Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخ والے جنت والوں کو آواز دیں گے کہ پانی یا ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخش رکھی ہیں کچھ ہم پر بھی کرم فرمائو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں کے لیے حرام کر رکھی ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے : وَ نَادٰٓی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآئِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمْ اللہ ُ ط قَالُوْٓا اِنَّ اللہ َ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَھْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْھُمْ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا ج فَالْیَوْمَ نَنْسٰھُمْ کَمَا نَسُوْا لِقآئَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا لا وَمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ۔ (الاعراف : 50، 51) ” اور دوزخ والے جنت والوں کو آواز دیں گے کہ پانی یا ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخش رکھی ہیں کچھ ہم پر بھی کرم فرمائو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں کے لیے حرام کر رکھی ہیں۔ ان کے لیے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنایا اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا پس آج ہم ان کو نظر انداز کریں گے جس طرح انھوں نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلائے رکھا اور جیسا کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے “۔ اصحاب النار کی فضیحت اہل جہنم، اہل جنت کو پکاریں گے کہ ہم تو ایک ناقابل بیان عذاب میں مبتلا ہیں اور تمہیں اللہ نے بےپایاں نعمتوں سے نوازا ہے کیا تم ہم پر مہربانی کرتے ہوئے پینے یا کھانے کی چیزوں میں سے تھوڑا بہت ہمیں عطا نہیں کرو گے۔ اس درخواست کے اسلوب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ان نعمتوں کا حاصل کرنے کے لیے استحقاق چاہیے اور وہ ایمان و عمل سے پیدا ہوتا ہے اس لیے ہمارے پاس ان نعمتوں کے لیے کوئی استحقاق نہیں اگر کوئی تھوڑا بہت استحقاق ہوتا یا ہم نے اللہ کے فضل و کرم کی امید پر کچھ بھی ایمان کا حق ادا کیا ہوتا تو ہم براہ راست اپنے اللہ کو پکارتے لیکن اس کا غضب آج جوش میں آیا ہوا ہے اس لیے وہاں تو غضب کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا۔ آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ان نعمتوں میں سے کچھ تھوڑا بہت عطا کیجیے۔ بلکتے ہوئے لوگوں کو پانی کے چند گھونٹ بھی مل جائیں تو شاید انھیں عذاب کی شدت میں کمی محسوس ہو۔ تحریم کا مفہوم اس کے جواب میں اہل جنت جو سراپا خیر خواہی اور ہمدردی ہیں ان سے عذر کریں گے کہ ان نعمتوں میں سے ہم کوئی سی نعمت بھی تمہیں نہیں دے سکتے اس لیے کہ یہ اللہ نے تم پر حرام کردی ہیں۔ اب جس چیز کو تمہارے لیے اللہ نے حرام اور ممنوع قرار دے دیا ہے ہم اگر تمہیں اس میں سے کچھ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے حکم اور منشاء کی خلاف ورزی کی۔ خلاف ورزیاں کرنے کا نتیجہ تو وہ ہے جو تم بھگت رہے ہو ہم اس کی جسارت کس طرح کرسکتے ہیں اور یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جو اللہ نے تم پر حرام کی ہیں یہ حرام ان معنوں میں نہیں ہیں جیسے شریعت میں کسی چیز کو حرام کیا جاتا ہے یعنی اس کا کرنا یا اس کا استعمال کرنا ممنوع اور ناجائز ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں جہنم میں بھیج کر تمہیں جنت کی ہر نعمت سے محروم کردیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے فرمایا تھا کہ ارض مقدسہ یعنی ارض فلسطین بنی اسرائیل کی بداعمالیوں ‘ کمزوریوں اور بزدلیوں کے باعث ان کے لیے ممنوع قرار دے دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سرزمین سے چالیس سال تک محروم کردیا ہے۔ چالیس سال کے بعد ان کی جوان ہونے والی نسل اس کو فتح کرے گی اور اس کی خوشحالیوں سے متمتع ہوگی اور ان چالیس سالوں کے دوران چونکہ ہم ان کو محروم کرچکے اس لیے یہ ارض فلسطین تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے اور اس کی کوئی نعمت ان تک نہیں پہنچ سکے گی یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ ان نعمتوں سے ان کو محروم کردیا گیا ہے اس لیے جس طرح یہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اسی طرح کوئی جنت کی نعمت بھی ان تک نہیں پہنچ سکتی اس کے بعد پروردگار نے اہل جنت کے اس عذر کی وضاحت کرتے ہوئے وہ سبب بیان کیے ہیں جس کی وجہ سے اہل جہنم کو جنت کی نعمتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ جنت کی نعمتوں سے محرومی کے اسباب یہ دوسری آیت چونکہ اہل جنت کا قول نہیں بلکہ پروردگار کی طرف سے وضاحت ہے یہ وہ چیز ہے جس کو تضمین کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وضاحت کو صرف ان اہل جہنم کے لیے مخصوص نہ سمجھا جائے بلکہ جس طرح وہ اہل جہنم ان جرائم کی وجہ سے جہنم میں پہنچے ہیں اسی طرح اے مشرکینِ مکہ اور آئندہ آنے والے انسانو ! اگر تم بھی ایسے ہی اعمال کرو گے تو تمہارا انجام بھی یہی ہوگا۔ چناچہ ان بداعمالیوں میں سے صرف دو کا ذکر کیا گیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام کافرانہ بداعمالیاں یا تمام علامات کفر انہی دو بنیادی خصلتوں سے پیدا ہوتے ہیں یہ دونوں باتیں تمام کفر کی علامتوں اور تمام کفر کے اعمال کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں پہلی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جہنم میں جانے والوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچے ہیں کہ ان لوگوں نے لہو و لعب کو اپنا دین بنا لیا تھا۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ دین کی دولت دو مقاصد کے لیے عطا کرتا ہے۔ ایک یہ کہ انسانوں کو دین دینے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت اور زندگی کے حقیقی مقاصد سے بہرہ ور ہوجائیں وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ جمادات و نبادات کی طرح صرف ایک ضرورت کے تحت اور حیوانات کی طرح صرف طبعی مقاصد کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ ان کی زندگی کے کچھ اختیاری اور اعلیٰ مقاصد ہیں جن کی وجہ سے اللہ نے ان کو زمین پر پیدا فرمایا ہے اور انہی مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے انھیں خلافت ارضی کا تاج پہنایا گیا ہے وہ صرف اس لیے دنیا میں نہیں آئے کہ کھا پی کر زندگی گزار دیں اور بالآخر موت کا شکار ہو کر فنا ہوجائیں ان میں ہر طاقت ور کمزوروں پر ظلم توڑتا رہے تو اسے بالکل احساس نہ ہو کہ مجھ سے کبھی کوئی اس کی بازپرس بھی کرے گا ان میں ہر دولت مند دولت کے نشے میں مخمور عیش و عشرت میں زندگی گزار دے اور اسے کبھی بھول کر بھی خیال نہ آئے کہ مجھے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب بھی دینا ہے۔ ان میں ہر تخت اقتدار پر فائز ہونے والا لوگوں کے سروں پر مسلط رہ کر فرعونیت کی داد دیتا ہوا زندگی تمام کر دے اور کبھی یہ خیال نہ آئے کہ مجھ سے اس حاکمیت اور اقتدار کا کبھی حساب بھی مانگا جائے گا۔ دین آ کر انسانوں میں زندگی کے بارے میں سنجیدگی پیدا کرتا ہے وہ انھیں بتاتا ہے کہ تمہارے زمین پر آنے کے حقیقی مقاصد کیا ہیں۔ تم ازخود پیدا نہیں ہوئے ہو بلکہ تمہارا ایک خالق بھی ہے اس نے تمہیں عبث پیدا نہیں کیا کہ یونہی مَل دَل کے ختم ہوجاؤ بلکہ تمہاری زندگی کے لیے اس نے کچھ مقاصد مقرر کیے ہیں اور زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اپنے انبیاء کی معرفت تمہیں عطا کیا ہے اس کے مطابق زندگی گزارو گے تو دنیا میں بھی تمہیں آسودہ زندگی ملے گی اور آخرت میں بھی تم کامیاب ٹھہرو گے اور اگر تم نے اس کی پرواہ نہ کی اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزاری تو تمہارا انجام بہت ہولناک ہوگا۔ دوسرا سبب دین عطا کرنے کا یہ ہے کہ دین لانے والے اللہ کے نبی اہل دنیا کو یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اللہ نے تمہارے اندر کچھ امیال و عواطف رکھے ہیں ‘ کچھ فعلی قوتوں سے تمہیں نوازا ہے ‘ کچھ خواہشات و جذبات تمہارے اندر ودیعت کیے گئے ہیں ‘ کچھ منفی قوتیں بھی تمہاری طبیعت میں پیدا کی گئی ہیں ان سب کو منضبط رکھ کر ایک طریقے سے زندگی گزارنا یہ تمہارے لیے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تم اللہ کے عطا کردہ دین کی راہنمائی قبول نہ کرو۔ تمہاری خواہشات اور تمہارے جذبات اگر بےقابو ہو کر تم پر حکمرانی کرنے لگیں تو تم انسانی سطح سے گر جاؤ گے اور اگر تمہاری فعلی قوتیں بےہنگم طریق سے کام کرنے لگیں تو تم زمین کو فساد سے بھر دو گے۔ ان کو ٹھیک ایک نہج پر چلانے کے لیے ضروری ہے کہ تم اس اللہ کی راہنمائی کے مطابق زندگی گزارو جو تمہارا اور تمہارے احساسات ‘ جذبات ‘ خواہشات اور امیال و عواطف کا پیدا کرنے والا ہے جس نے تمہاری فطرت بنائی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم کہاں کہاں ٹھوکر کھا کر گر سکتے ہو اور تمہیں کس طرح اس سے بچایا جاسکتا ہے اگر تم آزاد روی کی بجائے اس قانون اور ہدایت کے مطابق زندگی گزارو گے تو تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی نہایت آسانی اور کامیابی سے گزرے گی۔ تمہارے گھر خوشیوں کے مرکز ہوں گے ‘ تم اپنی ذات میں آسودگی محسوس کرو گے ‘ تمہارا ماحول انسانی خیر خواہی اور ہمدردی کا نمونہ ہوگا تمہارے حکمران مہربان اور رحم دل ہوں گے ‘ تم میں سے ایک ایک فرد جسے دوسروں سے بڑھ کر عطا ہوا ہے وہ اللہ کی عطا کردہ امانت کا امین ہوگا اور جو لوگ ان کی نگرانی میں کام کریں گے وہ حسد و بغض سے پاک انتہائی متوازن زندگی کے پیکر ہوں گے مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک گھر جو میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے اگر اس گھر کے تینوں عناصر اللہ کے دین سے بغاوت کردیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بیوی شوہر سے خیانت کرے گی ‘ شوہر بیوی پر ظلم توڑے گا ‘ دونوں کی ناچاقی اولاد میں محرومی کا احساس پیدا کرے گی اور رفتہ رفتہ ان کو ماں باپ کا نافرمان بنا دے گی۔ اندازہ فرمایئے ! جس گھر میں اولاد نافرمان ہو ‘ ماں باپ حقیقی شفقت سے گریزاں ہوں ‘ بیوی شوہر سے خیانت کرنے والی اور شوہر بیوی سے غیر مخلص ہو تو اس گھر کو گھر کہنا کہاں تک صحیح ہے ‘ گھر محض چار دیواری اور چند کمروں کا نام تو نہیں گھر تو وہ ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ کے جیتے ہوں ‘ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض میں باہم دگر معاون ہوں اولاد ان کی آرزوئوں کا مستقبل ہو اور اولاد اپنے ماں باپ کے زیر سایہ جوان ہونے میں فخر محسوس کرے ‘ احترام میں ڈھلی ہوئی شفقت کی پرچھائیں اور معصومیت اور محبت میں ابلتی ہوئی مسکراہٹیں گھر کو جنت کا نمونہ بناتی ہیں اور یہی گھر حقیقت میں گھر کہلانے کا مستحق ہے اور یہ گھر اس وقت وجود میں آتا ہے جب دین کے گہرے سائے اس گھر کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں اور جیسے جیسے یہ سائے سمٹتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ گھر حقیقی گھر ہونے سے محروم ہوتا جاتا ہے مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین زمین پر بسنے والے انسانوں کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ ان کی زندگی میں مقاصد زندگی کا شعور پیدا ہو اور مزید یہ کہ ان کی زندگی میں ایک آسودگی پیدا ہو۔ لیکن جب کوئی قوم لھو و لعب کو زندگی کا مقصد بنا لے تو پھر نہ تو اس کی زندگی میں سنجیدگی پیدا ہوتی ہے نہ وہ اپنے حقیقی مقاصد سے کبھی بہرہ ور ہوسکتی ہے اور نہ ان کی زندگی کامیابی و کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلی جس بات پر گرفت فرمائی جا رہی ہے وہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد سمجھنے کی بجائے لھو و لعب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ بچہ جب تک بچپن کی عمر میں رہتا ہے تو چونکہ وہ اس عمر میں زندگی کے حقیقی مقاصد کا شعور نہیں رکھتا تو وہ لھو و لعب میں شب و روز گزارتا ہے اور اس کو بچہ سمجھ کر اس کے والدین بھی اس کو کھیلتے کودتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتا ہے اب اس کے کھیلنے کودنے پر آہستہ آہستہ کمی آنے لگتی ہے بلکہ اس پر گرفت بھی شروع ہوجاتی ہے اور جب وہ اپنی بھرپور مقصدی زندگی کی عمر میں پہنچ جاتا ہے یعنی سکول کے بعد کالج یا یونیورسٹی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو اب اگر لھو و لعب یا کھیل کود اس پر غالب آنے لگیں تو اس کے والدین اس کے نگران اور اس کے تمام ہمدرد اس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو کیوں اپنے دشمن ہوئے ہو ‘ کھیلنا یعنی غیر نصابی سرگرمیاں بھی زندگی کی ایک ضرورت ہیں لیکن زندگی کے مقاصد میں شامل نہیں۔ ایسی غیر نصابی سرگرمی جو مقصد حیات کو متاثر کرنے لگے کبھی بھی کوئی سمجھدار آدمی اس کی اجازت دینے کی غلطی نہیں کرسکتا یہ صرف ایک شعبہ زندگی کا حال ہے اور اگر زندگی کے تمام شعبوں میں زندگی کی حقیقی ضرورتوں کو پہچاننے کی بجائے قوموں پر لھو و لعب غالب آنے لگے وہ کبھی اس بات کو سوچنے کی زحمت نہ کریں کہ ہم دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں کیا یہ زندگی کبھی ختم بھی ہوگی اور اگر ہوگی تو کیا اس کے بعد اس کی جواب طلبی بھی کی جائے گی اور خود زندگی کو آسودگی سے گزارنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ ان کے پیش نظر سوائے لھو و لعب و عیش و عشرت کے اور کچھ نہ ہو تو پھر ایسے لوگوں کے لیے حسرت سے یہی کہا جاسکتا ہے ؎ بےدلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ شوق بےکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین اہل جہنم کو جن کرتوتوں نے جہنم میں پہنچایا ان کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ ان لوگوں نے اپنے دین کو لھو و لعب میں تبدیل کردیا یعنی لھو و لعب کو دین بنا لیا یعنی وہ یہ سمجھے کہ زندگی کا کوئی حقیقی مقصد نہیں بلکہ ہم یہاں صرف کھیل کود ‘ عیش و عشرت اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے آئے ہیں جو جی چاہے سو کر گزارو جس طرح تمہاری نفسانی آرزوئوں کو تسکین ملے ان کے ارتکاب سے دریغ نہ کرو۔ تمہیں ہر صورت میں اپنی ذات کی خوشیاں عزیز ہونی چاہئیں چاہے اس کے لیے دوسروں کے گھروندے کیوں نہ مسمار کرنے پڑیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس نے انھیں تباہ کردیا مشرکین مکہ کو یہ بات سناکر کہا جا رہا ہے کہ تمہاری زندگی کا رویہ بھی یہی ہے تو اس رویے نے پہلے لوگوں کو جس صورت حال سے دوچار کیا تم بھی اسی سے دوچار ہوتے رہو گے اور آئندہ آنے والے انسانوں کو بھی اسی سے متنبہ کیا جا رہا ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ قرآن کریم چونکہ پوری نوع انسانی کے لیے کتاب ہدایت ہے تو کیا ہمیں یہاں رک کر یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آج جو امت اس کتاب اور اس کی تعلیمات کی امین ہے اور وہ ملک جو اسی دین کے نام پر حاصل کیا گیا ہے خود اس کے رہنے والوں کا حال کیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس ملک کے رہنے والے بھی لھو و لعب کو اپنا دین یعنی زندگی کا رویہ بنا چکے ہوں اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں تو پھر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اگر تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے حقیقتیں بدل سکتیں تو میں کہہ سکتا تھا کہ اللہ کا شکر ہے ہم اس برائی کا شکار نہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جس ملک کے رہنے والے سر سے پائوں تک قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور جس کا پڑوسی ملک محض مسلمان ہونے کی وجہ سے تباہ کیا جا چکا ہے اور پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کا خون ارزاں ہوچکا ہے اور مغربی اور امریکی قوتیں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں ہماری آزادی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور خطرہ تیزی سے ہماری شہ رگ حیات کی طرف بڑھ رہا ہے ان تمام خطرات کو دیکھتے ہوئے اگر حکومت کی سرپرستی میں جشن بہاراں اور بسنت کا ہندوانہ تہوار منایا جاتا ہے تو کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم بھی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت لھو و لعب کو بنا چکے ہیں ورنہ جو ملک اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہو کہ جنازے اٹھاتے اس کے کندھے شل ہوچکے ہوں وہ کبھی ایسے طور اطوار اختیار کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے ؟ لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ بجائے اس کہ ہمیں اپنے رویے پر شرمندگی ہو ہم ان لوگوں کا منہ نوچ لینا چاہتے ہیں جو ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے مستقبل کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں ہمیں تو عیش و عشرت اور لھو و لعب اتنے عزیز ہوگئے ہیں کہ ہم شاید اس کے پردے میں قوم کو اصل خطرات سے بےبہرہ رکھ کر تباہ کردینا چاہتے ہیں نتیجہ اس کا اس کے سوا کیا ہوگا ؎ وہ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے اور آشیاں پر بجلیوں کا کارواں گزر گیا دوسرا جرم یا بری خصلت جو اہل جہنم کی بیان کی گئی ہے وہ جرم بھی ہے اور پہلے جرم کا سبب بھی یعنی جب کسی قوم میں یہ خرابی پیدا ہوتی ہے تو پھر وہ متذکرۃ الصدر خرابی تک پہنچتی ہے۔ وہ خرابی یہ ہے کہ ان لوگوں کو حیات دنیا نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے اس فریب کا شکار ہو کر وہ اس صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں جس کا ابھی تفصیل سے ذکر ہوا مراد اس سے یہ ہے کہ جب کوئی فرد یا کوئی قوم اپنی دنیا کی زندگی کو اصل اور مستقل زندگی سمجھ لے اور اسے کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ایک دن اس زندگی کو ختم بھی ہونا ہے اور پھر ایک دن قیامت بھی آئے گی جب اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی پوری زندگی کے اعمال کا حساب دینا پڑے گا اس وقت تک وہ فرد یا قوم لھو و لعب سے ہٹ کر کسی سنجیدہ ذمہ داری کی طرف متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے جب تک انھیں اس بات کا یقین نہ ہو کہ زندگی کا ہر عمل کبھی عدالت کے ترازو میں بھی تولا جائے گا اور اسی پر میری دنیوی اور اخروی زندگی اور اس کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا دارومدار بھی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے جیسے مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ جس طرح ہم عیش و عشرت میں یہ دن کاٹ رہے ہیں یہی عیش و عشرت ہمیں آخرت میں بھی ملے گی اور جو لوگ یہاں خوشحال اور کامران ہیں یہی لوگ آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے اور اگر ان کی یہ موجودہ زندگی اللہ کو ناپسند ہوتی تو وہ یقینا اس پر گرفت کرتا یعنی ان کی خوشحالیاں اور ان کا اقتدار ان سے چھین لیتا جب وہ ایسا نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اس رویے پر خوش ہے اور اگر قیامت آئی تو اسی رویے کے باعث وہ وہاں بھی ہمیں کامرانیوں سے نوازے گا یہ حیات دنیا کے بارے میں ان کا غلط رویہ وہ فریب ہے جس نے انھیں آخرت سے بےنیاز کردیا ہے اور دنیوی زندگی کو لھو و لعب بنادیا ہے اور اسی فریب کے نتیجے میں وہ اللہ کو اور اللہ کے سامنے حاضری اور جواب دہی کو بالکل بھول چکے ہیں اور جب انھیں کوئی یاد دلاتا ہے کہ ذرا سوچو قیامت کے دن تم کیا کرو گے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے جب یہ لوگ قیامت کے دن ہمارے سامنے لائے جائیں گے پھر وہ عذاب کو سامنے دیکھ کر جب اللہ کی رحمت کو پکاریں گے تو ان کی پکار کا جواب نہیں دیا جائے گا وہ چیخیں گے ان کی چیخیں سنی نہیں جائیں گی وہ عذاب کی ہولناکیوں میں مبتلا ہو کر ہرچند واویلا کریں گے لیکن رحمت ہرگز ان کی طرف متوجہ نہیں ہوگی وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انھوں نے چونکہ دنیا میں اللہ کو بھلا دیا تھا انھیں ہرگز اس بات کا خیال تک نہیں تھا کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس نے یقینا بیکار پیدا تو نہیں کیا ہوگا ہماری زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا جب وہ ہم سے ہمارے مقصد کے بارے میں سوال کرے گا تو ہم کیا جواب دیں گے یہ تصور چونکہ کبھی ان کے قریب سے بھی نہ گزرا تھا اسی کی سزا کے طور پر اللہ فرماتا ہے کہ ہم ان کو بھلا دیں گے۔ بھلانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ کو ان کے حالات کی خبر نہیں ہوگی کیونکہ کوئی واقعہ دنیا اور آخرت میں ایسا نہیں ہوسکتا جو اللہ کے علم سے باہر ہو۔ یہاں بھول جانے یا بھلا دینے سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کو نظرانداز کردیں کیونکہ یہاں فعل کا معنی مطلوب نہیں بلکہ اس کا لازمی معنی مراد ہے کسی کو بھول جانے کا مطلب اسے نظر انداز کرنا ہوتا ہے قیامت میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بھی نظر انداز فرما دیں گے۔ وہاں چونکہ صرف اللہ کی حاکمیت ہوگی دنیا کی طرح کسی اور کو معمولی سے معمولی حاکمیت بھی میسر نہیں ہوگی اس لیے جس کو اللہ تعالیٰ نظر انداز فرما دیں گے کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ خونی رشتے ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کردیں گے۔ اگرچہ اللہ کا تعلق اپنی مخلوق سے اتنا گہرا ہے کہ باپ بیٹے کا رشتہ ٹوٹ سکتا ہے لیکن خالق اور مخلوق کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا لیکن وہاں یہ رشتہ بھی کام نہیں آئے گا جس پروردگار نے مخلوق کو اپنا عیال قرار دیا ہے وہ وہاں ان کو اس طرح نظر انداز کرے گا کہ انھیں پانی کے چند گھونٹ دینے کی بھی اجازت نہیں دے گا اور وجہ اس کی وہی ہے جو اس آیت کے آخر میں بیان کی گئی ہے کہ جس طرح انھوں نے دنیا میں ہماری مخلوق ہوتے ہوئے ہماری نعمتوں سے مزے لوٹتے ہوئے ہمارے دیئے ہوئے عہدہ و منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری اصل حیثیت کو ماننے سے انکار کیا ہم بھی آج ہر حیثیت سے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے۔ مخلوق اپنے خالق سے رشتہ توڑ لے تو نقصان خالق کا نہیں مخلوق ہی کا ہوتا ہے لیکن اگر خالق اپنی مخلوق سے رشتہ توڑ دے تو مخلوق کا کچھ نہیں بچتا۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں پروردگار نے مہلت عمل بخشی ہے اس دنیا کو دارالعمل بنایا ہے دارالجزاء نہیں۔ یہاں بڑے سے بڑے پاپی کی بھی روزی بند نہیں کی جاتی اس کے پائوں کے نیچے سے زمین کا فرش کھینچا نہیں جاتا ‘ اس کے گھر میں بھی سورج اسی طرح چمکتا ہے جیسے ایک مومن کے گھر میں۔ اس کے صحن میں بھی اسی طرح چاندنی اترتی ہے جیسے ایک مومن کے گھر کے صحن میں۔ لیکن آخرت چونکہ دارالجزاء ہے اس لیے وہاں رشتہ کٹ جانے کے بعد ہر طرح کی رحمتیں ان سے منہ موڑ لیں گی یہ چیختے چلاتے بھی رہیں گے تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوگا۔ اس پورے ہولناک منظر کو دیکھتے ہوئے اگر کسی کے سینے میں دل ہے تو وہ کانپے بغیر نہیں رہ سکتا یقینا یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس صورت حال سے نکلنے کے اگر کچھ اسباب ہوں تو آج انھیں اختیار کرلیا جائے اللہ چونکہ بہت کریم ہے اس نے سینہ سے اٹھتی ہوئی اس کسک کو محسوس کرتے ہوئے اگلی آیت کریمہ میں نکلنے کا راستہ دکھایا ہے۔
Top