Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ : اور پوچھو ان سے عَنِ : سے (متلع) الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھی حَاضِرَةَ : سامنے (کنارے کی) الْبَحْرِ : دریا اِذْ : جب يَعْدُوْنَ : حد سے بڑھنے لگے فِي السَّبْتِ : ہفتہ میں اِذْ : جب تَاْتِيْهِمْ : ان کے سامنے آجائیں حِيْتَانُهُمْ : مچھلیاں ان کی يَوْمَ : دن سَبْتِهِمْ : ان کا سبت شُرَّعًا : کھلم کھلا (سامنے) وَّيَوْمَ : اور جس دن لَا يَسْبِتُوْنَ : سبت نہ ہوتا لَا تَاْتِيْهِمْ : وہ نہ آتی تھیں كَذٰلِكَ : اسی طرح نَبْلُوْهُمْ : ہم انہیں آزماتے تھے بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
ان سے اس بستی کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی جبکہ وہ لوگ ہفتہ کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور ہفتہ کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ اسی طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے
بنی اسرائیل کے سامنے ان کی تاریخ کا آئینہ بنی اسرائیل کی مسلسل ناشکریوں اور نافرمانیوں کا بیان جاری ہے اور اسی سلسلہ میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو عبرت کے طور پر بنی اسرائیل میں معروف تھا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدیوں تک بنی اسرائیل نے کس طرح اللہ کی نافرمانیاں جاری رکھیں اور کس طرح ان پر اللہ کے عذاب آتے رہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری پر ان کے اجتماعی رویے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ ہوئی چناچہ اس مشہور واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ وَسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِم اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَلا لَا تَاْتِیْھِمْج کَذٰلِکَج نَبْلُوْھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ وِاِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْھُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَالا نِاللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاط قَالُوْا مِعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ فَلَمَّا نَسُوْا مَاذُکِّرُوْابِہٖٓ اَنْجَِیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھُوْنَ عَنِ السُوْٓئِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَئِیْسٍم بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ فَلَمَّاعَتَوْا عَنْ مَّانُھُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خَاسِئِیْنَ ۔ (الاعراف : 166، 163) ” ان سے اس بستی کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی جبکہ وہ لوگ ہفتہ کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور ہفتہ کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ اسی طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور یاد کرو جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شائد یہ لوگ اس نافرمانی سے بچ جائیں آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے روکتے تھے اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا اور پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انھیں روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ بندر ہوجاؤ ذلیل اور خوار “۔ ان چار آیات کریمہ میں ایک ایسا واقعہ اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عبرت کے طور پر ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا گیا اور آئندہ بھی یاد رکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ اس میں جس گناہ کا ذکر کیا گیا ہے گمراہ ہونے والی قومیں ماضی میں بھی اور آج بھی ہمیشہ اس کا ارتکاب کرتی رہی ہیں۔ ماضی میں تو وہ اس عذاب سے دوچار ہوئیں جس کا تذکرہ یہاں فرمایا گیا ہے لیکن حال اور مستقبل میں کیا ہوگا ؟ اسے ان آیات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے اس لیے یہ آیات ہمارے لیے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب ہم ایک ترتیب سے اس واقعہ کو بھی ذکر کرتے ہیں اور اس کے سبب سے آنے والے عذاب کو بھی اور ان نتائج کو بھی جو ایسی صورت حال میں ہمیشہ نکلتے رہے ہیں۔ اس واقع کے مسلّم ہونے کی دلیل سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اتنا اہم واقعہ ہے تورات اور بنی اسرائیل کے مذہبی لٹریچر میں کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں کی نگاہ بنی اسرائیل کے مجرمانہ کردار پر رہی ہے ان کے لیے تو اس اہم واقعہ کا بیان نہ کرنا اور بنی اسرائیل کے لٹریچر کا مکمل طور پر اس سے خاموش رہنا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی ہمیشہ یہ اجتماعی عادت رہی ہے کہ دوسری قوموں کے تنکے کو بھی انھوں نے شہتیر بنا کر پیش کیا لیکن اپنے اوپر آنے والے بڑے بڑے حوادث جن سے ان کے قومی کردار پر روشنی پڑتی ہے انھوں نے ہمیشہ انھیں تاریخ کے دلدل میں دفن کرنے کی کوشش کی اور اس فن میں وہ اتنے اتارو ثابت ہوئے ہیں کہ اللہ کی کتابیں بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہیں۔ یہ ان کا سازشی رویہ اور غیر متوازن طرز عمل آج بھی پوری طرح موجود ہے اور دنیا کی سٹیج پر عجیب و غریب مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن اس واقعہ کی صداقت پر باوجود اسرائیل کے لڑیچر کی خاموشی کے ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن کی موجودگی میں اس واقعہ کی صداقت کا انکار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ان قرائن میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے سورة بقرہ میں اور یہاں بھی جس اسلوب میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اس واقعہ سے پوری طرح باخبر تھے۔ سورة البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے۔ ” ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبتِ “ کہ تم خوب جانتے ہو ان لوگوں کو جنھوں نے سبت یعنی ہفتہ کے بارے میں اللہ کے احکام سے تجاوز کیا تھا اور اس آیت کریمہ میں ان سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا ہے ان دونوں آیتوں کا اسلوب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ یہود سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہاری کتابوں نے اگرچہ اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن یہ واقعہ اتنا معروف ہے کہ تم سب اس واقعہ سے باخبر ہو۔ اتنے واضح اسلوب میں کسی سے بھی بات کہی جائے تو اگر اس کے لیے وہ بات قابل قبول نہ ہو یا وہ اسے صحیح نہ سمجھتا ہو تو اس کا فوری رد عمل یہ ہوتا ہے کہ آپ جس واقعہ کی بات کر رہے ہیں میں اسے بالکل نہیں جانتا۔ لیکن اگر وہ اس پر خاموشی اختیار کرلے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ واقعہ صحیح ہے۔ چناچہ ان آیات کریمہ کے نازل ہونے پر بھی یہی صورت حال پیش آئی کہ یہود نے ان آیات کو سنا لیکن انکار کے لیے زبان نہیں کھولی انھوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ خاموش رہ کر اس بدنامی کو پھیلنے سے روکا جائے ہم تو جانتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا لیکن آج کے دور میں ہمارے غیروں میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ اگر ہم اس کا انکار کریں گے تو قرآن کریم اس کے ثبوت میں شائد کچھ کہے جس سے یہ واقعہ پوری طرح منظر عام پر آجائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مشرکینِ عرب جو ہمیں صاحب علم سمجھتے ہوئے اختلاف کے باوجود بھی ہمارا احترام کرتے ہیں ان پر ہماری قلعی کھل جائے گی اور وہ حیران ہوں گے کہ کیا ہم اس مکروہ تاریخ کے وارث ہیں ؟ اس لیے بہتر ہے کہ اس پر خاموش رہا جائے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہود مستشرقین نے قرآن کریم کے بارے میں کیسی کیسی علمی ہر زہ سرائیاں کی ہیں ؟ لیکن اس واقعہ کا انکار کرنے کی انھیں کبھی جرأت نہ ہوئی یہود کا یہ رویہ ایک واضح دلیل ہے کہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے۔ مقامِ واقعہ دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں تحقیق طلب ہے وہ یہ ہے کہ یہ واقعہ کس جگہ پیش آیا ؟ قرآن کریم نے اگرچہ اس کی کوئی صراحت نہیں کی صرف اتنا کہا کہ ساحل بحر پر کوئی قریہ یعنی ایک شہر آباد تھا ‘ جس میں یہ واقعہ پیش آیا لیکن یہ شہر کونسا تھا ؟ اس کی وضاحت قرآن کریم نے نہیں کی۔ محقیقن کا غالب میلان یہ ہے کہ یہ مقام ” ایلہ یا ایلات یا ایلوت “ تھا۔ اسی کے قریب اردن کی مشہور بندرگاہ ” عقبہ “ واقعہ ہے اور اب اسرائیل کی یہودی ریاست میں اسی جگہ پر ایک بندرگاہ بنائی۔ بنی اسرائیل کی ترقی کے زمانے میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا ‘ دریائوں یا سمندروں کے ساحل پر جو بندرگاہیں ہوتی ہیں عموماً وہ بڑے شہروں میں تبدیل ہوجایا کرتی ہیں شائد اسی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بحر قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا۔ اسی جگہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبرت خیز واقعہ پیش آیا۔ اجتماعی نافرمانی پر عذاب آتاہے تیسری بات اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ساحل بحر پر رہنے والی یہ قوم جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا ان پر عذاب تو ان کی نافرمانیوں کے باعث آیا لیکن بطور خاص جس نافرمانی کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے اس کا تعلق ان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی سے ہے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے سبت یعنی ہفتہ کے بارے میں خاص احکام دئیے تھے یہ دن ان کے لیے انتہائی محترم اور مقدس دن تھا اسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عبادت کے لیے مخصوص کیا تھا اور اس دن کو اپنے اور اولادِ بنی اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے۔ گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے ‘ چولہے نہ جھونکے جائیں ‘ کھانا تیار نہ کیا جائے ‘ غلاموں اور جانوروں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور اس میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے اپنی قومی خصوصیات کے مطابق ابتداء میں انفرادی طور پر اور آگے چل کر اجتماعی طور پر اس حکم کی خلاف ورزی شروع کردی۔ انھیں گھروں تک میں ہر طرح کے دنیوی کام کرنے سے روکا گیا ہے لیکن ان کی دیدہ دلیری یہاں تک پہنچی کہ یہ کھلم کھلا یروشلم کے پھاٹکوں سے چھکڑے بھر بھر کر سامان کے لانے لگے جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو یہودی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف انبیاء نے مختلف وقتوں میں اللہ کی طرف سے انھیں تنبیہات کیں۔ چناچہ ” یرمیاہ “ جو چھ سو اٹھائیس اور پانچ سو چھیاسی قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں انھوں نے ان کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یروشلم نظر آتش کردیا جائے گا۔ اسی طرح ” حزقی ایل “ نبی بھی جن کا دور پانچ سو پچانوے اور پانچ سو چھتیس قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے انھیں برابر تنبیہات کرتے رہے۔ یہاں بنی اسرائیل کے جس گروہ کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ چونکہ ساحل سمندر پر آباد تھے۔ ساحل پر رہنے کی وجہ سے یقینا ان کی گزر بسر کا بڑا ذریعہ سمندر کی مچھلیاں تھیں۔ وہ بھی سبت کی بےحرمتی ہر طرح کی نافرمانی کے ذریعے کرتے ہوں گے لیکن جو چیز ان کے لیے آزمائش کا ذریعہ بن گئی وہ مچھلیوں کا شکار تھا اسی کے ذریعے ان کو آزمایا گیا کہ وہ سبت کا احترام کرتے ہیں یا نہیں۔ انھیں بھی یقینا بار بار تنبیہ کی گئی ہوگی کہ تم سبت کے احترام میں کمی مت کرو لیکن جب یہ لوگ اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت انھیں آزمائش میں مبتلا کردیا اس کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم کو کسی خاص معاملے میں نافرمانی سے روکا جاتا ہے اور وہ قوم اس میں پورا نہیں اترتی تو پروردگار اسی معاملے کو ان کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیتا ہے اور اس معاملے کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی یا ضرورت اس حدت تک بڑھا دی جاتی ہے کہ اب ان کے لیے اس کا چھوڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں ہم نے اللہ کے حکم کی فرماں برداری کی تو شائد ہماری قومی اجتماعی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی اور ہم قومی توانائی سے محروم ہوجائیں گے کسی بھی قوم کے لیے یہ نہایت نازک لمحہ ہوتا ہے اس قوم کی گزر بسر کا چونکہ بڑا ذریعہ مچھلی کا شکار تھا اس لیے انھیں بطور خاص حکم دیا گیا کہ ہفتہ کے دن تم مچھلی کا شکار نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی آزمائش میں شدت اس طرح پیدا کی گئی کہ مچھلیاں ہفتے کے دن اس طرح سر اٹھائے ہوئے سطح آب پر آتیں ایسا معلوم ہوتا جیسے ایک شاہ سوار نیزہ سیدھا کیے ہوئے اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مچھلی کی فطرت یہ ہے کہ وہ زیر آب تیرتی ہے لیکن اب صورت حال یہ ہوگئی کہ ہفتہ کے دن وہ بہت بڑی تعداد میں آتیں ایسا لگتا ہے کہ کوئی برات اترئی ہوئی ہو اور سطح آب پر نمایاں ہو کر لوگوں کی طلب اور خواہش میں شدت پیدا کرتے ہوئے تیرتی پھرتیں۔ ممنوعہ چیز کو پروردگار کی جانب سے نمایاں کر کے پیش کرنے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ ہرحال میں اللہ کے احکام کی فرماں برداری کرنے والا کون ہے ؟ اور کون ہے جس کے اندر نافرمانی کے میلانات چھپے ہوئے ہیں ؟ تاکہ وہ اس صورتحال میں پوری طرح کھل کر سامنے آجائیں ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ جس چیز سے اسے روکا جاتا ہے اس کی حرص اس کے اندربڑھتی ہے۔ چناچہ یہ لوگ بھی بری طرح اس آزمائش میں جھنجھوڑئے گئے۔ شروع شروع میں انھوں نے یہ کیا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے مچھلیاں پکڑنا شروع کیں حوض بنا لیے گئے۔ ہفتہ کے دن اس میں مچھلیاں بھر دی جاتیں اور اتور کو پکڑ لی جاتیں اور یہ تاثر دیا جاتا کہ ہم ہفتہ کے دن تو شکار نہیں کر رہے یہ مچھلیاں تو ہم نے اتوار کو پکڑی ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے کھلم کھلا نافرمانی پر اتر آئے۔ آخر اللہ کا عذاب آیا اور یہ لوگ عبرت بن گئے۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ مچھلی کوئی حرام جانور تو نہیں اور پھر پورا ہفتہ اس کا شکار کرنے کی اجازت بھی تھی۔ صرف ہفتہ کے دن شکار کی ممانعت میں آخر کیا حکمت تھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ پروردگار اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے اس نے ہر امت کے لیے ہفتہ میں ایک دن مخصوص کیا جس میں اسے بطور خاص اللہ کی فرماں برداری کی تربیت دی جائے بندوں کو کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بندگی کے تصور ہی کے خلاف ہے کہ ایک بندہ اللہ کی بندگی کا اعتراف بھی کرے اور پھر بار بار بندگی کی حدود سے نکل نکل بھی جائے۔ ہفتہ کے چھ دنوں میں زندگی کے معاملات میں مختلف لوگوں سے میل جول کے باعث قلب و دماغ پر ایسے اثرات ضرور پڑتے ہیں جس سے اللہ کا تعلق کمزور پڑتا اور بعض دفعہ بالکل ٹوٹنے لگتا ہے۔ چناچہ پروردگار نے اس کا انتظام یہ کیا کہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لیے مخصوص کردیا جائے تاکہ یہ لوگ چھ دن میں جو کمی واقع ہوجاتی ہے اس کا نہ صرف ازالہ کرنے کی کوشش کریں بلکہ تعلق باللہ کو اتنا مضبوط بنالیں کہ باہر کے اثرات اس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب نہ ہوں۔ چناچہ عیسائیوں کو اتوار کا دن دیا گیا۔ یہود کو ہفتہ کا اور مسلمانوں کو جمعہ کا دن۔ مسلمانوں کے لیے اگرچہ ایسے شدید احکام نہیں دئیے گئے لیکن یہ تاکید ضرور کی گئی کہ جمعہ کو تذکیر و دعوت کے دن کے طور پر گزارنے کی کوشش کریں۔ عیسائیوں کا بھی یہی حال رہا وہ ہمیشہ اتوار کے دن کو اپنے مذہبی تصورات کے طور پر گزارتے رہے آج اگرچہ وہ بہت حد تک دینی احکام سے بےنیاز ہوچکے ہیں اور دین کو بندے اور خدا کے درمیان ایک پرائیوٹ معاملہ بنا چکے ہیں۔ بایں ہمہ ! وہ جس ملک میں بھی رہے ہیں انھوں نے ہمیشہ وہاں اتوار کی چھٹی کی ہے تاکہ اپنے قومی تشخص کو باقی رکھ سکیں۔ یہودیوں کے لیے بھی سبت کا دن ایسے ہی تصورات کا حامل تھا۔ دوسری آیت کریمہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ ہولناک واقعہ پیش آیا اس وقت بنی اسرائیل مکمل طور پر دین سے برگشتہ نہیں ہوچکے تھے بلکہ ان میں علماء و صلحاء کا ایک قابل ذکر طبقہ ضرور موجود تھا جنھوں نے نہ صرف اللہ کی نافرمانی نہیں کی بلکہ انھوں نے ان نافرمانوں کو روکنے کی بھی آخر حد تک کوشش کی۔ اس آیت کریمہ کی وضاحت میں مولانا مودودی نے جو نوٹ لکھا ہے وہ اس قابل ہے کہ اسے نقل کردیا جائے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بےحرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے اللہ کے سامنے اپنی برأت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے اللہ کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی برأ ت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے۔ پھر ایک روایت ابن عباس ( رض) سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا ‘ بعد میں ان کے شاگرد عکرمہ نے ان کو مطمئن کردیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیال ہی صحیح تھا ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دوہی گروہوں میں تقسیم ہوسکتی ہے ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کریم کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ وہ صرف تیسرا تھا تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ پچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید معذرۃ الی ربکم کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابل مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بناء پر مواخذاہ سے بری نہیں ہوسکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حدِ استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہا تھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ڈرو اس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو اور اس کی تشریح میں نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ حتٰی یروا المنکربین ظھرا ینھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ ‘ ” اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ “ مزیر برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر اللہ کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس (سخت عذاب) فرمایا گیا ہے اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنادیا گیا۔ ہم ایسے سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ان اصبت فمن اللہ وان اخطَئْت فمن نفسی واللہ عفورٌ رحیم۔ اس واقعہ پر تذکر کی نگاہ ان آیات کریمہ پر تذکر کے نقطہ نگاہ سے ایک دفعہ مزید نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ سب سے پہلی بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل مسلسل اللہ کی نافرمانیاں کرتے رہے لیکن پروردگار انھیں ڈھیل پر ڈھیل دیتا رہا لیکن جب ایک متعین حکم کی خلاف ورزی نہایت دیدہ دلیری اور اجتماعی طور پر کی گئی تو پھر پروردگار نے مزید ڈھیل نہیں دی بلکہ اس کا عذاب حرکت میں آگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی اللہ کو ماننے والا کوئی گروہ اجتماعی طور پر نافرمانی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے ان آیات کی روشنی میں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اسی انجام کی طرف تو نہیں بڑھ رہے۔ اقبال نے اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا۔ فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے مگر کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف اللہ نے سود کو حرام کیا ہے اور اس کے ارتکاب کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کی دھمکی دی ہے۔ اس کے باوجود ہم جس طرح بالائی سطح پر ہر طریقے سے اس کا تحفظ کر رہے ہیں اور اس عذاب سے نکلنے کی کوئی تدبیر بھی ہمارے پیش نظر نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی ہمارے لیے اجتماعی عذاب کا پیش خیمہ بن جائے۔ دوسری بات جو نہات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی قوم اللہ کی ناراضگی کی گرفت میں آتی ہے تو اس سے صرف وہ گروہ محفوظ رہتا ہے جو آخری حد تک لوگوں کو نافرمانی سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نافرمانی چاہے پارلیمنٹ کے اندر ہو رہی ہو چاہے قانون کی شکل میں ہو چاہے اس کا ارتکاب ذرائع ابلاغ کر رہے ہوں۔ چاہے تجارتی طور اطوار اس کی گرفت میں ہوں چاہے تعلیمی ادارے اس گناہ میں شریک ہوں ‘ جہاں کہیں بھی اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے اسے مناسب طریقے سے روکنا اور اپنی ہمت کے مطابق آخری حد تک اپنی مساعی بروئے کار لانا یہ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے ورنہ اللہ کا قانون جیسے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اس کی گرفت آئے گی تو گناہ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی پکڑے جائیں گے جنھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا آخر حد تک فرض انجام نہیں دیا ہوگا۔ پاکستان میں بطور خاص اللہ کی شریعت کا نفاذ سب سے پہلی ترجیح ہونا چاہیے اس کی مخالفت جہاں جہاں بھی ہو رہی ہے وہ اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے چاہے اس کے لیے الفاظ کے کیسے ہی طوطے مینا اڑائے جائیں وہ بہر حال اللہ کی شدید نافرمانی ہے اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اہل علم ہر سطح پر اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش کریں۔ علم کے زور سے بھی ‘ قلم کے زور سے بھی ‘ سیاست کے انداز میں بھی ‘ نصیحت کے اسلوب میں بھی اور قانونی کاوشوں سے بھی۔ اسی طرح بےحیائی کو روکنا مسلمانوں کے فرائض میں نفاذِ دین کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے ہم آج جس طرح اس گناہ کی لپیٹ میں ہیں اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہ کیا جاسکتا تھا۔ ٹیوی کی سکرین پر شیطان ننگا ہو کر ناچ رہا ہے۔ اخبارات کے مستقل صفحات اس گند کو روزانہ اچھالتے ہیں۔ سڑکوں پر جا بجا لگے ہوئے پورٹریٹ اور اشتہار اسلامی غیرت کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم اسلامی طرز تعلیم کا منہ چڑا رہی ہے۔ اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ احتیاط کے تمام پہلوئوں کے ساتھ اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ذہنوں میں لگے ہوئے جالے اتارے جائیں اور اسلامی مزاج پیدا کرنے کی کوشش کی جائے یہ محض میں نے چند باتوں کا حوالہ دیا ہے ورنہ ہماری پوری دینی زندگی داغ داغ ہوچکی ہے۔ اگر اللہ کے بندوں کا ایک بڑا طبقہ اسی جذبے سے سرشار ہو کر جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہوا ہے میدانِ عمل میں نہیں نکلے گا تو پھر ان آیات کی روشنی میں ہمیں اپنا انجام دیکھ لینا چاہیے۔ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں متعدد دفعہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے انہی میں سے ایک اہم واقعہ ابھی ہم نے پڑھا ہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ بار بار کی سزائوں اور حوادث کے باوجود ان کے اندر اصلاح کی تحریک پیدا نہ ہوئی۔ ہر حادثے نے انھیں جگانے کی بجائے مزید سلانے کا کام کیا۔ چناچہ اسی سلسلہ حوادث کے ضمن میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان کے اندر پروردگار کی طرف سے آنے والے نبیوں نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے بڑے بڑے واقعات کی خبر دی اور انھیں جھنجھوڑا کہ اپنی حالت بدلو ورنہ تمہارے ساتھ ماضی میں پیش آنے والے حوادث سے زیادہ اندہوناک واقعات پیش آسکتے ہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی آگاہی کو فیصلہ کن انداز میں بیان کیا جا رہا ہے۔
Top