Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ١٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَا نُكَلِّفُ : ہم بوجھ نہیں ڈالتے نَفْسًا : کسی پر اِلَّا : مگر وُسْعَهَآ : اس کی وسعت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے ‘ ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ‘ وہی جنت والے ہیں ‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
چناچہ ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَآ ز اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (الاعراف : 42) ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے ‘ ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ‘ وہی جنت والے ہیں ‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ سابقہ آیت کریمہ میں اہل جہنم کا جو طرز عمل بیان فرمایا گیا تھا یہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ وہ لوگ پیغمبر اور اس کی دعوت کی تکذیب کرتے تھے یہ لوگ ایمان لاتے ہیں انھوں نے استکبار کا رویہ اختیار کیا ‘ ان کی زندگی کا اصل سرمایہ عمل صالح یعنی حسن عمل ہے اس کا منطقی نتیجہ ایک ہی ہونا چاہیے کہ وہ لوگ اپنے برے طرز عمل کے باعث اپنے برے انجام کو پہنچے اور یہ اپنے خوب صورت طرز عمل کے باعث اللہ کی جنت کے مستحق ہوئے یہ تو وہ بات ہے جو قرآن کریم میں بار بار دہرائی گئی ہے کیونکہ اصلاً یہی بات ہے جو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے اور اسی کے نتیجے میں غلبہ دین کی منزل قریب آسکتی ہے اور انسان اپنی حقیقی زندگی اور حقیقی مقصد کو پاسکتا ہے لیکن اس آیت کریمہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان اور عمل صالح اور اس کے نتیجے کے درمیان ایک جملہ ارشاد فرمایا گیا ہے : لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا آخر اس کی کیا ضرورت تھی ؟ واقعہ یہ ہے کہ اسلام ایک فطری دین ہے جس طرح اس کے احکام فطرت پر مبنی ہیں اسی طرح اس کی دعوت بھی سراسر اپنے اندر فطری اسلوب رکھتی ہے اس لیے اس میں دعوت کے سلسلے میں ترغیب اور ترہیب سے کام لیا گیا ہے کیونکہ انسانی فطرت اس کے بغیر متوجہ ہی نہیں ہوتی یہ جملہ بھی اصلاً انسانی فطرت کی ایک ضرورت ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس جملہ کو لایا گیا ہے۔ انسانی احساس یہ ہے یا انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے لیے پابندیاں پسند نہیں کرتی اور جہاں بھی اسے مشکلات سے گزرنا پڑے وہ اس سے کوسوں دور بھاگتی ہے اور جہاں تک تعلق ہے ایمان و عمل کا وہ تو سراسر ایک مشکل گھاٹی ہے جس پر چڑھنا آسان نہیں۔ ایمان دل و دماغ کی پاکیزگی اور نظریاتی یکسوئی کا نام ہے جبکہ عقل نارسا کی نارسائیاں اور اس کج فکر کی کج ادائیاں اور طاغوتی قوتوں کی طرف سے پیدا کردہ فکری پیچیدگیاں اور موہوم غیر مرئی قوتوں کے حوالے سے دل و دماغ میں در آنے والے واہمے اور خدشات اور اقتدار کی ہر چوکھٹ پر جھکانے کی کوششیں کسی طرح بھی دل و دماغ کو یکسو نہیں رہنے دیتیں اسی طرح عمل صالح نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی غیر مشروط اطاعت اور اللہ اور اس کے رسول سے بےپناہ وابستگی کا جبکہ خواہشات کی ہمہ گیری اور مفادات سے وابستگی انسان کو قدم قدم پر اللہ کی اطاعت سے پھیرتی اور اللہ اور اس کے رسول سے وابستگی سے کنارہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ آج بھی آپ کسی تعلیم یافتہ آدمی سے اسلامی عقائد اور اسلامی احکام کے حوالے سے بات کر کے دیکھئے وہ ہر اسلامی عقیدے میں قدم قدم پر تشکک اور اضطراب کا اظہار کرے گا اور شرعی احکام کو آج کے دور میں ناقابل عمل ٹھہرائے گا۔ آپ کسی بھی دانشور سے کہیئے کہ سچ اچھا ہے یا جھوٹ تو وہ سچ پر پورا لیکچر دے دے گا لیکن اگر آپ اسے سچی زندگی گزارنے کی تلقین کریں تو وہ کانوں پر ہاتھ رکھے گا۔ کسی چھوٹے یا بڑے منصب پر فائز آدمی سے یہ نصیحت کر کے دیکھئے کہ رزق حلال انسانی سیرت و کردار کی پہلی بنیاد ہے جس قوم میں رزق حلال باقی نہیں رہتا وہ صدق مقال سے بھی محروم ہوجاتی ہے اور پھر اس کی زندگی سیرت و کردار کے ایسے عوارض کا شکار ہوتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسی قوم اخلاقیات سے عاری ہو کر رہ جاتی ہے اس لیے صاحب منصب لوگوں کو بالخصوص دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ بن کر رزق حلال کی پابندی اختیار کرنی چاہیے اور صرف اپنی تنخواہوں پر اکتفا کر کے باقی آمدنی کا ہر راستہ بند کردینا چاہیے تو اس کے جواب میں آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آپ کا مذاق اڑایا جائے گا بلکہ الٹا آپ سے سوال کیا جائے گا کہ کیا اس دور میں صرف تنخواہ پر گزارا کیا جاسکتا ہے ؟ زندگی اس قدر مہنگی ہوگئی ہے اور زندگی کی ضروریات اس قدر گراں ہوگئی ہیں کہ وہ صرف رزق حلال میں تو پوری نہیں کی جاسکتیں۔ یہ اس قوم کے افراد کا حال ہے جو اپنے آپ کو خیر الامم کہتی ہے اور جو اب دنیا میں اللہ کے آخری دین کی امین ہے۔ ایسے ہی احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا ؎ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا تصور کیجیے اس وقت کا جب یہ قرآن کریم نازل ہو رہا تھا تو قرآن کریم اپنے مخاطبین کو جب ایمان و عمل کی ترغیب دے رہا تھا تو بجا طور پر سننے والوں کے دلوں میں یہ اندیشے لہرا رہے تھے کہ ایک ایسے دور میں جبکہ ہر طرف دل و دماغ کے لیے آلودگیاں بکھری ہوئی ہیں اور قدم قدم پر بداعمالیوں کے کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔ دل و دماغ کی یکسوئی اور سیرت و کردار کی پاکیزگی کا ایسے ماحول میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ ایمان و عمل کی جو دعوت پیش کر رہے ہیں اسے قبول کرلیا جائے ؟ یہی وہ احساسات ہیں جن کے ازالے کے لیے یہ جملہ یہاں لایا گیا ہے۔ مسلسل عبارت کو نامکمل چھوڑ کر اس طرح کسی جملے کا لانا جو اس عبارت سے پیدا ہونے والے خیالات کا ازالہ کر دے اس کو جملہ معترضہ کہتے ہیں چناچہ انہی احساسات کا ازالہ کرتے ہوئے اور ان شبہات کا جواب دینے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تمہارا یہ سمجھنا کہ آج کے دور میں ایمان و عمل کے حکم پر عمل کرنا ممکن نہیں یہ سراسر کج فکری یا کوتاہ فہمی ہے اس لیے کہ جس پروردگار نے تمہیں پیدا کیا وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے تمہاری فطرت کیسی بنائی ہے تمہیں کس طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہے تم کن باتوں کا تحمل کرسکتے ہو اور کن باتوں پر عمل کرنے سے تم عاجز ہو ؟ اس لیے یہ کیونکر ممکن ہے کہ تمہارا خالق ومالک تمہیں ایسی باتوں کا حکم دے جن باتوں کو قبول کرنا اور عمل کرنا تمہارے لیے ممکن نہیں اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے اوپریہ بات لازم کرلی ہے کہ ہم کسی کو بھی ایسے حکم کا پابند نہیں ٹھہراتے جس حکم کی تعمیل کی اس میں طاقت نہ ہو۔ اگر تم میں ایمان و عمل کی طاقت نہ ہوتی تو ہم تمہیں کبھی اس بات کا حکم نہ دیتے۔ رہی یہ بات کہ تم اسے اپنی ہمت سے بہت بڑا خیال کرتے ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ حکم تمہاری ہمت سے بڑھ کر ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم نے اپنی ہمتوں کو بہت حد تک تباہ کر کے رکھ دیا ہے یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی مسلسل بیٹھ کر کام کرنے کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرنے لگے اور چند سو گز کا فاصلہ بھی اسے پہاڑ پر چڑھنا محسوس ہو تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ یہ چند سو گز کا فاصلہ انسانی ہمت سے بڑی بات ہے۔ یقینا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جو آدمی مناسب عمر میں ہوتے ہوئے بھی یہ فاصلہ طے نہیں کرسکتا اس نے اصلاً خود اپنے آپ کو اس ہمت اور توانائی سے محروم کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اتنا فاصلہ طے کرنا انسانی ہمت کے لیے مشکل بات ہے جب کسی نوجوان کو فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے تو یہ دیکھ کے کیا جاتا ہے کہ وہ صحت مند آدمی ہو۔ لیکن جب شروع شروع میں ایسے نوجوان کو ٹریننگ سے گزارا جاتا ہے تو وہ چونکہ اس کا عادی نہیں ہوتا اس لیے بہت سارے لوگ اس سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ جب وہ اس ٹریننگ میں لگے رہتے ہیں تو ان کی ہمت ان کا ساتھ دینے لگتی ہے۔ یہی حال پوری انسانی زندگی کا ہے کہ انسان غلط ماحول ‘ غلط تربیت ‘ خواہشات کی بالادستی کی عادت ‘ ارادوں کی کمزوری اور اولوالعزمی کے فقدان کے باعث کسی بھی بڑے کام کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا بلکہ ایسے کام بھی جو انسانی زندگی کے معمولات میں داخل ہیں وہ بھی اس کو دوبھر معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً جو آدمی دن چڑھے تک سو رہنے کا عادی ہوجائے اس کے لیے علی الصبح اٹھناآسان نہیں ہوتا حالانکہ دیر تک سوئے رہنا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور انسانی معمولات کے لیے الجھنوں کا باعث ہے۔ یہاں بھی یہی بات فرمائی جا رہی ہے کہ ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو انسانی فطرت پر گراں گزرتا ہو ‘ جو انسانی طاقت کے لیے کلفت کا باعث ہوسکتا ہو لیکن تم اگر اپنے لیے مشکل محسوس کر رہے ہو تو یہ تمہاری اپنی پیدا کردہ ہے۔ اب اس کا علاج یہ نہیں کہ تم ایمان و عمل سے جی چرائو بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ تم اپنی بری عادتوں اور ناپختہ ارادوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرو۔ یہ جو کچھ کہا گیا یہ تو عام سطح کی انسانی زندگی کے لیے ہے۔ رہے وہ افراد یا وہ قومیں جن سے کوئی بڑا کام لینا مقصود ہوتا ہے انھیں تو ہمیشہ ذمہ داریاں تفویض کرنے سے پہلے بڑی مشقتوں سے گزارا جاتا ہے جس طرح ہم اوپر فوج کی مثال دے چکے ہیں اور ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر اپنے آپ کو مشقتیں برداشت کرنے کا عادی بنائیں کیونکہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے ایسے ہی نوجوانوں کی تربیت چونکہ اقبال کے پیش نظر تھی اس لیے وہ ہمیشہ تمنا کرتا تھا کہ کاش نوجوانوں میں ایسی صفات پیدا ہوجائیں اس لیے کبھی وہ ترغیب کے انداز میں کہتا ؎ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد اور کبھی حسرت سے کہتا ؎ جو راہ کی سختی کو سامانِ سفر سمجھے اے وائے تن آسانی کمیاب ہے وہ راہی حقیقت یہ ہے کہ کسی حکم کا نرم یا سخت ‘ قابل عمل یا ناقابل عمل ہونے کا دارومدار بہت حد تک انسانی سوچ پر ہے جس سوچ پر اولوالعزمی غالب ہے اور جو اپنی منزل کو پہچان چکا ہے اور اس کے لیے ہمہ تن آمادہ عمل ہوچکا ہے اس کے لیے کٹھن سے کٹھن حکم بھی ایک معمول کی بات معلوم ہوتی ہے حتیٰ کہ اس راستے میں اسے بڑی سے بڑی قربانی بھی اگر دینا پڑے تو وہ بڑی آسانی سے کر گزرتا ہے انسانی زندگی انسان کے لیے سب سے گراں سب سے قیمتی اور سب سے محبوب متاع ہے لیکن جن لوگوں کے پیش نظر ایسے مقاصد ہوتے ہیں جو انھیں اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہوں تو وہ اپنے مقاصد کے حصول میں زندگی کو بھی نہایت آسانی سے قربان کردیتے ہیں صحابہ کی پوری زندگی اور شہدائے اسلام کی داستانیں ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں وہ نہ صرف کہ زندگی قربان کردینے کی ہمت اپنے اندر رکھتے تھے بلکہ اس کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے تھے اور جب کبھی ایسا موقع آتا تھا تو خوشی خوشی اپنی زندگی اللہ کے حوالے کردیتے تھے۔ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا ؎ اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں قرون اولیٰ کی مثالیں تو بیشمار ہیں وہ تو بارگاہ نبوی کے تربیت یافتہ لوگ تھے یا ان تربیت یافتگان کے تربیت یافتہ تھے لیکن اس دور میں بھی جن لوگوں نے اس راز کو پا لیا ہے ان کی مثالیں کم نہیں۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں ہزاروں شہداء کی فصل ہماری نظروں کے سامنے کٹی ہے۔ کشمیر ‘ چیچنیا ‘ فلسطین میں آج بھی اسی تاریخ کو دھرایاجا رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سید قطب شہید کو جب پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو میں نے ان کی تصویر دیکھی تھی وہ پیچھے پلٹ کے دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ ان کی تصویر کے نیچے کسی نے لکھا تھا ؎ جس شان سے مقتل تک پہنچا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف یہاں اشارہ فرمایا گیا کہ جو لوگ جنت کے مسافر ہیں اور جنت کا حصول جن کی منزل ہے ان کے لیے ایمان و عمل کے تقاضوں کو پورا کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور جن کو یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ہمتوں میں کمزوری ہے اور یہ کمزوری انھوں نے خود پیدا کی ہے ورنہ ہم نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو ان کی فطری توانائیوں سے بڑھ کر ہو اور ویسے بھی جنت کوئی ایسی معمولی نعمت تو نہیں جسے آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہو جو نعمتیں عظیم ہوتی ہیں ان کے لیے قربانیاں بھی عظیم ہوتی ہیں ؎ بہرِ غفلت یہ تری ہستی نہیں دیکھ جنت اس قدر سستی نہیں اگلی آیت کریمہ میں اہل جنت کو جو نعمتیں عطا فرمائی جائیں گی ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اہل جنت کے احساسات کو بھی ریکارڈ پر لایا گیا ہے جو بجائے خود ایک نعمت ہے۔
Top