Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 193
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَتَّبِعُوْكُمْ١ؕ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم انہیں بلاؤ اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَتَّبِعُوْكُمْ : نہ پیروی کریں تمہاری سَوَآءٌ : برابر عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہارے لیے) اَدَعَوْتُمُوْهُمْ : خواہ تم انہیں بلاؤ اَمْ : یا اَنْتُمْ : تم صَامِتُوْنَ : خاموش رہو
اگر تم ان کو رہنمائی کے لیے پکارو تو وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔
ارشاد ہوتا ہے : وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لَا یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْھُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ (الاعراف : 193) اگر تم ان کو راہنمائی کے لیے پکارو تو وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔ بت پرستی پر تنقید مخلوقات میں سے اللہ تعالیٰ نے جسے بھی خلق فرمایا ہے اس کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے اور یہ ضرورت ایسی ہے جس میں انسان کی تخصیص نہیں بلکہ ہر مخلوق اس ضرورت کی پوری طرح محتاج ہے۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ انسان اس ضرورت کے حوالے سے دوسری مخلوقات کی نسبت کچھ زیادہ ہی محتاج واقع ہوا ہے کیونکہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو سب سے بےبس ہوتا ہے۔ بلی کا بچہ بھی آنکھیں کھلتے ہی اپنی ماں کو ڈھونڈتا اور اس کے پستان تلاش کرلیتا ہے، مرغی کا بچہ چند گھنٹوں کے بعد ہی ماں کی آواز پر پیچھے پیچھے چلنے لگتا اور دانہ چگنے لگتا ہے، بھینس کا بچہ چند گھنٹوں کے بعد لڑکھڑاتا ہوا ماں کے نیچے پہنچ کر دودھ پینے لگتا ہے، لیکن انسان کا بچہ اس طرح بےبس اور ناتواں پیدا ہوتا ہے کہ نہ اپنی ماں کو پہچانتا ہے اور نہ اپنے باپ کو۔ ماں اس کو اٹھا کر اگر اپنے سینے سے نہ لگائے تو وہ رونے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ باقی مخلوقات کے بچے بڑی تیزی سے بڑھتے، پروان چڑھتے اور طبعی قوتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن انسان کا بچہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے، کئی مہینوں کے بعد بیٹھنے لگتا ہے، پھر گھٹنوں چلنا سیکھتا ہے، پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا اور چلنے لگتا ہے۔ ایک وقت تک لوگ اس کی راہنمائی کرتے ہیں پھر جب ضرورت اس سے آگے بڑھتی ہے تو اس کی عقل اس کی راہنمائی کے لیے اپنا فرض انجام دینے لگتی ہے، لیکن انسانی ضرورتیں باقی حیوانات کی طرح صرف جسمانی ضرورتوں تک محدود نہیں بلکہ اس کی ذہنی ذوقی اور روحانی ضروتیں بھی ہیں جو عقل کے بعد کسی اور راہنمائی کی بھی طالب ہوتی ہیں۔ ان پہلوئوں سے غور کیا جائے تو انسان کی ضرورتوں کی وسعت سمجھ میں آتی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کی ضرورتوں کو پورا کرنا اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اس کے لیے جس راہنمائی کی ضرورت ہے وہ ہمہ وقت ان کو فراہم کی جاتی ہے۔ حشرات الارض کو رینگنا سکھایا جاتا ہے۔ پرندوں کو اڑنا، مچھلیوں کو تیرنا اور جنگل کے جانوروں کو دوڑنا بھاگنا اور شکار کرنا سکھایا جاتا ہے، چھوٹے سے چھوٹا جانور بھی جانتا ہے کہ مجھے غذا کیسے حاصل کرنی ہے۔ بچے کیسے پیدا کرنے ہیں۔ انھیں پالنا کیسے ہے۔ اپنا گھر کیسے بنانا ہے۔ موسم کی شدت سے کیسے بچنا ہے۔ حوادث کے مقابلے میں اپنا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ لیکن انسانی ضرورتیں اور انسان کے لیے راہنمائی ان سے زیادہ وسعت رکھتی ہے کیونکہ وہ جبلت تک محدود نہیں رہتی، حواس پر کفایت نہیں کرتی، عقل بھی عالم محسوسات اور روحانی زندگی کے بعد ساتھ چھوڑنے لگتی ہے۔ اس لیے یہ سب سے زیادہ اس بات کا محتاج ہے کہ جب وہ کسی کو معبود مانے تو اس سے راہنمائی طلب کرے، گھر کی زندگی سے لے کر معاشرتی زندگی تک، مزدوری سے لیکر معاشی اداروں تک، باہمی معاملات سے لے کرایوانِ حکومت تک، انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی تہذیب و تمدن تک، انسانی زندگی حقوق و فرائض اور فضائل ومکارم کے بندھنوں میں بندھی ہوئی ہے۔ جب تک ان تمام حوالوں سے راہنمائی کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں انسان کی زندگی میں خوش اطواری پیدا نہیں ہوتی اور ان ضرورتوں کو پورا کرنا کماحقہٗ انسان کے بس کی بات نہیں، یہ تو سراسر اس ذات کا فیضان ہے کہ جس کو انسان اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ اس بنیادی ضرورت کے حوالے سے یہاں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو ان کی بےبسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم انھیں اس راہنمائی کی ضرورت کے حوالے سے پکارو تو وہ تمہاری اس ضرورت کو تو کیا پورا کریں گے وہ تو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر تمہارے پیچھے چلنے پر بھی قادر ہوسکیں اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ تمہارے باربار پکارنے سے شاید اس طرف متوجہ ہوسکیں تم انھیں ہزار مرتبہ پکارو، چیخو چلائو کہ ہم تمہارے سامنے سرجھکا چکے، دست سوال دراز کرچکے، عبودیت کا سرمایہ تمہارے آستانوں پر ڈھیر کرچکے، اب اگر تم ہماری یہ ضرورتیں پوری نہیں کرو گے تو کون کرے گا ؟ لیکن تمہاری یہ آہ وزاری اور چیخ و پکار ان پر کوئی اثر نہیں کرے گی کیونکہ وہ سرے سے اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تو تم خود سوچو کہ تم نے آخر سرِ نیاز کس آستانے پر جھکایا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی دلیل کو اور آگے بڑھایا جارہا ہے۔
Top