Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ کے لیے خوبصورت نام ہیں تو انھیں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کی صفات کے بارے میں کج روی اختیار کر رہے ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کا بدلہ پائیں گے۔
ارشاد ہوتا ہے۔ وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَاص وَذرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآ ئِہٖط سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الاعراف : 180) ” اور اللہ کے لیے خوبصورت نام ہیں تو انھیں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کی صفات کے بارے میں کج روی اختیار کر رہے ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کا بدلہ پائیں گے “۔ اسمائے حسنہ سے ضروری باتیں گزشتہ آیت کریمہ کی وضاحت سے یہ بات تو معلوم ہوگئی ہے کہ انسانی زندگی کے سارے بگاڑ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں سے پوری طرح کام نہیں لیتا جن سے کام لے کر وہ گمراہی سے بچ سکتا ہے اور ہدایت کے راستے پر پہنچ سکتا ہے۔ البتہ اس کے برعکس وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو صرف حیات دنیا اور اس کی ضروریات کے لیے صرف کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی تباہی کے راستے پر پڑجاتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک اور حقیقت بیان فرمائی جا رہی ہے جو پہلی آیت میں بیان کردہ حقیقت کا لازمہ ہے جب کوئی فرد یا کوئی قوم اپنے حواس اور دل و دماغ کو حقیقت شناسی کے لیے استعمال نہیں کرتی بلکہ اس کی ساری تگ و دو ضروریاتِ زندگی میں سمٹ کر رہ جاتی ہیں تو رفتہ رفتہ زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اس کی نگاہوں سے اجھل ہوجاتی ہے اور یہ حقیقت ایسی ہے کہ صحیح طریقے سے غور و فکر کیا جائے تو اس کی حیثیت ایک پیش پا افتادہ حقیقت کی ہے اور اگر اپنی صلاحیتوں کو مادی رنگ میں پوری طرح رنگ دیا جائے تو پھر یہ حقیقت نظروں سے ایسی اوجھل ہوتی ہے کہ کبھی دکھائی نہیں دیتی وہ حقیقت اللہ کے وجود کا یقین ‘ اس کی صفات کی معرفت اور انسان اور اس کائنات کا اس سے تعلق ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر زندگی کے تمام حقائق کا دارومدار ہے یہ وہ خشت اول ہے جس پر دین کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے اگر یہ سیدھی ہے تو پوری عمارت سیدھی ہے اور اگر یہ کج ہوجاتی ہے تو پوری عمارت ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ چناچہ ہر دور کے گم کردہ راہ لوگوں کی گمراہی کا حقیقی سبب یہی رہا ہے کہ ان کے تصورات اللہ کریم کے بارے میں غلط ہوتے چلے گئے کسی نے سرے سے اس کا انکار کیا تو کائنات کی تخلیق کی عجیب و غریب توجیہات پیش کیں اور کسی نے اس کے ساتھ دوسری قوتوں کو شریک ٹھہرایا تو نتیجتاً اس کی معرفت میں بال آتے چلے گئے گمراہی کی سلوٹیں بڑھتی چلی گئیں اور خود انسانی زندگی قوت سے محروم ہو کر مختلف خانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی اور پھر یہ گمراہی جیسے جیسے پختہ ہوتی گئی ویسے ویسے اس کی نئی نئی شکلیں بھی بنتی گئیں جن قوموں نے اللہ تعالیٰ کی تجسیم کی انھوں نے کبھی مظاہر فطرت کی پوجا کی اور کبھی طاقت اور قدرت کی مسندوں پر بیٹھنے والوں کو مظاہرِ فطرت کے اوتار اور دیوتائوں کی صورت میں قبول کیا اور جن لوگوں نے تنزیہ کا راستہ اختیار کیا وہ تعطیل کی وادی میں داخل ہوگئے اور وضعی علوم اور عقل و خرد کے باعث خیالی اور غیر حقیقی وادیوں میں کھو کر رہ گئے لیکن انہی گمراہیوں کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ دوسری گمراہیوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اللہ کے اسماء میں بھی ٹھوکریں کھائیں اور اپنے اپنے خیال کے مطابق اپنے مقرر کردہ ناموں سے اللہ کو پکارنے لگے کیونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ جب کسی شخصیت کے بارے میں انسانی تصور بگڑتا ہے تو اس کے دو نتیجے ضرور نکل کر رہتے ہیں ایک تو یہ کہ اس شخصیت کے بارے میں انسانی رویہ بدل جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے احساس کے مطابق اس کا کوئی نہ کوئی نام تجویز کرتا ہے اور یہ دونوں طرح کے بگاڑ انسانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ چناچہ اسی بگاڑ کی اصلاح کے لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کو اسمائے حسنیٰ سے نہ صرف یاد کرنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ صاف طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو نام خود اس نے اپنی کتابوں میں مقرر کر دئیے ہیں اس کو انھیں ناموں سے پکارا جائے۔ اپنی طرف سے نام (جو دراصل اس کی صفات ہیں) کا تعین نہ کیا جائے۔ علماء نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام توقیفی ہیں۔ یعنی ان کے سوا اللہ تعالیٰ کو کسی اور نام سے یاد کرنا ‘ پکارنا یا اسے اللہ تعالیٰ کا پاک نام سمجھنا جائز نہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کو جواد کہہ سکتے ہیں سخی نہیں۔ نور کہہ سکتے ہیں ابیض نہیں۔ شافی کہہ سکتے ہیں طبیب نہیں کیونکہ یہ دوسرے الفاظ منقول نہیں۔ اگرچہ انہی الفاظ کے ہم معنی ہیں۔ اس آیت میں واضح طور پر فرمایا کہ ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے نام رکھنے میں الحاد اختیار کرتے ہیں۔ الحاد کا معنی ہوتا ہے راستی سے انحراف کرنا اور کج روی اختیار کرنا۔ اسمائے الٰہیہ میں تحریف یا کج روی کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے لیے وہ نام استعمال کیا جائے جو قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت نہیں۔ یا اللہ تعالیٰ کے جو نام قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان میں سے کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لیے استعمال کیا جائے مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لیے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لیے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم ‘ رشید ‘ علی ‘ کریم ‘ عزیز وغیرہ۔ اور اسمائے حسنیٰ میں سے وہ نام جن کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ ان کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا الحاد میں داخل اور ناجائز ہے۔ مثلاً رحمن ‘ سبحان ‘ رزاق ‘ خالق ‘ غفار ‘ قدوس وغیرہ۔ پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے اور اس کو ہی خالق یا رزاق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کر رہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بےفکری یا بےسمجھی سے کسی شخص کو خالق ‘ رازق یا رحمن ‘ سبحان کہہ دیا تو یہ اگرچہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ شدید ہے۔ قرآن کریم نے تو اس آیت میں صرف اسمائے حسنیٰ کا ذکر فرمایا اور ان سے اپنے مالک کو پکارنے کا حکم دیا مگر صحیح احادیث میں ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے اور اس کے اجر وثواب کا ذکر بھی ملتا ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کی۔ حدثنا علی بن عبد اللہ حدثنا سفیان قال حفظنا عن ابی الزناد عن الاعرج عن ابی ہریرہ روایۃ قال ان اللہ عزوجل تسعۃ و تسعین اسماً مائۃ الا واحدۃ لا یحفظھا احد الا دخل الجنۃ وھو وتر یحب الوتر۔ (جلد ہفتم ص 57) ہم سے علی بن عبد اللہ نے حدیث بیان کی اور ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی اور کہا کہ ہم نے ابو زناد سے انھوں نے اعرج سے انھوں نے ابوہریرۃ ( رض) سے یہ یاد کیا ہے کہ ابوہریرۃ ( رض) روایت کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے 99 نام ہیں۔ ایک کم سو۔ جس نے ان کو حفظ کرلیا وہ داخل جنت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ وتر ہے، وتر کو دوست رکھتا ہے۔ امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں دو سندوں کے ساتھ معمولی لفظی تغیر کے ساتھ اسی حدیث کو ذکر فرمایا۔ امام ترمذی نے بھی اپنی کتاب صحیح ترمذی میں اسی حدیث کا ذکر کیا۔ جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار کے 99 نام ہیں۔ جو آدمی ان کو یاد کرے گا اور پھر ان کی پوری گنتی کے ساتھ اللہ کو پکارے گا اور ان ناموں میں بیان کردہ صفات کا صحیح تصور اپنے دل و دماغ میں اس طرح راسخ کرلے گا کہ وہ اس کی زندگی کا جزو بن جائے تو یقینا ایسے شخص کو پروردگار جنت عطا فرمائیں گے۔ البتہ ! یہاں دو اشکال ایسے ہیں جن کا جواب بہت ضروری ہے۔ اسمائے خداوندی کی تعداد کے تعین میں دواشکال اور اس کا جواب 1 بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار کے نام 99 نہیں بلکہ اور بھی ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں میں کیا گیا حالانکہ ان حدیثوں میں متعین طور پر 99 کے عدد کا ذکر آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ متعین عدد دخول جنت کا ذریعہ ہے یعنی جو اتنی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کو حفظ کرے گا اور پھر اس کو دل و دماغ میں اتار کر اپنا عمل بنالے گا یقینا وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔ 2 دوسر ا اشکال یہ ہے کہ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ( رض) سے ان 99 ناموں کا ذکر کیا اور امام ترمذی کی یہ حدیث تین طریقوں سے ہم تک پہنچتی ہے۔ پہلے طریقے کو طریق صفوان بن صالح کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ زہیر بن محمد کا ہے جسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ تیسرا طریقہ عبد العزیز بن حصین کا ہے جسے حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے۔ اس میں باعث اشکال بات یہ ہے کہ ان روایات میں ناموں کی گنتی تو وہی ہے لیکن ناموں کے تعیین میں اختلاف ہے کہ کسی نے ایک نام لیا ہے تو کسی نے دوسرا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ سے ناموں کی گنتی منقول ہوتی تو اس میں اختلاف کیوں ہوتا ؟ اور پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سلف صالحین میں مختلف بزرگوں نے اپنے طور پر ناموں کو جمع کیا۔ اب اگر ان کے نزدیک یہ احادیث صحت کے معیار پر ہوتیں تو یہ یقینا اسی پر اکتفا کرتے مثلاً خود حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اپنے طور پر اسمائے حسنیٰ جمع کیے اور پھر انھوں نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ ابو زید لبغوی نے اسمائے حسنیٰ کا استخراج قرآن مجید سے کیا۔ پھر اس فہرست میں امام سفیان بن عینیہ نے اور امام جعفر صادق رحمہما اللہ تعالیٰ نے اضافہ فرمایا۔ اس اشکال کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں بلکہ حضرت قاضی محمد سلیمان منصور پوری ( رح) کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ ” ہر سہ طرق روایات اور اسمائے مبینہ پر غور کرنے کے بعد ایک متحقق و متجسس بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ کی تعیین و تفصیل نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں۔ غالباً اسے بھی ایسے ہی مصالح دینیہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جیسے لیلتہ القدر کی تاریخ یا یوم الجمعہ کی ساعت مقبولہ کو ترک کیا گیا۔ “ اس عاجز کا گمان ہے کہ امام ترمذی کی روایت کردہ حدیث کی ایک توجیہہ یہ ہوسکتی ہے (علماء کرام اس پر غور فرمالیں) کہ حدیث کے ابتدائی حصہ میں 99 کے تعیین کا ذکر اور اس کی فضیلت کا ذکر ہے یہاں تک تو اس میں اور بخاری اور مسلم کی روایات میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ ! اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ( رض) اسمائے الٰہی کا ذکر کرتے ہیں، اس عاجز کا گمان یہ ہے کہ یہ اسماء شاید انھوں نے اپنے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی طرف سے نہیں۔ ” واللہ اعلم واحکم بالصواب “ اب تک بحث سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ پروردگار کی پہچان کا صحیح طریقہ اس کی صفات کی معرفت ہے اور صفات کی معرفت کے لیے انسانی حواس اور انسانی عقل کفایت نہیں کرتی۔ جب بھی انسان نے اپنی عقل اور شعور سے کام لے کر اللہ کی صفات کے تعین کی کوشش کی ہے تو اس نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے۔ چناچہ پروردگار نے اپنی صفات کے طور پر اپنے پیارے نام اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو تلقین فرمائے اور ساتھ ہی حکم دیا۔ ” وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا۔ “ اللہ کے لیے عمدہ اور خوبصورت نام ہیں۔ انہی ناموں سے اسے پکارو۔ یعنی اسے یاد کرو۔ اسی سے ضرورت کے وقت مدد مانگو۔ ہرحال میں اسی سے دعا مانگو۔ ہرحال میں اسی سے دعا کرو۔ اب صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اللہ کو پکارنے کے کچھ آداب بھی ہوں گے۔ وہ آداب کیا ہیں ؟ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے کلام پاک میں ہمیں ان آداب سے بھی بہرہ ور فرمایا۔ سورة اعراف میں ارشاد فرمایا۔ ” ادعوا ربکم تضرعاً وَّخفیۃً انہ لا یحب المعتدین۔ “ ” پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے۔ اس کو خوش نہیں آتے حد سے آگے بڑھنے والے۔ “ اس آیت میں اگر غور کیا جائے تو تین امور کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔ 1 جسے پکارا جا رہا ہے اس کی ذات سے انسان کا تعلق۔ 2 پکار نے اور مانگنے کے آداب۔ 3 اور اگر کچھ مانگا جا رہا ہے تو اس کی حدود کا علم۔ محولہ بالا آیت کریمہ میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ تم جسے پکار رہے ہو وہ تمہارا رب ہے۔ جس کی ربوبیت کائنات کے ذرے ذرے کو زندگی اور بقاء کا سروسامان فراہم کر رہی ہے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے انسان کی زندگی کی تمام ضروریات کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ ماں کی مامتا جو اپنے بچے کی نگہداشت میں ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے اسے بھی ربوبیت کی ہمہ گیری سے کوئی نسبت نہیں۔ اس کی نگاہ بھی کبھی نہ کبھی بچے کی طرف سے تغافل کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسکا دل بچے کے احساس کو سمجھنے میں کوتاہی کرجاتا ہے مگر وہ ذات جو رب کائنات ہے اس کی غورو پرداخت کی نگاہ کبھی غافل نہیں ہوتی۔ وہ ضروریات کو نہیں بلکہ ضروریات کے احساس تک کو جانتا ہے جو اپنی مخلوق کے لیے ماں سے کہیں بڑھ کر شفیق و رحیم ہے۔ اس لیے مانگنا ہو تو اسی سے مانگو ‘ پکارنا ہو تو اسی کو پکارو اس کے علاوہ کوئی ذات اس قابل نہیں کہ انسانی اپنی حاجت روائی کے لیے اس سے رجوع کرے۔ اس طرح اپنی حیثیت کے تعین اور انسان سے تعلق کی گہرائی کو واضح کرنے کے بعد ” تضرعاً وخفیۃً “ فرما کر مانگنے اور پکارنے کے آداب کو واضح فرمایا۔ تضرع کے معنی عاجزی ‘ خوشامد ‘ لجاحت اور تذلل کے اظہار کے ہیں اور خفیہ کے معنی ہیں پوشیدہ ‘ چھپا ہوا ‘ ان دونوں لفظوں میں مانگنے والے کی اصل حیثیت اس پر ظاہر کی گئی ہے کہ جب تک تمہیں اپنی اصل حیثیت کا احساس نہ ہوگا تم دعا کے آداب کو بھی ملحوظ نہیں رکھ سکو گے۔ تمہاری حیثیت یہ ہے کہ دینے والا جتنا عظیم ہے تم اتنے ہی عاجز ہو۔ تمہاری حیثیت اس کے سامنے سرتاپا عجز و انکسار کے سوا اور کچھ نہیں۔ تم جب اس سے مانگو تو تمہارے الفاظ بھی عجز کا اظہار کریں اور تمہارے جسم پر بھی اس کی عظمت اور اپنی عاجزی کے احساس سے کپکپی طاری ہوجائے۔ تمہارا لب و لہجہ عاجزی کی تصویر ہو۔ تمہارا ہر بول زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کے نکلے۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی برکھا برسے اور دل اس یقین سے سرشار ہو ؎ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ‘ ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا تیرے کرم سے ہوگا قلب ونظر کے اس احساس کے ساتھ ساتھ تمہاری ظاہری ہیئت و صورت بھی اس کے شکر گزار اور فرمانبردار فقیر کی ہونی چاہیے۔ جس کے سراپا پر اس کے احکام سے انحراف اور نافرمانی کی پچھائیں بھی نہ پڑی ہوں۔ جیسا کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ ایک موقعہ پر حضور ﷺ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک انسان دور دراز مقام کا سفر کرتا ہے۔ پراگندہ حالت اور پریشان صورت میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے کہتا ہے۔ ” اے رب ‘ اے رب “ حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ‘ لباس حرام کا ہے اور اس کے گوشت پوست کی پرورش بھی حرام سے ہوئی ہے تو اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی۔ اس لیے فرمایا کہ مانگتے ہوئے تمہیں تضرع کی تصویر بننا چاہیے اور تمہارے قول اور عمل ‘ احساس اور عقیدہ میں کہیں بھی اللہ کے احکام سے انحراف نہ پایا جائے اور دوسرا لفظ فرمایا ‘ خفیہ ‘ یعنی جب اس سے مانگو تو چیخ کر اور چلا کر نہ مانگو کیونکہ چیخنا اور چلانا اس کی عظمت کے آداب کے منافی ہے۔ وہ جو دل کی ڈھرکنیں سنتا ہے ‘ خاموش دعائوں کو بھی سنتا ہے۔ چناچہ خیبر کے موقع پر جب صحابہ کی آوازیں بلند ہوئیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تمہارا مخاطب ایک سمیع و قریب ہے۔ حسن بصری ؓ فرماتے ہیں کہ اعلانیہ دعا کرنے اور آہستہ دعا کرنے میں ستر درجہ فضیلت کا فرق ہے۔ ایک روایت میں امام احمد بن حنبل (رح) نے حضرت سعد بن وقاص ( رض) سے نقل کیا ہے بہترین ذکر خفی ہے اور یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ بلند آواز سے دعا مانگنے سے اول تو تواضع اور انکسار باقی رہنا مشکل ہے۔ ثانیاً اس میں ریا اور شہرت کا بھی خطرہ ہے۔ جسے حدیث میں شکر خفی کہا گیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا (انہ لا یحب المعتدین ” اور اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے “ ) یہاں حد سے آگے بڑھنے سے مراد دعا یعنی پکارنے میں حد سے آگے بڑھنا ہے یعنی مانگنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعا کی حدود کیا ہیں ؟ تاکہ وہ ان حدود سے آگے نہ بڑھے۔ ان حدو سے آگے بڑھنے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ لفظی تکلفات اور قافیہ وغیرہ اختیار کیا جائے اور شعروں کی صورت میں گا گا کر دعا مانگی جائے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گاناباقی رہ جائے گا دعا کی روح ختم ہوجائے گی اور دعا ‘ دعا نہ رہے گی بلکہ ٹھمری بن جائے گی۔ اکبر مرحوم نے شاید ایسے ہی موقعہ کے لیے کہا تھا ؎ عبادت سے محبت ہے انھیں گانے کی عادت بھی نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر دوسری صورت یہ ہے کہ دعا میں غیر ضروری شرطیں لگائی جائیں۔ جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مغفل ( رض) نے دیکھا کہ ان کا صاحبزادہ اس طرح دعا مانگ رہا ہے کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا دا ہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں۔ تو آپ نے اسے آنحضرت ﷺ کا حکم سنایا کہ دعا میں ایسی شرطیں حد سے تجاوز ہیں جن کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لیے مضر ہو یا ایسی چیز کی دعا کرے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت ‘ حکمت اور احکامِ شریعت کے خلاف ہو۔ قبولیتِ دعا کی تین صورتیں حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جو دعا بھی خدائے عزوجل کی عظمت و رحمت کے تصور اور اپنی عاجزی اور سرافگندگی کے اعتراف اور دعا کے تمام تر آداب و شرائط کے ساتھ مانگی جائے وہ کبھی رد نہیں ہوتی۔ البتہ ! اس کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں۔ 1 مانگنے والے کو وہی کچھ دنیا میں ہی عطا فرما دیا جاتا ہے۔ جس کی اس نے اپنے مالک سے دعا کی تھی۔ 2 مانگنے والا جو کچھ مانگ رہا ہے وہ تو عطا نہیں کیا جاتا البتہ اس کے عوض کوئی آنے والی بلا اور مصیبت اس سے ٹال دی جاتی ہے۔ مگر یہ اپنی کم علمی اور جہالت کے باعث یہی سمجھتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ 3 تیسری صورت قبولیت کی یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی مگر دنیا کی یہ محرومی اس کے لیے ثمرہ آخرت بن جائے گی اور جب اسے اچانک یہ نعمت غیر مترقبہ اجر وثواب کی صورت میں عطا ہوگی تو وہ حیران رہ جائے گا اور تمنا کرے گا کہ کاش ! دنیا میں اس کی کوئی دعا بھی قبول نہ ہوتی تاکہ آج اس اجر وثواب کی صورت میں ایک خزانہ ہاتھ آتا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا پروردگار اتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں جو آداب و شرائط کی کامل پابندی سے مانگی جائیں کبھی رد نہیں فرماتا۔ البتہ ! اس کے یہاں قبولیت کی صورتیں مختلف ہیں مگر بندہ اپنی بیخبر ی کے باعث بعض دفعہ بےصبر ہوجاتا ہے اور یہ سمجھ کر کہ مدت سے دعا کر رہا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی، دعا مانگنا ہی چھوڑدیتا ہے۔ ممکن ہے جس وقت بندہ دعا مانگنا چھوڑ رہا ہو ‘ وہی وقت اس کی قبولیت کا ہو یا پروردگار نے اس کی دعائوں کو توشہ آخرت بنانے کا حکم دے دیا ہو۔ دونوں صورتوں میں یہ بےصبری اور جلد بازی کیسے برے نتائج پیدا کرسکتی ہے اس لیے بندہ کبھی بےصبر نہ ہو اور کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ آخر میں ہم دو احادیث نقل کرتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے ہر طرح کی پریشانی میں بعض اسمائے حسنیٰ کے ذریعے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا ہے بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی اور نسائی میں یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ جو بھی اپنی پریشانی میں ان کلمات کے ساتھ دعا مانگے گا اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات دور فرمائیں گے۔ وہ کلمات یہ ہیں۔ لَآ اَلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعظِیْمِ ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اور مستدرکِ حاکم میں بروایت انس ( رض) مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ زہراء ( رض) سے فرمایا کہ تمہارے لیے اس سے کیا چیز مانع ہے کہ تم میری وصیت کو سن لو اور اس پر عمل کرو، وہ وصیت یہ ہے کہ صبح شام یہ دعا کرلیا کرو۔ یَاَحیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْ نِیْ کّلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ یہ دعا بھی تمام حاجات و مشکلات کے لیے بےنظیر ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں سابقہ آیات میں بیان کردہ طرز فکر کے حامل لوگوں کو مختلف لوگوں کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے تاکہ اللہ کے نیک بندوں کے حوصلے کا سامان ہو۔
Top