Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ
: پکڑیں (کریں)
الْعَفْوَ
: درگزر
وَاْمُرْ
: اور حکم دیں
بِالْعُرْفِ
: بھلائی کا
وَاَعْرِضْ
: اور منہ پھیر لیں
عَنِ
: سے
الْجٰهِلِيْنَ
: جاہل (جمع)
۔ اے پیغمبر ! نرمی اور درگزر کی عادت بنالو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو
ارشاد ہوتا ہے : خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِطاِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (الاعراف : 199، 200) ” اے پیغمبر ! نرمی اور درگزر کی عادت بنالو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو اور اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ چاہو، بیشک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے “۔ دعوتِ حق کی انجام دہی کے لیے ناگزیر ہدایات ان آیات پر غور کرتے ہوئے مختلف باتوں کی طرف راہنمائی ملتی ہے جن میں سے ایک ایک بات دعوتی نقطہ نگاہ اور انسانی نفسیات کے حوالے سے اس قابل ہے کہ اسے سونے میں تولا جائے ہم میں وہ بصیرت تو نہیں جس سے ہم ان آیات میں بیان کردہ حکمتوں کو پوری طرح سمجھ سکیں تاہم جو باتیں ہم ناچیز لوگوں کے فہم ودراک میں آتی ہیں انھیں ہم ایک ترتیب سے ذکر کرتے ہیں۔ 1 آیات میں بیان کردہ حکمتوں کو دیکھ کر سب سے پہلا تاثر جو دل و دماغ میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عظیم پیغمبر اور ان کے واسطے سے مسلمانوں کو ایک ایسے کام کی ہدایات ارشاد فرما رہے ہیں جو اپنی ذات میں نہایت کٹھن ہے جس کی نہایت گہری نزاکتیں ہیں جس میں ذراسی بےاحتیاطی تبلیغی مشن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے صرف علم کافی نہیں بلکہ جب تک علم کے ساتھ حکمت نصیب نہ ہو، انسانی نفسیات کا گہرا ادراک نہ ہو اور طبیعت پر بےپناہ قابو نہ ہو، اس وقت تک اس کام کا ارادہ کرنا بھی مشکل ہے۔ یہ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسلامی علوم مطالعہ کرنے کا نام نہیں، یہ محض حکیمانہ طریقے سے مسلسل غور و فکر سے بھی انجام نہیں پاتا، اس کے لیے انسانوں سے ملنا، ان کے احساسات کو جاننا، ان کے ہر طرح کے ردعمل کو برداشت کرنا، طبیعت کے ہیجان پر قابو پانا، اپنی ذات کو اس کام میں گم کردینا اور سب کچھ کرکے بھی کسی طرح کا ادعا پیدا نہ ہونے دینا یہ اس کے کم سے کم تقاضے ہیں، جس کے بغیر اس وادی میں داخل ہونا بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان آیات کا پہلا تاثر یہ ہے کہ جس کام کے لیے یہ ہدایات دی جارہی ہیں سب سے پہلے اس کام کا صحیح احساس دل و دماغ میں پیدا ہونا چاہیے۔ 2 کوئی پیغمبر یا پیغمبر کا پیروکار ایسانھیں گزرا جس نے اللہ کے دین کی دعوت لوگوں کے سامنے یپش کی ہو اور پھر لوگوں نے اسے نہایت آسانی سے قبول کرلیا ہو بلکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر مصلح کو اپنے مخاطبوں کی جانب سے ہمیشہ شدید ردعمل سے واسطہ پڑا ہے اور اگر اللہ کے فضل و کرم سے لوگوں کی ایک معقول تعداد دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہے کہ تو ان کی تربیت کا کام بجائے خود ایسا کٹھن کام ہے جس میں پیغمبر اور مصلح کو قدم قدم پر اپناخون جلانا پڑتا ہے، ان کی صدیوں کی روایات کو بدلنا، ان کی عادات کو تبدیل کرنا، ان کے معمولات میں تبدیلی لانا، ان کی ترجیحات میں انقلاب برپا کرنا بلکہ ایک ایک فرد میں نئی شخصیت پیدا کرنا اور ان کے واسطے سے ایک نیا معاشرہ جنم دینا، ایک ایسا مشکل ترین کام ہے جس کے لیے جب تک ان مذکورہ بالا ہدایات پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ 3 اللہ کے نبی معصوم پیدا ہوتے ہیں اور وحی الہٰی کا نور ان کا راستہ روشن رکھتا ہے اور ان پر ایمان لانے والے اس مینارہ نور سے ہمیشہ اکتسابِ فیض کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ! انھیں اس طرح ہدایت دی جارہی ہیں جیسے انگلی پکڑ کر انھیں چلایا جارہا ہے۔ ان ہدایات کے لیے تین عنوانات اختیار کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلا ہے { عفو } مقصود یہ ہے کہ اے پیغمبر آپ کو اور آپ کی امت کو اپنا فرض انجام دینے کے لیے سب سے پہلی جو چیز اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ عفو کو اپنی عادت بنائو یعنی ایسا نہیں کہ کسی ایک آدھ موقع پر عفو و درگزر سے کام لو بلکہ یہ صفت تمہاری خصلت، تمہاری عادت اور تمہاری طبیعتِ ثانیہ بن جانی چاہیے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ عفو سے مراد کیا ہے ؟ عربی لغت کے اعتبار سے عفو کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور اس موقع پر ہر معنی کی گنجائش ہے ان میں سے ایک معنی یہ ہے کہ عفو ہر ایسے کام کو کہا جاتا ہے جو آسانی کے ساتھ بغیر کلفت اور مشقت کے ہوسکے۔ مراد یہ ہے کہ اے پیغمبر ! جس طرح آپ کا واسطہ غیر مسلموں سے ہے، اسی طرح اپنے فرماں برداروں سے بھی ہے۔ فرمانبرداروں کے حوالے سے یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر حقوق و فرائض کی تعمیل میں یا آپ کے اتباع و اطاعت میں یا عبادت کی ادائیگی میں بظاہر مسلمانوں میں کچھ کمی بھی محسوس ہو تو آپ اسے قبول فرمائیں اور اعلیٰ معیار کا نمونہ دیتے ہوئے اس پر اصرار نہ فرمائیں آہستہ آہستہ یہ لوگ خود بخود اعلیٰ معیار کی گھاٹی پر چڑھتے چلے جائیں گے۔ لیکن فی الحال آپ کا رویہ ان کے ساتھ نہایت نرمی اور سہولت کا ہونا چاہیے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے پر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اعمال واخلاق میں سرسری اطاعت قبول کرنے کا حکم دیا ہے میں نے عزم کرلیا ہے کہ جب تک ان لوگوں کے ساتھ ہوں ایسا ہی عمل کروں گا۔ اسی سے متعلق اس کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ غیر مسلموں میں آپ کے بعض ایسے قرابت دار بھی تھے جن سے آپ کو معاملات پیش آتے رہتے تھے اور خود مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو ابھی تک پوری طرح مکارمِ اخلاق کی تربیت نہیں پاسکے تھے اس لیے اخلاقی معاملات میں خود آنحضرت ﷺ کے ساتھ بعض دفعہ ان سے کو تاہیاں سرزد ہوتی تھیں۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں عفو کے ذریعہ سے آپ کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ آپ ان لوگوں کے معاملات میں حد درجہ نرمی اختیار فرمائیں کیونکہ یہی وہ اخلاق ہے جو آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں آپ کی محبت اور اسلام کے لیے استقامت پیدا کرے گا۔ اسی چیز کو نبی کریم ﷺ نے ایک اور موقع پر اس طرح ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کرو جو مجھ سے کٹے، میں اس سے جڑوں، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں اور جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں۔ یہی وہ اخلاقِ کریمانہ ہیں جس نے عرب کے بدو وں اور اجڈ لوگوں کو آہستہ آہستہ آپ کا گرویدہ بنادیا لیکن ایسے اخلاق کا پیکر بننا اور ہر طرح کے حالات میں ایسے مکارمِ اخلاق کا ثبوت دینا یہ اللہ کے فضل و کرم کے سوا ممکن نہیں۔ اس لیے پروردگار نے احسان کے طور پر اس کا ذکر فرمایا : فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ (آلِ عمران : 159) انسانوں کو راہ راست پر لانے اور ان میں مطلوبہ صفات پیدا کرنے میں اگرچہ حقیقی موثر عامل وہ الہامی تعلیم ہی ہے جو پیغمبر اللہ کی طرف سے انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن انسانوں میں اجتماعی شیرازہ بندی اور گہرا ربط وضبط وہ صرف الہامی تعلیم سے نہیں بلکہ پیغمبر، مصلح یا قائد کی خوش اخلاق شخصیت سے وجود میں آتا ہے، الہامی تعلیم کا راہنما اور مبلغ بھی اگر حسن اخلاق سے تہی دامن اور درشت خو ہو تو لوگ کبھی اس کے گرد جمع نہیں ہوں گے اور اگر برائی کی دعوت دینے والابھی خوش اخلاق ہو تو اس کے گرد لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ ہجوم زیادہ ہے کیوں شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق عفو کا دوسرا معنی ہے درگزر کرنا اور معاف کردینا۔ عربی زبان میں محض زبان سے معاف کرنا اور وقتی طور پر درگزر کرنا یعنی سزا نہ دینا لیکن دل سے معاف نہ کرنا عفو اس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دل سے معاف کردینے کے لیے بھی بولا جاتا ہے، یہاں دونوں ہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں کو لوگوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے جیسے دعوت دین کا کام آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے لوگوں کی جانب سے مخالفت میں شدت آتی جاتی ہے۔ وہ زبان سے بھی پیغمبر کے خلاف ہر زہ سرائی کرتے ہیں، اتہامات اور الزامات کا بھی طوفان اٹھاتے ہیں، سازشیں بھی کرتے ہیں، ہر طرح کی تکلیف پہنچانے کی تدبیریں بھی سوچتے ہیں، بس چلے تو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے، معاشی قطع تعلق بھی کرنا پڑے تو یہ بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا، جسمانی تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے، غرضیکہ زندگی کا کوئی دکھ ایسا نہیں جو پیغمبر کو اپنی قوم کی طرف سے برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر کی طبیعت میں اشتعال پیدا نہ ہو، ناگوار باتوں پر غصہ نہ آئے، تلخ گفتاری پر طبیعت میں ہیجان پیدا نہ ہو لیکن دعوت کا عمل ایسا صبر آزما عمل ہے کہ اس میں ان سب باتوں کو برداشت کرنا اس عمل کا لازمی تقاضہ ہے، اگر ان سب باتوں کو برداشت نہ کیا جائے تو آج کے دشمن کل کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ چناچہ یہاں اسی بات کا حکم دیا جارہا ہے کہ آپ کو ان تمام باتوں کے مقابلہ میں عفو و درگزر سے کام لینا ہے۔ مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی، بہتان تراشی، ایذارسانی اور تکلیف دہ مزاحمت کا اظہار ہو آپ کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے درگزر ہی سے کام لینا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسی پر عمل کرتے ہوئے نہ کبھی اہل مکہ سے انتقام لیا، نہ مدینہ کے یہود اور منافقین سے، آپ نے طائف کے پتھر کھائے لیکن بجائے انتقام لینے کے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی، جنگ احد میں آپ کو بری طرح زخمی کیا گیا لیکن آپ نے ان کے لیے کوئی کلمہ سخت کہنا بھی گوارا نہ کیا اور جب فتح مکہ کے بعد آپ کے دشمن اپنی تمام مخالفتوں، ہر زہ سرائیوں، ایذا رسانیوں اور تہمت تراشیوں کا پشتارہ اٹھائے آپ کے سامنے کھڑے تھے تو آپ نے صرف درگزر ہی نہیں کیا بلکہ دل سے معاف فرمایا اور یہ نتیجہ تھا اسی عفو کے حکم کا۔ اور دوسرا ہے { وأمر بالعرف } اور آپ انھیں معروف کا حکم دیں۔ معروف ایسی بات کو کہتے ہیں جو عقل اور فطرت اور معقول لوگوں کے نزدیک جانی پہچانی ہو اسلام کے بنیادی عقائد نیکی اور عدل کی تعلیمات اور تمام مکارمِ اخلاق یہ ایسی باتیں ہیں جو عقل و فطرت کی شہادت پر مبنی اور سلیم الفطرت طبائع کے لیے ان کے دل کی آواز ہیں اسی طرح ہر وہ اچھی اور مستحسن بات یا کام جو کسی بھی معاشرے میں سنجیدہ فکر اور صالح عمل لوگوں کے نزدیک پسندیدہ ہو اور شریعت اسلامی نے اس کی مخالفت نہ کی ہو اور اسلامی مزاج اس سے ابا نہ کرتاہو وہ بھی معروف میں داخل ہے آپ کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ ان لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود معروف کا کام جاری رکھیں ہر اچھائی کی طرف ان کو بلائیں اور ہر نیکی کی انھیں ترغیب دیں آخر ایک وقت ایسا آئے گا کہ صالح طبیعتیں آپ کی دعوت پر استقامت اور دشمنوں کی شقاوت کو دیکھتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہوجائیں گی کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں کررہے ہیں تو رفتہ رفتہ انکے دل خود بخود داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ آخر کار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جن کے ذاتی مفادات نظام باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں یا جن کی گروہی مجبوریاں اور جاہلانہ تعصبات اس روشنی کے قبول کرنے کی اجازت نہ دیں۔ معروف کا حکم دینے اور اس کی تبلیغ کرنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق ان کے سامنے اسلامی دعوت پیش کی جائے۔ فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کی بجائے سیدھے سادے طریقے سے بات سمجھانے کی کوشش کی جائے جسے لوگ اپنے دل کی آواز محسوس کریں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا اسی ہدایت کے مطابق یہ مزاج بن گیا تھا کہ آپ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ہر شخص کی ذہنی سطح کے اور اس کے مدارج کا پورپورا خیال فرماتے تھے۔ شہری لوگوں سے ان کے انداز اور معیار کے مطابق گفتگو فرماتے اور دیہاتی اور بدوی لوگوں سے ان کی ذہنیت کے مطابق بات کرتے۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) نے اس سلسلے میں بنی فزارہ کے ایک شخص کا ذکر کیا ہے جو بدوی تھا۔ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو سیاہ رنگ کا ہے۔ میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ہم میاں بیوی میں سے کوئی بھی سیاہ رنگ کا نھیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی سمجھ اور پیشہ کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔ اس سے پوچھا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے پھر دریافت فرمایا : وہ کس رنگ کے ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ رنگ کے۔ آپ نے پھر سوال کیا : ان میں کوئی خاکستری رنگ کا یا کم سیاہ رنگ کا کوئی اونٹ بھی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اب تم ہی بتائو کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی ؟ اس نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے کہ اس کی نسل میں کوئی خاکستری یا یساہ رنگ کا ہو اور اور یہ اس کی جھلک آگئی ہو۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو آپ نے یہ فرماکر اس کے شک کو دور کردیا کہ تمہارے بیٹے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ یہ نسب کا کرشمہ ہے اور اس میں تمہاری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس طرح طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ قریش کا ایک نوجوان جو حیوانیت کے جذبات سے مغلوب تھا۔ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بدکاری کی اجازت فرما دیجئے اس کا یہ کہنا تھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پر اس کو خوب ڈانٹا۔ آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ اس سے تعرض نہ کرو اور اس کو قریب بلا کر پوچھا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ جن رشتوں کا تم احترام کرتے ہو ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی یہ بری حرکت کرے ؟ اس نے کہا میں تو ایساسوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ تم جس برائی کا ارادہ کررہے ہو وہ برائی بھی تو آخر کسی کی بہن، بیٹی کے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد آپ نے اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ وہ اس سادہ تفہیم کے انداز سے جو اس کی ذہنی سطح کے عین مطابق تھی اس قدر متأثر ہوا کہ ہمیشہ کے لیے اس سے تائب ہوگیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضور اپنی دعوت میں آسانی، تیسیر اور تدریج کو ملحوظ رکھتے تھے۔ آپ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ احکام اور مسائل میں تنگی پیدا نہ ہونے پائے اور اس کی خاطر اپنے اللہ سے دعا بھی فرماتے تھے اور جب دوسرے لوگوں کو تعلیم یا تبلیغ کے لیے بھیجتے تو ان کو بھی حکم دیتے کہ لوگوں کو تعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکلات سے پرہیز کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ اغلوطات سے منع فرمایا کرتے تھے۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اس سے مقصود یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے مشکل وپیچیدہ مسائل بیان نہ کیے جائیں جن سے وہ کچھ اخذ نہ کرسکیں بلکہ صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جن کو وہ آسانی سے سمجھ سکیں بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ حکمت تبلیغ کا دارومدار چونکہ اس بات پر تھا کہ اپنی دعوت کو لوگوں کے دماغوں میں اتارا جائے۔ اس لیے آپ بعض دفعہ حسب ضرورت گفتگو میں اپنے مخاطب کے لب و لہجہ کا بھی خیال رکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ اس کا تعلق کس قبیلے سے ہے اور اس قبیلے میں کس نوعیت کی زبان رائج ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے عاصم الاشعری سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔ لیس من امبر امصیام فی امسفر (سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے) حالانکہ اصل جملہ اس طرح ہے (لیس من البر الصیام فی السفر) عاصم چونکہ قبیلہ اشعر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی عادت یہ تھی کہ اکثر لام کو م کے ساتھ بدل دیتے تھے۔ چناچہ آپ نے انہی کے لب و لہجہ میں بات فرمائی اور مقصود صرف یہ تھا کہ مخاطب بات کو پوری طرح سمجھ سکے۔ صحابہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی عادت میں یہ بات بھی تھی کہ جب کسی اہم دینی بات کو دل و دماغ میں اتارنا چاہتے تو عموماً اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ اس معاملے میں آپ کی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ جس طرح آپ لوگوں کے لب لہجہ اور احساسات کا خیال فرماتے تھے اسی طرح ان کی نفسیات کا بھی خیال فرماتے۔ انسانی فطرت ہے کہ آدمی ہر دقت بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اگر موقع بےموقع اسے بات سننے پر مجبور کیا جائے تو اس کا ذہن، اس کا دل اسے قبول نہیں کرتا۔ حضرت علی ( رض) اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” دلوں میں خواہشات اور میلانات ہوتے ہیں اور کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کسی وقت وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے اندر داخل ہو کر اس وقت بات کہنی چاہیے جب وہ سننے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے اور بات قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے “۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے اور ہر وقت اور موقع بےموقع وعظ و نصیحت سے احتراز فرماتے تھے۔ حضرت ابن مسعود ( رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ وعظ و نصیحت میں تخول سے کام لیتے تھے یعنی وقفہ دے کر بات کرتے تھے تاکہ روزانہ اور ہر وقت کی نصیحت سے طبیعتیں اکتا نہ جائیں۔ مختصر یہ کہ معروف کا حکم دینے سے مراد ہر بھلائی کی بات کا حکم دینا ہے، جس کی تفصیل آپ نے پڑھ لی ہے اور اسلوبِ دعوت کو ایسا رکھنا ہے جو عام معروف سے ہٹا ہوا نہ ہو بلکہ مخاطب کی حیثیت، اس کی ذہنی سطح اور اس کے احساسات کا پورا لحاظ بھی اس میں شامل ہونا چا ہئے۔ تیسرا حکم دیا گیا ہے : ” واعرض عن الجھلین “ اور جاہلوں سے اعراض کیجیے۔ دعوت حق کا کام کرنے والوں کو ہمیشہ تین طرح کے لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک تو وہ ہوتے ہیں جو دعوت کو سنتے، اس پر غور کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی قبولیت کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے دوسرے وہ لوگ ہیں جنھیں پیغمبر یا کسی بھی داعی حق کی بات سننا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ کہنے والی زبان بند کردی جائے اور لکھنے والا قلم چھین لیاجائے یعنی وہ خیر کے سرچشموں کو بند کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اس دعوت کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دعوت اور داعی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں جتنی غلط فہمیاں پیدا کرسکتے ہوں کریں۔ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے ہیں، نئے نئے الزامات لگاتے ہیں، نئی نئی الجھنیں پیدا کرتے ہیں اور نئے نئے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ داعی حق کو اصل کام نہ کرنے دیا جائے بلکہ انھیں باتوں میں الجھا کر اس کی ساری قوت اور سارا وقت ضائع کردیا جائے۔ یہاں آنحضرت ﷺ اور آپ کے واسطے سے تمام داعیانِ حق کو یہ ہدایت دی جاری ہے کہ ایسے جاہل لوگ جن کا کام نئے نئے الجھاوے پیدا کرنا اور آپ کو انھیں میں الجھا کر منزل کھوٹی کرنا مقصود ہے۔ آپ ان سے اعراض کریں یہاں جاہل سے مراد بےعلم نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو جاہلیت قدیمہ اور قدیمیہ میں، گروہی اور مذہبی تعصبات میں اس قدر شدید ہے کہ وہ اس سے ہٹ کر کوئی بات سوچ بھی نہیں سکتا وہ ہر بات کو انھیں جذبات کی نگاہ سے دیکھتا اور انہی جذبات سے پرکھتا ہے، یہ جاہلِ علم کے مقابلے میں نہیں بلکہ حلم کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ یہاں یہ توجہ دلائی جارہی ہے کہ ایک داعی کو اس معاملے میں نہایت محتاط ہونا چاہیے، اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں، لیکن جب کوئی حجت بازی جھگڑا لوپن اور طعن وتشنیع پر اتر آئے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کردینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاحِ نفوس پر خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجائے گی۔ برصغیر کے ایک بڑے آدمی نے ایک موقع پر کہا تھا جس میں اسی ہدایت کا پرتو جھلکتا ہے کہ میں نے جوانی ہی میں اس بات کا عہد کرلیا تھا کہ جب کوئی مجھ سے الجھنا چاہے گا اور بےجواز مناظرہ بازی شروع کردے گا تو میں اس کی کسی بات کا جواب نہیں دوں گا بلکہ اپنے کام سے کام رکھوں گا یہاں بھی یہی فرمایا جارہا ہے۔ حضرت عمر فاروق ( رض) کے ایک واقعے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نصیحت کا تعلق صرف دعوت حق سے ہی نہیں بلکہ باہمی معاملات سے بھی ہے کیونکہ دعوت حق میں جس طرح جاہلوں سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح معاملات میں بھی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاملات چاہے آپس کے ہوں چاہے حکومت و ریاست کے۔ صحیح بخاری میں ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کی خلافت کے زمانے میں عینیہ ابن حصن مدینہ میں آیا اور اپنے بھتیجے حرّ ابن قیس ( رض) کا مہمان ہوا۔ حضرت حر بن قیس ان اہل علم حضرات میں سے تھے جو حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے۔ عینیہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس سے کہا کہ تم امیر المومنین کے مقرب ہو میرے لیے ان سے ملاقات کا کوئی وقت لے لو۔ حربن قیس نے فاروقِ اعظم ( رض) سے درخواست کی کہ میرا چچا عینیہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ آپ نے اجازت دے دی مگر عینیہ نے فاروقِ اعظم ( رض) کی مجلس میں پہنچ کر نہایت غیر مہذب اور غلط گفتگو کی کہ نہ آپ ہمیں ہمارا پورا حق دیتے ہیں نہ ہمارے ساتھ انصاف کرتے ہیں فاروقِ اعظم ( رض) کو اس پر سخت غصہ آیا تو حر بن قیس نے عرض کیا کہ امیرالمومنین اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ { خذا لعفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین } اور یہ شخص بھی جاہلین میں سے ہے۔ یہ آیت سنتے ہی فاروقِ اعظم ( رض) کا سارا غصہ ختم ہوگیا اور اس کو کچھ نہیں کہا۔ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) کی یہ عادت معروف و مشہور تھی کہ { کان وقافا عند کتاب اللہ عزوجل ” کتاب اللہ کے احکام کے آگے گردن ڈالتے تھے “} یہ مطلب بھی ہے جاہلوں سے اعراض کرنے کا۔ اس آیت کریمہ میں جن تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اس کی تفصیل کسی حد تک آپ نے پڑھ لی ہے۔ ان پر عمل کرنا کسی بھی داعی حق کے لیے آسان نہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں اس مشکل کام کو آسان بنانے کی تدبیر بتائی گئی ہے اور اللہ سے قوت حاصل کرنے کا ذریعہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ بیشتر اس کے کہ میں اس کی وضاحت کروں اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے میں قرآن کریم کے دو مواقع سے چند آیات نقل کرتا ہوں جس سے اس بات کی اہمیت بھی واضح ہوجائے گی اور ساتھ ہی سابقہ باتوں کی تاکید بھی ہوجائے گی۔ ان مواقع میں سے ایک سورة مومنون کی یہ آیتیں ہیں۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَطنَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ ، وَاَعُوْذِبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ (المومنون : 97) دفعہ کرو برائی کو بھلائی سے ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ کہا کرتے ہیں اور آپ یوں دعا کیجیے کہ اے میرے پروردگار میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے دبائو سے اور اے میرے پروردگار میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں۔ ان مواقع میں سے دوسراسورۃ حم سجدہ کی یہ آیتیں ہیں۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُوَلَا السَّیِّئَۃُطاِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّاالَّذِیْنَ صَبَرُوْاج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْع فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِطاِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں آپ نیک برتائو سے ٹال دیا کریں پھر یکایک وہ شخص کہ آپ اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انھیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کچھ وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجیے بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے پیشِ نظر آیت کریمہ کے ساتھ محولہ بالا آیات کو ملا کر پڑھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ برائی کے مقابلے میں نیکی اور بڑی سے بڑی زیادتی کے مقابلے میں درگزر کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرنا چنداں آسان نہیں اس پر عمل صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو بہت مستقل مزاج ہوں یا اللہ تعالیٰ نے جن کا نصیب بہت روشن بنایا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبلیغِ دین اور دعوت حق کے کام کے سلسلے میں ایک داعی حق کو جو صورتحال پیش آتی ہے وہ یقینا ایسی گنجلک اور ایسی پیجیدہ ہوتی ہے جن کی وجہ سے پیش نظر آیت کریمہ میں چوتھی ہدایت دی گئی جو پہلی تین آیات کے لیے کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی یا انھیں آسان بنا دیتی ہے۔ ان دو باتوں میں سے پہلی بات یہ ہے کہ جب ایک داعی حق، حق کی دعوت لیکر اٹھتا ہے تو اس کے مخاطبین کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آتا ہے وہ اس کی دعوت کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے اور ان کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ دعوت حق کے اس سرچشمے کو بند کردیا جائے یا اس کے بارے میں اتنی دھول اڑادی جائے کہ داعی حق کی شخصیت اور اس کی دعوت اس میں گم ہو کر رہ جائے۔ اس بپھری ہوئی مخالفت کو دیکھ کر داعی حق کی طبیعت میں یقینا ایک ہیجان پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے اندر شدید اشتعال محسوس کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ میں اپنے مخالفین کو اسی زبان میں جواب دوں جو زبان میرے لیے اختیار کررہے ہیں اور میں بھی ہر ایسی ممکن تدبیر بروئے کار لانے سے دریغ نہ کروں جس سے مخالفین کا منہ بند کیا جاسکے۔ مخالفین کی کثرت اور قوت کے باعث اولاً تو ایک داعی حق کے لیے ایسی کسی تدبیر کا روبہ عمل لانا آسان نہیں ہوتا لیکن اگر ایسا ہو بھی سکے تو اس کا نتیجہ دعوت کے حق میں کبھی بہتر نہیں ہوگا۔ وہ دل جو صبر و تحمل کی قوت سے پھرتے ہیں اور داعی کے مضبوط کردار کو دیکھ کر متأثر ہوتے ہیں وہ تدبیر کی اس جنگ میں بدگمان ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اس لیے یہاں نصیحت فرمائی جارہی ہے کہ اگر تم اپنے دعوتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہو اور تمہاری یہ خواہش ہے کہ تم اللہ کے فضل و کرم سے انہی بند راستوں میں کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجاؤ اور لوگوں کی بند طبیعتیں تمہارے لیے کھلنے لگیں تو اس کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اپنے اندر کے اشتعال کو قابو کرنے کی کوشش کرو اور یہ سمجھ لو کہ تم اپنے اندر جس اشتعال کو محسوس کررہے ہو یہ حقیقت میں شیطان کی طرف سے ایک انگیخت ہے تاکہ تم بھی اسی راستے پر چل پڑو جس پر تمہارے مخالف چل رہے ہیں لیکن تمہیں اس کی بجائے ایسا طرز عمل اختیار کرنا ہے کہ مخالف کی گالی کے مقابلے میں دعا دی جائے اور ان کی تکلیفوں کے مقابلے میں اخلاقیات کے پھول نچھاور کیے جائیں ان کے بڑے سے بڑے حملے کے جواب میں صبر و تحمل کا ثبوت دیا جائے یہ نہ صرف ایک بہت مشکل کام ہے بلکہ بعض دفعہ انسان ہزار کوشش کے باوجود بھی اس پر اپنے کو قادر نہیں پاتا۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تم شاید اپنے طور پر اس پر عمل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکو اس لیے تمہارے لیے آسان کام یہ ہے کہ تم اللہ سے پناہ مانگو اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کردو اور اس سے یہ دعا کرو کہ یا اللہ میں ایک انتہائی کمزور شخص ہوں میں شیطانی وسوسوں پر پوری طرح قابو نہیں پاسکتا میں اپنی طبیعت کے ردعمل کو روک نہیں سکتا، ناخوشگوار بات پر برہم ہوجانا میری فطرت کا تقاضا ہے میں فطرت کے تقاضوں کو کب تک دبا کر رکھوں، اس لیے میری دعا ہے کہ تو مجھے اپنی پناہ میں لے لے، میری ناتوانیوں کو توانائیوں میں بدل کر میری کمزوری کو قوت میں تبدیل کردے، نفسانی خواہشوں اور شیطانی اکساہٹوں کو مجھ پر غالب نہ آنے دے بلکہ اپنے خوف، اپنی محبت اور اپنے دین کے رستے میں استقامت کو میرے لیے مضبوط ڈھال بنا دے۔ اس دعا کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ داعیِ حق کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ خطاب و احد کے صیغے کے ساتھ یعنی آنحضرت سے کیا جارہا ہے حالانکہ ان نصیحتوں کی ضرورت آنحضرت سے زیادہ آپ کے بعد آنے والے داعیانِ حق کو ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسواسِ شیطانی سے پہلے ہی محفوظ رکھا ہے اور آپ مکارمِ اخلاق کے سب سے بڑے مقام پر فائز ہیں لیکن آپ کو مخاطب کر کے یہ نصیحتیں فرمانا یہ اس لیے ہے تاکہ آپ امت کے داعیانِ حق کے لیے ایک اسوہ اور نمونہ بن جائیں انسان کی یہ فطری خصوصیت ہے کہ وہ حرف و صوت پر مشتمل نصیحتوں پر اتنا اثر قبول نہیں کرتا جتنا زندہ شخصیتوں سے کرتا ہے جب ان نصیحتوں کے ساتھ ساتھ آنحضرت کی شخصیت ان کے سامنے ہوگی تو وہ یقینا اس سے اثر بھی قبول کرے گا اور ایک حوصلہ بھی پائے گا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اللہ کی توفیق سے جس طرح اس راستے میں زریں نقوش چھوڑے ہیں اور ان نصیحتوں پر عمل کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے، وہ انسانیت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ پوری مکی زندگی میں زندگی کا کون سا دکھ ہے جو آپ کو پہنچایا نہ گیا ہو اور کونسی ایسی قلبی اذیت ہے جس سے آپ کو واسطہ نہ پڑاہو اور کون سی ایسی اخلاقی گراوٹ ہے جس سے آپ کو سابقہ پیش نہ آیاہو۔ بایں ہمہ ! کسی ایک موقعہ پر بھی تاریخ آپ کے قدموں میں تزلزل محسوس نہیں کرتی بلکہ آپ کا عفو و درگزر اور اپنے مخالفین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ اور جاہلوں سے آپ کے اعراض کی روش ہمیشہ کے لیے ایک ضرب المثل بن کر رہ گئی ہے۔ طائف کا ہولناک واقعہ تاریخ کی ایک ایسی زندہ مثال ہے جس کی نظیر شاید تاریخ میں تلاش نہ کی جاسکے۔ آپ نے مسلسل تین میل تک پتھروں کی بارش میں لوگوں کے سامنے دعوت حق پیش کی اس وقت تک آپ انھیں سمجھاتے رہے جب تک آپ زخموں سے چور چور اور لہولہان ہو کر بیہوش نہیں ہوگئے۔ لیکن مخالفین کے اس بہیمانہ رویے کے باوجود جب پہاڑوں پر متعین فرشتہ آپ کے پاس یہ درخواست لے کر آیا کہ اگر آپ چاہیں تو میں دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا کر ان ظالموں کو کچل کر رکھ دوں تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں ان کی تباہی نہیں چاہتا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ نہیں تو ان کی اولادیں ایمان لائیں گی آنحضرت ﷺ کا یہ اسوہ قیامت تک کے لیے داعیانِ حق کو مینارہ نور بن کر روشنی دیتا رہے گا۔ اس پوری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اللہ سے پناہ مانگنے کا حکم اس لیے دیا جارہا ہے کیونکہ مخالفین کے طرز عمل کے باعث ایک داعی حق کو باربار ایسے جذبات سے واسطہ پڑتا ہے جس پر قابو پانا اللہ کی مدد کے بغیر اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور اس کی مدد اسی طرح طلب کی جاسکتی ہے کہ اس کی پناہ مانگی جائے لیکن اس حکم اور اس نصیحت کا سبب ایک دوسری بات بھی ہے جو بیان کردہ بات سے زیادہ سنگین ہے۔ اس سے میری مراد وہ صورتحال ہے جو ایک داعی حق کو اس وقت پیش آتی ہے جب اس کی دعوت کے نتیجے میں دعوت قبول کرنے والوں کا ایک قافلہ تیار ہوجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ انھیں قوت بھی مل جاتی ہے۔ تو اب داعی حق اپنے اندر سے اٹھنے والے اشتعال کو روکنے میں دشواری محسوس کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ اس کے ساتھی اور اس کے پیروکار اسے باربار مجبور کرنے لگتے ہیں کہ آخر ہم کب تک ان اذیتوں کو برداشت کرتے رہیں، لوگ ہم پر الزامات لگاتے رہیں اور ہم سنتے رہیں، وہ آگے بڑھ بڑھ کر ہماری کردار کشی کریں اور ہم ان کو مسلسل برداشت کریں، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ہمیں ان کی مخالفت کا جواب مخالفت سے دینا چاہیے، یہ لوگ جس زبان میں بات کرتے ہیں اسی میں سمجھتے ہیں، اس لیے ہماری نصیحت کی باتیں ان پر اثر انداز نہیں ہوتیں، جب انھیں محسوس ہوگا کہ ان کی شرارتوں اور ان کی سازشوں کا سختی سے جواب دیا جاسکتا ہے تو پھر یہ اپنی حرکتوں سے خود بخود رکنا شروع کردیں گے۔ اپنوں کی طرف سے اس طرح کے مطالبات میں اس وقت اور شدت پیدا ہوجاتی ہے جب ان کو کوئی شرعی سہارے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً وہ اس طرح کی باتیں کہنا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھیں ظلم کا ہاتھ نہ روکناظلم کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ہم جس چیز کو صبر کہتے ہیں وہ حقیقت میں ہماری کمزوری ہے، جس سے مخالفین کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور کبھی وہ یہ کہتے کہ ہمارے اس حد سے بڑھے ہوئے صبر نے اسلام کو لاوارث بنا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ کمزور لوگ صبر کا نام لے کر اپنی کمزوریوں کو چھپانا چاہتے ہیں، جس اسلام نے ان میں جرأت اور غیرت وحمیت پیدا نہیں کی وہ اسلام باقی لوگوں کو کیا دے سکے گا ؟ اس لیے بہتر ہے کہ اس سے دور ہی رہاجائے۔ اس طرح کی باتیں جو بظاہر شریعت کا تقاضا معلوم ہوتی ہیں ایک داعی حق کے لیے اور مشکل کا باعث بنتی ہیں۔ اب وہ اگر مخالفین کی مخالفت پر صبر کرنا چاہتابھی ہے تو یہ صبر اس کے لیے آسان نہیں رہتا چناچہ ایسے ہی مواقع کے لیے حکم دیا جارہا ہے کہ اب جبکہ تم تحمل اور برداشت میں دشواری محسوس کررہے ہو تو اللہ سے پناہ طلب کرو اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس کی تعلیم دو تاکہ ان کے اندر بھی تحمل اور برداشت اور صبر کی اعلیٰ روایات پیدا ہوسکیں چناچہ آنحضرت ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا اسوہ اس معاملے میں بھی بہت واضح ہے غالباً غزوہ بنو مصطلق میں کنویں سے پانی لیتے ہوئے ایک انصاری اور مہاجر میں تکرار ہوگئی دونوں نے اپنے اپنے قبیلوں کو مدد کے لیے پکارا۔ اسلام نے اگرچہ مسلسل تربیت سے مسلمانوں سے اس عصبیت کو ختم کرڈالا تھا لیکن اس کے جراثیم بعض کم تربیت یافتہ لوگوں میں ابھی تک باقی تھے۔ چناچہ وہ لوگ تلواریں لیے اپنے اپنے آدمی کی مدد کے لیے پہنچ گئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی آنحضرت ﷺ نے بروقت پہنچ کر اس معاملے کو سنبھالا اور دونوں کو ان کی غلطی پر فہمائش کی۔ عبداللہ بن ابی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک تھا۔ اس کو جب اپنے گروہ کے ساتھ الگ بیٹھنے کا موقعہ ملا تو اس نے اوس و خزرج کے لوگوں کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ تمہارا کیا دھرا ہے کہ تم نے ان مہاجرین کنگلوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے، ہر چیز ان کے حوالے کردی، اب وہ خوشحال ہوگئے ہیں تو تمہیں ہی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کتے کو پالوتا کہ تمہیں ہی کاٹے۔ تم آج بھی ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ مزید کہا کہ مدینہ واپس جاکر عزت والے ذلیل لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔ مطلب یہ کہ ہم ان کو مدینے سے نکال باہر کریں گے۔ وہاں ایک نوعمر صحابی بھی موجود تھے انھوں نے جاکر آنحضرت ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ عبداللہ بن ابی کو پتہ چلا تو فوراً آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور جاکر صفائیاں دینے لگا کہ خدانخواستہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں، اس لڑکے کو شاید میری بات سمجھ نہیں آئی۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا عذر قبول کر کے معاملے کو ختم کرنا چاہا لیکن مسلمان جانتے تھے کہ یہ ایک جھوٹا شخص ہے، حضرت عمر فاروق ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ حضور آپ اگر حکم دیں تو میں اس شخص کو قتل کردوں۔ اندازہ کیجیے کہ اس نے کیسی دلوں کو پاش پاش کردینے والی باتیں کہیں لیکن آنحضرت ﷺ نے بجائے اس کو سزا دینے کے حضرت عمر ( رض) سے فرمایا کہ عمر ( رض) ! تم کیا چاہتے ہو کہ لوگ یہ کہیں محمد ﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو مروا دیتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کے بعد مسلمانوں میں شامل ہونے کی کسے خواہش رہے گی۔ لوگ ہمیں بجائے اس کے کہ انسانوں کا امین سمجھیں وہ ہمیں ایک ظالم کی شکل میں دیکھیں گے۔ لیکن جب واپسی پر یہ لشکر مدینہ کے دروازے پر پہنچا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے جن کا نام بھی عبداللہ تھا اور جو اپنے باپ کے انتہائی فرماں بردار مشہور تھے۔ وہ تلوار بےنیام کرکے اپنے باپ کے سامنے کھڑے ہوگئے کہ جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ رسول اللہ اور مسلمان عزت والے ہیں میں اور میرے ساتھی ذلیل ہیں، میں اس وقت تک تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے حکم پر انھوں نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی جازت دی۔ اس پر آپ نے حضرت عمر فاروق ( رض) سے فرمایا کہ تمہیں اندازہ ہوا کہ ہم نے اس کی گستاخی اور ایذارسانی کو برداشت کیا اور اس معاملے کو اللہ کے سپرد کیا تو اللہ نے اس کو یہ سزا دی کہ وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوتے ہوتے بچا۔ آنحضرت ﷺ کا یہ اسوہ ہمیں یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ داعی حق اور اس کے پیروکاروں کی قوت کمزور ہو اور مخالفین کی ایذا رسانیاں ناقابلِ برداشت ہوجائیں تو تب بھی انھیں اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور اگر داعی حق اور اس کے پیروکار قوت پکڑ لیں تو تب بھی ایسی صورتحال میں انھیں اپنے جذبات کو قابو رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہوئے دعوت حق کے فریضہ کو انجام دینا چاہیے۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اگر مخالفت کا جواب قوت سے دینا شروع کردیا جائے تو جواب تو ضرور ہوجائے گا لیکن دعوت حق کا کام رک جائے گا لیکن صبر و تحمل سے مخالفین کی مخالفت کو برداشت کرتے ہوئے دعوت حق کا کام کرتے رہنایہ اللہ سے پناہ طلب کیے بغیر ممکن نہیں کیونکہ ہم ہر دور کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ خود مسلمانوں کے اندر سے یا حکومتوں کی جانب سے جب کبھی داعیانِ حق پر ظلم ہوا ہے یا ان کی کردار کشی کی گئی ہے تو انھوں نے اگر صبر و تحمل لیکن ساتھ ساتھ دعوت حق کو پوری توانائی کے ساتھ پیش کرنے کے عمل کو جاری رکھا ہے تو ظلم کرنے والے ختم ہوگئے ہیں انکی دعوت اور ان کے پیش کردہ نظریات ایک قوت بن کر اٹھے اور مخالفین پر چھا گئے۔ لیکن جہاں کہیں بظاہر نیکی کا کام سمجھتے ہوئے قوت کا استعمال شروع ہوا تو وہیں شیطانی قوتوں کو اپنا کام کرنے کا موقع ملا۔ لیکن جیسا میں باربار عرض کررہا ہوں کہ یہ کام آسان نہیں کیونکہ اپنے لوگ ہی باربار طنز کرنے لگتے ہیں کہ تمہاری کمزوریوں نے تو اسلام کو ذلیل کرکے رکھ دیا ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک خاص دور میں جب کئی داعیانِ حق قتل ہوئے اور بعض نہایت محترم راہنمائوں پر بھی رکیک حملے کیے گئے اور داعیانِ حق نے صبر و تحمل اور دعوت حق سے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو اس پر طنز کرتے ہوئے کہا گیا ؎ اس جماعت سے حرارت کی توقع ہے فضول جس میں ملاں تو بہت ہیں چلبلا کوئی نہیں اور بھی اس طرح کی بیشمار باتیں کہی گئیں لیکن صاحب بصیرت راہنمائوں نے کسی نہ کسی طرح یہ ظلم کا دور گزارا اور قافلہ حق کو کسی بڑے تصادم میں مبتلا کیے بغیر عافیت سے گزار کرلے گئے۔ لیکن اس کے مقابل میں ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھتے ہیں کہ خیر اور بھلائی کی قوتوں کو جب ایسی ہی صورتحال سے واسطہ پڑا تو وہ زیادہ دیر تک اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے مجبوراً کہیں کہیں انھیں طاقت کا جواب طاقت سے دینا پڑا۔ لیکن شیطانی قوتوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ جیسے ہی محسوس کرتی ہیں کہ قافلہ حق کے لوگوں میں ہماری مخالفت کے ردعمل کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں تو ہمیشہ اپنے حملوں میں شدت پیدا کردیتے ہیں، ان کے ترکش میں جو ممکن تیر ہوسکتے ہیں وہ ایک ایک کرکے چلانے سے دریغ نہیں کرتے اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حق کے مسافروں کو اسی کام پر لگا دیا جائے وہ بجائے اصلاح اور خیر کے کام میں محنت کرنے کے مخالفت کا توڑ کرنے میں لگے رہیں اور جب ان کی طرف سے کبھی ظلم کا جواب طاقت سے دیا جانے لگے تو پھر ریاست کی قوت سے پوری طرح انھیں کچل دیاجائے۔ چناچہ مشرق وسطیٰ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ خیر کی وہ قوتیں جو مسلمانوں کی دینی زندگی کی ضمانت سمجھی جاتی تھیں ان سے جیسے ہی بعض مواقع پر قوت کے استعمال کا ثبوت ملا تو انھوں نے اسے بڑھا چڑھا کر بغاوت بنا ڈالا اور ریاست کی قوت سے انھیں پامال کر کے رکھ دیا اور جو بچ گئے انھیں پورے عالم اسلام میں بکھرنے پر مجبور کردیا۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جو لوگ اسلامی تعلیمات میں ڈھل کر نکلتے ہیں ان کا ذوق محولہ بالا نصیحتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ان کا عمل اس کا عکاس ہوتا ہے۔
Top