Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
بیشک جو لوگ متقی ہیں جب ان کو کوئی شیطانی چھوت لاحق ہونے لگتی ہے وہ اللہ کا دھیان کرتے ہیں اور دفعۃً ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں۔
ارشاد فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْااِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ج (الاعراف : 201) بیشک جو لوگ متقی ہیں جب ان کو کوئی شیطانی چھوت لاحق ہونے لگتی ہے وہ اللہ کا دھیان کرتے ہیں اور دفعۃً ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ آیات میں خطاب واحد کے صیغہ سے براہ راست آنحضرت ﷺ سے تھا لیکن اس آیت میں جمع کے اسلوب نے یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے تمام مسلمانوں کو سمجھانا مقصود ہے۔ لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں آنحضرت ﷺ کو چونکہ ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا تھا اس لیے سب سے پہلے ان سے خطاب فرمایا۔ اب اس آیت میں تمام امت مسلمہ کا ذکر کیا جارہا ہے کہ ان میں جو ہدایات دی گئی ہیں اور جن کے بغیر دعوت حق کا کام کرنا ممکن نہیں ان پر عمل صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو بیان کردہ مکارمِ اخلاق کے پیکر ہوں اور کٹھن سے کٹھن جذبات کی وادی میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ کبھی نفسانیت کا شکار نہ ہوں۔ ان پر ہر وقت اللہ کے خوف کا غلبہ ہو اور وہ ہر سوچ اور ہر عمل سے پہلے اللہ کی شریعت اور اس کی رضا کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اصلاً راہ حق کے مسافر ہیں اور ان کا حال یہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کا ذوق اس طرح بن جاتا ہے کہ جب کبھی حق و باطل کے معرکے میں جذبات برانگیختہ ہونے لگتے ہیں اور وہ اشتعال کی گرفت میں آکر کوئی جوابی کارروائی کا سوچنے لگتے ہیں تو مسلسل تربیت کے نتیجے میں ان کے اندر پیدا کردہ ذوق اور اللہ کی حفاظت انھیں فوراً متنبہ کرتی ہے کہ دیکھو تم یہ کیا کررہے ہو ؟ چناچہ وہ چونک جاتے ہیں اور اللہ کی یاد انھیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور ان کے دماغوں اور ان کی عقل و دانش پر جذبات کی برانگیختگی کے باعث جو غبار پڑجاتا ہے وہ فوراً چھٹ جاتا ہے اور ان کا دماغ اور ان کی عقل پوری طرح بیدار ہو کر وہ کچھ دیکھنے لگتی ہے جو ایسے موقع پر انھیں دیکھنا چاہیے۔ قرونِ اولیٰ میں تو ہمیں اس کی مثالیں جابجا ملیں گی لیکن ہم قریبی تاریخ کے بھی اللہ کے عظیم بندوں میں اس کی مثالیں دیکھتے ہیں مولانا محمد قاسم نانوتوی جلیل القدر عالم اور اولیاء کبار میں سے ہیں، ایک دفعہ وہ تقریر ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ مولانا تقریر بعد میں کیجیے پہلے اپنا مسلمان ہونا تو ثابت کیجیے فلاں عالم نے آپ کو گستاخ رسول قرار دیتے ہوئے آپ کی تکفیر کی ہے تو جب تک آپ اس الزام کو اپنے سر سے نہیں اتارتے ہم آپ کی تقریر کیسے سنیں ؟ آپ نے ایسی تکلیف دہ بات پر برہم ہونے کی بجائے فرمایا کہ بھائی جس نے میری تکفیر کی ہے ہوسکتا ہے انھوں نے آنحضرت ﷺ سے شدید محبت کے باعث ہی ایسا کیا ہو، میں بفضلہ تعالیٰ مسلمان ہوں اور اللہ کے رسول سے محبت وعقیدت رکھتا ہوں اور پھر بھی اگر میرے ایمان میں شبہ ہے تو میں آپ کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر ایمان کی تجدید کرلیتا ہوں، چناچہ آپ نے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا اب تو میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ اندازہ فرمایئے ! انھوں نے کس طرح اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور کس طرح ان کے دماغ نے ان کو صحیح راستہ دکھایا۔ شاہ اسماعیل شہید کا واقعہ اس سے بھی زیادہ سبق آموز ہے جو جامع مسجد میں تقریر فرما رہے تھے کہ کسی شرپسند آدمی نے اٹھ کر کہا شاہ صاحب آپ تو حرامی ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ ایک آدمی جس کے ہزاروں عقیدت مند ہوں اور جو اسلام کا ایک بہت بڑا عالم اور بطل جلیل ہو اس کے لیے ایک ایسے فسادی کا منہ بند کرنا کیا مشکل کام تھا۔ لیکن آپ نے نہایت تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے اسے بھی ایک فقہی مسئلہ بنادیا۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے میرے والدین کے یہ نام ہیں اور لوگ ان کو عام طور پر جانتے ہیں، ان کے نکاح کے گواہ ابھی تک زندہ ہیں، جو ان کے نکاح کی گواہی دے سکتے ہیں اور میری ولادت کے بھی عینی شاہد موجود ہیں۔ آپ ان گواہوں سے مل کر میرے نسب کے بارے میں اطمینان کرسکتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس کی یہاں نصیحت فرمائی جارہی ہے اور یہ صرف اسی شخص کو نصیب ہوتا ہے جو اپنے آپ کو پوری طرح مکارمِ اخلاق میں ڈھال چکا ہو اور جس کا ذوق صحیح معنی میں ایک متقی کے ذوق میں ڈھل چکا ہو اور جس کا یہ حال ہوگیا ہو کہ برے خیال کا اگر ایک ذرا ساغبار بھی اس کے دل کو چھو جائے تو اسے ایسی کھٹک محسوس ہوجیسی کھٹک انگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے پڑجانے سے محسوس ہوتی ہے۔ جہاں تک شیطانی قوتوں کا تعلق ہے ان کی برابر کوشش ہوتی ہے کہ وہ دعوت حق کو روکنے اور داعیانِ حق کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور جو لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں انھیں مسلسل اس کام پر لگائے رکھیں
Top