احادیث میں آنحضرت کی صفات نقل کی گئی ہیں جنھیں محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے چند ہم یہاں نقل کرتے ہیں : بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے کہ حضرت انس ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ اتفاقاً بیمار ہوگیا تو آپ اس کی بیمار پرسی کے لے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تورات پڑھ رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے کہا کہ اے یہودی میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی ہے کہ کیا تو تورات میں میرے حالات اور صفات اور میرے ظہور کا بیان پاتا ہے ؟ اس نے انکار کیا تو بیٹا بولا یا رسول اللہ یہ غلط کہتا ہے تورات میں ہم آپ کا ذکر اور آپ کی صفات پاتے ہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام ( رض) کو حکم دیا کہ اب یہ مسلمان ہے انتقال کے بعد اس کی تجہیز و تکفین مسلمان کریں ‘ باپ کے حوالہ نہ کریں۔ (مظہری) اور حضرت علی مرتضی ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے ذمہ ایک یہودی کا قرض تھا اس نے آکر اپنا قرض مانگا آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں کچھ مہلت دو ‘ یہودی نے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک میرا قرض ادا نہ کردو آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ تمہیں اختیار ہے میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا چناچہ رسول کریم ﷺ اسی جگہ بیٹھ گئے اور ظہر ‘ عصر ‘ مغرب ‘ عشا کی اور پھر اگلے روز صبح کی نماز یہیں ادا فرمائی صحابہ کرام ( رض) یہ ماجرا دیکھ کر رنجیدہ اور غضبناک ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ یہودی کو ڈرا دھمکا کر یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دے ‘ رسول اللہ ﷺ نے اس کو تاڑ لیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے پوچھا یہ کیا کرتے ہو ؟ تب انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اس کو کیسے برداشت کریں کہ ایک یہودی آپ کو قید کرے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” مجھے میرے رب نے منع فرمایا ہے کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں “ یہودی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی یہودی نے کہا اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ُ وَ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہ ِاس طرح مشرف باسلام ہو کر اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنا آدھا مال اللہ کے راستہ میں دے دیا اور قسم ہے خدا تعالیٰ کی کہ میں نے اس وقت جو کچھ کیا اس کا مقصد صرف یہ امتحان کرنا تھا کہ تورات میں جو آپ کی صفات بتلائی گئی ہیں وہ آپ میں صحیح طور پر موجود ہیں یا نہیں ؟ میں نے تورات میں آپ کے متعلق یہ الفاظ پڑھے ہیں : ” محمد بن عبد اللہ ان کی ولادت مکہ میں ہوگی اور ہجرت طیبہ کی طرف اور ملک ان کا شام ہوگا ‘ نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ سخت بات کرنے والے نہ بازاروں میں شور کرنے والے ‘ فحش اور بےحیائی سے دور ہوں گے “۔ اب میں نے ان تمام صفات کا امتحان کر کے آپ میں صحیح پایا ‘ اس لیے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ میرا آدھا مال ہے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں خرچ فرمائیں اور یہ یہودی بہت مالدار تھا ‘ آدھا مال بھی ایک بڑی دولت تھی اس روایت کو تفسیر مظہری میں بحوالہ دلائل النبوۃ بیہقی نقل فرمایا ہے۔ امام بغوی نے اپنی سند کے ساتھ کعب احبار ( رح) سے نقل کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ تورات میں آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ ” محمد اللہ کے رسول اور منتخب بندے ہیں ‘ نہ سخت مزاج ہیں نہ بیہودہ گو ‘ نہ بازاروں میں شور کرنے والے ‘ بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے بلکہ معاف فرما دیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں ‘ ولادت آپ کی مکہ میں اور ہجرت طیبہ میں ہوگی ‘ ملک آپ کا شام ہوگا اور امت آپ کی حمادین ہوگی یعنی راحت و کلفت دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر ادا کرے گی ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت وہ تکبیر کہا کرے گی وہ آفتاب کے سایوں پر نظر رکھے گی تاکہ اس کے ذریعہ اوقات کا پتہ لگا کر نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھا کرے ‘ وہ اپنے نچلے بدن پر تہبند استعمال کریں گے اور اپنے ہاتھ پائوں کو وضو کے ذریعہ پاک صاف رکھیں گے ان کا اذان دینے والا فضا میں آواز بلند کرے گا ‘ جہاد میں ان کی صفیں ایسی ہوں گی جیسے نماز کی جماعت میں ‘ رات کو ان کی تلاوت اور ذکر کی آوازیں اس طرح گونجیں گی جیسے شہد کی مکھیوں کا شور ہوتا ہے “ (مظہری) ۔ ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت سہل مولیٰ خیثمہ سے سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت سہل نے فرمایا کہ میں نے خود انجیل میں محمد مصطفیٰ ﷺ کی یہ صفات پڑھی ہیں کہ ” وہ نہ پست قد ہوں گے نہ بہت دراز قد ‘ سفید رنگ دو زلفوں والے ہوں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان ایک مہر نبوت ہوگی ‘ صدقہ قبول نہ کریں گے ‘ حمار اور اونٹ پر سوار ہوں گے ‘ بکریوں کا دودھ خود دوہ لیا کریں گے ‘ پیوند زدہ کرتہ استعمال فرماویں گے اور جو ایسا کرتا ہے وہ تکبر سے بری ہوتا ہے وہ اسماعیل (علیہ السلام) کی ذریت میں ہوں گے ‘ ان کا نام احمد ہوگا “۔ ابن سعد نے طبقات میں دارمی نے اپنے مسند میں بیہقی نے دلائل نبوت میں حضرت عبد اللہ بن سلام ( رض) سے روایت نقل کی ہے جو یہود کے سب سے بڑے عالم اور تورات کے ماہر مشہور تھے انھوں نے فرمایا کہ تورات میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ الفاظ مذکور ہیں ” اے نبی ! ہم نے آپ کو بھیجا ہے سب امتوں پر گواہ بنا کر اور نیک عمل کرنے والوں کو بشارت دینے والا ‘ برے اعمال والوں کو ڈرانے والا بنا کر اور امیین یعنی عرب کی حفاظت کرنے والا بنا کر ‘ آپ میرے بندے اور رسول ہیں ‘ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے ‘ نہ آپ سخت مزاج ہیں نہ جھگڑالو اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے ‘ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک وفات نہ دیں گے جب تک ان کے ذریعہ ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں اور اندھی آنکھوں کو کھول دیں اور بہرے کانوں کو سننے کے قابل بنادیں اور بندھے ہوئے دلوں کو کھول دیں “۔ اس جیسی ایک روایت بخاری میں بروایت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ( رض) بھی مذکور ہے۔ اور کتب سابقہ کے بڑے ماہر عالم حضرت وہب بن منبہ سے بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی فرمائی کہ اے دائود ! آپ کے بعد ایک نبی آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ‘ میں ان پر کبھی ناراض نہ ہوں گا اور وہ کبھی میری نافرمانی نہ کریں گے اور میں نے ان کے لیے سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کردی ہیں ‘ ان کی امت امت مرحومہ ہے میں نے ان کو وہ نوافل دیئے ہیں جو انبیاء کو عطا کی تھیں اور ان پر وہ فرائض عائد کیے ہیں جو پہلے انبیاء پر لازم کیے گئے تھے یہاں تک کہ وہ حشر میں میرے سامنے اس حالت میں آئیں گے کہ ان کا نور انبیاء (علیہم السلام) کے نور کی مانند ہوگا ‘ اے دائود ! میں نے محمد ﷺ اور ان کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے ‘ میں نے ان کو چھ چیزیں خصوصی طور پر عطا کی ہیں جو دوسری امتوں کو نہیں دی گئیں اول یہ کہ خطا و نسیان پر ان کو عذاب نہ ہوگا جو گناہ ان سے بغیر قصد کے صادر ہوجائے اگر وہ اس کی مغفرت مجھ سے طلب کریں تو میں معاف کر دوں گا اور جو مال وہ اللہ کی راہ میں بطیب خاطر خرچ کریں گے تو میں دنیا ہی میں ان کو اس سے زیادہ دے دوں گا اور جب ان پر کوئی مصیبت پڑے گی اور وہ اِنَّا للہ وِاِنَّا الیہ راجعون کہیں گے تو میں ہر اس مصیبت کو صلوٰۃ و رحمت اور جنت کی طرف ہدایت بنا دوں گا وہ جو دعا کریں گے میں قبول کروں گا کبھی اس طرح کہ جو مانگا ہے وہی دے دوں اور کبھی اس طرح کہ اس دعا کو ان کی آخرت کا سامان بنا دوں۔ (روح المعانی) آنحضرت ﷺ کی علامات نبی کریم ﷺ کی یہ وہ صفات و علامات ہیں جو پہلی آسمانی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں اور مزید صفات پروردگار نے اس آیت کریمہ میں بھی بیان فرمائی ہیں اگرچہ ان کا تذکرہ دوسرے الفاظ میں سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی ہے لیکن یہاں بطور خاص انھیں ذکر کیا جا رہا ہے ان میں سے سب سے پہلی جو صفت بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ 1 امر بالمعروف نہی عن المنکر نبی آخر الزماں ﷺ لوگوں کو معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے ‘ معروف کا لفظی معنی جاننا پہچانا اور منکر کا لغوی معنی اوپرا اور اجنبی ہے جس کی پہچان میں دشواری پیش آئے ‘ اس جگہ معروف سے مراد وہ نیک کام ہے جو شریعت اسلام میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور عقل اور سلامتِ فکر اس کی پہچان میں دشواری محسوس نہیں کرتی اور منکر سے مراد وہ برے کام ہیں جن کا دین اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور اسلامی ذوق کی حامل عقل انھیں قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ ہم سورة انعام میں اس کا ذکر کرچکے ہیں ان دونوں کے حوالے سے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے آخری رسول معروف کا حکم دیں گے اور برائی اور منکر سے روکیں گے ‘ عجیب بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی صفت ہے معروف کا حکم دینا اور برائی سے روکنا جو آنحضرت ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہ فریضہ بھی تھا اور پہچان بھی۔ اس کے باوجود آنحضرت کے حوالے سے بطور خاص اس کا ذکر کیا جانا یقینا اپنے اندر کوئی سبب رکھتا ہے غور کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ بات کہ اگرچہ یہ صفت تمام انبیاء کرام میں پائی جاتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ میں اس صفت نے انتہائی کمال اور اعجاز کے ساتھ ظہور کیا ہے آپ نے اپنے بگڑے ہوئے معاشرے کو جس اسلوب کے ساتھ دعوت دی ہے اور رفتہ رفتہ جس طرح منکرات سے انھیں روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے وہ یقینا آپ کی ذات کا اعجاز بھی ہے اور آپ کی خصوصیت بھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) منکرات کو روکنے میں خاص اہمیت رکھتے ہیں آپ کی طبیعت میں غیر معمولی جلال ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پر ہیبت شخصیت بخشی ہے اس لیے آپ نے کبھی بھی کسی منکر کو برداشت نہیں کیا اور نہایت سختی سے اسے روکا لیکن جب ہم نتائج پر غور کرتے ہیں تو وہ نہایت قابل تعریف ہونے کے باوجود اس سطح تک نہیں پہنچے جس سطح تک آنحضرت ﷺ کا کام پہنچا ہے آپ نے معروف کی بھی آبیاری کی لیکن بنی اسرائیل نے عموماً آپ کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا ہے حتیٰ کہ تورات ایک سے زیادہ جگہ ہمیں اس بات کی خبر دیتی ہے کہ بنی اسرائیل کے اس رویے سے مایوس ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے شکایت کی لیکن اس کے برعکس ہم آنحضرت ﷺ کی مساعی جمیلہ اور اس پر مرتب ہونے والی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں تو ایک حیرت افزا صورت حال سامنے آتی ہے دشمنوں کی ہرچند مخالفتوں کے باوجود آپ نے انہی میں سے نہایت کامیابی سے ہیرے اور جواہر چنے ہیں۔ اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی گئی ہے ‘ ان کی سیرت و کردار کا معیار بھی بلند سے بلند تر ہوتا گیا حتی کہ آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں گناہ کا وجود صفر تک پہنچ گیا ‘ معروف کی بہار چھا گئی اور منکرات کو اس سوسائٹی سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا ‘ پھر یہ بات جانی پہچانی ہے کہ آپ کو جس قوم سے واسطہ پڑا تھا ان کی غالب اکثریت نہایت جاہل اور اکھڑ لوگوں پر مشتمل تھی انھیں کوئی بات سمجھانا ‘ نیکی کی طرف مائل کرنا اور برائی چھڑوانا یہ بےحد مشکل کام تھا لیکن آپ نے بدو چرواہوں تک کو جس دل آویز طریقے سے نیکیوں کی طرف مائل کیا اور منکرات کو ان کی زندگی سے نکالا وہ آپ کی اس درخشاں صفت کی روشن مثال ہے ‘ آپ ہر سطح کے آدمی کو سمجھانے کی غیر معمولی صلاحیت سے متصف تھے۔ اسی طرح دقیق سے دقیق مضامین کو بھی نہایت سادہ اور سہل الفاظ میں سمجھا دینا اور مشکل سے مشکل بات کو پانی کردینا آپ کی طبیعت کا خاص جوہر تھا ہر سطح کے مخاطب سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنا اور اس کے ذوق کا لحاظ کرتے ہوئے اسلوبِ کلام اختیار کرنا اس کا بھی بار بار آپ کی گفتگو اور آپ کے خطبات سے اظہار ہوتا ہے ‘ شائد اسی غیر معمولی صلاحیت اور غیر معمولی اللہ کی رحمت کے باعث آپ کی اس صفت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ دوسری بات جو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک استعلاء برتری قوت اور اقتدار کے طالب ہیں کیونکہ امر اور نہی ‘ فہمائش ‘ فرمائش ‘ درخواست اور عرض کرنے کو نہیں کہتے ‘ اس کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ تمہیں برائی سے روکا جا رہا ہے اور نیکی کا حکم دیا جا رہا ہے یہ نیکی تمہیں کرنا ہوگی اور برائی سے روکنا ہوگا اگر یہ نیکی نہیں کرو گے تو حکم عدولی میں پکڑے جاؤ گے اور برائی سے نہیں روکو گے تو مجرم سمجھ کر احتساب کے حوالے کر دئیے جاؤ گے یہ صفت اسی کو میسر آسکتی ہے اور یہ صورت حال اسی وقت جنم لے سکتی ہے جب کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا اقتدار پر فائز ہو اس کی حیثیت صرف ایک رسول کی نہ ہو بلکہ سربراہِ ریاست کی بھی ہو اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صفت کو بیان کر کے پروردگار اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ ہمارا آخری پیغمبر صرف داعی بن کر نہیں آئے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کی دعوت کو کامیابی عطا فرمائیں گے وہ جس انقلاب کی دعوت لے کر اٹھے گا اس انقلاب کو برپا ہونے کا موقع دیا جائے گا بالآخر یہ دعوت ایک ریاست کی شکل اختیار کرلے گی اور ہمارا پیغمبر ریاست کا سربراہ بن کر نیکی اور خیر کی قوتوں کو غالب کر دے گا اور برائی کو مغلوب کر کے جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صفت کے بیان کرنے سے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےہمہ وجود جو کامیابی ملنے والی تھی اس کی خبر بھی دے دی گئی ہے اور آپ کی حیثیت کا تعین بھی فرما دیا گیا ہے۔ 2 طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام کرے گا اس کے بعد فرمایا گیا کہ وہ نبی امی جب آئے گا تو وہ لوگوں کے لیے طیبات کو حلال کرے گا اور خبائث کو حرام کرے گا۔ یہ دونوں باتیں بھی ہر رسول کی صفات میں شامل رہی ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی اس خصوصیت کو بطور خاص بیان کرنے کا در حقیقت ایک پس منظر ہے جس کا کسی حد تک ذکر سورة آل عمران ‘ سورة مائدہ اور سورة الانعام میں گزر چکا ہے ‘ وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے صرف خبائث ہی کو حرام نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کی سرکشی کی سزا کے طور پر بعض ایسی چیزیں بھی ان پر حرام کردی گئی تھیں جو اگرچہ خبائث نہیں بلکہ طیبات میں داخل تھیں لیکن ان کا حرام کرنا بنی اسرائیل کے لیے ایک سزا تھا مثلاً تمام ناخن والے جانور اور گائے بکری وغیرہ کی چربی یہ اپنی ذات میں قابل حرمت نہ تھیں لیکن بنی اسرائیل کی سزا کے طور پر ان کو حرام کیا گیا۔ اسی طرح ان پر حلال و حرام کے سلسلے میں بعض ایسی پابندیاں لگائی گئیں جس کی وجہ سے بعض حلال جانور بھی ان پر حرام ہوگئے ‘ مثلاً ان سے یہ کہا گیا کہ چوپایوں میں صرف وہ چوپائے حلال ہوں گے جن کے پائوں چرے ہوئے ہوں اور وہ جگالی بھی کرتے ہوں چناچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اونٹ ‘ سافان اور خرگوش جیسے جانور بھی ان پر حرام ہوگئے۔ 3 بوجھ اتارے گا اور بیڑیاں کاٹے گا مزید فرمایا کہ وہ آنے والاپیغمبر لوگوں سے بوجھ اتارے گا اور ان سے بیڑیاں کاٹ دے گا جو انھوں نے پہن رکھی ہیں اصر بوجھ اور بار گراں کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے آدمی حرکت نہ کرسکے اور اغلال ‘ غلو کی جمع ہے اس ہتھ کڑی کو کہتے ہیں جس سے مجرم کے ہاتھوں کو اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور وہ بالکل بےاختیار ہوجاتا ہے یہاں ان دونوں چیزوں سے مراد وہ سخت احکام و واجبات ہیں جو اصل دین میں مقصود نہ تھے لیکن بنی اسرائیل کی سرکشی کے سبب انھیں ان کا حکم دیا گیا جیسا کہ ابھی اس کا کچھ ذکر ہوا ہے اور یا ان کے فقہاء نے اپنی فنی موشگافیوں کے باعث بلا وجہ بعض چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرلیا ‘ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ چربی حرام کی تھی جو گوشت کی جز کی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ کمر یا آنکھوں یا ہڈیوں سے آسانی سے الگ کی جاسکتی ہے لیکن تورات کی تفصیلات پڑھ کر دیکھئے انھوں نے مطلقاً اپنے اوپر چربی حرام کرلی یعنی وہ چربی بھی جسے جانور کے گوشت اور آنکھوں اور ہڈیوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بالآخر اسی طرح کی چیزیں ان کے لیے زندگی کا بوجھ بن گئیں اور پھر وہ جب اس پر عمل نہ کرسکے اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو قدرت نے ان کی سرکشی کے علاج کے لیے ایسے سخت احکام ان کو دئیے جن پر چلنا آسان نہ تھا مثلاً ان کو حکم دیا گیا کہ کپڑا ناپاک ہوجائے تو اس کی پاکی کے لیے دھو دینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ جس جگہ نجاست لگی ہو اسے کاٹ دیا جائے ‘ اسی طرح جہاد کی صورت میں جو مال غنیمت انھیں ملتا تھا اس کو استعمال میں لانا ممنوع قرار دے دیا گیا ‘ ہفتہ کے دن شکار کرنے پر پابندی لگا دی گئی ‘ قتل عمد کی صورت میں قصاص واجب تھا خون بہا کی کوئی صورت نہیں تھی ‘ اسی طرح کے سخت احکام ہیں جنھیں انھیں اصر اور اغلال سے تعبیر کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جب وہ مبعوث ہوں گے تو انسانوں کی گردنوں سے یہ طوق اتاریں گے اور ان کو اس بار گراں سے نجات دیں گے ‘ اس لیے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں جو دین لے کر آیا ہوں وہ آسان ہے ‘ مشکل نہیں اور میں تمہارے لیے ایک سہل اور آسان شریعت چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں نہ کوئی مشقت ہے اور نہ گمراہی کا اندیشہ۔ اس کے بعد کامیابی کے لیے آنحضرت ﷺ پر ایمان اور مزید تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے خاتم النبین ﷺ کی ان صفات اور کمالات کا ذکر فرمانے کے بعد بنی اسرائیل اور آنے والی نوع انسانی کو واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ اب اگر کوئی کامیابی حاصل کرنے والا گروہ ہے تو وہ صرف وہ ہے جو اس آخری پیغمبر پر ایمان لائے اس طرح سے آنے والی دنیا کو کامیاب دنیا کی خبر بھی دی گئی ہے ‘ پیشگوئی بھی فرمائی ہے اور ضمنی طور پر حکم بھی دیا جا رہا ہے ‘ اور پھر ایمان کے ساتھ ساتھ مزید چند احکام بھی دئیے گئے جن کی تعمیل کیے بغیر نہ ایمان کی حقیقت متحقق ہوتی ہے اور نہ ایمان کے فوائد مرتب ہوتے ہیں ‘ اس لیے ایمان کے بعد تین باتوں کا ذکر فرمایا : 1 تعظیم و تکریم 2 نصرتِ پیغمبر 3 قرآن کریم کا اتباع۔ اب ایک ترتیب سے ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے ایمان کی وضاحت ایمان کا لفظ اگرچہ زبانی اقرار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا حقیقی معنی سچے دل سے ماننا اور یقین کرنا ہے لغت میں اٰمَن َلہٗ کا معنی ہے صَدَّقَہٗ وَاعْتَمَدَ عَلَیْہِ (اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا) اور اٰمَنَ بِہٖ کے معنی ہیں اَیْقَنَ بِہٖ (اس پر یقین کیا) ۔ قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے۔ اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (الحجرات۔ 15) ” مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور پھر شک میں نہ پڑیں۔ “ فَلَا وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمًا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمْوُا تَسْلِیْمًا (النسآء 65) ” پس نہیں ‘ (اے نبی) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔ “ ان سے بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار : یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلہٖ (النسآء 136) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ یا ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر۔ “ انسان ایک عالم اصغر ہے اس کی فکری پیچیدگیوں اور احساس کی ناہمواریوں کو سمجھنا آسان نہیں جب کوئی نئی نظریاتی بات انسان کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کی فکر اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے وہ اپنے پہلے سے مانے ہوئے خیالات و تصورات میں کوئی ترمیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا طرز کہن اسے عزیز ہوتی ہے اور آئینِ نو سے اسے گھبراہٹ ہوتی ہے اس لیے ممکن حد تک وہ نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتا ہے۔ اگر رفتہ رفتہ قبولیت کے دروازے تک پہنچتا بھی ہے تو درِ قبول پوری طرح کھلنے نہیں پاتا اس میں نئی طرح کی رکاوٹیں پیدا ہونے لگتی ہیں اب وہ بات کو کسی حد تک قبول کرتا ہے لیکن وہ گلے سے نیچے نہیں اترتی قبولیت کا اظہار کرتا ہے لیکن صرف زبانی اقرار کی حدتک، بڑی مشکل اور طویل تربیت کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ دل اور زبان میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں تک پہنچ کر بھی بعض دفعہ اس میں ایک اور پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے وہ یہ کہ جب وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی بات کو بھی مانتا ہے تو تب بھی اس کے لیے وہ ذریعہ جس پر وہ اعتماد کرتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ ماننے پر مجبور ہوتا ہے وہ اس کی عقل ہوتی ہے یا وقت کا چلن ہوتا ہے جب عقلی طور پر کسی بات سے مطمئن ہوجاتا ہے تو اسے مان لیتا ہے یا جب وہ لوگوں کو دیکھتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو مان رہی ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں کا ماننا بےسبب تو نہیں ہوگا اس لیے وہ بھی انسانی ریوڑ کے ساتھ چلنا شروع کردیتا ہے۔ اللہ اور رسول کے معاملے میں بھی وہ عموماً یہی رویہ اختیار کرتا ہے اور اسی کو ایمان کا نام دیتا ہے آپ نے اگر غور فرمایا ہے تو آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ ایمان کے سلسلے میں تین بنیادی کمزوریاں ہیں جس میں بالعموم انسان مبتلا ہوتا ہے۔ 1 وہ زبانی اقرار کو ایمان سمجھتا ہے۔ 2 اس کے نزدیک اصل معیار اور کسوٹی عقل ہوتی ہے وہ اسی پر اعتماد کرتا اور اسی کو بھروسے کے قابل سمجھتا ہے وہ اس کے اعتماد پر جس بات کو تسلیم کرتا ہے اس میں اسے غلط فہمی یہ رہتی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں حالانکہ وہ اپنی عقل پر ایمان لاتا ہے کیونکہ عقل جس طرف راہنمائی کرتی ہے وہ اس طرف چلنا شروع کردیتا ہے جس کو ماننے کی ترغیب دیتی ہے اسے ماننے کے لیے تیار ہوجاتا ہے وہ بہت سی باتوں کے بارے میں جانتا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہیں لیکن عقل جب تک انھیں سند قبولیت عطا نہیں کرتی اس وقت تک وہ انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ غور فرمائیے ! ایسی صورت میں کیا یہ بات خود فریبی سے کم ہے کہ آدمی اسے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا نام دے۔ 3 انسانوں کی اکثریت یا انسانوں کے بالادست طبقے یا وہ لوگ جو ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں ‘ بالعموم انسان کی طبیعت پر حکمرانی کرتے ہیں جس طرف ان کا جھکائو ہوتا ہے انسان بلا سوچے سمجھے عقل کو زحمت دئیے بغیر ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی بات کو مان کر ان کی پیروی کرنے لگتا ہے یہی تین طریقے ہیں جس نے ہمیشہ انسانوں کو حقیقی ایمان سے دور رکھا ہے اللہ اور اللہ کے رسول پر جس ایمان کی دعوت دی گئی ہے اور جس کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت بنایا گیا ہے وہ ایمان ان تینوں طرح کے ایمان سے بالا بلند ہے اللہ اور اس کا رسول جس ایمان کی دعوت دیتا ہے اس کی پہلی بنیاد ہی یہ ہے کہ اس کا دارومدار زبانی اقرار پر نہ ہو بلکہ دل کی تصدیق بھی اس میں شامل ہو اگر ایک بات زبان تک محدود رہتی ہے لیکن دل پر اثر انداز نہیں ہوتی اور دل سے اس کی تائید نہیں اٹھتی تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت ہیں ‘ اقبال مرحوم نے ٹھیک کہا ؎ تو عرب ہو یا عجم ہو تیرا لا الہ الا لغتِ غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی اسی طرح دوسری شرط یہ ہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان عقل کی تائید کا محتاج نہیں جس بات کو ماننے کا حکم دیا گیا ہے اگر اسے عقل تسلیم کرتی ہے تو یہ عقل کے لیے سرمایہ افتخار ہے لیکن اگر وہ عقل کی گرفت میں نہیں آتی تو پھر اس بات کا انتظار نہیں کیا جائے گا کہ عقل اسے تسلیم کرے تو اسے مانا جائے بلکہ اس کے ماننے کی بنیاد عقل پر اعتماد نہیں بلکہ اللہ کے رسول پر اعتماد ہے ‘ عقل یقینا عطیہ الٰہی ہے لیکن ایک تو انسانوں کی عقل میں باہمی بےحد تفاوت ہے اور مزید یہ کہ عقل کی وسعتیں عالم محسوسات اور معقولات سے آگے نہیں بڑھ سکتیں اور دین کا تعلق تو عالم مابعدالطبیعات عالم الٰہیات اور عالم آخرت سے بھی ہے پھر انسانوں کے اجتماعی مسائل اور اقوام کے عروج وزوال کے اخلاقی ضوابط ایسے نازک معاملات ہیں جنھیں عقل جیسی نارسا قوت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ عقل کی تمام خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ غلطیوں سے پاک نہیں وہ تو وہم اور اشتعال جیسے محرکات سے متاثر ہو کر غلطی کیے بغیر نہیں رہتی چہ جائے کہ اسے انسانی زندگی کے وسیع تر اور اجتماعی دبائو کے مقابلے میں کھڑا کیا جاسکے اس لیے زندگی کے معاملات میں عافیت کا راستہ اس کے سوا ممکن ہی نہیں کہ اس کا دارومدار اس ذریعہ علم پر رکھا جائے جو ہر طرح کی غلطی سے پاک ہر طرح کی نارسائی سے معرا اور ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہے یہ وہ ذریعہ علم ہے جسے وحی الٰہی کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول اسی ذریعہ علم کے پیغامبر بن کر تشریف لاتے ہیں اس لیے اعتماد کے لائق کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے تو وہ یہی ذریعہ ہے اور اسی کے اعتماد پر جس تسلیم وانقیاد کی بنیاد رکھی جائے گی ‘ وہی زندگی کے سفر میں قابل اعتماد اور قابل نجات ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی شرط ہے کہ اللہ کے نبی کے اعتماد پر جس بات کو تسلیم کیا جائے ‘ اس میں زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ ایسی تصدیق شامل ہونی چاہیے جو یقین اور اذعان سے عبارت ہو کہ جس پر ماننے والے کو اس درجے کا یقین حاصل ہو کہ شک و ارتیاب کا کوئی کانٹا کبھی اس میں اپنی جگہ نہ بنا سکے دنیا اس میں ہزار شکوک پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ مضبوط ایمان یقین کی قوت سے بڑی آسانی سے اس کا مقابلہ کرسکے ‘ یہی وہ قوت ہے جو انسان میں سیرت و کر اد کی تعمیر کا باعث بنتی ہے ‘ ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ کرتی ہے اور بڑے سے بڑے نقصان کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا تھا ؎ یقیں افراد کا سرمایہ تعمیرِ ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے یہ انسانی کمزوری ہے کہ جب تک کسی حقیقت کا یقین اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا وہ اس کے لیے نہ تو عمل پر آمادہ ہوتا ہے نہ وقت دینے پر نہ مال صرف کرنے پر اور نہ کسی طرح کی قربانی دینے پر ‘ اللہ کے نبی انسانی سیرت و کردار کی تعمیر اور انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے تشریف لاتے ہیں ان کے پیش نظر زندگی کے ایک ایک شعبے کو تبدیل کرنا ہوتا ہے ہر غلط چیز کو نکال کر ہر صحیح چیز کو رواج دینا ہر برائی کو ختم کر کے ہر نیکی کو فروغ دینا خواہشات کو حدود میں محدود کر کے صالح جذبات کو قوت بخشنا ‘ انسانی معاشرے کے بالا دست طبقوں کو انکسار سکھانا اور کمزور اور ناتواں طبقوں میں اٹھنے کی امنگ پیدا کرنا اس طرح سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو معاشرے اور سماج کے راستے سے ہوتے ہوئے ایوانِ ہائے حکومت تک بدل دینا یہ پیغمبر کے پیش نظر ہوتا ہے یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے جس سے بڑی تبدیلی کا تصور بھی انسانی زندگی میں ممکن نہیں معمولی تبدیلی بھی انسان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو گوارا کرلے اس تبدیلی کو بروئے کار لانے کے لیے ایک ہی زور دار جذبہ ہے جو کامیابی سے اس منزل کو آسان کردیتا ہے وہ یہی یقین اور ایمان ہے جب ایمان لانے والا اپنے پیغمبر کی صداقت اس کی معصومیت اس کے علم کی بےپناہی اس کی بےلوث قیادت اس کے لائے ہوئے نظام زندگی کے بےعیب ہونے پر پوری طرح یقین پیدا کرلیتا ہے تو اس کے لیے اسے قبول کرنا دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کے لیے اسے لازمی سمجھنا اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا اور دنیا کے علمی فتنوں اور تہذیبی واہموں کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا اس کی عقل اگر کسی وقت پیغمبر کی بات نہیں سمجھتی تو وہ عقل کو جھٹک کر پیغمبر کی بات کے سامنے سر جھکا دیتا ہے کیوں کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ عقل تو نا رسا ہے لیکن پیغمبر کے علم کا رشتہ ‘ تو اللہ کے علم کے ساتھ جڑا ہوا ہے اگر کبھی کسی بھی دور کے علمی مسلمات پیغمبر کی تعلیم سے متصادم ہوتے ہیں تو وہ علمی مسلمات کو بڑی آسانی سے ٹھکرا دیتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ دنیائے علم نے آج تک بارہا ٹھوکریں کھائی ہیں لیکن پیغمبر کا علم ایسی ہر ٹھوکر سے مبرا ہے اگر دنیا کا چلن کبھی وحی الٰہی کے خلاف ہوتا ہے تو وہ پیروی صرف وحی الٰہی کی کرتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی نام نہاد صداقت غلط ہوسکتی ہے بلکہ ناممکن چیزیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر کا علم اور اس کی راہنمائی کبھی غلطی قبول نہیں کرتی اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے جو صداقتیں عطا فرمائی ہیں اور جو خبریں دی ہیں یہ تو ممکن ہے کہ آدمی اس بات کو تسلیم کرلے کہ صبح سورج طلوع نہیں ہوگا یا پانی الٹی طرف بہنا شروع کر دے گا دریا کے دو کنارے مل جائیں گے ‘ یا تاریخ کے دو باب جمع ہوجائیں گے لیکن یہ وہ کبھی قبول نہیں کرتا کہ اللہ کے رسول کی دی ہوئی راہنمائی کبھی غلط ہوسکتی ہے یہ وہ یقین ہے جسے ایمان کا نام دیا گیا ہے اور یہی یقین صحابہ کے رگ و پے میں سما چکا تھا جنگ خندق میں جبکہ عرب کی پوری قوت صرف تین ہزار محدود افرادی قوت پر حملہ آور ہوئی تو دنیا کا کوئی مدبر بلکہ معمولی عقل رکھنے والا بھی یہ گمان نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمانوں کی یہ معمولی قوت بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن خندق کھودتے ہوئے جب آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو خبر دی کہ میں نے یہ جو چٹان پر تین ضربیں لگائی ہیں ان میں میں نے یمن، روم اور ایران کے محلات دیکھے ہیں تم وقت کی ان تینوں بڑی قوتوں پر غالب آئو گے تو یہ لوگ جو حالات میں گھرے ہوئے اپنی زندگی تک کا یقین نہیں کرسکتے تھے ان میں سے کسی نے یہ خیال تک نہیں کیا کہ یہ خبر غلط ہوسکتی ہے انھوں نے پوری آمادگی سے دل و دماغ میں اس خبر کو بٹھایا اور اس یقین سے سر شار ہوگئے کہ واقعی ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ ان بڑی طاقتوں پر ہمیں غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ رسول ﷺ کا ارشاد کبھی غلط نہیں ہوسکتا منافقین نے مسلمانوں کو ہرچند بہکانا چاہا کہ عرب بھر کے مشرک تم حملہ آور ہوگئے ہیں اب تم کسی طرح بچ نہیں سکتے آئو ان سے کوئی معاملہ کرلیں قرآن کریم بتاتا ہے کہ مسلمان بجائے ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کے بےاختیار پکار اٹھے کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جس کا اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا ہے چناچہ بجائے سراسیمہ ہونے کے ان کے ایمانوں میں اور اضافہ ہوا۔ صحابہ کی پوری زندگی اسی یقین و ایمان کے مظاہر کی داستان ہے ہمیں قدم قدم پر ان کی زندگی میں ایمان کی قوت کی درخشاں مثالیں ملتی ہیں اور اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں اللہ کے بعد اللہ کے رسول کی زبان اور ان کی تعلیمات پر ایسا مضبوط یقین پیدا ہوگیا تھا جس نے ان کی پوری شخصیتوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا اس کے لیے انھیں کسی طرح قربانی دیتے ہوئے تامل نہیں ہوتا تھا کیونکہ یقین ایسی ہی قوت کا نام ہے جس میں جل مرنا بھی انسان کے لیے راحت سے کم نہیں ہوتا اور ایسے یقین سے تہی دامن ہوجانا غلامی سے بھی بدتر ہوتا ہے اقبال نے بالکل سچ کہا ؎ یقیں مثل خلیل آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بےیقینی آج امت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ایمان کے دعوی داروں کی کمی نہیں لیکن ان کی اکثریت کا ایمان زبان کے اقرار سے آگے نہیں بڑھتا ‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امت کی اکثریت عمل کی قوت سے بےگانہ ہوگئی ہے مومن اور مسلمان ہونے کے دعوے بہت ہیں لیکن اسلامی تعلیمات اپنے ماننے والوں کے عمل کو ترستی ہیں مساجد روز بروز نمازیوں سے خالی ہوتی جا رہی ہیں اور اجتماعی زندگی بہت حد تک اسلامی تعلیمات سے بےگانہ ہی نہیں باغی ہوتی جا رہی ہے اور جو لوگ ایک قدم آگے بڑھ کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ ہر اسلامی تعلیم اور آنحضرت کے ہر ارشاد کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں یعنی ان کے ایمان کا دارومدار آنحضرت کی ذات گرامی نہیں بلکہ اپنی عقل ہے جس بات کو عقل قبول کرلیتی ہے وہ اسے قبول کرلیتے ہیں اور جسے عقل قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے وہ چاہے کیسا ہی بنیادی حکم کیوں نہ ہو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ آئینی تہذیبی اور تمدنی مسائل میں بیرونی تعلیمی اور تہذیبی اثرات کے تحت بری طرح دماغی آوارگی اور قلبی ناآسودگی کا شکار ہے اور ہمارے اجتماعی ادارے بیرونی اثرات کے زیر اثر ہیں یا فکری انارکی کی گرفت میں ہیں اس کا علاج اس کے سوا ممکن نہیں کہ مسلمانوں کو دوبارہ حقیقی ایمان سے آشنا کیا جائے جس کا اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے۔ ایمان کی تشریح حدیث سے ایمان کی تشریح و تفسیر کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے ہمیں مزید روشنی ملتی ہے جس سے ایمانی تفصیلات کو طے کرنا آسان ہوجاتا اور تکمیلِ ایمان میں مدد ملتی ہے آپ نے فرمایا لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین ” تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین سے اور اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں “ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ” سفر کے دوران ایک گفتگو میں حضرت عمر فاروق ( رض) نے گذارش کی کہ حضور آپ مجھے اپنے والدین اپنی اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں لیکن اپنی جان سے نہیں تو آپ نے فرمایا کہ عمر مجھے اپنے رب کی قسم ہے جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے زیادہ پیارا نہیں ہوجاتا اس وقت تک تم کامل مومن نہیں ہوسکتے “ ان دونوں احادیث سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکمیل ایمان کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ ہر صاحب ایمان اللہ کے آخری رسول ﷺ کو اپنے مال و دولت اپنے اعزہ و اقربا اپنی اولاد اور اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی آنحضرت ﷺ کی ذات اور ان مذکورہ چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو حضور کا انتخاب کرے اور دوسرے کو چھوڑ دے یعنی والدین ایسی بات کہیں جو اللہ کے رسول کے احکام کے خلاف ہو یا اولاد ایسی فرمائش کرے شریعت جس کی اجازت نہ دیتی ہو یا بیوی ایسا مطالبہ کرے آنحضرت نے جس بات سے روکا ہو یا آدمی کا نفس خلاف شریعت کسی کام کو کرنا چاہے تو اب رسول ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے احکام اور آپ کے ارشادات پر عمل کیا جائے اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیا جائے حتی کہ کبھی رسول ﷺ کی محبت تمام مال و دولت کے خرچ کرنے کا تقاضا کرے یا آپ کی محبت یہ چاہے کہ اپنی اولاد کو چھوڑ دو یا جان دینے کا مطالبہ کرے تو پھر آپ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مال و دولت اولا دحتی کہ اپنی جان کو بھی قربان کردیا جائے راحتیں اور محبتیں بھی اس حد تک باقی رہیں جس حد تک آنحضرت کے احکام اجازت دیتے ہیں اور آپ سے تعلق اس تعلق کو برداشت کرتا ہو اور اگر حال یہ ہو کہ خوشی کے ہر موقع پر آدمی اپنے نفس کا تابع ہو کر رہ جائے یا برادری اور احباب کا دبائو اسے ان کے اشاروں پر چلنے پر مجبور کر دے یا حالات کی گرفت اسے اپنے ڈھب پر چلنے کے لیے مجبور کرے اور ایمان کا دعوی دار اس بات کو بھول جائے کہ مجھے رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ بھی ہے اس لیے میں ان کی محبت سے متصادم کسی بات کو جائز نہیں سمجھ سکتا تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نے محبت کے نام پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے یا ہم دروغ گوئی کا شکار ہیں۔ یہ تو وہ کم سے کم مطالبات ہیں جو آنحضرت ﷺ کی محبت کا تصور کرتے ہی سامنے آجاتے ہیں لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے اس کی اطاعت آدمی کا مقصد بن جاتی ہے اس کی ایک ایک ادا قلب و نگاہ کے لیے تسکین کا باعث ہوتی ہے اس کی پسندیدہ چیزیں پسندیدہ بن جاتی ہیں اور ناپسندیدہ چیزیں ناپسندیدہ بن جاتی ہیں جو چیزیں اس کے یہاں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں وہ محبت کرنے والے کی نگاہ میں بھی مقاصد کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں جن چیزوں کی عزت و حرمت کے لیے اس نے جان کھپائی ہوتی ہے محبت کرنے والا بھی انہی چیزوں کے لیے جان کھپانا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چیزیں اس کے یہاں ترجیح کے لائق ہوتی ہیں محبت کرنے والا بھی انہی کو ترجیح دینا ضروری سمجھتا ہے حتی کہ اس کا کھانا پینا اس کا اوڑھنا پہننا اس کا چلنا پھرنا اس کا سونا جاگنا جو سراسر انسانی عادتوں سے عبارت ہے وہ بھی محبت کرنے والے کے دل میں محبت کے پیغام سے کم نہیں ہوتا وہ اس کی ہر ادا کی نقل کرتا اور ہر ادا پر جان دینا محبت کا لازمی تقاضا سمجھتا ہے اور پھر یہ محبت چند دنوں کا معاملہ نہیں بلکہ زندگی بھر کا وظیفہ ہے جب تک محبوب زندہ ہے تب بھی یہی مشغلہ ہے اور جب محبوب دنیا سے چلا جاتا ہے تو عادات واطوار مقاصد و ترجیحات اور حسن و قبح کے معیارات زندگی بھر کا معمول بن جاتے ہیں کوئی اور چیز زندگی سے نکل سکتی ہے لیکن محبوب کا یہ ورثہ زندگی سے الگ نہیں ہوسکتا ٹھیک کہا کسی نے ؎ دریچے بند کر کے سونے والو محبت عمر بھر کا رتجگا ہے متذکرہ بالا چیزیں تو عام محبت کا حاصل ہیں لیکن یہاں ہم رسول ﷺ کی محبت کا ذکر کر رہے ہیں جو تکمیلِ ایمان کے لیے لازمی ہے اس پاکیزہ محبت کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی کیا کیا نزاکتیں ہوں گی ؟ کم سے کم لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے ؎ محمد کی محبت آنِ ملت شان ملت ہے محمد کی محبت روح ملت جانِ ملت ہے محمد ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا پدر مادر برادر مال جان اولاد سے پیارا محمد کی غلامی، ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی تکمیل ایمان کے لیے آنحضرت ﷺ نے ایک اور بات کا بھی حکم دیا ہے جو اس محبت کا لازمی نتیجہ ہے ارشاد فرمایا لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا ً لما جئت بہ ” تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا تا وقتیکہ اس کی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں لے کر آیا ہوں “ یعنی جب تک تمہاری زندگی کا ایک ایک عمل میری لائی ہوئی شریعت کی اطاعت اور پیروی میں نہ گزرے اور تم کوئی سا کام کرنے سے پہلے یہ نہ سوچو کہ اس بارہ آنحضرت ﷺ کے احکام کیا ہیں بلکہ جو جی میں آئے کر گزرو اور اگر تمہیں بتایا بھی جائے کہ اس کام سے متعلق حضور کی یہ یہ ہدایات ہیں تو تم اس کی پرواہ نہ کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کامل مومن نہیں حقیقت بھی یہ ہے کہ جو آدمی محبت کا دعوی کرتا ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کے احکام کی خلاف ورزی کرے وہ تو اس کی ادائوں پر جان چھڑکتا ہے چہ جائے کہ اس کے احکام کی پرواہ نہ کرے کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا تعصی الرسولُ و انت تظہر حبہ ہٰذا لعمری فی الزمان بدیع ” تو رسول ﷺ کی نافرمانی کرتا ہے حالانکہ تو ان سے محبت کا اظہار بھی کرتا ہے مجھے اپنی بقاء کی قسم ہے زمانے میں یہ ایک نئی بات ہے “ لو کان حبک صادقاً لا طعتہ ان المحب لمن یحب مطیع ” اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو رسول کی ضرور اطاعت کرتا کیونکہ محب ہمیشہ اپنے محبوب کی اطاعت کیا کرتا ہے “ قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ” ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے رسول دنیا کے کسی لیڈر کی طرح نہیں ہوتے کہ اس کی بات ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اللہ کے رسول کی فرماں برداری اور اس کی اطاعت بالکل اللہ کی اطاعت ہے اور اس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ‘ ایک حدیث میں تو حضور نے اطاعت نہ کرنے والے کو ایمان سے خارج قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا : کل امتی یدخلون الجنتہ الا من ابیٰ قالو یا رسول اللہ ومن ابیٰ قال من اطاعنی فقد دخل الجنۃ ومن عصانی فقد ابیٰ ” میری ساری امت جنت میں جائے گی ہاں وہ نہیں جائے گا جس نے انکار کیا لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول کس نے انکار کیا فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے (مجھے ماننے سے) انکار کردیا۔ “ پھر یہ اطاعت زندگی کے کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ دین نام ہی اطاعت اور اتباعِ رسول کا ہے اور پھر اطاعت اس چیز کا نام نہیں کہ آپ نے جو حکم دیا اس کی تعمیل کرلی بلکہ اطاعت اس اتباع کو کہتے ہیں جس میں ہو بہو آپ کی زندگی کی نقل کی جائے حدیث شریف میں آتا ہے کہ چند آدمی ازواجِ مطہرات کی خدمت میں آئے تاکہ آنحضرت ﷺ کی رات کی عبادت کی تفصیل معلوم کرلیں چناچہ انھیں بتایا گیا تو انھوں نے اسے کم جانا اور کہنے لگے کہ آنحضرت ﷺ کو تو عبادت کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ معصوم پیدا ہوئے ہیں وہ جتنی بھی عبادت کریں کافی ہے ہمیں تو اس سے زیادہ عبادت کی فکر ہونی چاہیے ایک صاحب کہنے لگے میں تو آج سے ہمیشہ روزے رکھوں گا دوسرے بولے میں کبھی رات بھر نہیں سوؤں گا بلکہ عبادت میں مصروف رہوں گا تیسرے صاحب نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا بلکہ طیبات سے کنارہ کش ہو کر اللہ کی عبادت میں لگا رہوں گا اسی اثناء میں حضور تشریف لے آئے آپ کو جب بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ سنو میں رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں بیویوں سے تعلق بھی رکھتا ہوں اور عبادت و زہد کا بھی حق ادا کرتا ہوں یہ میرا طریقہ ہے جس نے میرے طریقے کی خلاف ورزی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ آنے والے حضرات سراسر نیکی کے جذبے سے اپنی مرضی سے عبادت کرنا چاہتے تھے لیکن آپ نے ان پر یہ بات واضح فرمائی کہ عبادت بھی وہ معتبر ہے جو میرے طریقے کی پیروی میں ہے ورنہ اس کا کوئی اعتبار نہیں حدیث سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ کسی فرض حکم پر بھی اگر آنحضرت کی منشاء کے خلاف عمل کیا جائے تو وہ نافرمانی بن جاتا ہے مسلم شریف کی روایت ہے کہ آپ نے ایک سفر میں موسم کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ایک ٹیلے پر چڑھ کر روزہ کھول دیا اور لوگوں کو بھی روزہ کھولنے کا حکم دیا حالانکہ یہ رمضان شریف کا روزہ تھا۔ سہ پہر کے بعد آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک شخص پر چادر تانے کھڑے ہیں آپ نے استفسار فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان صاحب نے روزہ افطار نہیں کیا یہ سمجھے کہ میں روزہ پورا کرلوں گا اب گرمی کی شدت کی وجہ سے حالت غیر ہونے لگی ہے اس لیے لوگ ان کے سر پر سایہ کیے کھڑے ہیں آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ یہی لوگ نافرمان ہیں ‘ یہی لوگ نافرمان ہیں حالانکہ اس شخص نے ایک فرض حکم کی اطاعت کے جذبے سے یہ تکلیف اٹھائی تھی جس میں نافرمانی کا کوئی تصور تک نہ تھا لیکن چونکہ یہ فرض کی ادائیگی آنحضرت کے حکم کے خلاف کی جا رہی تھی اس لیے آپ نے اسے نافرمانی قرار دیا اس وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اللہ کے رسول پر ایمان کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایمان کے ساتھ ساتھ محبت اور اطاعت شامل نہ ہو کیوں کہ جس ایمان میں محبت شامل نہیں اس ایمان میں کوئی گہرائی نہیں اور جس ایمان میں اطاعت شامل نہیں اس ایمان کا کوئی ثمر نہیں تو گہرائی سے خالی بےثمر ایمان ‘ ایمان کے دعویٰ دار کو زبانی جمع خرچ کے سوا اور کیا دے سکتا ہے۔ لیکن جب یہ دونوں جذبے ایمان کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں تو پھر صاحب ایمان کے دل میں اللہ کے رسول کی عظمت و حرمت مچلنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں تعظیم و توقیر اور احترام و ادب کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے اس لیے اس آیت کریمہ میں ایمان کے بعد احترام کا حکم دیا گیا ہے عزروہ “ تعزیر سے مشتق ہے۔ تعزیر کے اصلی معنی شفقت کے ساتھ منع کرنے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس نے اس کے معنی تعظیم و تکریم کرنے کے بتلائے ہیں اور مبرد نے کہا کہ اعلیٰ درجہ کی تعظیم کو تعزیر سے تعبیر کیا جاتا ہے قرآن کریم نے اس کے علاوہ بھی جا بجا آنحضرت کی تعظیم و توقیر کے لیے ہدایات دی ہیں اور اس کے آداب سکھائے ہیں۔ اس آیت میں تو ” عَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہ “ُ کے الفاظ سے اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے اور ایک دوسری آیت میں بھی ” وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ “ آیا ہے اور کئی آیتوں میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے ایسی بلند آواز سے بات نہ کریں کہ آپ کی آواز سے بڑھ جائے َ ” ٰٰٓایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ “ اور ایک جگہ ارشاد ہے ” یٰآیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ “ یعنی اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو یعنی جس مجلس میں حضور ﷺ تشریف فرما ہوں اور کوئی معاملہ پیش آئے تو آپ سے پہلے کوئی نہ بولے “ حضرت سہل بن عبد اللہ نے اس آیت کے معنی یہ ملتے ہیں کہ آپ سے پہلے نہ بولیں اور جب آپ کلام کریں تو سب خوش ہو کر سنیں۔ ایک آیت قرآن میں اس کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو پکارنے کے وقت ادب کا لحاظ رکھیں اس طرح نہ پکاریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں ” لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا “ آخر آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کام بےادبی کا کیا گیا تو سارے اعمال حبط اور برباد ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باوجودیکہ ہر وقت ‘ ہرحال میں آنحضرت ﷺ کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام و تعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ کے نازل ہونے کے بعد حضرت صدیق اکبر ( رض) جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے تھے جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے یہی حال حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کا تھا۔ (شفاء) حضرت عمرو بن عاض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی مجھے دنیا میں محبوب نہ تھا اور میرا یہ حال تھا کہ میں آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرے تو میں بیان کرنے پر اس لیے قادر نہیں کہ میں نے کبھی آپ کو نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں۔ ترمذی نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ مجلسِ صحابہ میں جب آنحضرت ﷺ تشریف لاتے تھے تو سب نیچی نظریں کر کے بیٹھتے تھے صرف صدیق اکبر اور فاروقِ اعظم آپ کی طرف نظر کرتے اور آپ ان کی طرف نظر فرما کر تبسم فرماتے تھے۔ عروہ بن مسعود کو اہل مکہ نے جاسوس بنا کر مسلمانوں کا حال معلوم کرنے کے لیے مدینہ بھیجا اس نے صحابہ کرام ( رض) کو پروا نہ وار آنحضرت ﷺ پر فدا ہوتے دیکھا واپسی پر رپورٹ دی کہ میں نے قیصر و کسریٰ کے دربار دیکھے ہیں اور ملک نجاشی سے بھی ملا ہوں مگر جو حال میں نے اصحابِ محمد ﷺ کا دیکھا وہ کہیں نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ تم لوگ ان کے مقابلہ میں ہرگز کامیاب نہ ہو گے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی حدیث میں ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے تو صحابہ کرام باہر سے آواز دے کر آنحضرت ﷺ کو بلانا بےادبی سمجھتے تھے دروازہ پر دستک بھی صرف ناخن سے دیتے تھے تاکہ زیادہ کھڑکا اور شور نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ وتابعین کا معمول یہ تھا کہ مسجد نبوی میں کبھی بلند آواز سے بات کرنا تو درکنار کوئی وعظ تقریر بھی زیادہ بلند آواز سے پسند نہ کرتے تھے اکثر حضرات کا عالم یہ تھا کہ جب کسی نے آنحضرت ﷺ کا نام مبارک لیا تو رونے لگے اور ہیبت زدہ ہوگئے۔ آپ ﷺ کا احترام اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان اور آپ کے احترام کے بعد آپ کی نصرت اور مدد کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی آپ سے تعلق کی جو بنیادیں ہیں یا آپ کے حقوق جو ہر امتی پر عائد ہوتے ہیں وہ صرف ایمان اور احترام سے مکمل نہیں ہوتے بلکہ یہ بات ازبس ضروری ہے کہ آپ جو دعوت لے کر اٹھے ہیں اور جس انقلاب کو برپا کرنا آپ کے پیش نظر ہے اور آپ جس طرح سے نوع انسانی کی اصلاح کا کٹھن کام سر انجام دینا چاہتے ہیں اور آپ جس طرح انسانوں کو دوبارہ اللہ کے آستانے پر جھکانا چاہتے ہیں اس میں قدم قدم پر آپ کو تعاون اور مدد کی ضرورت ہے آپ ایک ایک آدمی کے پاس تنہا دعوت لے کر نہیں جاسکتے جاہلیت اور کفر کے جتھے اپنی گروہی عصبیتوں کے باعث کبھی بھی اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوسکتے وہ اسے روکنے کے لیے ہر ممکن طاقت استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے تنہا پیغمبر کا جانا آسان کام نہیں اور ان کے تعصبات اور جاہلی حمیت کو روکنا اس سے بھی کٹھن کام ہے کہ پیغمبر اپنی دعوت میں اگرچہ بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر کرتا ہے اور اللہ ہی ہرحال میں اس کا معاون اور مدگار ہوتا ہے بایں ہمہ ! اسباب کی دنیا میں بےحد ضروری ہے کہ انسانوں میں سے آپ کو ایسے جانثار اور سرفروش ملیں جو ہر ممکن طریقے سے آپ کی اور آپ کی دعوت کی نصرت کا فرض انجام دیں آپ کے ساتھ یا آپ کے حکم کے مطابق اس دعوت کو ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کریں دشمن جب حضور کی ذات کو نقصان پہنچانا چاہے تو مسلمان ان کے سامنے ڈھال بن جائیں اور پھر اپنی قربانیوں اور فدا کاریوں سے نہ صرف کہ دین کی قوت کا باعث بنیں بلکہ اپنی استقامت سے انکار کرنے والوں کے انکار میں دراڑیں ڈال دیں وہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ یہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ اور کمزور لوگ جو کل تک ہماری آواز سے بھی خوف زدہ رہتے تھے آخر آج ان میں یہ قوت کس وجہ سے آئی ہے اگر اس کی وجہ اس دین سے وابستگی ہے تو یقینا اس دین میں ایسی بات کوئی ضرور ہے جس سے کمزور توانا ہوجاتے ہیں اور متکبر متواضع ہوجاتے ہیں۔ آپ ﷺ کی نصرت پھر اگر کفر پیغمبر کو قتل کرنے کے منصوبے باندھنے لگے اور وہ آخری اقدام پر تل جائے تو مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ آخر حد تک نصرت کا فرض انجام دیتے ہوئے پیغمبر کی حفاظت کریں حکم ملے تو اس کے ساتھ ہجرت کر جائیں پھر اپنے نئے وطن کو اسلامی سوسائٹی اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کی آخر حد تک مدد اور نصرت کریں اگر اس کے لیے جنگی معرکوں سے گزرنا پڑے تو دریغ نہ کریں اگر خود جان دینا پڑے یا بچوں کو ذبح کروانا پڑے تو اس کو نصرت پیغمبر کا لازمی حصہ سمجھ کر خندہ پیشانی سے قبول کرلیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ ہماری دنیوی اور اخری کامیابی اسی نصرت پیغمبر اور نصرت دین میں مضمر ہے۔ چناچہ صحابہ کرام نے ایمان لاتے ہی اس حقیقت کی تہہ کو پا لیا تھا حضرت صدیق اکبر ( رض) نے ایمان لانے کے بعد پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اب تک جو کام میں تنہا کرتا تھا اب تمہیں اس کام میں نصرت کرنا ہوگی چناچہ اس میں سب سے بڑا کام چونکہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا اور ہر ممکن طریق سے انھیں دین کی طرف راغب کرنا تھا حضرت صدیق اکبر ( رض) نے نہایت خاموشی سے مکہ کے جگرگوشوں کی ایک معقول تعداد آنحضرت کی آغوش میں ڈال دی اور پھر جب مخالفت کا دور شروع ہوا اور آنحضرت اور مسلمانوں پر حملے شروع ہوگئے تو آپ کی حفاظت کے لیے سب سے پہلی مار صدیق اکبر ( رض) نے کھائی اور جب مدینہ میں پہنچ کر یہ دعوت حق و باطل کے معرکے کی صورت اختیار کرگئی تو اس میں بھی صدیق اکبر ( رض) پیش پیش رہے۔ اسی مقصد کے لیے اپنا سارا مال آنحضرت ﷺ کی نذر کردیا اپنی تین پشتیں اور اپنے والدین اسلامی قافلے کے مسافر بنا دئیے زندگی کا اصل غم اور اصل ہدف اسی دین کی بالا دستی کو بنایا جس کے لیے حضور مبعوث ہوئے اور اس کی نصرت کرتے ہوئے ہر وہ قربانی دے ڈالی جس کی آنحضرت ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی یہ معاملہ حضرت صدیق اکبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر صحابی نے بقدر ہمت و استعداد اسی طرح اس فرض کو انجام دیا ایک صحابی جو جنگ احد میں شہید ہوئے انھوں نے جان دیتے ہوئے دوسرے صحابی سے کہا کہ آنحضرت ﷺ کو میرا سلام کہنا اور مسلمانوں کو میرا یہ پیغام پہنچانا کہ دیکھنا آنحضرت کی ذات کو اور آپ کے لائے ہوئے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچے آپ کی نصرت اور اس دین کی حفاظت مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اگر تم نے اس میں ذرا سی کوتاہی برتی تو یاد رکھو کہ قیامت کے دین اپنے پروردگار کا سامنا نہ کرسکو گے۔ مسلمانوں کے لیے نصرت پیغمبر اور نصرت دین ایک ایسا فریضہ ہے جس پر اللہ کے دین کی بقا کا دارومدار ہے اس لیے صحابہ کرام میں ایک ایک فرد حتی کہ بچے تک بھی اسی جذبے سے سرشار تھے انھوں نے اپنا مال اپنا وطن اپنے کاروبار اپنا اثر و رسوخ حتی کہ اپنی جانیں بھی اسی فریضہ کے سپرد کردی تھیں وہ زندہ تھے تو آنحضرت اور آپ کے دین کے لیے وہ جان دیتے تھے تو اسی مقصد کی سر بلندی کے لیے اور یہ مقصد اس طرح اس معاشرے میں رچ بس گیا تھا کہ ان کے بچے بھی شعوری عمر کو پہنچتے ہی اسی کو اپنی زندگی کا مقصد اور حاصل بنا لیتے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں جب کہ جنگ زوروں پر تھی اچانک دو نو عمر لڑکوں نے حضرت عبد الرحمن ابن عوف ( رض) سے پوچھا کہ چچا آپ ہمیں بتاسکتے ہیں ابو جہل کون ہے اور کہاں ہے ؟ حضرت عبدالرحمن ( رض) نے پوچھا کہ بیٹا تمہیں اس سے کیا کام ہے ؟ وہ اس وقت اپنے محافظوں کے نرغے میں ہے اور پھر وہ عرب بھر کا مانا ہوا جنگجو بہادر ہے تم اس کا کیا بگاڑ سکتے ہو ؟ بچوں نے بیک وقت بڑے جذبے سے کہا ؎ قسم کھائی ہے مرجائیں گے یا ماریں گے ناری کو سنا ہے گالیاں دیتا ہے وہ محبوبِ باری کو یہ کہتے کہتے غیرت سے ہوئے منہ لال دونوں کے شہادت کے لہو سے تمتمائے گال دونوں کے یہ ان کے رخساروں کی سرخی ان کے اس جذبہ بےپناہ کی عکاس تھی اور ان کا اپنی جان پر کھیل کر ابو جہل کو قتل کرنے کا جذبہ اس فریضہ کی ادائیگی کی ایک مومنانہ کوشش تھی جسے یہاں نصرت پیغمبر سے تعبیر کیا گیا ہے جب تک حضور دنیا میں رہے صحابہ نے خون دے کر آپ کی حفاظت کا فرض انجام دیا اور آپ کے لائے ہوئے دین کی بالا دستی کے لیے اپنی ہر چیز قربان کر ڈالی اور جب حضور اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے اللہ کی کتاب اور اپنی سنت کی امانت صحابہ کے سپرد کر گئے تو پھر انھوں نے ان دونوں امانتوں کو نوع انسانی تک پہنچانے اور ان کے پیش کردہ دین کو دنیا پر غالب کرنے کے لیے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا آج امت مسلمہ جو ایک ارب پچیس کروڑ کے قریب افرادی قوت سے مالا مال ہے اور دنیا میں ان کی ساٹھ کے قریب قریب حکومتیں ہیں یہ سب کچھ انھیں کوششوں کا صدقہ ہے لیکن یہ بات یہاں ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ فریضہ صرف صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص نہیں یہ قیامت تک رہنے والی اس امت کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے وہ اپنے حالات کے مطابق اس ضرورت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور پھر مقدور بھر اپنے تمام وسائل حتی کہ اپنی ذات بھی اس پر قربان کر دے۔ ٹھیک کہا تھا کسی نے ؎ ہم کو بخشی ہیں خدا نے دوہری دوہری خدمتیں خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے قرآن کا اتباع آخری بات اس آیت کریمہ میں حضور پر ایمان لانے والوں کے لیے جو فرمائی جا رہی ہے وہ اس نور کا اتباع ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا مراد اس سے قرآن کریم ہے۔ آغازِ کلام میں آنحضرت ﷺ کے اتباع کا ذکر فرمایا گیا تھا اور یہاں قرآن کریم کے اتباع کا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس اتباع کا مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے وہ ان دونوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہیں پیغمبر جو کچھ فرماتا ہے اس کی بنیاد قرآن کریم یا وحی الٰہی ہوتی ہے وہ اپنی ہوائے نفس سے کبھی کوئی بات نہیں کہتا اور قرآن کریم اصول بیان کر کے فروع کو اللہ کے رسول پر چھوڑ دیتا ہے چناچہ اس کی وضاحت اللہ کا رسول فرماتا ہے قرآن احکام جاری کرتا ہے لیکن ہر حکم کی ضمنی تفصیلات اور اس کی عملی شکل وہ اللہ کے پیغمبر کی ذات سے وجود میں آتی ہے مثلاً قرآن پاک نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے لیکن نمازوں کی تعداد نمازوں کے اوقات ہر نماز میں پڑھی جانے والی رکعتیں اور ہر رکعت میں پڑھی جانے والی دعائیں اور قرآن کریم پھر نماز کے آداب کی تفصیل یہ سب کچھ اللہ کے رسول کا عطا کردہ ہے قرآن کریم نے ان میں سے کچھ بھی بیان نہیں کیا بس اسی مثال پر قیاس کرتے ہوئے یوں سمجھ لیجیے کہ قرآن قول ہے اور آنحضرت کی سنت اس کا عمل ہے ‘ قرآن متن ہے ‘ سنت اس کی شرح ہے ‘ قرآن ایک تھیوری ہے ‘ سنت اس کا پریکٹیکل ورک ہے ‘ قرآن میں کہیں اجمال ہے ‘ تو سنت اس کی تفصیل ہے ‘ کہیں ابہام ہے ‘ تو سنت اس کی تفسیر ہے ‘ اس طرح سے قرآن و سنت دونوں مل کر جو آئین ‘ قانون ‘ روایت اور نظام زندگی عطا کرتے ہیں اس کی پیروی کرنے کا یہاں ذکر فرمایا جا رہا ہے اور یہی وہ پیروی ہے جو ایمان محبت اطاعت احترام اور نصرت کے ساتھ مل کر ایک مکمل اسلامی زندگی کو جنم دیتی ہے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ وابستگی کے حق کو ادا کرتی ہے اور اسی پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔
Top