Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 197
وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جن کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : قدرت رکھتے وہ نَصْرَكُمْ : تمہاری مدد وَلَآ : اور نہ اَنْفُسَهُمْ : خود اپنی يَنْصُرُوْنَ : وہ مدد کریں
اور جن کو تم اللہ کے ماسوا پکارتے ہو نہ وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں
ارشاد ہوتا ہے : وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَلَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ وَاِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰی لَایَسْمَعُوْاط وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (الاعراف : 197، 198) ” اور جن کو تم اللہ کے ماسوا پکارتے ہو نہ وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں اگر تم ان کو راہنمائی کے لیے پکارو تو وہ تمہاری بات نہیں سنیں گے اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمہاری طرف تاک رہے ہیں لیکن انھیں سوجھتا کچھ بھی نہیں “۔ تم جن بتوں کو پکارتے ہو یا جن دیوی دیوتائوں اور مقدس شخصیتوں سے مدد طلب کرتے ہو وہ اسی بنیاد پر کرتے ہو کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں حالانکہ جہاں تک بتوں کا تعلق ہے وہ تمہاری مدد تو کیا کریں گے تم انھیں ہزار پکارو وہ تمہاری پکار بھی نہیں سن سکتے تم ان کے سامنے اپنادکھڑا روئو، وہ تمہارے رونے دھونے کو بھی جب سن ہی نہیں سکتے تو مدد کیا کریں گے ؟ تم بظاہر یہ سمجھتے ہو کہ جب تم انھیں پکارتے ہو یا ان کے سامنے ڈنڈوت بجالاتے ہو یا ان کے سامنے کھڑے ہو کر بھجن گاتے ہو یا اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں کیونکہ تم نے ان کی ایسی آنکھیں بنارکھی ہیں جو ہر وقت سامنے گڑی رہتی ہیں لیکن تم جانتے ہو کہ نہ وہ تمہیں دیکھتے ہیں اور نہ تمہاری بات سنتے ہیں ان میں حواس تک موجود نہیں عقل کا تو سوال ہی کیا ہے بلکہ ان میں زندگی کا احساس بھی ناپید ہے۔ کس قدر نادانی کی بات ہے کہ جن میں نہ زندگی ہے نہ احساس تم زندگی اور احساس رکھتے ہوئے بھی ان کے سامنے جھکتے ہو اور ان سے مرادیں مانگتے ہو۔ اگر ان سے دیوی دیوتا یا مقدس شخصیتیں مراد لی جائیں تو حقیقت یہ ہے کہ ان کی حقیقت بھی ماسوائے مفروضوں اور ماسوائے تمہارے رکھے ہوئے ناموں کے اور کچھ بھی نہیں یعنی تم نے اپنے تئیں کسی کو لکشمی دیوی، کسی کو جل دیوتا یا اسی طرح کے کچھ نام دے رکھے ہیں کسی کو تم لات کہتے ہو اور کسی کو منات اور کسی کو تم نے عزیٰ بنارکھا ہے لیکن یہ تمہارے اپنے رکھے ہوئے نام ہیں ان کی حقیقت تو پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں تم نے جو صفات ان کی طرف منسوب کررکھی ہیں وہ بھی تمہارے خود ساختہ انتساب کے سوا کسی حقیقت کی آئینہ دار نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مفروضہ اعتقادات کے نام سے شرک کا جو ایک کاروبار شروع کررکھا ہے اس کی حقیقت سوائے جہالت، نادانی، خودفریبی، آباء پرستی کے سوا کچھ نہیں اور نتیجہ اس کا دنیا کی تباہی اور آخرت کی بربادی ہے۔ خود سوچ لو تم نے جو راستہ اختیار کررکھا ہے اس میں کتنی معقولیت ہے۔ اگلی آیت کریمہ سے رکوع کا دوسرا حصہ شروع ہورہا ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو اور آپ کے واسطے سے مسلمانوں کو اس کٹھن فریضہ کو انجام دینے کی نزاکتیں سکھائی جارہی ہیں اور ہدایات دی جارہی ہیں جس کے لیے آنحضرت ﷺ مبعوث کیے گئے تھے۔
Top