Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 37
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : بہتان باندھا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلایا بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتوں کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَنَالُهُمْ : انہیں پہنچے گا نَصِيْبُهُمْ : ان کا نصیب (حصہ) مِّنَ الْكِتٰبِ : سے کتاب (لکھا ہوا) حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئیں گے رُسُلُنَا : ہمارے بھیجے ہوئے يَتَوَفَّوْنَهُمْ : ان کی جان نکالنے قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اَيْنَ مَا : کہاں جو كُنْتُمْ : تم تھے تَدْعُوْنَ : پکارتے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے وَ : اور شَهِدُوْا : گواہی دیں گے عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ : کافر تھے
تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا ‘ جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کریں یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائیں ؟ ان لوگوں کو ان کے نوشتہ کا حصہ پہنچے گا ‘ یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے ‘ کہاں ہیں ؟ وہ جواب دیں گے ‘ وہ تو سب ہم سے گم ہوگئے اور یہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی منکر حق تھے۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اُولٰٓئِکَ یَنَالُھُمْ نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ ط حَتّٰٓی اِذَا جَآئَتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ لا قَالُوْآ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ط قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَھِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ ۔ قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ ط کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا ط حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا لا قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُلَآئِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ 5 ط قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ۔ وَقَالَتْ اُوْلٰھُمْ لِاُخْرٰھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ ۔ (الاعراف : 37، 38، 39) ” تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا ‘ جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کریں یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائیں ؟ ان لوگوں کو ان کے نوشتہ کا حصہ پہنچے گا ‘ یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے ‘ کہاں ہیں ؟ وہ جواب دیں گے ‘ وہ تو سب ہم سے گم ہوگئے اور یہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی منکر حق تھے۔ اللہ فرمائے گا ‘ جاؤ ! تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ ‘ ان امتوں کے ساتھ ‘ جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گزریں۔ ہر گروہ ‘ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے ساتھی گروہ پر لعنت کرے گا۔ یہاں تک کہ جب سب اس میں جمع ہوجائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب ! یہی لوگ ہیں ‘ جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا ‘ ان کو دوہرا عذاب نار دیجئے۔ ارشاد ہوگا ! تم سب کے لیے دوہرا عذاب ہے ‘ مگر تم جانتے نہیں ہو۔ اور ان کے اگلے اپنے پچھلوں سے کہیں گے ! تم کو بھی ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی ‘ تم بھی اپنے کیے کی پاداش میں عذاب چکھو “۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی آیات کی تکذیب کا انجام مشرکینِ مکہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اتنی واضح ہدایات کے بعد بھی جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے یعنی اس کی نازل کردہ ہدایت کو قبول کرنے کی بجائے خود ایک شریعت تصنیف کرے اور پھر اللہ کی طرف اس کو منسوب کرے کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ فرمایا تم بتائو کہ ایسے شخص یا ایسی قوم سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے اس رویے کے نتیجے میں اس کی دنیا بھی برباد ہوجائے گی اور آخرت بھی جہاں تک اس چند روزہ زندگی کا تعلق ہے وہ تو یہ نوشتہ تقدیر کے مطابق گزار ہی لیں گے لیکن انھیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جن نام نہاد شریکوں کے ذریعے تم اللہ کے عذاب سے بےنیاز ہوگئے ہو جب تمہاری جان نکالنے والے فرشتے تمہارے پاس آئیں گے تو وہ تمہیں سب سے پہلے یہی پوچھیں گے کہ بتائو وہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں اب ہم تمہاری گرفتاری کے لیے آگئے ہیں انھیں آواز دو وہ تمہیں بچائیں۔ کہا اس دن یہ لوگ جو آج بات سننے کے روادار نہیں ہیں اس دن صاف اعتراف کریں گے کہ آج ہمارا کوئی مددگار نہیں ہم واقعی آج تک کفر کا ارتکاب کرتے رہے۔ جب اس طرح وہ اپنی بےبسی کا اعتراف کریں گے تو اللہ تعالیٰ نہایت بےالتفاتی کے ساتھ حکم دیں گے کہ جاؤ ان گروہوں میں شامل ہوجاؤ جو تمہارے جیسے جرم کی وجہ سے تمہارے جیسے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں اور تمہارا انجام یہ ہے کہ تم اگلے اور پچھلے سارے جہنم میں پہنچ جاؤ۔ کہا جب یہ اپنے آگے آگے جانے والے اور جہنم کی طرف بڑھنے والے کفار کو دیکھیں گے اور ان میں ان کو وہ لوگ بھی نظر آئیں گے جن میں ان کے سیاسی لیڈر بھی ہوں گے ‘ ان کے نام نہاد مذہبی راہنما بھی اور ان کے جھوٹے پیر بھی ہوں گے جو بڑے بزرگوں کے نام پر جعلی پیری کا ڈھونگ رچاتے رہے اور ان لوگوں سے یہ کہتے رہے کہ احکام شریعت پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تمہیں بخشوانے کی ذمہ داری ہم لیتے ہیں۔ تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ انھیں دیکھتے ہی یہ لوگ سرتاپا غضب بن کر ان کی طرف لپکیں گے اور اللہ سے التجا کریں گے کہ یا اللہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں بگاڑا تھا اور آج یہ لوگ ہماری بات سننے کے روادار نہیں۔ پس آپ انھیں دوہرا عذاب دیجئے۔ ایک ان کے خود بگڑنے کا اور دوسرا ان کو دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ وہ جواب میں ان سے یہ کہیں گے کہ ہم نے تمہیں کوئی مجبور تو نہیں کیا تھا تم اگر چاہتے تو ہماری پیروی سے انکار کرسکتے تھے اور مزید یہ بات بھی کہ اگر ہم نے راہ راست سے بہک کر اپنی عاقبت تباہ کی اور تمہیں بھی تباہ کیا تو تم نے بھی تو صحیح راستہ اختیار کرنے کی کوشش نہ کی تمہاری وجہ سے بھی نجانے کتنے لوگ گمراہ ہوئے اس لیے ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں اب تو ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ اللہ کی طرف سے جواب آئے گا کہ تم سب کو دگنا عذاب دیا جائے گا لیکن تم نہیں جانتے کہ تم دگنے عذاب کے مستحق کیوں ہو ؟ اس کی توجیہ کرتے ہوئے صاحب تفہیم القرآن نے جو کچھ لکھا ہے ہم چاہتے ہیں آپ بھی اسے پڑھیں۔ ” بات یہ ہے کہ تم میں سے ہر گروہ کسی کا خلف تھا تو کسی کا سلف بھی تھا۔ اگر کسی گروہ کے اسلاف نے اس کے لیے فکر و عمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود وہ بھی اپنے اخلاف کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ایک گروہ کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ داری اس کے اسلاف پر عائد ہوتی ہے تو اس کے اخلاف کی گمراہی کا اچھا خاصا بار خود اس پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہے۔ ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ ایک سزا اپنے جرائم کی اور دوسری سزا دوسروں کے لیے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑ آنے کی۔ “ حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا یرضاھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اثامہ من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا یعنی جس نے نئی گمراہی کا آعاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ناپسندیدہ ہو تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہوگی جنھوں نے اس کے نکالیے ہوئے طریقہ پر عمل کیا بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے لا تقتل نفس ظلما الا کان علی ابن ادم الاول کفل من دمھا لانہ اول من سن القتل یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم کے اس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا کیونکہ قتل انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گروہ کسی غلط خیال یا غلط رویہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں ان سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی اس غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہوتا رہتا ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب وہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے ‘ جن کی صحبت کے اثر سے ‘ جن کی بری مثالیں دیکھنے سے اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زناکاری کی صفت نے ظہور کیا وہ سب اس کے زناکار بننے میں حصہ دار ہیں اور خود ان لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بدنظری و بدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے حتیٰ کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے نوع انسانی کو خواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا۔ یہ اس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی اپنی زناکاری کا ذمہ دار ہے۔ اس کو بھلے اور برے کی جو تمیز دی گئی تھی اس میں ضمیر کی جو طاقت رکھی گئی تھی اس کے اندر ضبط نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی اس کو نیک لوگوں سے خیر و شر کا جو علم پہنچا تھا ‘ اس کے سامنے اخیار کی جو مثالیں موجود تھی اس کو صنفی بدعملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنے آپ کو نفس کی اس اندھی خواہش کے حوالے کردیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقہ سے ہو۔ یہ اس کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے پھر یہ شخص اس بدی کو جس کا اکتساب اس نے کیا اور جسے خود اپنی سعی سے وہ پرورش کرتا رہا ‘ دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے۔ کسی مرض خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اسے اپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کو خراب کردیتا ہے۔ کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچہ کی پرورش کا بار اسے خود اٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی کا ناجائز حصہ دار ‘ اس کے بچوں کے حقوق میں زبردستی کا شریک ‘ اس کی میراث میں ناحق کا حقدار بنا دیتا ہے اور اس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ کسی دوشیزہ لڑکی کو پھسلا کر بداخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہے اور اس کے اندر وہ بری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہیں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں۔ اپنی اولاد ‘ اپنے اقارب ‘ اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بری مثال پیش کرتا ہے اور نہ معلوم کتنے آدمیوں کے چال چلن خراب کرنے کا سبب بن جاتا ہے جس کے اثرات بعد کی نسلوں میں مدتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں یہ سارا فساد جو اس شخص نے سوسائٹی میں برپا کیا ‘ انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے۔ اسی پر نیکی کو بھی قیاس کرلینا چاہیے۔ جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اس کا اجر ان سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آفرینش سے ہمارے زمانہ تک اسکے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر اس ورثہ کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چائے۔ پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انھیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب سے اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیے جب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوع انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلق خدا متمتع ہوتی رہے۔ جزا کی یہ صورت جو قرآن پیش کر رہا ہے ہر صاحب عقل انسان تسلیم کرے گا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہوسکتا ہے تو اسی طرح ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سے ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوسکتی ہیں جنھوں نے جزا کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے اور ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اس کے اعمال کی پوری جزاء تناسخ کی صورت میں مل سکتی ہے۔ دراصل ان دونوں گروہوں نے نہ تو انسانی اعمال اور ان کے اثرات و نتائج کی وسعتوں کو سمجھا ہے اور نہ منصفانہ جزا اور اس کے تقاصوں کو ایک انسان آج اپنی پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا برے کام کرتا ہے ان کی ذمہ داری میں نہ معلوم اوپر کی کتنی نسلیں شریک ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انھیں اس کی جزاء یا سزا پہنچ سکے پھر اس شخص کے یہ اچھے یا برے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوجائیں گے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صدہا برس تک چلتا رہے گا ‘ ہزاروں ‘ لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اس دنیا کی زندگی میں اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے درآں حالے کہ ابھی اسکے کسب کے اثرات کا لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے۔ پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانات سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے۔ آپ کسی ایسے شخص کے جرم کا تصور کیجیے جو مثلاً دنیا میں ایک جنگ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے اور اس کی اس حرکت کے بیشمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں۔ کیا کوئی بڑی سے بڑی جسمانی ‘ اخلاقی ‘ روحانی ‘ یا مادی سزا بھی ‘ جو اس دنیا میں دی جانی ممکن ہے ‘ اس کے اس جرم کی پوری منصفانہ سزا ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی جس کا تصور آپ کرسکتے ہیں کسی ایسے شخص کے لیے کافی ہوسکتا ہے جو مدۃ العمر نوع انسانی کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بیشمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے چلے جا رہے ہوں۔ عمل اور جزاء کے مسئلے کو اس پہلو سے جو شخص دیکھے گا اسے یقین ہوجائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں ‘ تمام انسانوں کے کھاتے بند ہوچکے ہوں ‘ حساب کرنے کے لیے ایک علیم وخبیر خدا انصاف کی کرسی پر متمکن ہو اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس غیر محدود زندگی اور اس کے گرد و پیش جزا و سزا کے غیر محدود امکانات موجود ہوں۔ پھر اسی پہلو پر غور کرنے سے اہل تناسخ کی ایک اور بنیادی غلطی کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے جس میں مبتلا ہو کر انھوں نے آواگون کا چکرتجویز کیا ہے وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھے کہ صرف ایک ہی مختصر سی پچاس سالہ زندگی کے کارنامے کا پھل پانے کے لیے اس سے ہزاروں گنی زیادہ طویل زندگی درکار ہے ‘ کجا کہ اس پچاس سالہ زندگی کے ختم ہوتے ہی ہماری ایک دوسری اور پھر تیسری ذمہ دارانہ زندگی اسی دنیا میں شروع ہوجائے اور ان زندگیوں میں بھی ہم مزید ایسے کام کرتے چلے جائیں جن کا اچھا یا برا پھل ہمیں ملنا ضروری ہو۔ اس طرح تو حساب بےباق ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس کے بےباق ہونے کی نوبت کبھی آہی نہ سکے گی۔
Top