Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 72
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے نجات دی (بچا لیا) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَقَطَعْنَا : اور ہم نے کاٹ دی دَابِرَ : جڑ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَمَا : اور نہ كَانُوْا : تھے مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
آخر کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی ‘ جو ہماری آیات کو جھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے۔
ارشاد ہوتا ہے : فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ (الاعراف : 72) ” آخر کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود اور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی ‘ جو ہماری آیات کو جھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے “۔ اس آیت کریمہ میں پروردگار نے اپنے اس اصول کا ذکر فرمایا ہے جس کے تحت قوموں پر عذاب آتا ہے اس میں تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ بات کہ ہم کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک اس کے اندر قبولیتِ ایمان کے تمام سوتے خشک نہیں ہوجاتے۔ جب تک کچھ بھی ان میں ایمان کی قبولیت کی امید باقی رہتی ہے تو عذاب کو روکا جاتا ہے۔ ان کو پوری طرح دودھ کی طرح بلویا جاتا ہے اور جب تک مکھن کی آخری پھٹکی بھی باقی رہتی ہے یہ بلونا بند نہیں کیا جاتا۔ پیغمبر اپنی دعوت تمام موانع کے باوجود پوری قوت سے پیش کرتا ہے ان کی اذیتوں کو پورے صبر کے ساتھ برداشت کرتا ہے لیکن جب وہ اپنی قبولیت کی استعداد سے بالکل محروم ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برستا ہے وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ سے اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ دوسری بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ کہ ہم جب عذاب نازل کرتے ہیں تو اللہ کے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو وہاں سے ہجرت کا حکم دیتے ہیں اور انھیں اپنی پناہ میں لے کر دشمنوں کی اذیت سے اور عذاب کے اثرات سے محفوظ کردیتے ہیں چناچہ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر عذاب آیا ‘ اللہ کے رسول اور مومنین کو وہاں سے نکال لیا گیا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والوں کو یا تو کسی قریبی سرزمین میں جانے کا حکم دیا گیا اور یا وہیں ان کو اپنی پناہ میں لے لیا گیا اور تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ عذاب کی صورت میں ہم کافر قوم کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتے ہیں کیونکہ وہ زمین کا ایک ایسا بگڑا ہوا عنصر بن چکی ہوتی ہے جن کے باقی رہنے سے زمین کی خرابی اور اہل زمین کے بگاڑ میں مزید وسعت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جس طرح کسی ناسور کو جسم میں باقی رکھنا پورے جسم کو فاسد کرنے کا باعث بنتا ہے اسی طرح بگڑی ہوئی قوموں کو باقی رکھنا بھی پوری زمین کی تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت قوم عاد کا بھی اس طرح استیصال کیا کہ ان کا نام و نشان تک مٹا ڈالا۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے اور موجودہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہوگئے اور ان کی یادگاریں تک دنیا سے مٹ گئیں چناچہ مؤرخین عرب ان کو عرب کی امم بائدہ یعنی معدوم اقوام میں شمار کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حصن غراب کا کتبہ انہی کی یادگاروں میں سے ہے اس کتبہ کو جسے تقریباً اٹھارہ سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں (ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بدحالی سے دور تھی۔ ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو برے خیالات سے پاک اور اہل شر و فساد پر سخت تھے وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کرلیے جاتے تھے اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے) یہ عبادت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے۔ آخر میں صرف ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ ہے حضرت ہود (علیہ السلام) کی وفات۔ اہل عرب حضرت ہود (علیہ السلام) کی وفات اور ان کی قبر مبارک کے متعلق مختلف دعوے کرتے ہیں مثلاً اہل حضرموت کا دعویٰ ہے کہ عاد کی ہلاکت کے بعد وہ حضرموت کے شہروں میں ہجرت کر آئے تھے ‘ وہیں ان کی وفات ہوئی اور وادی برہوت کے قریب حضرموت کے مشرقی حصہ میں شہر تریم سے قریباً دو مرحلے پر دفن ہوئے۔ حضرت علی ( رض) سے ایک اثر منقول ہے کہ ان کی قبر حضرموت میں کثیب احمر (سرخ ٹیلہ) پر ہے اور ان کے سرہانے جھائو کا درخت کھڑا ہے۔ اہل فلسطین کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطین میں دفن ہیں اور انھوں نے وہاں ان کی قبر بھی بنا رکھی ہے اور اس کا سالانہ عرس بھی کرتے ہیں۔ مگر ان تمام روایات میں سے حضرموت کی روایت صحیح اور معقول معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ عاد کی بستیاں حضرموت ہی کے قریب تھیں لہٰذا قرینہ یہی چاہتا ہے کہ ان کی تباہی کے بعد قریب ہی کی آبادیوں میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے قیام فرمایا ہوگا اور وہیں پیغام اجل کو لبیک کہا اور وہ یہی حضرموت کا مقام ہے۔
Top