Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے۔ اس کو پسند نہیں آتے حد سے آگے بڑھنے والے۔
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ (الاعراف : 55) ” پکارو اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے۔ اس کو پسند نہیں آتے حد سے آگے بڑھنے والے “۔ دعا کا مفہوم آیت میں دعا اور اس کے آداب کا ذکر ہے۔ لفظ دعا عربی زبان میں کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا کے معنی میں بھی آتا ہے اور مطلق یاد کرنے کے معنی میں بھی اور یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ مگر میں اس وقت صرف معنی کی حد تک گفتگو کو محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ دعا کے مکمل مفہوم کا سمجھنا ‘ تین باتوں کے جاننے پر موقوف ہے : -1 جس سے دعا مانگی جا رہی ہے ‘ اس کی حیثیت کا تعین۔ -2 دعا مانگنے کے آداب اور اس کی شرائط کا علم۔ -3 جو کچھ مانگا جا رہا ہے ‘ اس کی حدود کا علم۔ پیشِ نظر آیت میں دوسری دو باتوں کو واضح کیا گیا ہے اور اس سے پہلے کی آیت میں پہلی بات کو۔ چناچہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس سے مانگو ‘ جو تمہارا رب ہے ‘ جس کی ربوبیت کائنات کے ذرے ذرے کو زندگی اور بقاء کا سروسامان فراہم کر رہی ہے۔ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ وہ تمہارے لیے اسباب معیشت فراہم کرے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے انسان کی زندگی کی تمام ضروریات کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ ماں کی مامتا ‘ جو اپنے بچے کی تربیت اور نگہداشت میں ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے ‘ اسے بھی ربوبیت کی ہمہ گیری سے کوئی نسبت نہیں۔ اس کی نگاہ بھی کبھی نہ کبھی بچے کی طرف سے تغافل کا شکار ہوجاتی ہے ‘ اس کا دل بچے کے احساس کو سمجھنے میں کوتاہی کرجاتا ہے۔ مگر وہ ذات جو رب کائنات ہے ‘ اس کی پرداخت کی نگاہ کبھی غافل نہیں ہوتی۔ وہ ضروریات کو نہیں ‘ بلکہ ضروریات کے احساس تک کو جانتا ہے ‘ وہ اپنی مخلوق کے لیے ماں سے کہیں بڑھ کر شفیق اور رحیم ہے۔ اس لیے مانگنا ہو تو اسی سے مانگو۔ دوسری اور کوئی ذات نہیں ‘ جو اس قابل ہو اور انسان اپنی حاجت روائی کے لیے اس سے رجوع کرے۔ مزید فرمایا کہ وہ صرف رب ہی نہیں ‘ بلکہ زمین و آسمان کا خالق بھی ہے۔ اسی کے حکم سے ستارے اور سیارے گردش کر رہے ہیں۔ خلق اور امر ‘ سب اسی کے اختیار میں ہے۔ کائنات کی ہر زندہ چیز اسی سے رزق پا رہی ہے۔ اس کے خزانے بیشمار ہیں ‘ جن میں کبھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے جو اس سے مانگو گے ‘ وہ ملے گا۔ اس طرح اپنی حیثیت کے تعین کے بعد حکم دیا : اُدْعُوْا رَبَّکُمْ ” اپنے رب سے مانگو “ جس کی ربوبیت تمہاری ضرورتوں کو جانتی ہے اور جس کی قوت و عظمت ہر چیز کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر یہ خیال رہے کہ مانگنے کے کچھ آداب و شرائط ہیں۔ اگر تم نے مانگتے ہوئے ان کا خیال نہ رکھا تو ممکن ہے تمہاری درخواست ٹھکرا دی جائے۔ اس لیے فرمایا : ” تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً “ اس میں آداب دعا کا ذکر ہے۔ تضرع کے معنی عاجزی ‘ خوشامد ‘ لجاجت اور تذلل کے اظہار کے ہیں اور خفیہ کے معنی ہیں پوشیدہ ‘ چھپا ہوا۔ ان دونوں لفظوں میں مانگنے والے کی اصل حیثیت اس پر ظاہر کی گئی ہے کہ جب تک تمہیں اپنی اس حیثیت کا احساس نہ ہوگا ‘ تم دعا کے آداب کو بھی ملحوظ نہیں رکھ سکو گے۔ تمہاری حیثیت یہ ہے کہ دینے والا جتنا عظیم ہے ‘ تم اتنے ہی عاجز ہو۔ تمہاری حیثیت اس کے سامنے سرتاپا عجز و انکسار کے سوا اور کچھ نہیں۔ تم جب اس سے مانگو تو تمہارے الفاظ بھی عجز کا اظہار کریں اور تمہارے جسم پر بھی اس کی عظمت اور اپنی عاجزی کے احساس سے کپکپی طاری ہو۔ تمہارا لب و لہجہ عاجزی کی تصویر ہو۔ تمہارا ہر بول زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کرنکلے۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی برکھا برسے اور دل اس یقین سے سرشار ہو۔ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں ‘ جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ‘ ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا ‘ تیرے کرم سے ہوگا قلب و نظر کے اس احساس کے ساتھ ساتھ تمہاری ظاہری ہیئت و صورت بھی اس کے شکرگزار اور فرمانبردار فقیر کی ہونی چاہیے ‘ جس کے سراپا پر اس کے احکام سے انحراف اور نافرمانی کی پرچھائیں بھی نہ پڑی ہوں۔ جیسا کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ ایک موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ” ایک انسان دور دراز مقام کا سفر کرتا ہے۔ پراگندہ حالت اور پریشان صورت اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے کہتا ہے : اے رب ! اے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ‘ لباس حرام کا ہے اور اس کے گوشت پوست کی پرورش بھی حرام سے ہوئی ہے تو اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی ؟ “ اس لیے فرمایا کہ مانگتے ہوئے تمہیں تضرع کی تصویر بننا چاہیے اور تمہارے قول اور عمل ‘ احساس اور عقیدہ میں کہیں بھی اللہ کے احکام سے انحراف نہ پایا جائے اور دوسرا لفظ فرمایا : خفیہ ‘ یعنی جب اس سے مانگو تو چیخ کر اور چلا کر نہ مانگو ‘ کیونکہ چیخنا اور چلانا اس کی عظمت کے آداب کے منافی ہے ‘ وہ جو دل کی دھڑکنیں سنتا ہے۔ خاموش دعائوں کو بھی سنتا ہے۔ چناچہ خیبر کے موقعہ پر جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی آوازیں بلند ہوئیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ‘ بلکہ تمہارا مخاطب ایک سمیع و قریب ہے “۔ حسن بصری ( رح) فرماتے ہیں کہ اعلانیہ دعا کرنے میں اور آہستہ دعا کرنے میں ستر درجہ فضیلت کا فرق ہے۔ ایک روایت میں امام احمد بن حنبل نے حضرت سعد بن ابی وقاص ( رض) سے نقل کیا ہے کہ بہترین ذکر ‘ ذکرِ خفی ہے۔ یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ بلند آواز سے دعا مانگنے سے ‘ اول تو تواضع اور انکسار کا باقی رہنا مشکل ہے۔ ثانیاً اس میں ریا اور شہرت کا بھی خطرہ ہے ‘ جسے حدیث میں شرک خفی کہا گیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ” بیشک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے “۔ یہاں حد سے آگے بڑھنے سے مراد ‘ دعا میں حد سے آگے بڑھنا ہے۔ یعنی مانگنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعا کی حدود کیا ہیں ‘ تاکہ وہ ان حدود سے آگے نہ بڑھے۔ ان حدود سے آگے بڑھنے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ لفظی تکلفات اور قافیہ وغیرہ اختیار کیا جائے اور شعروں کی صورت میں گا گا کر دعا مانگی جائے ‘ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ گانا تو باقی رہ جائے ‘ دعا کی روح ختم ہوجائے اور دعا ‘ دعا نہ رہے ‘ ٹھمری بن جائے۔ اکبر مرحوم نے شاید ایسے ہی موقعہ کے لیے کہا تھا ؎ عبادت سے محبت ہے انھیں ‘ گانے کی عادت بھی نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر دوسری صورت یہ ہے کہ دعا میں غیر ضروری شرطیں لگائی جائیں۔ جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل ( رض) نے دیکھا کہ ان کا صاحبزادہ اس طرح دعا مانگ رہا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں۔ آپ نے اسے ٹوکا کہ دعا میں ایسی شرطیں حد سے تجاوز ہیں ‘ جن کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لیے مضر ہو یا ایسی چیز کی دعا کرے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت ‘ حکمت اور احکام شریعت کے خلاف ہو۔ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جو دعا بھی خدائے عز و جل کی عظمت و رحمت کے تصور اور اپنی عاجزی اور سرافگندگی کے اعتراف اور دعا کے تمام تر آداب شرائط کے ساتھ مانگی جائے ‘ وہ کبھی رد نہیں ہوتی۔ البتہ اس کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں : 1 مانگنے والے کو وہی کچھ دنیا ہی میں عطا فرما دیا جاتا ہے ‘ جس کے لیے اس نے اپنے مالک سے دعا کی تھی۔ 2 مانگنے والا جو کچھ مانگ رہا ہے ‘ وہ تو عطا نہیں کیا جاتا ‘ البتہ اس کے عوض کوئی آنے والی بلا اور مصیبت اس سے ٹال دی جاتی ہے ‘ مگر یہ اپنی کم علمی اور جہالت کے باعث یہی سمجھتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ 3 تیسری صورت قبولیت کی یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ‘ مگر دنیا کی یہ محرومی اس کے لیے ثمرہ آخرت بن جائے گی اور جب اسے اچانک یہ نعمت غیر مترقبہ اجر وثواب کی صورت میں عطا ہوگی تو وہ حیران رہ جائے گا اور تمنا کرے گا کہ کاش ! دنیا میں اس کی کوئی دعا بھی قبول نہ ہوتی ‘ تاکہ آج اسے اجر وثواب کی صورت میں ایک خزانہ ہاتھ آتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہمارا پروردگار اتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں ‘ جو آداب و شرائط کی کامل پابندی سے مانگی جائیں ‘ کبھی رد نہیں فرماتا۔ البتہ اسکے یہاں قبولیت کی صورتیں مختلف ہیں ‘ مگر بندہ اپنی بیخبر ی کے باعث بعض دفعہ بےصبر ہوجاتا ہے اور یہ سمجھ کر کہ مدت سے دعا کر رہا ہوں ‘ مگر شنوائی نہیں ہوتی ‘ دعا مانگنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ذرا سی بےصبری بہت بڑی محرومی کا سبب بن جاتی ہے ‘ ممکن ہے جس وقت بندہ دعا مانگنا چھوڑ رہا ہو ‘ وہی وقت اس کی قبولیت کا ہو یا پروردگار نے اس کی دعائوں کو توشہ آخرت بنانے کا حکم دے دیا ہو۔ دونوں صورتوں میں یہ بےصبری اور جلدبازی کیسے برے نتائج پیدا کرسکتی ہے ؟ اس لیے بندہ کبھی بےصبر نہ ہو اور کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ اسی مضمون کی تائید ایک منفی پہلو سے اگلی آیت کریمہ میں اسی مضمون کی تاکید و توثیق منفی پہلو سے کی جا رہی ہے ان دونوں پہلوئوں کو بیک وقت سامنے رکھیں تو توحید اور تعلق باللہ کے تمام درجات مکمل ہوجاتے ہیں اور شرک کا ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے : وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (الاعراف : 56) ” اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو اور اسی کو پکارو بیم و رجا میں۔ بیشک ! اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے “۔ اس آیت کریمہ میں تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چار باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ -1 زمین یعنی ملک میں فساد برپا نہ کرو ‘ -2 زمین کی اصلاح ہوجانے کے بعد ‘ -3 اسی کو بیم و رجا دونوں میں پکارو ‘ -4 اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔ اب ہم ان میں سے ہر ایک بات کی مقدور بھر وضاحت کرتے ہیں۔ سب سے پہلی یہ بات کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو اس سے کیا مفہوم ہے ؟ اس سے دو باتیں مراد ہیں لیکن انجام کار پر دونوں باتیں ایک ہیں پہلی بات جو اس سے مراد لی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین اس وقت فساد سے بھر جاتی ہے جب حاکمیت اعلیٰ کو چیلنج کیا جاتا ہے اور اقتدار اعلیٰ کی اہمیت ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لوگ یا تو خود اپنے اقتدار کے دعوے دار بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یا اصل حاکم کی حکومت میں دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہیں کوئی سی بھی صورت ہو نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ جیسے ہی اقتدار اعلیٰ کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے جرائم کی کثرت ہوجاتی ہے۔ جرائم پیشہ لوگ دلیر ہوجاتے ہیں انھیں جب اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمیں پکڑنے والا کوئی نہیں رہا اور اگر پکڑے بھی گئے تو چھڑانے والے بہت ہیں تو پھر وہ جرائم کرنے میں اس حد تک جری ہوجاتے ہیں کہ اخلاقی نصیحتیں ان کے لیے کارآمد نہیں رہتیں اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو جرائم سے روکنے کے لیے جو شریعت لازم کی ہے اس کو بلا کم وکاست نافذ کرو دل و دماغ کی اصلاح کے لیے اس کے دیئے ہوئے بنیادی تصورات اور اخلاقی مصالح کو قبول کرو اور جرائم کو روکنے کے لیے اللہ کے قانون کو نافذ کرو یہ دونوں کام کرو گے تو انسان کی اصلاح ہوجائے گی اور بگڑے ہوئے لوگ گرفت کے اندیشے سے جرائم کرنے کی جرأت نہیں کریں گے اور اس طرح زمین اصلاح پذیر ہوجائے گی اور فساد کا خطرہ ٹل جائے گا۔ دوسرا مفہوم فساد برپا نہ کرنے کا یہ ہوسکتا ہے کہ تم اپنی وہ روش بدلو جس کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے یعنی تم آسمانوں اور زمین کے تکوینی نظام کو دیکھو اس میں تمہیں کہیں فساد کے عناصر نظر نہیں آئیں گے بلکہ کائنات کا ایک ایک کرہ نجانے کب سے جس کام پر لگا دیا گیا ہے وہ مسلسل اس کام کو انجام دے رہا ہے۔ زمین کی گردش میں کبھی کمی نہیں آئی شمس و قمر اپنے مدار سے کبھی باہر نہیں نکل سکے۔ باقی تمام ثوابت و سیارے اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔ سورج کا کام ہے کہ وہ گرمی پہنچائے کسی دور میں کبھی زمین پر رہنے والوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ سورج نے چمکنا چھوڑ دیا ہے ‘ چاند کا کام ہے وہ حلاوت لٹائے مخلوق کو کبھی اس سے شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ سورج کی کرنوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ سمندر سے پانی کے ڈول بھر بھر کے کھینچیں اور فضا میں ابر کی چادریں بچھادیں اور ہوائوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق بادلوں کو وہاں ہانکتی ہوئی لے جائیں جہاں بارش کی ضرورت ہے انھوں نے کبھی اپنے کام سے صرف نظر نہیں کیا۔ زمین نے اپنے خزانے لٹانے میں کبھی کمی نہیں کی اس کی قوت روئیدگی نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں تک ہماری نظر پہنچتی ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ اور ایک ایک مخلوق ‘ ایک ایک عنصر اور ایک ایک سیارہ اللہ کے مقرر کردہ تکوینی نظام میں جتا ہوا اپنا فرض انجام دے رہا ہے اور ہر وقت اللہ کے احکام کی تعمیل میں سرگرداں ہے اسی تعمیل احکام کا نتیجہ ہے کہ پوری کائنات کے تکوینی نظام میں کبھی شکست و ریخت نہیں ہوئی اور کسی کو کسی سے کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم اگر اس پوری صورت حال کو سامنے رکھو تو تمہیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ تمہارے گھر ‘ تمہارے بازار ‘ تمہاری منڈیاں ‘ تمہارے ادارے ‘ تمہاری اسمبلیاں ‘ تمہاری حکومتیں جس طرح ابتری کا شکار ہیں اور جس کے نتیجے میں ہر جگہ فساد کارفرما دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کائنات نے تکوینی نظام کی اطاعت سے اپنے آپ کو فساد سے بچا لیا اور زندگی کی سعادتیں حاصل کرلیں اور تمہیں اللہ نے تشریعی نظام بخشا تھا اور تم پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اسی طرح لازم کی گئی تھی تم نے اس سے انحراف کا راستہ اختیار کر کے زمین کو فساد سے بھر دیا۔ کبھی تو اللہ کے احکام کی اطاعت سے انکار کیا اور کبھی اس کے اقتدار اعلیٰ ہی کو چیلنج کردیا اور اس کے مقابلے میں دیوتا ‘ مذہبی طبقہ اور حکمران جو اپنے آپ کو دیوتائوں کی اولاد کہتے ہیں ان کو اللہ کے شریک بنادیا گیا اس طرح اللہ کے اقتدار میں ان کو شریک کردیا گیا دونوں صورتوں میں چاہے اللہ کے مقابلے میں کوئی مقتدر بن کر بیٹھ جائے اور چاہے اللہ کے اقتدار کی واحدانیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرے اور دوسروں کو اس کے اقتدار میں شریک کردے ان دونوں صورتوں میں جو صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زمین فساد سے بھر جاتی ہے اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوچکا کہ ہماری یہ روش اس روش کے مطابق ہوجائے جو کائنات میں کارفرما ہے جس طرح باقی کائنات کا سفر اللہ کی اطاعت میں ہے اور وہ کسی اور کی اطاعت کرنے کے لیے تیار نہیں اگر ہم بھی اپنی زندگی کو اسی روش پر ڈال دیں کہ اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسول کی تو یہ دونوں اطاعتیں جب جمع ہوجائیں گی تو زمین ہر طرح کے فساد سے بچ جائے گی۔ اس لیے فرمایا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو یعنی اس کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج نہ کرو اور نہ اس کے اقتدار میں کسی کو شریک کرو۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ زمین کی اصلاح ہوجانے کے بعد اس میں فساد برپا نہ کرو۔ زمین کی اصلاح ہوجانے کا کیا مطلب ہے ؟ مطلب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر بھیجنے سے پہلے ان سے اور ان کی اولاد کی روحوں سے ایک عہد لیا تھا ‘ پوچھا تھا کہ بتائو کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے بیک زبان یہ کہا تھا کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں اور پھر جب حضرت آدم کو زمین پر بھیج دیا گیا تو پھر انھیں بھی اور ان کے بعد ہر آنے والے رسول کے ذریعے سے امتوں کو یہ بات بتائی جاتی رہی کہ تمہاری غذائی ضرورتیں تو زمین سے پوری ہوں گی لیکن تمہارے مقاصد زندگی اور اس کے حصول کے لیے ہدایت اور زندگی گزارنے کے لیے قانون یہ تمہیں آسمان سے ملے گا یعنی رسولوں کی معرفت ہم تمہاری اس بنیادی ضرورت کو پورا کریں گے جس نے ہمارے رسولوں کی پیروی کی اور اس قانون کو اختیار کرلیا وہ قیامت کے دن سرخرو ہوجائے گا اور جس نے اس کی تکذیب کی یا انکار کیا تو ایسے لوگوں کو ہم جہنم میں ڈالیں گے۔ پھر مختلف اوقات میں اس عہد اور اس ہدایت کی یاد دہانی کے لیے اللہ کے رسول بھیجے جاتے رہے اور جب بھی زمین میں اس عہد کے بھول جانے کی وجہ سے فساد پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیج کر یا اس فساد کی اصلاح کردی اور یا اس امت کو عذاب کے ذریعے تباہ کر کے نئی نسل کو اس کی جگہ کھڑا کردیا۔ اس طرح ہمیشہ اللہ کی طرف سے زمین کو فساد سے پاک کیا گیا۔ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اے مشرکینِ مکہ اور اے دنیا بھر کے لوگو ! تمہیں خوب معلوم ہے کہ جن قوموں نے اللہ کے دین سے انحراف کا رویہ اختیار کیا اور اللہ کے رسولوں کی دعوت کو قبول نہ کیا ہمیشہ ان کا کیا انجام ہوتا رہا آج تمہارے پاس اللہ کے آخری رسول آچکے ہیں انھوں نے زمین میں فساد برپا کرنے والی ایک ایک چیز کی نشاندہی کردی ہے اور تمہارے لیے صراط مستقیم کھول دی ہے۔ اب اگر تم اس صراط مستقیم پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت اچھی بنانا چاہتے ہو تو یہ تمہارے لیے ایک سنہری موقع ہے اس کے لیے تمہیں اپنی زندگی کے رویے میں تبدیلی کرنا ہوگی وہ تبدیلی یہ ہے کہ تم آج تک اللہ سے انحراف کر کے نجانے کس کس کو پکارتے رہے ہو یعنی تم نے نجانے کس کس کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا اور خود اس کی اطاعت کرتے رہے۔ تم نے ہمیشہ امیدیں دوسروں سے باندھیں ‘ ہمیشہ دوسروں سے خوفزدہ ہو کر ان کی ہر بات کو تسلیم کیا اور ان کے دروازوں پر سجدہ ریز ہوتے رہے۔ اب تمہاری خیریت اس میں ہے کہ تم ہر آستانے سے سر اٹھا کر ہر دروازے سے منہ پھیر کر ‘ ہر ایک سے اپنے دل خالی کر کے اور ہر راہنمائی کو دھتکار کر صرف اللہ کو پکارو اور تمہاری پکار کا محرک دو باتیں ہونی چاہئیں ایک تو یہ کہ تم ڈرو تو صرف اللہ سے ڈرو اور تمہیں اندیشہ ہو تو صرف اس بات کا کہ اگر میرا اللہ مجھ سے ناراض ہوگیا تو میں برباد ہوجاؤں گا نہ یہ دنیا میرے کام آئے گی اور نہ قیامت کے عذاب سے مجھے کوئی چھڑا سکے گا اور دوسری بات کہ تم اپنی ہر آرزو کا دامن اللہ کے ساتھ باندھو۔ اس بات کا یقین پیدا کرلو کہ تمہیں جو کچھ بھی ملے گا اللہ کے راستے سے ملے گا۔ تمہارا دست سوال صرف اسی کے سامنے دراز ہونا چاہیے تمہارے دل کی آبادی صرف اسی کی مناجاتوں اور اسی کی محبت سے ہونی چاہیے اور مزید یہ اطمینان رکھو کہ اگر میں نے صرف اپنے اللہ سے ڈرنا شروع کردیا تو پھر مجھے اہل دنیا میں سے کوئی نہیں ڈرا سکے گا ہر طرح کے اندیشے میرے دل سے نکل جائیں گے اور اگر میری امید گاہ اور میری جائے پناہ صرف اللہ کی ذات بن گئی تو پھر مجھے کسی جہاں پناہ سے کوئی خواہش نہیں ہوگی۔ یہ امید و بیم مومن کا وہ ہتھیار یا وہ اثاثہ ہے جو اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی قوت بن جاتا ہے۔ اس کے سامنے اگر دولت کا ڈھیر لگا دیا جائے تو بھی اس کے پائوں میں تزلزل نہیں آتا وہ جانتا ہے کہ امیدوں اور چاہتوں کی مرکز تو اللہ کی ذات ہے اور اس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آئی اور اگر اس کا دشمن اس کے سر پر تلوار سونت کے بھی کھڑا ہوجائے تو وہ کبھی اس سے خوفزدہ نہیں ہوتا وہ جانتا ہے کہ اگر اللہ کو میری بہتری منظور ہے تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جہاں تک عاقبت کا تعلق ہے اس میں بھی اس کا حال یہ ہوتا ہے جیسے حضرت عمر فاروق ( رض) نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ سب کو جنت میں بھیج دیں گے اور صرف ایک بدقسمت جہنم میں جائے گا تو مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ بدقسمت کہیں میں نہ ہوں اور اگر یہ کہا جائے کہ تمام لوگ جہنم میں جائیں گے صرف ایک خوش قسمت جنت میں جائے گا تو تب بھی مجھے یہ امید ہوگی کہ وہ خوش قسمت میں ہی ہوں گا۔ آخری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بیم و رجا یعنی خوف اور امید میں صرف اللہ ہی کو پکارنا یہی وہ چیز ہے جس کو مقام احسان سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو محسنین کہا گیا ہے تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیشہ محسنین یعنی نیکوکاروں کے قریب ہوتی ہے یعنی ان لوگوں کے قریب ہوتی ہے جو خوف و رجا میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ رہتے ہیں کسی کا خوف انھیں اس آستانے سے اٹھا نہیں سکتا اور کسی کی کوئی طمع اور لالچ انھیں اللہ کے آستانے سے برگشتہ نہیں کرسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر انسانی اعمال انسانی احساسات کے تابع ہیں اور انسانی احساسات جن محرکات کے تحت تشکیل پذیر ہوتے یا جنم لیتے ہیں وہ بیم و رجا کے سوا کچھ اور نہیں انسان کی زندگی مادی ہو یا معنوی وہ ہرحال میں ان دونوں محرکات کے حصار میں رہتا ہے۔ کبھی اس کی زندگی پر امید حکومت کرتی ہے اور کبھی اس پر خوف کا پہرہ ہوتا ہے یہ دونوں محرکات اپنے حسب حال احساسات کو پیدا کرتے رہتے ہیں۔ احساسات کو پاکیزہ رکھنے اور انھیں صحیح نہج دینے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی زندگی کے یہ محرکات پاکیزگی کی صورت اختیار کریں اگر امیدیں غلط رخ پر چل نکلیں اور ان کے اہداف پاکیزگی کھو بیٹھیں تو پھر امید کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسات کبھی پاکیزہ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح اگر خوف کا محرک پاکیزہ نہ رہے اور اس کا متعلق ایسی چیزیں قرار پائیں جو انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسات یقینا انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوں گے۔ اس لیے قرآن کریم ان دونوں محرکات میں پاکیزگی پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہے کہ ان دونوں کا تعلق اللہ کی ذات سے جڑا رہے جب امیدیں سر اٹھانے لگیں تو ان کا آستانہ اللہ کے سوا کوئی اور نہ ہو اور جب خوف کے سائے گہرے ہونے لگیں تو ان کی پناہ گاہ بھی صرف اللہ کی ذات ہو۔ یہ کہنے کو معمولی تبدیلی ہے لیکن حقیقت میں یہ زندگی کا بہت بڑا راز ہے جس سے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں جس کی امیدوں کا آستانہ اللہ کے سوا کوئی اور ہو ان میں پاکیزگی تلاش کرنا ایک کارعبث ہے۔ اس میں حلال و حرام کی پابندی ‘ خیر و شر کا امتیاز ‘ اخلاقیات کی بالادستی ‘ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح خوف کا ہدف اگر بدل جائے تو پھر انسانیت کی پوری عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے یہ خوف نہ صرف تخت و تاج سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے بلکہ تمام مظاہرِ قدرت زندگی کے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹیں ‘ معمولی مفادات کی شکست و ریخت ‘ ایک ایک چیز خوف کا سانپ بن کر انسان کے دل میں اتر جاتا ہے اور وہ پوری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے بیم و رجا میں جہاں اپنی ذات کے ساتھ وابستگی کا حکم دیا ہے اور ہرحال میں دست سوال اسی کے سامنے دراز کرنے کا امر فرمایا وہیں اگلی آیت کریمہ میں اس کی ایک ایسی خوبصورت مثال بھی دی جس کا تعلق یوں تو عام انسانی زندگی سے ہے اور ہر جگہ کا رہنے والا انسان یقینا اس سے ایک واسطہ رکھتا ہے لیکن عرب کی سرزمین میں یہاں آئے دن فاقہ زدگی کی نوبت آجاتی تھی اور لوگ پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اس کی قدر و قیمت بےحد زیادہ تھی۔
Top