Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور یاد کرو ! جب تیرے رب نے فیصلہ کن انداز میں خبر دار کیا کہ وہ روز قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو نہایت برے عذاب چکھاتے رہیں گے۔ بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مِنْ یَّسُوْمُھُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابَط اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ج صلے وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (الاعراف : 176) ” اور یاد کرو جب تیرے رب نے فیصلہ کن انداز میں خبر دار کیا کہ وہ روز قیامت تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو نہایت برے عذاب چکھاتے رہیں گے۔ بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا اور مہربان ہے “۔ یہود پرا بدی لعنت کا اعلان اس آیت کریمہ کے آغاز میں تَاَذَّن کا لفظ آیا ہے۔ جس کا صحیح مفہوم کسی قطعی فیصلے سے آگاہ کرنا اور نوٹس دینا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے اپنے اندر مبعوث ہونے والے انبیاء و رسول کی نصیحتوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی اجتماعی زندگی میں اللہ کے دین سے ان کی برگشتگی بڑھتی ہی چلی گئی تو پھر ایک ایسا وقت آیا جب مختلف انبیاء کے واسطے سے انھیں نوٹس دیا گیا کہ تم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا اور اس بغاوت سے باز نہ آئے جو تم نے اختیار کر رکھی ہے تو تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جائے گا جو تمہیں اپنے اپنے عہد اقتدار میں بد ترین عذابوں سے دوچار کریں گے۔ اور پھر یہ سلسلہ چند سالوں کا نہیں بلکہ یہ قیامت تک چلتا رہے گا تا وقتیکہ تم اللہ کے آخری نبی پر ایمان لا کر اپنی حالت نہ بدل ڈالو۔ جب ہم سابقہ آسمانی کتابوں میں اس فیصلے اور تنبیہ کا سراغ لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی تنبیہ حضرت موسیٰ و نے بھی انھیں بار بار فرمائی اور بعد کے نبیوں نے بھی نہایت واضح الفاظ میں انھیں اس سے آگاہ کیا۔ اہبار میں ہے ” اگر تم میرے سننے والے نہ بنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور مجھ سے عہد شکنی کرو تو میں بھی تم سے ایسا ہی کروں گا ……اور میرا چہرہ تمہارے بر خلاف ہوگا اور تم دشمنوں کے سامنے قتل کیے جاؤ گے اور یہ جو تمہارا کینہ رکھتے ہیں تم پر حکومت کریں گے۔ “ (اہبار ‘ باب 1426۔ 17) ” اسی طرح کتاب استثناء میں ہے تیرے بیٹے اور عزیز بیٹیاں دوسری قوم کو دی جائیں گی اور تیری آنکھیں دیکھیں گی اور سارے دن ان کی راہ تکتے تکتے تھک جائیں گی اور تیرے ہاتھ میں کچھ زور نہ ہوگا۔ “ (استثناء باب 28۔ 32) مختلف تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ارمیاہ ‘ حضرت شعیا اور حضرت حزقیل علیھم السلام انھیں متواتر جھنجوڑتے رہے کہ اللہ کے لیے اپنی حالت درست کرو ورنہ ظالم حکمران تم پر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تم اللہ کو پکارو گے لیکن تمہاری آواز سنی نہیں جائے گی۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان بار بار کی تنبیہات سے کوئی اثر قبول نہ کیا بالآخر اللہ کا وعدہ پورا ہوگیا کہ بابل کا جابر بادشاہ بخت نصر ان پر قہر خداوندی بن کر نازل ہوگیا۔ یروشلم ‘ بیت المقدس اور اس کے گرودنواح سے بنی اسرائیل کا بیج مار دیا گیا۔ بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے بیٹے ذبح کر دئیے گئے۔ بادشاہ اور رہے سہے یہودی پابہ زنجیربابل لے جائے گئے اور پچاس سال تک بخت نصر کی غلامی میں حسرت و ندامت کے آنسو بہا کر اپنے دن کاٹتے رہے۔ اس دور غلامی میں ان کی کچھ آنکھیں کھلی اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے اللہ نے انھیں سنبھلنے کا ایک اور موقع دیا۔ پانچ سو چھتیس قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل پر چڑھائی کر کے اسے فتح کرلیا اور بنی اسرائیل پر رحم کھا کر انھیں دوبارہ بیت المقدس تعمیر کرنے اور فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ بنی اسرائیل کو جیسے ہی آسودگی ملی ‘ عیش و عشرت کا دور آیا تو ان کی زندگی میں پھر بگاڑ کی تمام صورتیں زندہ ہوگئیں۔ عیش و نشاط کی محفلیں لوٹ آئیں۔ بت کدے پھر آباد ہونے لگے اللہ کا فیصلہ پھر حرکت میں آیا اب ان پر بخت نصر کی جگہ روم کے بادشاہ ایننتوکس ایپی فاینس نے ایک سو پینسٹھ قبل مسیح بیت المقدس پر حملہ کر کے دوبارہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تورات کے تمام نسخے چن چن کر جلا دئیے بنی اسرائیل کو ایک ایک کر کے تہِ تیغ کیا اور جو لوگ بچ گئے انھیں لوٹ کھسوٹ کر کے جلا وطن کردیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کو پھر سنبھلنے کا موقع ملا لیکن کسی خطے میں یک جا ہو کر عزت کی زندگی گزارنا ان کے لیے ممکن نہ ہوسکا اور ان کی عبادت گاہ بیت المقدس کی تعمیر پھر دوبارہ کبھی نہ ہوسکی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کے بعد بنی اسرائیل کی ایک شاخ آپ پر ایمان لے آئی اس قوم کے اعمال یہودیوں کے مقابلے میں بساغنیمت تھے ان میں ایک طرف عبادت گزاروں کی کثرت تھی دوسری طرف جہدو عمل کا جذبہ موجود تھا چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عروج آسمانی کے بعد تین سو سال کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں بنی اسرائیل کی یہ شاخ روما کی عظیم سلطنت کی مالک بن گئی۔ تقریباً چار سو سال تک عیسائیوں نے روم میں بڑے جاہ و جلال کی حکومت کی لیکن مرور ایام کے ساتھ اس قوم نے ایک طرف اپنے اصل دین کو بری طرح بگاڑ ڈالا اور دوسری طرف اس میں بھی رفتہ رفتہ یہودیوں کی سی خصلتیں پیدا ہونے لگیں۔ لیکن بنی اسرائیل کا وہ حصہ جو اب تک یہودیت پر قائم تھا وہ برابر اللہ کی ناراضگی کا ہدف بنا رہا اور انھیں کبھی بھی اجتماعی زندگی کی آسودگی نصیب نہ ہوسکی مختلف علاقوں میں بٹی ہوئی یہ قوم زندگی گزارتی رہی حتی کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت بھی انھوں نے راہ راست اختیار کرنے کی کوشش نہ کی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اللہ کے وعدے کے مطابق انھیں مدینے سے نکالا گیا پھر خیبر سے بھی نکال دئیے گئے پورا جزیرہ عرب ان سے پاک ہوگیا اور دنیا کے مختلف ملکوں میں محکومانہ زندگی گزارتے رہے اور مختلف اوقات میں اللہ کے فیصلے کے مطابق حکمرانوں کے مظالم کا شکار ہوتے رہے۔ اجتماعی طور پر ان کے ادھیڑ کھدیڑ کا آخری واقعہ ہٹلر کے زمانے میں پیش آیا اگر حالات مساعدت نہ کرتے اور مسلمان ممالک پناہ نہ دیتے تو ہٹلر ان کا قومی وجود ختم کر کے رکھ دیتا۔ مختصر یہ کہ ہر دور میں بنی اسرائیل اللہ کے اس اعلان کی گرفت میں رہے ہیں۔ کبھی بھی انھیں کسی علاقے میں نہ حکومت کرنے کا موقع ملا اور نہ اجتماعی آسودگی نصیب ہوسکی یہ صحیح ہے کہ بیچ بیچ میں مہلت کے وقفے بھی ملتے رہے اور قرآن کا اسلوب بیان خود اس کا شاہد ہے لیکن مستقل طور پر یہ ایک قوت بن کر خود اپنی حفاظت کرنے کے قابل ہوجائیں تاریخ میں اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی البتہ آج اسرائیل کے نام سے ان کی جو ریاست قائم ہے اس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں۔ پہلی بات یہ کہ ارض مقدس میں ان کا یہ اجتماع ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ آسمانوں سے تشریف لانے کے بعد دمشق کو اپنا مرکز بنا کر یہودیوں کے خلاف فوجی کاروائی کریں گے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یہودی فتنے کی سرکوبی کے لیے بھیجا جائے گا اس وقت یہودیوں کا جنگی لیڈر دجال کے نام سے معروف ہوگا۔ دجال کا معنی ہے بہت بڑا ڈپلومیٹ۔ اس کے پاس فوجی قوت بھی ہوگی اور ڈپلومیسی بھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس کا فیصلہ کن معرکہ لد پہاڑی کے پاس جہاں تل ابیب کا ہوائی اڈا ہے ‘ ہوگا اور وہاں دجال مارا جائے گا۔ عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد مسلمان ہوجائیں گے اور یہودیوں کو ایک ایک کر کے قتل کردیا جائے گا۔ موجودہ اسرائیل کی ریاست جس میں دنیا بھر کے یہودیوں کا اجتماع ہو رہا ہے معلوم ہوتا ہے اسی تباہی کے لیے ہے۔ یہیں آخری معرکہ ہوگا اور یہیں ان کی تباہی مکمل ہوگی۔ دوسری بات جو پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی بھی کا فرمعتوب قوم پر اللہ کا عذاب اس وقت آتا ہے جب مسلمان امت اپنی وحدت اور اپنے ایمان و عمل سے ایک قوت بن کر اٹھتی ہے اور علمی ‘ سیاسی اور فوجی توانائی سے مخالفین پر اتمامِ حجت کردیتی ہے لیکن خوداگر امت مسلمہ اختلاف اور افتراق کا شکار ہو اور ان کی ایمانی اور عملی زندگی اسلام کے لیے تہمت بن کر رہ جائے تو پھر نہ صرف کافر قوتوں کو مہلت ملتی رہتی ہے بلکہ ان سے مسلمانوں کو پٹوانے اور سزا دینے کا کام لیا جاتا ہے جس طرح ایک دور میں چنگیز سے مسلمانوں کو سزا دلوائی گئی اور پھر ایک وقت آیا یہی کام تیمور سے لیا گیا۔ اقبال نے ٹھیک کہا ع تقدیر کے نشتر ہیں تیمور ہوں یا چنگیز اسی طرح آج کل قدرت اسرائیل کے ذریعے عربوں کو سزا دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ پورا عالم اسلام بھی اس کی زد میں ہے کیونکہ عربوں اور مسلمانوں نے نہ صرف کہ اپنے آپ کو بہتر مسلمان ثابت نہ کیا اور اپنی حامل دعوت امت ہونے کی حیثیت کا احساس نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے اسرائیل کو برگ وبار پیدا کرنے ‘ طاقت حاصل کرنے اور پائوں جمانے کا موقع دیا ہے۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور روس تو براہ راست اس ناجائز وجود کے ذمہ دار ہیں لیکن عربوں نے چند ٹکوں کے عوض اسرائیل کو اپنی زمینیں سپرد کیں اور اپنی بزدلی اور بےہمتی سے برابر اسے اپنی حدود میں اضافہ کا موقع دیتے رہے۔ اسرائیل برابر فوجی طور پر مضبوط ہوتا رہا اس کی سرپرست طاقتیں مسلسل اس کو طاقت فراہم کرتی رہیں اس کے جابرانہ عزائم کبھی پردے میں نہیں رہے لیکن اس کے مقابلے میں عربوں نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ قدرت نے انھیں بہترین قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ تیل پر موجودہ دنیا کی زندگی قائم ہے اور اس علاقے میں عربوں کو اس زرِ سیال پر تقریباً اجارہ داری حاصل ہے لیکن انھوں نے قدرت کی اس گراں بہا نعمت کو بہ تمام و کمال ان غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا اور اس تیل کی رائلٹی پر قناعت کرکے اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں گویا اس نعمت کا اس سے بہتر کوئی مصرف نہیں پھر انھیں قدرتی وسائل کی صرف رائلٹی سے جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ تناسب کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ملکوں کی مجموعی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بینک آف انگلینڈ جیسے دولت مند بینک کی دو تہائی دولت صرف کو یت کی جمع کروائی ہوئی رقم سے حاصل ہوتی ہے اور دوسرے دولت مند عرب ممالک یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں جو رقمیں جمع کرواتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اندازہ کیجیے یہ سارا سرمایہ اسرائیل کو مضبوط کرنے میں صرف ہو رہا ہے اور خود عالم اسلام اس سے تہی دامن ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ عربوں نے اسے کبھی تمام مسلمانوں کا مسئلہ بننے کی اجازت نہیں دی وہ اس کو عربوں کا مسئلہ سمجھتے ہیں دوسرے مسلمان ممالک اپنے طور پر فلسطینی مسئلے کی حمایت کرتے ہیں اور ان میں بعض ممالک نے آج تک اسرائیل سے تعلقات بھی قائم نہیں کیے لیکن خود عرب ممالک کو مسلمانوں کے مسائل کی حمایت کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ پاکستان جو ہمیشہ اسرائیل کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے۔ اسرائیل کا براہ راست ہدف فلسطین کا سربراہ یاسر عرفات کبھی پاکستان کی شاہ رگ کشمیر کی حمایت نہیں کرسکا اسے ہمیشہ انڈیا کی دوستی کا دعویٰ رہا ہے۔ عرب ممالک سے گلہ اپنی جگہ پر ‘ ترکی جو کبھی خلافتِ عثمانیہ کا وارث تھا اور گئی گزرئی حالت میں بھی دنیائے کفر کو مسلمانوں کے کسی ملک پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور پھر اسرائیل کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود سلطنتِ عثمانیہ تھی لیکن ترک نوجوانوں نے نیشنل ازم کا فتنہ اٹھا کر تفریق و تقسیم کا ایسا راستہ کھولا کہ خلافتِ عثمانیہ ختم ہو کر رہ گئی اور مسلمان ایک دوسرے کی معاونت سے محروم ہوگئے۔ عرب نظریہ وطنیت کی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہاں اس نظریے کے اولین بانی تمام تر عیسائی اور یہودی تھے۔ جن پانچ نوجوانوں نے اس نظریہ وطنیت کو فروغ دینے اور خلافتِ اسلامیہ کو تاراج کرنے کو ہدف بنا کر کاوشیں شروع کی تھیں وہ تمام کے تمام عیسائی تھے اور بیروت کے سیرین پروٹسٹنٹ کالج کے پڑھے ہوئے تھے ان میں سے دو آدمی سب سے زیادہ نمایاں ہوئے ایک ناصف یازجی اور دوسرے بطرس بستانی یہ دونوں لبنان کے عیسائی تھے۔ بستانی ہی نے سب سے پہلے ایک حدیث گھڑ کر اسے نعرہ بنایا۔ حب الوطن من الایمان۔ وطن کی محبت جزو ایمان ہے اور اس فتنہ اٹھانے کا مقصود صرف یہ تھا کہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کر کے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کیا جائے۔ چناچہ اس مقصد کے لیے کمال پاشا اور اس کے ساتھیوں کو ساتھ ملایا گیا اور خلافتِ عثمانیہ پر ایک کامیاب وار کیا گیا کیونکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سلطان عبد الحمید ثانی کسی طرح اسرائیل کے وجود کا تصور کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ چناچہ جب برطانیہ نے یہودیوں کو یوگنڈا کے ایک علاقے کی پیش کش کی تو یہودیوں نے اسے نامنظور کردیا اور وہاں آباد ہونے کی بجائے انھوں نے 1902 ء میں تھیوڈو رہزول کو قائد بنا کر ایک وفد خلافتِ عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید ثانی کی خدمت میں بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے اور ساتھ ہی یہ پیش کش کی کہ اس ” اجازت “ کے صلے میں ہم ترکی حکومت کے بیرونی قرضے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن سلطان عبد الحمید ثانی نے اس درخواست کا جو جواب د یا وہ عرب نیشنلزم کے ان دلداگان کے لیے سرمہ بصیرت ہے جو ترکی خلافت کو اپنا سب سے بڑا دشمن خیال کرتے ہیں۔ تھیوڈور ہر زل اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ سلطان عبد الحمید کا جواب یہ تھا : ” ڈاکٹر ہر زل کو باخبر کردو کہ وہ آج کے بعد فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی ہر کوشش سے دستبردار ہوجائیں۔ یہودی فلسطین کو صرف اس صورت میں حاصل کرسکتے ہیں جب کہ خلافتِ عثمانیہ ایک خواب و خیال ہوچکی ہو۔ “ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عربوں سمیت ترکوں نے بھی نظریہ وطنیت کی معرفت اسرائیل کو وجود میں لانے کی بالواسطہ مدد کی ‘ اور پھر عرب اپنی عیاشیوں کے باعث اسے مضبوط کرنے کا سبب بنتے رہے جن ملکوں نے اسے قائم کیا اور جو آج تک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں عربوں کا سارا سرمایہ انھیں کی تحویل میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو قوم ایک راندہ درگاہ قوم کو خود وجود دیتی اور خود اس کے استحکام کا باعث بنتی ہے اسے قدرت اگر خود ان کے استحاصل اور تباہی کے لیے استعمال کرتی ہے تو اس میں تعجب کی بات کیا ہے ؟ آخری بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے چوتھے پارے میں یہ بات واضح فرمائی ہے کہ یہود پر ذلت اور مسکنت کی پھٹکار ماری گئی ہے البتہ ! اس سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ وہ مسلمان ہوجائیں پھر ان کی تاریخ یہود کی نہیں مسلمانوں کی تاریخ ہوگی اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بڑی طاقت کے زیر سایہ اس کا دامن پکڑ کر زندگی گزاریں۔ آج اسرائیل کی تمام تر قوت اور اس کی ریاست کا استحکام امریکہ ‘ برطانیہ اور روس کا مرہونِ منت ہے۔ آج اگر یہ تینوں ملک اس کے سر سے ہاتھ اٹھا لیں تو یہ ریاست اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتی۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ ” تیرا رب بڑی تیزی سے سزا دینے والا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے “۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ پروردگار کو دنیا کے معاملات سے الگ تھلگ نہ سمجھا جائے یہ خیال نہ کرو کہ دنیا میں جو چاہے ہوتا رہے پروردگار اس میں کبھی دخل نہیں دے گا تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوموں کو مہلت دینے اور بالآخر پکڑنے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جب تک ان کا وقت نہیں آتا تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شائد پروردگار دنیا کے نظام سے بےنیاز ہے لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ اہل دنیا کو مزید مہلت نہیں دیتا اور مزید فرمایا کہ وہ تیزی سے سزا دینے والا ہے تو اس سے ان لوگوں کو توجہ دلانا مقصود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں شائد دیر ہی نہیں اندھیر بھی ہے یعنی کچھ ہوتا رہے یہاں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے انھیں بتایا جا رہا ہے کہ قوموں کو جو مہلت ملتی ہے وہ ایک دیر کی صورت تو ہوتی ہے اندھیر کی نہیں۔ جب اس کی گرفت آتی ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ چشم زدن میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی ایک اور سزا کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top