Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 24
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
قَالَ : فرمایا اهْبِطُوْا : اترو بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض عَدُوٌّ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانا وَّمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰي حِيْنٍ : ایک وقت تک
فرمایا : اتر جائو ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے
چناچہ ارشاد فرمایا : قَالَ اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ۔ قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْھَا تُخْرَجُوْنَ ۔ (الاعراف : 24، 25) (فرمایا : اتر جاؤ ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے اور فرمایا وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخر نکالا جائے گا) حضرت آدم وابلیس کو دومتحارب فریقوں کے طور پر زمین پر بھیجا زمین پر حضرت آدم اور حضرت حوا کو بھیجتے ہوئے بعض بنیادی حقیقتوں کا شعور بھی بخشا۔ سب سے پہلی یہ حقیقت ان پر منکشف فرمائی گئی کہ ہم تمہیں زمین پر محض انتقال مکانی کے لیے نہیں بھیج رہے بلکہ تمہارے بھیجنے کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو ہم زمین کے دار الامتحان میں بھیج کر یہ امتحان کرنا چاہتے ہیں کہ تمہیں جس آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے اس میں تم پورا اترتے ہو یا نہیں وہ آزمائش یہ ہے کہ صرف تمہیں ہی نہیں بھیجا جا رہا بلکہ تمہارے ساتھ ابلیس کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ زمین پر تمہارا جانا درحقیقت ایک معرکہ کارزار میں اترنا ہے۔ ایک طرف تم اور تمہاری اولاد ہوگی اور دوسری طرف ابلیس اور اس کا لائو لشکر ہوگا۔ ابلیس نے جس طرح حضرت آدم اور حضرت حوا کو بہکانے کی کوشش کی اور اپنی حد تک تو اس نے انھیں بہکا ہی دیا لیکن اللہ نے اپنی رحمت سے انھیں تھاما اور وہ اپنی عاجزی اور استغفار سے اللہ کی اس راہ ہدایت کو پانے میں کامیاب ہوگئے اور اپنی اولاد کے لیے بھی انھوں نے اس راستے کا دروازہ کھول دیا کہ اگر تم سے کبھی غلطی ہوجائے تو بجائے شیطان کی روش اختیار کرنے کے تمہاری روش یہ ہونی چاہیے کہ تم فوراً اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو اس طرح اللہ تمہیں اپنی رحمت سے نوازے گا۔ چناچہ یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ابلیس نے جس طرح جنت میں تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی اسی طرح اب وہ دنیا میں بھی پہلے سے بڑھ کر اپنی کاروائیاں جاری رکھے گا ‘ تمہاری کامیابی کا راستہ صرف اس احساس کو مستحضر رکھنے میں ہے کہ شیطان تمہارا بدترین دشمن ہے اور تم زمین پر اس کی دشمنی کا ہدف ہو اگر تم اس کی دشمنی کو یاد رکھو گے تو یقینا اس کے مقابلے کے لیے کوشش بھی کرو گے لیکن اگر تم اپنے دشمن ہی کو بھول گئے اور بجائے اس کو دشمن سمجھنے اور اس کی وارداتوں سے بچنے کی کوشش کرنے کے تم نے اگر اس سے سازگاری پیدا کرلی اور اس کی ہدایت پر چلنے لگے تو پھر تم اپنی دنیا بھی برباد کرلو گے اور آخرت میں بھی ناکامی تمہارا مقدر بن جائے گی۔ یہاں یہ جو فرمایا جا رہا ہے کہ تم زمین پر اتر جاؤ اور وہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اس کا یہی مطلب ہے کہ شیطانی قوتیں اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گی اور یہی اس کی اصل دشمنی ہے۔ دوسری حقیقت جو یہاں واشگاف فرمائی گئی وہ یہ ہے کہ زمین ہمیشہ کے لیے تمہارا وطن نہیں وہ تمہاری عارضی رہائشگاہ ہے۔ وہاں تمہیں صرف ایک آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ وہاں تمہیں جو سروسامان دیا جائے گا وہ بھی ایک خاص وقت تک کے لیے ہے یعنی تم زمین میں ایک مختصر عمر کے لیے جا رہے ہو۔ تم میں سے ہر ایک کی ایک مختصر اور متعین عمر ہوگی اور پوری نوع انسانی کا قیام زمین میں ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک مختصر مدت کے لیے ہوگا۔ اس کے بعد ہم تمہیں واپس بلا لیں گے اور یہاں تمہاری زمین پر گزری ہوئی عمر کے بارے میں جواب طلبی کریں گے اور یہ تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس عارضی اور فانی وطن ہی کو اپنا حقیقی وطن سمجھ کر جس طرح اللہ کو اور اپنی حقیقی منزل جنت کو بھلایا بتائو تمہارے پاس اس کا کیا جواز تھا۔ چناچہ جو لوگ زمین کی نعمتوں ہی کو اپنا سب کچھ جان کر آخرت کو نظر انداز کرچکے ہوں گے وہ آخرت میں بہت برے نتائج کا سامنا کریں گے اور جنھوں نے اپنی حقیقی منزل یعنی جنت کو یاد رکھا ہوگا اور اسی نعمت گم گشتہ کو پانے کے لیے دنیا میں کوششیں کی ہوں گی وہ بالآخر اس جنت میں پہنچ جائیں گے جہاں سے ان کے جد امجد کو نکالا گیا تھا کیونکہ اصل وطن تو ان کا وہی ہے۔ زمین میں تو ایک مختصر مدت کے لیے اور ایک خاص مقصد کے لیے انھیں بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے بعد دوسری آیت کریمہ میں اسی بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ اب تم اسی زمین پر زندہ رہو گے یعنی زندگی گزارو گے اور اسی زمین میں تمہیں بالآخر موت آئے گی یعنی یہ زندگی تمہاری فانی ہوگی جس کا پہلا انجام موت ہوگا لیکن یہ مت سمجھنا کہ اس موت کے بعد تمہاری دوسری کوئی زندگی نہیں اور یہ موت تمہارے ہمیشہ کے لیے فنا ہوجانے کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد تمہیں زندہ کیا جائے گا اور اسی زمین جس میں تمہیں دفن کیا جائے گا اسی سے تمہیں نکالا جائے گا یہ اصلاً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اولاد آدم میں ایسی گمراہ قومیں بھی ہوں گی جو یہ سمجھتی ہوں گی کہ زمین کا قیام ہی سب کچھ ہے اور یہیں کی زندگی اصل زندگی ہے ‘ یہیں کی خوشیاں اور یہیں کے دکھ ابدی ہیں جس نے یہاں جو کچھ پا لیا وہی اس کا اصل مقدر ہے۔ یہاں موت کا شکار ہونے کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا ہے اس کے بعد کسی دوسری زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ جس کو زمین کے سپرد کردیا جاتا ہے اسے زمین کھا جاتی ہے اور زمین پر آج تک نجانے کتنی نسلیں گزر چکیں۔ اس لیے جن کو زمین کھا گئی اور وہ مٹی کی خوراک بن گئے اب انھیں کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں دفن ہوئے ہیں اور اسی مٹی سے دوبارہ زندہ کر کے کیسے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ جو ذات تمہیں یہاں زندگی کے اسباب فراہم کر رہی ہے اور جو ذات تمہیں یہاں موت دے گی اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ دوبارہ اسی زمین اور اسی مٹی سے تمہیں اٹھا کھڑا کرے تو یہاں اسی حقیقت کو آدم اور اولاد آدم کے گوش گزار کیا جا رہا ہے کہ زمین پر جاؤ تو یہ سمجھ کر جاؤ کہ تم ایک دارالامتحان میں جا رہے ہو۔ وہاں تمہیں ایک خاص معرکہ درپیش ہے ‘ ایک خطرناک دشمن تمہاری تاک میں ہے۔ وہ اس زمین ہی کے قیام کو تمہارے لیے مقصد زندگی بنانے کی کوشش کرے گا اور زمین کی نعمتوں کو تمہارا مقصودِ نگاہ بنا دے گا۔ دیکھنا اس کے فریب میں نہ آنا ‘ اپنی موت کو ہمیشہ یاد رکھنا اور موت کے وقت سے چونکہ کوئی آشنا نہیں اس لیے ہمیشہ اس ناگہانی مہمان کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا اور اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنا کہ موت تمہاری منزل نہیں بلکہ تمہیں اصل منزل کی طرف لے جانے کا ایک راستہ ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ جب تمہیں اسی مٹی کی آغوش سے نکالا جائے گا۔ زمین چاہے تمہیں بالکل نگل جائے لیکن اللہ کے علم میں تمہارے وجود ‘ تمہارے احساسات اور تمہارے عمل کی ایک ایک چیز محفوظ ہے۔ وہ اس روز تم سے ایک ایک عمل کا حساب لے گا۔ چناچہ یہ مختصر بنیادی حقائق جو زندگی کے سفر کی تمہید بن سکتے تھے انھیں ذہن نشین کر کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو دنیا میں اتارا گیا تاکہ وہ اپنی اور اپنی اولاد کے لیے انھیں رہنما اصول بنا کر زندگی گزاریں اور اسی کی آسان تعبیر وہ ہے جو ہمیں پہلے پارے میں اسی حوالے سے ملتی ہے کہ ہم نے حضرت آدم اور حضرت حوا سے کہا کہ تم زمین پر چلے جاؤ لیکن یہ یاد رکھو کہ وہاں میری جانب سے تمہارے پاس ہدایت یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ پہنچے گا تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اس کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا نہ کوئی حزن ‘ لیکن جو لوگ میری اس ہدایت کے ساتھ کفر اور تکذیب کا رویہ اختیار کریں گے یہی لوگ ہیں جو اصحابِ نار ہوں گے اور ہمیشہ اس عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ چناچہ اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں خطاب بھی اسی حوالے سے ہے اور جو ہدایت عطا فرمائی جا رہی ہے اس میں بھی اس حوالے کی یاد دہانی ہے اور یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے حضرت آدم کو جو ابتدائی ہدایات دے کر بھیجی تھیں یہ انہی میں سے ایک ہے اور اب ہم اس لیے اس کا تذکرہ کر رہے ہیں تاکہ لوگ اس سے یاددہانی حاصل کریں۔ چناچہ ارشاد فرمایا :
Top