Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے تسکین پائے جب مرد عورت کو ڈھانک لیتا ہے تو وہ اٹھالیتی ہے ایک ہلکا ساحمل پھر وہ اس کو لیے چلتی پھرتی رہتی ہے پھر جب وہ بوجھل ہوجاتی ہے تو دونوں اللہ (یعنی اپنے رب سے) دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں تندرست اولاد بخشی تو ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے
گمراہی کے دوسبب : پیشِ نظر رکوع شروع کرنے سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کرلینی چاہییں۔ 1 قومیں جن اسباب سے گمراہی کا شکار ہوتی ہیں ان میں کبھی تو یہ سبب ہوتا ہے کہ وہ پیغمبر کی حیثیت اور اس کے مقام کو نہ سمجھنے کے باعث اس پر ایمان لانے سے محروم رہتی ہیں اور اس سے وہ مطالبات کرتی چلی جاتی ہیں جن کا تعلق نبوت سے نہیں ہوتا اس لحاظ سے وہ نبوت اور الوہیت کو خلط ملط کردیتی ہیں۔ پیغمبر ان کے لیے اسوہ حسنہ بن کر آتا ہے اور وہ اسے الوہیت کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتی ہیں۔ نتیجہ واضح ہے کہ یہ دونوں چیزیں چونکہ الگ الگ حقیقت رکھتی ہیں اس لیے دونوں کی پہچان کا دارومدار الگ الگ حقیقت کو سمجھنے پر ہے جب قومیں اس کے فہم سے عاجز رہتی ہیں تو وہ پیغمبر پر ایمان لانے سے محروم ہوجاتی ہیں اور کبھی گمراہی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کی حقانیت کو محسوس کرکے ایمان تو لے آتی ہیں لیکن ان کے بعد کی آنے والی نسلیں رفتہ رفتہ پیغمبر کے کمالات کو دیکھتے ہوئے پیغمبر کی حقیقی شناخت کو گم کرنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغمبر پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اس کی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کے باعث اسے اللہ کی صفات میں شریک کرنے لگتی ہیں کبھی اللہ کی کسی صفت کو اس کی طرف منسوب کرتی ہیں اور کبھی کسی صفت کو۔ بالآخر وہ اسی گمراہی میں جاپڑتی ہیں جس سے اللہ کے نبی کی تعلیمات نے ان کو نکالا تھا ان دونوں صورتوں میں تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی پیغمبر کی شناخت اور نبوت کی حقیقت کے فہم میں خرابی پیداہوئی ہے تو بالآخر عقیدہ توحید کو نقصان پہنچا ہے اور یہ ہم جانتے ہیں کہ عقیدہ توحید دین کی بنیاد اور اہل دین کی معراج ہے۔ اسی لیے سورت کو ختم کرتے ہوئے گزشتہ رکوع میں نبوت کی ضروری صفات کا ذکر کیا گیا اور اب پیش نظر رکوع میں توحید کو دوبارہ دل و دماغ میں اتارنے کے لیے نہایت موثر انداز میں شرک کی تردید فرمائی گئی ہے۔ 2 قرآن کریم کی اکثر سورتوں میں قرآن کریم کا یہ اسلوب نظر آتا ہے کہ وہ جن مضامین پر پوری سورت میں زور دینا چاہتا ہے انھیں پورے شرح وبسط سے پوری سورت میں ایک تسلسل سے اس طرح بیان کرتا ہے جس طرح دریا اپنی روانی کے ساتھ بہتا ہے، وہ دریاہی کی طرح بحث کے ضمنی مضامین سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ بحث کے آگے بڑھنے سے جو سوالات پیدا ہوتے یا اشتباہات سراٹھاتے ہیں ان کا بھی ساتھ ساتھ تدارک کرتا چلا جاتا ہے اور سورت کے آخر میں پہنچ کر بحث کے اصولی مضامین کو سمیٹ کر خلاصہ کی شکل میں بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کریم کا قاری سورت کے آخر میں پہنچ کر ایک دفعہ پھر اس کے بنیادی مضامین کو ذہن میں تازہ کرلے اور یہ مضامین اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوجائیں۔ اس سورت کا مرکزی موضوع عقیدہ توحید ہے اور اس عقیدے کو جیسا کہ عرض کیا گیا سب سے زیادہ نقصان حقیقت رسالت اور عقیدہ رسالت میں قصور فہم سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے پیش نظر رکوع میں دونوں بحثوں کو خلاصے کی صورت میں بحث کو سمیٹے ہوئے ازسرِ نو بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلے عقیدہ توحید کے مختلف پہلوئوں کو واضح کیا گیا اور اس ضمن میں نہایت گہرائی سے شرک کی مختلف شکلوں کی تردید کی گئی اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے خطاب فرماکر آپ کی ذمہ داریوں کا اس طرح ذکر فرمایا گیا جس سے مسلمانوں کو اپنی ذمہ دارریاں سمجھنے میں مدد ملی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ نبوت اور رسالت کی حقیقت کیا ہوتی ہے ؟ اور نبی فی الحقیقت دنیا میں کیا فریضہ انجام دینے کے لیے آتا ہے ؟ اس رکوع کی پہلی آیت میں عقیدہ توحید کے بنیادی مقدمات کو بیان کرتے ہوئے عقیدہ توحید کے متضاد پہلو یعنی شرک کو واضح کرتے ہوئے مشرکین کی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا ج فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَااللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ فَلَمَّا اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا ج فَتَعٰلٰی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ اَیُشْرِکُوْنَ مَالَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّلَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ (الاعراف : 192، 189) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے تسکین پائے جب مرد عورت کو ڈھانک لیتا ہے تو وہ اٹھالیتی ہے ایک ہلکا ساحمل پھر وہ اس کو لیے چلتی پھرتی رہتی ہے پھر جب وہ بوجھل ہوجاتی ہے تو دونوں اللہ (یعنی اپنے رب سے) دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں تندرست اولاد بخشی تو ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے تو جب اللہ ان کو صحیح سالم اولاد دے دیتا ہے تو وہ اس کی بخشی ہوئی چیز میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگتے ہیں اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں کیا وہ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ؟ جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ نہ وہ ان کی کسی قسم کی مدد کرسکتی ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتی ہیں۔ آیات میں بیان کردہ تین حقائق ان آیات میں مختلف باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جن کو ہم ایک ترتیب سے ذکر کرتے ہیں۔ 1 مشرکینِ مکہ جس طرح اللہ کی ذات کے قائل تھے اسی طرح وہ اس کی بعض صفات کے بھی قائل تھے اس لیے سب سے پہلے ان کی تسلیم کردہ باتوں کا حوالہ دے کر انھیں بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، انھیں یاد دلایا گیا ہے کہ تم اس بات کے قائل تو ہو کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہارے جدِامجد یعنی پہلے انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کی تخلیق میں اللہ کے ساتھ کوئی اور شریک نہ تھا اور اسی طرح تم یہ بھی جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیوی کو اپنی قدرت کاملہ سے انہی کی جنس سے پیدا فرمایا تھا اور ان کو پیدا کرنے میں بھی اللہ کے ساتھ کوئی اور شریک نہ تھا اور پھر اس دلیل کو مزید موثر بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ بھی تم جانتے ہو کہ اللہ نے جو پہلا انسانی جوڑا مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا ان میں نہایت سازگاری رکھی جس میں دو باتیں معمولی غور و فکر سے بھی سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرد و عورت کے جسمانی اعضاء ان کے جسم کی ترکیب اور ان کی جسمانی ساخت واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کو الگ الگ ذمہ داریوں کے حوالے سے پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دونوں کے احسا سات، دونوں کے طبعی خواص اور دونوں کی انفرادی کیفیات اور دونوں کی فعلی خصوصیات میں بھی بہت حد تک اختلاط بلکہ تضاد پایا جاتا ہے۔ بایں ہمہ ! یہ حیرت کی بات ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سرمایہ تسکین، راحتِ جان ودل اور اولاد کی ذمہ داریوں کا بار اٹھانے کے لیے باہم دگر معاون و غمگسار ہیں۔ جس طرح مرد و عورت کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور بےمثال کمال تخلیق پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اسی طرح مرد و عورت کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بنادینا اور دنوں کو ایک دوسرے کے لیے یکجان اور دو قلب کردینا اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے شدید طلب بلکہ بےچینی پیدا کردینا یہ اللہ تعالیٰ کی شاید تخلیق سے بھی بڑی نعمت ہے اگر پروردگار دونوں میں انتہائی قرب کا تعلق اور انتہائی چاہت کا سامان اور ایک دوسرے کے لیے قربان ہونے کا ارمان پیدا نہ کرتا تو نہ نسل انسانی کا قافلہ آگے بڑھتا، نہ گھروں کی صورت میں آبادیاں وجود میں آتیں، نہ ہمسائیگی کے بڑھتے ہوئے تعلق سے معاشرے کی بنیاد پڑتی، نہ خاندان وجود میں آتے، نہ خاندانوں کے ملنے سے سیاسی نظام جنم لیتا اور نہ اجتماعی ضرورتوں کے وجود میں آنے سے تہذیب اور تمدن کی ضرورت پیش آتی اور نہ انسانوں کی نزاکتِ احساس کے انتقال سے ثقافت کو پیدا ہونے کا موقعہ ملتا۔ غرض یہ کہ انسانی زندگی کی تمام ہمہ ہمی اور معاشرتی زندگی کی تمام خوبصورتیاں اور معاشی زندگی کی تمام رونقیں اور تہذیبی زندگی کی تمام خوش اطواریاں اور تمدنی زندگی کے تمام برگ وبار کبھی وجود میں نہ آتے۔ اگر مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے یہ کشش اور تڑپ پیدا نہ کی جاتی جس نے ایک دوسرے کے لیے درد اور دوا کی صورت اختیار کرلی۔ چناچہ اپنے اس عظیم احسان کا ” لیسکن الیھا “ کے ساتھ ذکر فرماکر ان احسانات کی طرف اشارہ بھی کیا اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضح فرمائی کہ تم یہ بھی مانتے ہو کہ جس طرح اللہ نے مرد و عورت کی تخلیق کی ہے اسی طرح یہ احسانات بھی اسی نے کیے ہیں اور دوسری یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرد و عورت کا اس طرح تخلیق پانا اور پھر ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے ایسے نازک جذبات کا وجود عطا ہونا اور پھر اس سلسلہ تخلیق میں کبھی کسی تبدیلی کا پیدا نہ ہونا کیا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہاں ایک ہی قادر مطلق ہے جس کا محکم ارادہ پوری کائنات میں تخلیق اور تدبیر سے کام لے رہا ہے اگر کوئی دوسرا ارادہ بھی یہاں ہوتا تو پھر یہ کائنات مختلف ارادوں کی آماجگاہ ہوتی اور یہاں کوئی بھی چیز اولا ً تو پیدا نہ ہوتی اور اگر پیدا ہوتی بھی تو اپنی خصوصیات کو باتی نہ رکھ سکتی۔ ” فلما تغشّٰھا “ سے ایک تیسری بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ نسل انسانی کا سلسلہ مرد و عورت کی قوت سے قائم ہے۔ اللہ نے پہلے انسانی جوڑے کو تو بغیر سبب کے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا تھا اور تم اسے تسلیم کرتے ہو اسی طرح تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس کے بعد نسل انسانی کا سلسلہ مرد و عورت کے باہمی تعلق سے وجود میں آیا اور آج تک چل رہا ہے۔ چناچہ جب کوئی مرد اپنی بیوی سے انتہائی قربت کا تعلق پیدا کرتا ہے تو اللہ کی قدرت کاملہ سے اس کی بیوی ایک آنے والی امانت سے اس طرح گراں بار ہوجاتی ہے کہ ابتدائی دنوں میں اسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کیونکہ انسان کا مادہ تولید پانی کی ایک بوند کی شکل میں رحم مادر میں منتقل ہوتا ہے تو پانی کی ایک بوند کا پیٹ میں چلے جانا کسی طرح بھی محسوس ہونے والی چیز نہیں۔ اس لیے اس بوند کی امانت اٹھانے والی اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں ایک امانت کی امین بنادی گئی ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی رحمتیں برابر اپنا فیضان لٹاتی رہتی ہیں۔ یہ پانی کی ایک بوند پہلے خون کی شکل اختیار کرتی ہے پھر یہ خون گاڑھا ہوکررفتہ رفتہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس گوشت کے لوتھڑے میں اعضاء جنم لینے لگتے ہیں۔ انسانی نقوش ابھرنے لگتے ہیں، پھر اس میں جان پڑتی ہے، ان تبدیلیوں سے ماں کو بوجھ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جب میاں بیوی ان تبدیلیوں کو محسوس کرلیتے ہیں کہ اب قدرت ہم پر ایک بچے کی صورت میں کرم فرمانے والی ہے تو ان کے دل میں جہاں اپنے مالک کے لیے شکر کے جذبات مچلنے لگتے ہیں وہیں اندیشے بھی سراٹھانے لگتے ہیں کہ اللہ خیر کرے یہ بننے والا بچہ بھلا چنگا ہو، نین نقش سے درست ہو، خوبصورت پیاراہو، اپاہج نہ ہو، اندھا نہ ہو، کانانہ ہو، کیونکہ جس طرح اللہ کی قدرت نے اس خفیف سے حمل کو پرورش کرکے ایک بچے کی صورت دی ہے۔ اسی طرح اس کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ انسانی بچے کی بجائے کسی بندر سانپ یا کسی اور جانور کا بچہ پیدا کردے یا اس میں کوئی جسمانی کمزوری رکھ دے یا اس سے دل و دماغ کی صلاحیتوں سے تہی رکھے۔ ان اندیشوں کے پیدا ہوتے ہی ماں باپ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلادیتے ہیں اور باربار اس سے التجا کرتے ہیں کہ یا اللہ ! ہمیں صحت مند اولاد عطار کرنا جو ہر طرح کے جسمانی نقص سے پاک ہو۔ اسے دل و دماغ کی رعنائیاں بھی عطا کرنا اس کی قسمت اچھی بنانا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب تم اس طرح اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہو تو تمہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے اور ہماری دعائوں کو سننے اور قبول کرنے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں اس لیے تم ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہو کہ یا اللہ ! اگر آپ نے ہماری دعا قبول فرمالی تو ہم تیرے شکر گزار بندے بن جائیں گے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ تم اپنے جدِامجد اور نسل انسانی کے باقی تمام افراد کا خالق اللہ ہی کو مانتے ہو اور مرد و عورت کے حوالے سے اس کی جو بےپایاں نعمتیں ہیں ان کا بھی اعتراف کرتے ہو اور پھر معمولی حمل سے لے کر بچے کی پیدا ئش تک جتنی تبدیلیاں عمل میں آتی ہیں اور جس طرح قدرت ماں کے پیٹ میں بچے کی نگہداشت کرتی ہے تم اسے بھی تسلیم کرتے ہو ان تمام مسلمات کے ہوتے ہوئے آخر یہ کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام دعائوں کو قبول فرماتے ہوئے جب تمہیں تمہاری دعائوں کے مطابق اولاد عطا فرمادیتے ہیں تو تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہو ؟ اپنے تمام مسلمات کے برعکس کبھی تو تم یہ سمجھنے لگتے ہو کہ یہ بچہ اللہ نے نہیں، فلاں نے دیا ہے اور کبھی اسے کسی درگاہ، خانقاہ، کسی بزرگ یا کسی بت کی طرف منسوب کرنا شروع کردیتے ہو ؟ اور شکریہ کے لیے نذریں نیازیں کسی دیوی کسی اوتار کسی ولی یا کسی حضرت کے نام پر چڑھانا شروع کردیتے ہو ؟ اور یا بچے کو ایسے نام سے پکارنے لگتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عنایت کا نتیجہ ہے یعنی کبھی اس کا نام عبدالعزیٰ رکھتے ہو اور کبھی عبدالشمس۔ یہ مشرکین کا ایسا رویہ ہے جس کی توجیہ بظاہر محال دکھائی دیتی ہے لیکن قرآن میں مختلف مواقع پر اس کی عقدہ کشائی اس طرح کی گئی ہے کہ انسان جب تک کسی ضرورت اور احتیاج کے حصار میں رہتا ہے تو وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے، بیماری میں جب ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں تو اللہ ہی یاد آتا ہے، کشتیاں بھنور میں پھنس جاتی ہیں تو اللہ ہی سے التجا ہوتی ہے، زلزلے میں زمین لرزنے لگتی ہے تو بےاختیار اللہ ہی سے مناجاتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن جب انسان اس خطرے سے نکل جاتا ہے تو اسے اسباب اور وسائل کا کرشمہ قرار دینے لگتا ہے یا غیر اللہ کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت جب تک بیرونی آلائشوں سے محفوظ رہتی ہے یا مصائب کا ہجوم اس کی فطرت کو خالص رکھتا ہے (چونکہ اصل فطرت کے اندر اللہ ہی کا نقش ہے کسی اور کا نقش نہیں) تو فطرت اپنے اصل کے مطابق اللہ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اپنے حقیقی مالک کو پہچان لیتی ہے۔ لیکن جب بیرونی آلودگیوں کو در آنے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس کی فطرت پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اصل سے ہٹ کر آلودگیوں میں الجھ کر اپنے ہی مسلمات کے برعکس دوسرے طور اطوار اختیار کرلیتا ہے چناچہ یہاں ان کی اسی فطری کجروی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مشرکینِ مکہ ایک طویل مدت سے وحی الہٰی سے بےبہرہ رہنے کی وجہ سے اپنے فطری خصائص گم کرچکے تھے اس لیے ان سے اس طرح کی فکری ناہمواریوں کا وجود میں آنا چنداں تعجب کا باعث نہیں لیکن اس امت کا کیا کیجیے ان کے پاس تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کا اسوہ پوری طرح محفوظ اور مصئون ہے، اس کے باوجود اس امت کے افراد نہ صرف بچوں کو پیدا ہونے کے بعد دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ اولاد بھی بسا اوقات اللہ کی بجائے غیرا للہ سے مانگتے ہیں اور پھر دوسروں کے انتساب سے ایسے ایسے نام رکھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں شاید توحید کی دعوت بالکل نہیں پہنچی ورنہ جو امت عقیدہ توحید کی علمبردار بنائی گئی ہو، اس امت کے افراد سے اس طرح کی کمزوریوں کا ظہور نہایت تکلیف دہ بات ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سارے لوگ اپنے بچوں کے پیراں دتہ، حسین بخش، پیر بخش اور عبدالرسول جیسے نام رکھتے ہیں جس کا معنی واضح ہے کہ یہ بچہ اللہ نے نہیں دیا بلکہ پیروں نے دیا ہے یا اسے حسین نے بخشا ہے یا کسی پیر کی مہربانی ہے اور مزید یہ کہ یہ پیدا ہونے والا بچہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ عبدالرسول یعنی رسول کا بندہ ہے حالانکہ قرآن پاک نے صاف طور پر ارشاد فرمایا کہ جب ہم کسی کو نبوت عطار کرتے ہیں تو وہ دنیا میں جاکر لوگوں کو ربانی بناتا ہے وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ تم میرے بندے ہوجاؤ کیونکہ ہر نبی نے دنیا میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا ہے اور جو ان کی دعوت کا اصل موضوع رہا ہے وہ یہی ہے کہ ” اعبدواللہ “ اور یہی قرآن پاک میں سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع کی پہلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ ہی کی بندگی کرو یعنی اس کے بندے بنو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اتنی واضح تعلیم کے بعد بھی اس امت کے لوگ اس طرح کا نام رکھ کر آخر کیا تاثر دینا چاہتے ہیں ؟ اس آیت کریمہ کو سمجھنے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کردیا جائے ورنہ اس آیت کی تشریح کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آیت کے آغاز میں نوع انسان کی پیدائش ایک جان سے ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، پھر اس کے بعد ایک مرد اور عورت کا ذکر شروع ہوگیا ہے۔ انھوں نے پہلے تو اللہ سے صحیح وسالم بچے کی پیدائش کی دعا کی اور جب بچہ پیدا ہوگیا تو اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک ٹھہرالیا۔ بعض لوگوں کے اندازِبیان سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ جن شریک کرنے والے میاں بیوی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ کوئی اور نہیں حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) ہی ہیں، پھر اس غلط فہمی کو بعض روایات سے بھی مدد ملی جس کے نتیجے میں پورا ایک قصہ وجود میں آگیا کہ حضرت حوا کے بچے پیدا ہو کر مرجاتے تھے، آخر کار ایک بچے کی پیدائش کے موقعہ پر شیطان نے ان کو بہکا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ اس کا نام عبدالحارث (بندہ شیطان) رکھ دیں، اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قصے کی کوئی اصل نہیں اور جن روایات کو اس کی تائید میں پیش کیا جارہا ہے وہ یکسر غلط ہیں اور قرآن کریم کی عبارت بھی اس کی تائید نہیں کرتی۔ قرآن جو کہہ رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نوع انسانی کا پہلا جوڑا جس سے نسل انسانی کا آغاز ہوا، اس کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی تھا پھر ہر مرد و عورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ اس میں کسی خاص مرد اور کسی خاص عورت کا ذکر نہیں بلکہ مشرکین میں سے ہر مرد و عورت کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اس پوری صورتحال کو سامنے رکھیں تو اس غلط فہمی کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی اور ویسے بھی اگر تھوڑا سا بھی عقل سے کام لیا جائے تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ اس قصے کا انتساب حضرت آدم اور حضرت حوا کی طرف کیا گیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت آدم اللہ کے نبی تھے اور اللہ کے نبی معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کسی گناہ کا صدور نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے لگیں۔ اگر اس قصے کو صحیح سمجھا جائے تو پھر حضرت آدم کی نبوت سے انکار کرنا ہوگا اور اگر آپ واقعی نبی ہیں اور یقینا ہیں تو پھر آپ اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت حوا سے اس قسم کے فعل کا صدور سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ برتر ہے ان چیزوں سے جن چیزوں سے یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اللہ کی برتری اور بڑائی کا سب سے زیادہ ادراک اور معرفت اللہ کے نبیوں کو ملتی ہے، کوئی اور اس میں ٹھوکر کھائے تو تعجب نہیں لیکن نبی تو اسی راستے کے شن اور ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی ایسی بات کا وہم بھی گناہ سے کم نہیں ویسے بھی تخلیق کے معاملے میں کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا یہ تو ایسی بات ہے جسے معمولی عقل والا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں نہایت آسان انداز میں فرمایا کہ یہ لوگ ان چیزوں اور ان قوتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو نہ صرف کسی کو پیدا کرنے پر قادر نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں کیونکہ اللہ کے علاوہ کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے چاہے وہ مشرکوں کے دیوتا ہوں، اوتار ہوں یا فرشتے ہوں، جن کو یہ اللہ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں یا وہ مقدس لوگ ہوں جن کے انھوں نے بت بنا رکھے ہیں، یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں جو خود مخلوق ہوں وہ خالق کیسے ہوسکتا ہے ؟ کسی کو پیدا کرنا تو غیر معمولی بات ہے، اس سے بہت چھوٹی بات یہ ہے کہ اسباب سے ماوریٰ ہو کر کسی کی مدد کی جائے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ کسی کو تو خلق کیا کریں گے یہ تو کسی کی مدد بھی نہیں کرسکتے۔ اگر تو ان سے مراد بت لیے جائیں جن کو مشرکین مکہ پوجتے تھے، وہ تو ہاتھ تک نہیں ہلا سکتے کسی کی مدد کیا کریں گے، وہ تو اپنی مدد نہیں کرسکتے۔ ان کے چہرے پر مکھی بیٹھ جائے وہ اڑا نہیں سکتے، کوئی انھیں توڑ پھوڑ دے وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتے، ان کے ماننے والے ان کے سامنے چڑھاوے چڑھاتے ہیں، کوئی ان چڑھاؤوں کو اٹھا کرلے جائے تو وہ انھیں روک نہیں سکتے، تو جو اس طرح بےدست وپا ہیں تم انھیں اللہ کا شریک کیسے ٹھہراتے ہو ؟ اور اگر ان سے دوسری شخصیتیں مراد لی جائیں تو پھر مطلب یہ ہے کہ اسباب سے ماوریٰ اور ان سے بالا ہو کر تو نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں، یہ شان تو صرف اللہ کی ہے کہ اسباب اس کے محتاج ہیں وہ کسی سبب کا محتاج نہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہاں ایک وضاحت کردی جائے۔ پیش نظر رکوع میں شرک اور مشرکین کی تردید ہورہی ہے لیکن اگر اس کی حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھا جائے تو بعض آیات کو سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ شرک اور مشرکین کے حوالے سے پروردگار تین پہلوئوں سے تنبیہ فرما رہے ہیں۔ شرک کے تین پہلوئوں پر گفتگو 1 مشرکین اپنے اعتقادات کے مطابق اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ بعض قوتیں ایسی ہیں جو اللہ کی بعض صفات میں شریک ہیں۔ کوئی ان میں اولاد دیتا ہے، کوئی بارش برسا تا ہے، کوئی تکلیفیں دور کرتا ہے اور کوئی ہر طرح کی فریادیں سنتا ہے۔ چناچہ جب وہ انھیں پکارتے تھے تو یہ سمجھ کر نہیں پکارتے تھے کہ یہ قوتیں اللہ کی ذات میں شریک ہیں بلکہ یہ سمجھ کر پکارتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے بعض اختیارات میں شریک کررکھا ہے، اس لیے جب تک انھیں نہ پکارا جائے اس وقت تک ان سے متعلق ہمارے کام نہیں ہوسکیں گے۔ 2 مشرکین نے انہی قوتوں کے مجسمے اور بت بھی بنارکھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ وہ اصل قوتیں ان بتوں یعنی ان قالبوں میں حلول کرجاتی ہیں۔ اس لیے بظاہر یہ پتھر یا سونے چاندی کے بت بےجان دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ جن قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے اندر ان کی طاقت موجود ہے۔ اس لیے جب ہم ان کو پوجتے ہیں تو وہ اصل قوتیں خوش ہو کر ہماری مدد کرتی ہیں۔ مشرکینِ مکہ فرشتوں کوا للہ کی بیٹیاں مانتے تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ بعض فرشتوں کو اللہ نے خاص اختیارات دے رکھے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنے تصور کے مطابق فرشتوں کی مورتیاں بنا رکھی تھیں اور انھیں وہ اس لیے پوجتے تھے تاکہ وہ فرشتے خوش ہو کر ان کی مدد کریں۔ اسی طرح وہ جنات کو بھی انسانی معاملات اور انسانی قسمتوں میں دخیل سمجھتے تھے اس لیے وہ کبھی ان کے بت تراشتے تھے اور کبھی خاص جگہوں، ٹیلوں یا درختوں کی یہ تصور کرکے پوجا کرتے تھے کہ یہاں ان جنات کا بسیرا ہے اور ان کی نسبت سے یہ جگہیں مقدس ہوگئی ہیں اسی طرح وہ مظاہرِ فطرت میں سے بعض کو اللہ کا اوتار یا دیوتا قرار دیتے تھے۔ مشرکینِ مکہ میں اگرچہ یہ اعتقاد کم تھا لیکن بعض دوسرے مشرکین میں ان دیوتائوں اور اوتاروں کی کثرت سے پوجا ہوتی تھی، کوئی ستاروں کو پوجتا تھا، کوئی چاند کو اور کوئی سورج کو۔ اس طرح انھوں نے بعض انسانوں کے بت تراش رکھے تھے جن کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ اللہ کے مقبول بندے تھے اور اپنی اس مقبولیت کے باعث وہ بہت سارے اختیار ات کے بھی مالک تھے۔ چناچہ اسی نسبت سے وہ ان بتوں کی پوجا کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے، ان پر چڑھاوے چڑھاتے اور ہر طرح ان کے سامنے ڈنڈوت بجا لاتے۔ میں اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں جس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ مشرکینِ عرب کا ایک مشہور بت ” لات “ نامی تھا۔ اسے وہ بہت طاقت کا مالک سمجھتے تھے اور اس کی حقیقت یہ بیان کی جاتی تھی کہ لات عربی زبان میں ستو پلانے والے کو کہتے ہیں۔ تاریخ میں کوئی نیک نام شخص ایسا گزرا تھا جس کا معمول یہ تھا کہ عرب کی جھلسا دینے والی گرمی میں وہ کسی برتن میں ستو گھول کر اور پانی لے کر صحرا کے کسی چورا ہے میں بیٹھ جاتا اور آتے جاتے مسافروں کو ستو کھلاتا اور پانی پلاتا۔ عرب جیسے علاقے میں جہاں پانی کمیاب اور غذا کی ہمیشہ قلت رہی ہے سخت گرمی کے موسم میں جبکہ پیا س کے باعث حلق میں کانٹے اگنے لگتے ہیں، اس طرح کی نیکی یقینا بہت بڑی نیکی سمجھی جاتی تھی۔ اسی نیکی کے باعث یہ صاحب مشہور ہوگئے اور لوگوں میں عزت اور تقدس کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ زندگی ہی میں ان کی شہرت ہوگئی، مرنے کے بعد ان کی اسی نیک نامی کے باعث ان کی یاد زندہ رہی، وقت کے ساتھ ساتھ اس یاد اور نیکی میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتی کہ ایک وقت آیا کہ لوگوں نے ان کا مجسمہ بنایا۔ شروع شروع میں تو صرف یہ ایک یاد کا ذریعہ تھا لیکن پھر اس پر چڑھاوے چڑھنے لگے اور آخر پوجا شروع ہوگئی۔ اسی پر آپ باقی بتوں کا قیاس کرلیجیے۔ ہر بت کی اسی طرح کی ایک تاریخ ہے۔ پوری قوم کبھی عقل سے دیوالیہ نہیں ہوتی کہ وہ بتوں کی پوجا شروع کردے۔ آغاز میں کسی بڑی شخصیت کی عقیدت کے باعث بت بنتے ہیں اور ان بتوں کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پھر ان کی پوجا شروع ہوجاتی ہے۔ پوجا کرنے والے اگرچہ ان کے سامنے جھکتے ہیں لیکن ذہن میں وہ شخصیت ہوتی ہے جس کا یہ بت ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ عوام اس پس منظر کو بھولتے چلے جاتے ہیں پھر یہ سامنے نظر آنے والا بت ہی ان کی عقیدت کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ اسی کی پوجا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ساری دنیا میں بت پرستی اسی طرح ہوتی ہے اور ہورہی ہے۔ اس لیے قرآن کریم پس منظر کی شخصیتوں پر بھی تنقید کرتا ہے کہ لیکن ساتھ ساتھ ان بتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے کیونکہ جب قرآن کریم نازل ہورہا تھا تو یہ بت ہی اصلاً عقیدت اور عبودیت کا مرکز بن کر رہ گئے تھے۔ 3 ان مشرکانہ افعال کے پیچھے ہمیشہ چند تصورات ہی رہے ہیں جو ان افعال کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور ان کی توجیہ بھی کرتے ہیں۔ تصورات تو کئی سارے ہیں لیکن ان میں سب سے اہم تصور جو ہمیشہ مشرکوں میں ایک دلیل کے طور پر کام دیتارہا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو وحدہٗ لاشریک ہے ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے لیکن مشکل یہ ہے کہ کیا ایک ذات اپنی تمام عظمتوں کے باوجود پوری کائنات کا نظام چلاسکتی ہے ؟ کائنات کی وسعتیں تو بےحدو بےکنار ہیں یہ زمین اس کائنات کا ایک چھوٹا سا کرہ ہے، اس میں بسنے والی مخلوق اس قدر بڑی تعداد میں ہے کہ ان کی تمام ضرورتوں کو ایک ذات کے لیے جاننا ممکن نہیں۔ ایک گھر کے افراد کو دیکھ لیجیے ہر ایک کی اپنی اپنی ضرورتیں، اپنی اپنی محرومیاں، اپنی اپنی خواہشات اور پھر اس سے جنم لینے والے اعمال سلسلہ در سلسلہ ایک ایسی تفصیل ہے کہ ایک گھر کی حد تک اس کا جاننا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ پوری زمین پر بسنے والے انسانوں کی تمام ضرورتوں تمام خیالات اور تمام اچھے برے اعمال کی خبر ایک ذات کو ہر وقت اور ہر لحاظ سے رہے۔ یہ کسی طرح بھی عقل میں آنے والی بات نہیں۔ اس لیے یہ بات قرین عقل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض قوتوں کو اپنے اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں تاکہ تمام انسانوں کی ضرورتیں آسانی سے پوری ہوتی رہیں۔ چناچہ جس طرح قرآن کریم نے بت پرستی اور شخصیت پرستی پر تنقید کی ہے، اسی طرح ان تصورات کا بھی پوری قوت سے ابطال کیا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیات اور قرآن کریم میں بعض دیگرمواقع پر انہی تینوں باتوں کے حوالے سے تنقید کی گئی ہے۔ یہ تفصیل اگر ذہن میں رہے تو پھر قرآن کریم کی شرک پر تنقید کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ سابقہ دو آیات اور اگلی آنے والی آیات سے معلوم ہوتا ہے مشرکین کی بت پرستی پر تنقید کی گئی ہے۔
Top