Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 40
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا انہوں نے عَنْهَا : ان سے لَا تُفَتَّحُ : نہ کھولے جائیں گے لَهُمْ : ان کے لیے اَبْوَابُ : دروازے السَّمَآءِ : آسمان وَ : اور لَا يَدْخُلُوْنَ : نہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت حَتّٰي : یہانتک (جب تک) يَلِجَ : داخل ہوجائے الْجَمَلُ : اونٹ فِيْ : میں سَمِّ : ناکا الْخِيَاطِ : سوئی وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بیشک ! جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا ‘ ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ‘ یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں۔ ہم اسی طرح مجرموں کو بدلہ دیتے ہیں۔
چند آیات پیشتر ایک عہد و میثاق کا ذکر ہے جو حضرت آدم اور ان کی اولاد سے اس وقت لیا گیا تھا جب انھیں زمین پر بھیجا گیا تھا اس میں یہ فرمایا گیا تھا کہ تم زمین پر چلے جاؤ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ تمہاری غذائی ضروریات تو تمہیں زمین سے مہیا کی جائیں گی لیکن جہاں تک زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا تعلق ہے وہ تمہیں ہماری طرف سے آئے گی جس نے ہماری اس ہدایت کے مطابق زندگی گزاری اس کے لیے نہ تو دنیا میں خوف ہوگا نہ آخرت میں کوئی غم لیکن جن لوگوں نے ہماری آیات اور ہماری ہدایات سے انکار کیا اور اس کے خلاف رویہ اختیار کیا یہ وہ لوگ ہیں جو جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ ہمیشہ اس عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی عہد و میثاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ آج بھی جو لوگ چاہے وہ مشرکینِ مکہ ہوں یا کوئی اور اللہ کی آیات سے تکذیب اور استکبار کا رویہ اختیار کریں گے ان کا انجام کیا ہوگا اس کی ایک تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ ۔ (الاعراف : 40) ” بیشک ! جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا ‘ ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ‘ یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں۔ ہم اسی طرح مجرموں کو بدلہ دیتے ہیں “۔ تکذیب اور استکبار کا مفہوم اس آیت کریمہ میں مجرمین کے دو جرائم کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ -1 تکذیب -2 استکبار۔ تکذیب کا معنی ہے جھٹلانا اور استکبار کا معنی ہے تکبر کرنا۔ یہ حقیقت میں ایک ہی رویے کے دو پہلو ہیں ایک کا تعلق ابتدا سے ہے اور دوسرے کا انتہا سے کوئی بھی شخص جب کسی بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ کہنے والے کو یا اس کی بات کو جھوٹا بتلاتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میں کسی طرح بھی تمہاری اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ تم جھوٹے آدمی ہو اور یا یہ کہ تمہاری بات جھوٹی ہے جو ہرگز قابل اعتبار نہیں۔ اللہ کے نبی جب بھی کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو اس قوم کے بڑے بڑے لوگ خصوصاً اور عام لوگ عموماً یہی رویہ اختیار کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی بات کا اعتبار کرنا ان کے لیے اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ ان کے یہاں ایک نئی بات ہوتی ہے اور پھر جب پیغمبر عالم غیب کی خبریں دیتا ہے اور وہ خبریں چونکہ ان کے احاطہ علم میں نہیں آتیں تو وہ عموماً یا ان باتوں اور خبروں کی تردید کرتے ہیں اور یا نبی پر جھوٹا ہونے کا الزام دھرتے ہیں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اللہ کے نبی نے اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی ہو اور انھوں نے فوراً اسے قبول کرلیا ہو۔ بہت کم ایسی سعید روحیں ہوتی ہیں جو پہلی دعوت پر ایمان لے آتی ہیں ورنہ عموماً افراد قوم کا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں اور کبھی دعوت میں اور کبھی حامل دعوت میں عیب نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ طریقے طریقے سے دعوت کو بےاثر کرنے اور حامل دعوت کو بےاعتبار ٹھہرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں پھر رفتہ رفتہ ان میں تقسیم ہونے لگتی ہے جن لوگوں میں کسی حد تک قبولیت کا مادہ ہوتا ہے یا وہ شخصی پندار میں مبتلا نہیں ہوتے وہ آہستہ آہستہ اس دعوت کے قریب آنے لگتے ہیں اور بالآخر دعوت کو قبول کرلیتے ہیں لیکن دوسری طرح کے لوگ جو شخصیت کے پندار میں محصور اور اپنی عصبیت کے حصار سے نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے وہ نہ صرف کہ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے بلکہ آہستہ آہستہ ان میں ایک ضد اور ہٹ دھرمی پیدا ہوجاتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی نئی اور اجنبی بات کو آغاز ہی میں قبول کرلینا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا بالخصوص ایسی قوم کے لیے تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے جسے اپنی تاریخی عصبیتوں یا مذہبی رسوم سے جامد قسم کا تعلق ہو۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جن باتوں کو وہ اپنا دین قرار دے چکے ہیں اور جس دین پر وہ اپنے آبائو اجداد کو چلتا ہوا دیکھ چکے ہیں اسے کسی طرح بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اقبال مرحوم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے ؎ آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں لیکن جن لوگوں کا رویہ اسی طرح کا ہوجائے کہ وہ دلیل کی کسی بات کو سننے پر آمادہ نہ ہوں اور اپنی انا کے گنبد سے باہر جھانکنا بھی انھیں گوارا نہ ہو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اس دعوت کے ساتھ حقارت کا سلوک کرتے ہیں۔ انھیں یہ بات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوتی کہ وہ اپنے دنیوی تفوق کے باوجود ایک غریب آدمی کی بات چاہے وہ اپنے شخصی کردار میں کیسا ہی عظیم کیوں نہ ہو قبول کرلیں وہ دلیل کے وزن کو نہیں دیکھتے بلکہ دولت کے وزن سے ہر چیز کو جانچتے ہیں۔ ان کے نزدیک کردار میں عظمت نہیں ہوتی بلکہ نسب کے حوالوں اور زمینی نسبتوں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو استکبار کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسا خطرناک مرض ہے جس کسی کو بھی لاحق ہوجاتا ہے کوئی بھی عقل یا ہدایت کی بات اس کے دماغ میں داخل ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔ چناچہ جس خرابی کا آغاز تکذیب سے ہوتا ہے وہ بڑھتے بڑھتے جب استکبار کی شکل اختیار کر جاتی ہے تو پھر بالعموم اللہ کی طرف سے ایسے لوگوں کی محرومی کا فیصلہ ہوجاتا ہے اس آیت کریمہ میں جہالت اور کفر کے اس رویے کی ابتدا اور انتہا کو ذکر فرما کر ایک طرح سے قرآن کریم کے مخاطبین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم جس رویے کی طرف بڑھ رہے ہو ایسا نہ ہو کہ یہ رویہ تمہیں محرومی کی منزل تک پہنچا دے۔ اس لیے اگر بچنا چاہتے ہو تو اس سے بچنے کی کوشش کرو ورنہ سوچ لو کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کہ تم اس رویے کے ساتھ جب تک زندہ رہو گے تمہارے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جو لوگ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ آسمانوں کے دروازے نہ کھولے جانے سے مراد کیا ہے ؟ آسمانوں کے دروازے نہ کھولے جانے کا مفہوم تفسیر بحر محیط میں حضرت عبد اللہ بن عباس ( رض) سے اس آیت کی تفسیر میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعمال اور ان کی دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے یعنی ان کا کوئی عمل قبولیت کے مقام کو نہیں پہنچے گا اور اسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوگی کیونکہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمان پر ہے جب کسی کو ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے تو اس کے اعمال کو آسمانوں میں اس جگہ رکھا جاتا ہے جس کو قرآن کریم میں علیین کہا گیا ہے اور جب کسی کے اعمال قبولیت کے مقام کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ صاحب عمل کی دعائیں بھی قبول فرماتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک دوسری آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جس میں ارشاد ہے : اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ط (فاطر : 10) یعنی انسان کے کلمات الطیبات ‘ اللہ کے پاس لے جائے جاتے ہیں اور ان کا نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے۔ یعنی انسان کے اعمال صالحہ انسان کی مناجاتوں اور دعائوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں اور جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ کسی بھی عمل کو عمل صالح بننے کے لیے ایمان کی ضرورت ہے اور کسی بھی دعا کو قبولیت کے مقام تک پہنچنے کے لیے عمل صالح کی ضرورت ہے اور یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں اگر ایمان میسر نہیں ہوگا تو کسی عمل کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی اور اگر اعمال صالح نہیں ہوں گے یعنی شریعت کے مطابق نہیں ہوں گے تو اللہ کے یہاں دعائیں قبولیت کا مقام حاصل نہیں کر پائیں گی۔ یہ صحیح ہے کہ دعائیں تو اللہ کافروں کی بھی سنتا ہے اور بدعمل مسلمانوں کی بھی لیکن اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جہاں تک کافر کی دعائوں کا تعلق ہے ان کی دعائیں اس لیے سنی جاتی ہیں تاکہ دنیا میں وہ جو انسانی بھلائی کے کام کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کو دنیا ہی میں دے دیا جائے اور رزق اور زندگی اور اس کے متعلقات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اپنے ذمے لے رکھا ہے وہ اس لیے عطا کردیا جاتا ہے تاکہ قیامت کے دن اسی کے حوالے سے ان سے ایمان نہ لانے کی بازپرس کی جائے۔ البتہ بدعمل مسلمانوں کی دعائیں اس لیے بعض دفعہ قبول کرلی جاتی ہیں تاکہ یہی دعائیں اور اس کے جواب میں عطا کی جانے والی نعمتیں ان کے لیے آزمائش بنادی جائیں اور اس طرح انھیں آزمایا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پا کر شکر کرتے ہیں یا کفران نعمت کرتے ہیں لیکن وہ دعائیں جو انسان کے لیے خیر کا باعث بنتی ہیں اور جس سے ایک مومن کے ایمان و عمل میں ترقی ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں دلوں کو سکون کی دولت ملتی ہے یہ دعائیں تو صرف اسی وقت نصیب ہوتی ہیں جب انسان اعمال صالحہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو بعض دفعہ دنیا ہی میں اس کو تنبہ کرنے یا آزمائش کے لیے بعض تکالیف میں مبتلا کیا جاتا ہے اور پھر جب وہ اپنے رب کو ان تکالیف کے ازالے کے لیے پکارتا ہے اور بار بار اپنی مصیبتوں کا حوالہ دیتا ہے تو ادھر سے ایک ہی آواز آتی ہے جس کو اکبر مرحوم نے نہایت احسن طریق سے ذکر کیا ہے ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ تو اس تفسیر کے مطابق یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے یعنی نہ ان کے اعمال قبولیت کا مقام پاتے ہیں اور نہ ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) اور بعض دوسرے صحابہ کرام سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات نقل کی گئی ہے کہ آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے سے مراد یہ ہے کہ کفار کی ارواح کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے یعنی ان کی روحیں نیچے پٹخ دی جائیں گی۔ اس روایت کی تائید حضرت براء ابن عازب ( رض) کی روایت کردہ ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے ایک سے زیادہ محدثین نے ذکر کیا ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ : رسول اللہ ﷺ کسی انصاری صحابی کے جنازہ میں تشریف لے گئے۔ ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی تو ایک جگہ بیٹھ گئے اور صحابہ کرام آپ ﷺ کے گرد خاموش بیٹھ گئے ‘ آپ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کہ مومن بندہ کے لیے جب موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے سفید چمکتے ہوئے چہروں والے فرشتے آتے ہیں جن کے ساتھ جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے اور وہ مرنے والے کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ‘ پھر فرشتہ موت عزرائیل (علیہ السلام) آتے ہیں اور اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ رب کی مغفرت اور خوشنودی کے لیے نکلو ‘ اس وقت اس کی روح اس طرح بدن سے بآسانی نکل جاتی ہے جیسے کسی مشکیزہ کا دہانہ کھول دیا جائے تو اس کا پانی نکل جاتا ہے ‘ اس کی روح کو فرشتہ موت اپنے ہاتھ میں لے کر ان فرشتوں کے حوالہ کردیتا ہے ‘ یہ فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں ‘ جہاں ان کو کوئی فرشتوں کا گروہ ملتا ہے وہ پوچھتے ہیں یہ پاک روح کس کی ہے ‘ یہ حضرات اس کا وہ نام و لقب لیتے ہیں جو عزت و احترام کے لیے اس کے واسطے دنیا میں استعمال کیا جاتا تھا اور کہتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں ہے۔ یہاں تک کہ یہ فرشتے روح کو لے کر پہلے آسمان پر پہنچتے ہیں اور دروازہ کھلواتے ہیں ‘ دروازہ کھولا جاتا ہے۔ یہاں سے اور فرشتے بھی ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں۔ اس وقت حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کا اعمال نامہ علیین میں رکھو اور خود اس کو واپس کردو یہ روح پھر لوٹ کر قبر میں آتی ہے اور قبر میں حساب لینے والے فرشتے آکر اس کو بٹھاتے اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور دین اسلام ہے۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ یہ بزرگ جو تمہارے لیے بھیجے گئے ہیں کون ہیں ؟ وہ کہتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ ہیں ‘ اس وقت ایک آسمانی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ سچا ہے ‘ اس کے لیے جنت کا فرش بچھا دو اور جنت کا لباس پہنا دو اور جنت کی طرف اس کا دروازہ کھول دو اس دروازہ سے اس کو جنت کی خوشبوئیں اور ہوائیں آنے لگتی ہیں اور اس کا نیک عمل ایک حسین صورت میں اس کے پاس اس کو مانوس کرنے کے لیے آجاتا ہے۔ اس کے بالمقابل کافر و منکر کا جب وقت موت آتا ہے تو آسمان سے سیاہ رنگ مہیب صورت فرشتے خراب قسم کا ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور بالمقابل بیٹھ جاتے ہیں ‘ پھر فرشتہ موت اس کی روح اس طرح نکالتا ہے جیسے کوئی خار دار شاخ جو گیلی اون میں لپٹی ہوئی ہو اس میں سے کھینچی جائے ‘ یہ روح نکلتی ہے تو اس کی بدبو مردار جانور کی بدبو سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے ‘ فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں ‘ راہ میں جو دوسرے فرشتے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ یہ کس خبیث کی روح ہے ‘ یہ حضرات اس وقت اس کا وہ برے سے برا نام و لقب ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا کہ یہ فلاں بن فلاں ہے ‘ یہاں تک کہ سب سے پہلے آسمان پر پہنچ کر دروازہ کھولنے کے لیے کہتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا بلکہ حکم ہوتا ہے کہ اس بندہ کا اعمال نامہ سجین میں رکھو جہاں نافرمان بندوں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں اور اس روح کو پھینک دیا جاتا ہے ‘ وہ بدن میں دوبارہ آتی ہے فرشتے اس کو بٹھا کر اس سے بھی وہی سوالات کرتے ہیں جو مومن بندہ سے کیے تھے ‘ یہ سب کا جواب یہ دیتا ہے ھَاہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ یعنی میں کچھ نہیں جانتا ‘ اس کے لیے… جہنم کا فرش ‘ جہنم کا لباس دے دیا جاتا ہے اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے اس کو جہنم کی آنچ اور گرمی پہنچتی رہتی ہے اور اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ نعوذ باللہ منہ اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کفار کی ارواح آسمان تک لے جائی تو جاتی ہیں لیکن آسمان کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھلتا وہ وہیں سے پھینک دی جاتی ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں آیت کے اس ٹکڑے کا مفہوم تو واضح ہے البتہ اس کا مرادی معنی مراد لیتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضمنی طور پر اس آیت سے یہ بات بھی مفہوم ہوتی ہے کہ جس طرح آسمان پر صاحب ایمان لوگوں کا خیر مقدم ہوگا اور وہ نہایت عزت و احترام سے جنت میں لے جائے جائیں گے۔ اس کے بالکل برعکس کافروں کے ساتھ نہایت توہین آمیز رویہ اختیار کیا جائے گا۔ انھیں مجرموں اور بدمعاشوں کی طرح ہنکاتے ہوئے اس مقام تک پہنچا دیا جائے گا جو ان کے لیے مقدر ہوگا۔ اس کے بعد کے جملے کہ وہ کافر لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہ ہوجائے۔ یہ اس قسم کا اسلوب بیان ہے جس کو تعلیق بالمحال کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونا محال ہے اسی طرح ان متکبرین کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے۔ تعبیر کا یہ اسلوب قدیم صحیفوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً انجیل میں ہے : (اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو) استکبار کا انجام قرآن اور انجیل کی تعبیر میں بس یہ فرق ہے کہ سیدنا مسیح نے سبب استکبار یعنی دولت کا حوالہ دیا ہے اور قرآن نے اصل جرم یعنی استکبار کا اور پیچھے ہم حضرت آدم اور ابلیس کے قصے میں یہ پڑھ چکے ہیں کہ ابلیس کے جنت سے نکالے جانے کا اصل سبب استکبار ہی تھا کیونکہ استکبار ایک ایسی تباہ کن برائی ہے کہ جس دل میں یہ پیدا ہوجاتی ہے اس کے بعد اس کی روحانی اور اخلاقی موت کا واقع ہونا یقینی ہوجاتا ہے وہ اس کے نتیجے میں قبولیت کی استعداد کھو دیتا ہے وہ ایمان سے اتنا دور نکل جاتا ہے جس کے بعد لوٹ آنے کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں ‘ انسانیت دم توڑ جاتی ہے ‘ اخلاق کی ایک ایک قدر آہستہ آہستہ موت کا شکار ہوجاتی ہے ایسی صورت حال میں ایسے شخص کے جنت میں داخل ہونے کی کیا امید کی جاسکتی ہے اس لیے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا قطعی محال ہے اسی طرح ایسے شخص کا داخل ہونا بھی بالکل محال ہے اس میں ہمارے لیے سوچنے کی دعوت بھی موجود ہے کیونکہ جدید تعلیم نے جو فکری گمراہیاں پیدا کی ہیں ان میں سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ یہاں کا ہر پڑھا لکھا آدمی جہلِ مرکب کا شکار ہے یعنی ایک شخص جس نے ساری عمر انگریزی زبان پڑھی اور ان علوم و فنون کے سیکھنے میں زندگی گزار دی جس کا علوم اسلامی سے کوئی دور کا رشتہ نہیں اور وہ عربی زبان کی شدبدھ سے بھی واقف نہیں لیکن جب کبھی تاریخ مذاہب ‘ حقیقت مذاہب یا خود اسلام پر بات ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک اتھارٹی سمجھتا ہے اور جن لوگوں نے علوم اسلامیہ کی تحصیل میں عمریں کھپائیں ہیں نہایت تحقیر کے انداز میں ان کی طرف رجوع کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ دنیا کے سارے علوم بھی آدمی حاصل کرلے تو یہ سامنے کی بات ہے کہ ان کا تعلق زمینی معلومات اور انسانی عقل سے ہے اور مذہب وحی الٰہی کے نتیجے میں ملتا ہے یہ انسان کی نارسائی سے وجود میں نہیں آیا بلکہ اللہ کی ابدی راہنمائی سے عطا ہوا ہے جس میں کسی غلطی کا امکان نہیں اور یہ ان پیغمبروں کے واسطے سے انسانوں کو پہنچا ہے جو معصوم پیدا ہوتے ہیں اور پھر جس کی تفہیم و تشریح میں ان لوگوں نے زندگیاں کھپائیں ہیں جو تقویٰ اور پارسائی میں اپنی مثال آپ تھے لیکن جو شخص ان تمام کے مقابلے میں اپنی ذات اور اپنے فہم پر اصرار کرتا ہے وہ حقیقتاً استکبار کا مریض ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اکبر مرحوم نے کہا تھا کہ انھوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں اس آیت کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ایک مجرمین کا اور دوسرا ظالمین کا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ ان دونوں الفاظ کی تشریح ہوچکی ہے اسے اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگ جو استکبار کے مریض ہیں وہ انسانیت کے مجرم بھی ہیں اور خود اپنی جانوں کے لیے ظالم بھی ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں ایسے لوگوں کو قیامت میں جو عذاب دیا جائے گا اس کی مزید شدت کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top