Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اس نے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ‘ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُا اللہ َ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ (الاعراف : 59) ” ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اس نے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ‘ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں “۔ حضرت نوح اور قوم نوح کی مثال اور اس کی وضاحت اس تاریخی بیان کی ابتداء حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم سے کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام زندگی پر حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دور میں رونما ہوا اور اسکی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا۔ قرآن کے اشارات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اس سرزمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابل کے آثار قدیمہ سے جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں تقریباً اسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے۔ پھر جو روایات کروستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلٍ چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے آس پاس ‘ آرمینیہ کی سرحد پر کوہ اراراط کے نواح میں نوح (علیہ السلام) کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اس شہر کی بنا حضرت نوح (علیہ السلام) نے ڈالی تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس قصے سے ملتی جلتی روایات یونان ‘ مصر ‘ ہندوستان اور چین کے قدیم لٹریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما ‘ ملایا ‘ جزائر شرق الہند ‘ آسٹریلیا ‘ نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسل آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں اگرچہ مرور ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انھوں نے فراموش کردیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھا دیا۔ مختصر یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیم بحیثیت آدم ثانی اور داعی اول کے ایک مسلمہ حقیقت ہے اسی طرح جو عذاب اس دعوت کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں آیا وہ بھی تمام قوموں کے نزدیک ایک مانی ہوئی بات ہے اس لیے سب سے پہلے اسی عظیم پیغمبر ان کی دعوت اور اس کے قبول نہ کرنے کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا تذکرہ مشرکین مکہ کو سنایا جا رہا ہے تاکہ انھیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ وہ اپنے رویے کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی حیثیت وہی تھی جو آج رسول اللہ ﷺ کی ہے اور حضور وہی دعوت پیش کر رہے ہیں جو نوح (علیہ السلام) نے پیش کی اور مشرکین مکہ کا ٹھیک ٹھیک وہی رویہ ہے جو نوح (علیہ السلام) کی قوم کا تھا اگر نوح (علیہ السلام) کی قوم اپنے اس رویے کے باعث عذاب کا شکار ہوئی تو کوئی وجہ نہیں کہ مشرکینِ مکہ ‘ مشرکینِ عرب اور دوسرے مذاہب کے لوگ اس عذاب سے بچ جائیں اسی طرف توجہ دلانے کے لیے یہ واقعہ ضمنی تفصیلات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ البتہ ! قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ کو تاریخی انداز میں نہیں بلکہ دعوتی انداز میں پیش کرتا ہے تاریخ صرف داستان سرائی کا نام ہے وہ قصہ گوئی صرف قصہ گوئی کے لیے کرتی ہے لیکن قرآن کریم تاریخ سے استشہاد کرتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ دعوت کے لیے جتنی شہادت کی ضرورت ہوتی ہے واقعات میں سے صرف اتنا حصہ ذکر کیا جاتا ہے اور باقی چھوڑ دیا جاتا ہے پھر کسی اور دعوتی پہلو کے لیے اسی واقعے کی دوسری تفصیلات کی اگر ضرورت پڑتی ہے تو ان کو بیان کردیا جاتا ہے مثلاً اگر یہ بتانا ہو کہ نوح (علیہ السلام) اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت میں کیا مماثلت ہے تو ان کی دعوت اور اسلوب دعوت کو پیش کیا جائے گا اور اگر یہ بتانا ہو کہ انھوں نے اس پر کس طرح صبر دکھایا اور کس طرح مخالفین کی اذیتوں کا سامنا کیا تو اس کے لیے نوح (علیہ السلام) کی لمبی عمر اور آپ کی نو سو سالہ دعوت کا ذکر کیا جائے گا تاکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو صبر کی تلقین بھی ہو اور حوصلہ بھی ملے کہ یہ تو وہ عظیم کام ہے جس کے لیے نو سو سال صرف کیے جاسکتے ہیں ہمیں تو ابھی صرف چند سال ہوئے ہیں کہ ہم اس وادیٔ پرخار میں داخل ہوئے ہیں چناچہ یہاں سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو پیش کیا جا رہا ہے تاکہ یہ پتہ چلے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جب دنیا میں بگاڑ پیدا ہوا اور اللہ کے دین سے برگشتگی کے جذبات پیدا ہوئے تو نوح (علیہ السلام) نے لوگوں کی اصلاح کے لیے کیا دعوت پیش کی تھی اور مزید یہ بات بھی کہ اگر وہ دعوت وہی ہے جو آج حضور پیش کر رہے ہیں تو پھر آپ سے آپ یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہزاروں سال کے فاصلے کے باوجود دعوتی حقیقت نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس میں کس حد تک یکسانی پائی جاتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جس ذات خداوندی نے نوح (علیہ السلام) کو انسانوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا اسی ذات والا صفات نے رسول اللہ ﷺ کو بھی بھیجا ہے۔ انبیاء کی دعوت کی وحدت آپ کی دعوت باقی انبیاء و رسل کی طرح ایک ہی دعوت ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اللہ کے سوا تمہارا کوئی الہٰ نہیں اس کے بعد بھی کئی رسولوں کی دعوت کا ذکر ہے اس میں بھی یہی بات بار بار دھرائی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام انسانی اصلاح کے لیے جو نسخہ اپنے ساتھ لے کر آئے وہ صرف یہ تھا کہ لوگو ! بندگی صرف اللہ کی اور الوہیت صرف اللہ کی۔ اگر ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں فساد جب بھی پھیلتا ہے اور جب بھی انسانی زندگی میں الجھنیں اور اڑچنیں پیدا ہوتی ہیں اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو الہ بنا لیتے ہیں اور پھر اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ یا اس کی بندگی کے توڑ پر غیر اللہ کی بندگی شروع کردی جاتی ہے اس کی تسہیل کے لیے میں چند مثالیں عرض کرتا ہوں جس سے آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ تمام انبیاء کرام نے اس مختصر سی بات کو انسانی اصلاح کی بنیاد کیوں بنایا ؟ بات یہ ہے کہ ہم اگر کوئی سا بھی ادارہ چلانا چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے دو باتوں کا فیصلہ ضرور کرتے ہیں ایک یہ بات کہ اس ادارے کا سربراہ کون ہوگا ؟ تاکہ اس کے انتظامی نظم ونسق میں رہنمائی کے لیے اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی کی ہدایات کی ہر ممکن اطاعت کی جائے کیونکہ اگر کسی ادارے میں سرے سے کوئی سربراہ نہ ہو تو وہ ادارہ اولاً تو تشکیل پذیر نہیں ہوسکتا اور اگر ہوجائے تو نہ چل سکتا ہے نہ باقی رہ سکتا ہے۔ اس ادارے میں کام کرنے والے اگر اپنی اپنی بانسری بجاتے رہیں نہ تو کسی سے کوئی پوچھ سکے نہ کوئی کسی کے سامنے جواب دہ ہو تو اندازہ فرمایئے ! یہ ادارہ کتنے دنوں تک چل سکتا ہے۔ اسی طرح دوسری بات جس کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس ادارے کی غرض وغایت کیا ہے آخر اسے بنایا کیوں جا رہا ہے ؟ جب یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ ہے تو پھر اس کی ساری کاوشیں تعلیم کی بہتری کے لیے ہوتی ہیں اور اگر یہ طے ہوجائے کہ یہ دفاعی ادارہ ہے تو پھر اس کی ساری تگ و دو ملک کے دفاع کے لیے وسائل بروئے کار لانے اور مساعی انجام دینے میں صرف ہوتی ہے۔ علی ہذا القیاس باقی تمام اداروں کو بھی اسی پر قیاس کر لیجیے۔ پیغمبروں کی دعوت میں بھی انہی دو باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس بات کا فیصلہ کرو کہ تم اس کائنات کا ایک جزو ہو۔ اس کے بیشمار کروں میں سے ایک چھوٹے سے کرے کے تم باسی ہو۔ باقی کائنات کی طرح تمہیں بھی کسی نے پیدا فرمایا ہے۔ باقی مخلوق کی طرح تمہیں بھی کوئی رزق دے رہا ہے۔ تمہاری زندگی کے تمام وسائل ‘ تمام ضرورتیں ‘ تمام صلاحیتیں ‘ تمام امکانات کا عطا کرنے والا کوئی ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر باقی کائنات نے اس کو پہچان کر اپنا سربراہ مان کر اور اپنا سب کچھ اسے سمجھ کر اس کے سامنے گردن ڈال دی ہے اور نہایت خاموشی سے اسی کی اطاعت میں سرگرم عمل ہے تو تم اگر اپنی زندگی میں باقی کائنات کی طرح اطمینان اور عافیت چاہتے ہو تو تم بھی اپنے مالک اور اپنے آقا کو پہچانو اور اسی کے سامنے اطاعت کے لیے گردن جھکا دو جس کے سامنے باقی کائنات جھکا چکی اور اسی کی اطاعت کا فیصلہ کرو جو تمہیں سب کچھ عطا کرنے والا ہے کیونکہ عقل کی بات ہے کہ جو جس چیز کو بناتا ہے اس سے کام اور خدمت لینا اسی کا حق ہے تمہیں اور باقی کائنات کو اگر اللہ نے بنایا ہے اور یقینا اسی نے بنایا ہے تو پھر تمہاری یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ تم اس کی مخلوق ہو کر اطاعت اور بندگی کسی اور کی کرو جس نے پیدا کیا ہے حکم دینے کا حق بھی اسی کو ہے اور جو مخلوق ہے اسے اپنے خالق ہی کا حکم ماننا چاہیے یہ فطرت کا وہ فتویٰ اور عقل کا وہ فیصلہ ہے جس سے انکار کرنا عقل سے بغاوت کردینے کے مترادف ہے اور مزید یہ بات بھی کہ جب باقی پوری کائنات سورج ‘ چاند ‘ ستارے اور تمام ثوابت و سیار اسی کی اطاعت میں سرگرم عمل ہیں اور اسی وجہ سے ہر ابتری اور ہر الجھن سے بچے ہوئے ہیں اور مسلسل ان کی گردن اللہ ہی کی اطاعت میں جھکی ہوئی ہے تو تم جب اسی کائنات اور مخلوق کا ایک حصہ ہو تو عجیب بات ہے کہ وہ تو اللہ کی اطاعت کریں اور تمہاری اطاعت کی جہت کسی اور طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا سفر اگر ایک سمت میں ہے اور تم دوسری سمت کے مسافر ہو تو یقینا تصادم ہوگا اور اسی کے نتیجے میں تمہاری زندگیوں میں ایک ابتری پیدا ہوگی۔ اس لیے ان دو باتوں کا فیصلہ کرنا تمہاری زندگی کی بقا ‘ عافیت اور اطمینان کے لیے ازبس ضروری ہے کہ تمہاری زندگی اور اس انسانی ادارے کی سربراہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے اور تمہاری زندگی کا مقصد صرف اس ایک اللہ کی بندگی اور اسی کی رضا کا حصول ہے یہ وہ دعوت ہے جو نوح (علیہ السلام) نے باقی انبیاء و رسل کی طرح اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور یہی دعوت رسول اللہ ﷺ مشرکین کے سامنے پیش فرما رہے ہیں۔ دوسری بات حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ فرمائی کہ دیکھو اگر تم میری دعوت قبول نہیں کرتے ہو اور اس بالکل سامنے کی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہو تو پھر یاد رکھو میں تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں اس عذاب سے دو طرح کے عذاب مراد ہوسکتے ہیں اور انہی دونوں طرح کے عذابوں سے ہر پیغمبر اور ہر رسول دنیا کو ڈرانے کے لیے آتا ہے۔ ایک تو آخرت کا عذاب ہے جو دنیا کی بساط لپیٹ دینے اور قیامت کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد اللہ کے نافرمانوں کو پہنچے گا اور دوسرا وہ عذاب جو دنیا میں بھی کسی وقت آسکتا ہے۔ اللہ کا رسول جب دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنی ذات اور اپنی دعوت میں حجت کاملہ بن کر آتا ہے۔ اپنی قوم کے سامنے حجت تمام کرنے میں وہ کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ دعوت کے ابلاغ ‘ تفہیم ‘ تسہیل ‘ تنفیذ ‘ معجزات کے ذریعے ان کا اثبات ہر حوالے سے وہ اپنی بات کو دلوں پر کھول دیتا ہے۔ کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ جو لوگ اس کی دعوت کو قبول نہیں کرتے وہ بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ اس دعوت کے پہنچنے اور تفہیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ ان کا دل پکارتا ہے کہ بات وہی ہے جو یہ رسول کہہ رہا ہے لیکن حب دنیا ‘ مفادات کی ہوس اور گروہ بندی کا حد سے بڑھا ہوا شوق انھیں پیغمبر کی دعوت قبول کرنے سے مانع ہوجاتا ہے اس طرح جب حجت تمام ہوجاتی ہے تب اللہ تعالیٰ کا رسول انھیں آنے والے عذاب سے ڈراتا ہے اور انھیں بار بار تنبیہ کرتا ہے کہ اللہ کا پیغام میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے اور جہاں تک اس کا حق ادا کرنے کا تعلق تھا اس میں میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اس لیے اب مجھے اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ تم پر کہیں اللہ کے عذاب کا کوڑا نہ برس جائے۔ چناچہ اللہ کا قانون یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے متبعین کو وہاں سے نکال لیتا ہے اور انکار کرنے والوں کو عذاب کی نذر کردیا جاتا ہے چناچہ یہاں بھی نوح (علیہ السلام) انہی دونوں طرح کے عذاب سے اپنی قوم کو ڈرا رہے ہیں۔ ایک اشتباہ اور اس کا جواب ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اللہ کے رسولوں کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں اگر ہمیشہ عذاب آتے رہے تو پھر آج کیوں نہیں آتے۔ دنیا کی بیشتر آبادی اللہ کے دین سے باغی ہے۔ نبی آخر الزمان ﷺ کی دعوت ان کے لیے ایک قصہ پارینہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ وہ مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ہر طلوع ہونے والا دن مسلمانوں کے لیے نئی افتاد لے کر آتا ہے ایسی صورت میں تو کافروں پر اللہ کا عذاب ضرور آنا چاہیے پھر آخر کیوں نہیں آتا ؟ اس میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ اللہ کا عذاب کبھی کسی قوم پر نہیں آتا جب تک اس پر حجت تمام نہیں ہوتی۔ آج مشکل یہ ہے امت مسلمہ جسے پیغمبرانہ دعوت کے لیے چنا گیا ہے اور جس نے پوری دنیا کے سامنے اللہ کی طرف سے حجت تمام کرنی ہے اس کا اپنا گھر اللہ کے دین کی بالادستی سے خالی ہے۔ عالم اسلام میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اللہ کا دین پوری طرح نافذ ہو اور وہاں کے رہنے والوں اور ان کے حکمرانوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ پوری دنیا کے سامنے ہم نے اللہ کے دین کو اسی طرح پیش کرنا ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ اور صحابہ نے پیش کیا تھا کہ خود کافر دنیا یہ سمجھے کہ اللہ کی طرف سے ان پر حجت تمام کردی گئی ہے۔ ان کے فکری ‘ تہذیبی ‘ تمدنی ‘ معاشی اور حکومتی ادارے اسلامی بالادستی کے سامنے دل و دماغ کو جھکتا ہوا محسوس کرنے لگیں۔ چلیے اگر یہ نہیں تو مسلمانوں کے کسی ملک میں مفکرین ‘ علماء اور اہل دعوت کی ایک ایسی مضبوط جماعت اٹھے جو اپنے قول و عمل سے ہر دیکھنے اور سننے والے کو محسوس ہو کہ یہ اس دور میں صحابہ کی تصویر ہیں۔ نہ ان کے عمل میں کمی ہے اور نہ ان کے فکر میں کمزوری یہ وقت کے بڑے سے بڑے مسئلے کا سامنا کرسکتے ہیں اور بڑے سے بڑے خطرے اور بڑے سے بڑے لالچ کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ان کی منزل صرف اللہ کی رضا ہے وہ نہایت خیر خواہی سے نوع انسانی کی بھلائی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ غیر مسلموں کے سامنے بالکل پیغمبرانہ استغناء اور خیر خواہی کے ساتھ اللہ کا دین پیش کریں اور ان کے ذرائع ابلاغ کو علمی اور دعوتی طور پر بےبس کر کے رکھ دیں تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر غیر مسلم دنیا اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتی یا وہ اس کا راستہ روکنے اور اس کے کچلنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو یقینا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایسی صورت میں یہ لوگ بیشک مار دیئے جائیں لیکن غیر مسلم دنیا بھی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے گی۔ ان میں یا تو قبولیت کے راستے کھلیں گے ان میں خود ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی اپنی قوموں میں تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیں گے اور یا اللہ تعالیٰ ان کو مٹا کر ایک ایسی قوم کو دین کی دعوت کے لیے اٹھائے گا جو ہر لحاظ سے اس کے لیے مناسب ہوگی۔ تاریخ نے بار بار اس حقیقت کو دھرایا ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سزا کا کوڑا برسایا ہے اور غیر مسلموں میں اپنے دین کے علمبردار اٹھا کھڑے کیے ہیں۔ فتنہ تاتار تاریخ کا ایک ایسا حادثہ ہے جس کو مسلمانوں کی تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی لیکن اس کا انجام کیا ہوا کہ خود تاتاریوں کو اللہ نے اسلام کی علمبرداری عطا کردی۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے دوسری بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ اتمامِ حجت نہ ہونے کے باعث کافر قوموں پر اس طرح کے عذاب نہیں آتے جو ان کی جڑ کاٹ کے رکھ دیں لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ ان پر عذاب بالکل نہیں آتے ان کو تنبیہ کرنے اور وارننگ دینے کے لیے چھوٹے موٹے عذاب آتے رہتے ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جس طرح انبیاء کرام اور کتب آسمانی کی طرف سے ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی اور صاف صاف بتایا جاتا تھا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو تمہاری بداعمالیوں کے سبب تمہیں متنبہ کرنے کے لیے آیا ہے اس سے سبق سیکھو ورنہ اندیشہ ہے کہ کسی بڑے عذاب کے ذریعے تمہاری جڑ کاٹ دی جائے اب مصیبت یہ ہوگئی ہے کہ ظاہر بیں سائنسدانوں اور حقیقت سے ناواقف مؤرخین و فلاسفہ کا ایک بہت بڑا گروہ نوع انسانی پر مسلط ہوگیا ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجیہ ‘ طبیعاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے لوگوں کو فریب دیتا رہتا ہے اور انھیں یہ کبھی سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آخر کار انھیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔ اگلی آیات میں قرآن کریم نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کا رویہ اور نوح (علیہ السلام) اور قوم کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس کو نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔
Top