Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 73
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَ : اور اِلٰي : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آچکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب هٰذِهٖ : یہ نَاقَةُ اللّٰهِ : اللہ کی اونٹنی لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةً : ایک نشانی فَذَرُوْهَا : سو اسے چھوڑ دو تَاْكُلْ : کہ کھائے فِيْٓ : میں اَرْضِ : زمین اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا تَمَسُّوْهَا : اسے ہاتھ نہ لگاؤ بِسُوْٓءٍ : برائی سے فَيَاْخُذَكُمْ : ورنہ پکڑ لے گا تمہیں عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا ‘ اس نے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ‘ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آگئی ہے ‘ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے ‘ لہٰذا اسے چھوڑے رکھو کہ اللہ کی زمین میں چلتی پھرے اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آلے گا۔
مشرکینِ مکہ اور باقی نوع انسانی کو یہ بات سمجھانے کے لیے کہ اگر تم رسول اللہ کی دعوت کو قبول نہیں کرو گے اور آپ کے مقابلے میں معاندانہ روش اختیار کرو گے تو تمہارا انجام بھی یقینا وہی ہوگا جو اس سے پہلے ان قوموں کا ہوچکا جن کی طرف اللہ کے رسول آئے اور انھوں نے ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مختلف انبیاء کرام کی دعوت اور ان کی قوموں کی طرف سے معاندانہ جواب اور پھر ان پر اترنے والے عذاب کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے قوم نوح کا ذکر آیا اس کے بعد قوم عاد کا اب اسی غرض سے قوم ثمود کا ذکر کیا جا رہا ہے اور یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ اللہ کے یہاں ایک ہی ترازو میں ساری قومیں تلتی ہیں کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک نہیں ہوتا۔ وہ عادل ذات ہے ہر ایک کے ساتھ عدل کا معاملہ کرتی ہے جس رویے نے سابقہ امتوں کو عذاب کا مستحق بنایا تم اگر وہی رویہ اختیار کرو گے تو یقینا تم اس عذاب سے بچ نہیں سکو گے چناچہ قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا : وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا م قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ َ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَتْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللہِ وَلَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (الاعراف : 73) ” اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا ‘ اس نے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ‘ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آگئی ہے ‘ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے ‘ لہٰذا اسے چھوڑے رکھو کہ اللہ کی زمین میں چلتی پھرے اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آلے گا “۔ ثمود کی تاریخ قومِ ثمود کا ذکر قرآن کریم کی نو سورتوں میں کیا گیا ہے یہ قوم عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ عاد اور ثمود ایک ہی دادا کی اولاد تھے۔ ارم کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک بیٹے کی اولاد عاد کہلائی اور دوسرے کی ثمود۔ ثمود کو عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ قوم عاد کے بقایا ہیں جب اللہ کا عذاب قوم عاد پر ٹوٹا تو جو لوگ اس عذاب سے محفوظ رکھے گئے آگے چل کر وہ قوم ثمود کے نام سے معروف ہوئے کیونکہ ثمود ان کے جد امجد کا نام تھا۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان ‘ اسکندریہ اور روم کے قدیم مؤرخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے۔ چناچہ رومی مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے۔ اس قوم کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدینہ اور ترکی کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائن صالح کہتے ہیں یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانے میں حجر کہلاتا تھا۔ حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ کا جو میدان نظر آتا ہے یہ سب اس قوم کے مقام سکونت کا حصہ تھا اور آج کل فج الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات اور آثار آج تک موجود ہیں۔ ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں آج بھی موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے اس لیے اہل مکہ اور دوسرے عرب قوم عاد کی طرح قوم ثمود کی تاریخ سے بھی واقف تھے۔ حجر کا یہ مقام جو حجر ثمود کہلاتا ہے شہر مدین سے جنوب مشرق میں اس طرح واقع ہے کہ خلیج عقبیٰ اس کے سامنے پڑتی ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اسی قوم ثمود کی طرف اللہ نے رسول بنا کر بھیجا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نسب اور وطن کے اعتبار سے قوم ثمود ہی کے ایک فرد تھے کیونکہ وہ بھی سام ہی کی اولاد میں سے تھے اس لیے قرآن کریم میں ان کو قوم ثمود کا بھائی فرمایا ہے۔ ثمود بھی قوم عاد کی طرح خدائے واحد کے علاوہ بہت سے معبودانِ باطل کے پرستار اور شرک میں مبتلا تھے۔ ان کا بنیادی مرض بھی شرک میں مبتلا ہونا تھا اور اسی بنیادی مرض کے باعث باقی مشرک قوموں کی طرح ان میں بھی سیرت و کردار میں ہزاروں عیوب پیدا ہوگئے تھے کیونکہ جب کوئی قوم توحید سے بیگانہ ہوجاتی ہے تو پھر وہ اللہ کی ذات ہی سے لاتعلق نہیں ہوتی بلکہ اس کی صفات سے بھی کٹ جانے کے باعث زندگی میں ایسے ایسے اخلاقی امراض کا شکار ہوتی ہے جس کا تصور بھی عام حالات میں نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی اصل حیثیت کا عرفان جو توحید کے عقیدے کا لازمی نتیجہ ہے۔ انسان اس سے محروم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی وہ کسی کے سامنے جھکتا ہے اور کبھی کسی کے سامنے۔ اولوالعزمی ‘ حوصلہ مندی ‘ قوت تسخیر اس طرح اس سے رخصت ہوجاتی ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت رکھتے ہوئے بھی انتہائی منفعل زندگی گزارتا ہے۔ ہر قوت سے خوف کھاتا ہے ‘ ہر آستانے پر سر جھکاتا ہے اور زندگی کے اصل مقاصد کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے مقاصد پر جان دیتا ہے اس لیے پروردگار عالم انسانی اصلاح کے لیے جب کسی پیغمبر کو بھیجتا ہے تو سب سے پہلے پیغمبر کی دعوت کا عنوان ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگو ! ایک ہی اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائو ‘ تمام قوتوں کا مالک صرف ایک اللہ ہے اسی کو اطاعت مطلقہ زیب دیتی ہے۔ ہر طرح کی کبریائی اسی کے لیے مناسب ہے۔ وہ چونکہ تمہارا خالق ہے اس لیے حکم دینا بھی اسی کا حق ہے اور تم چونکہ اس کے مخلوق ہو اس لیے تمہارے لیے اس کے سوا کسی اور کا محکوم اور مامور ہونا ہرگز زیبا نہیں۔ اس تصور کے قبول کرلینے کے بعد انسان میں وہ بنیادی تبدیلی آتی ہے جو انسانی سیرت و کردار کی ضامن بنتی ہے۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی ان کے سامنے یہی دعوت پیش کی اور اس قوم نے بھی سابقہ امتوں کی طرح حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت سے وہی سلوک کیا جو سابقہ امتیں کر چکیں۔ نہ صرف کہ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا راستہ روکنے کے لیے آپ کو ہر طرح کی اذیت کا نشانہ بنایا۔ آپ پر ایمان لانے والوں کو ہراساں کیا اور آپ کی ذات پر قسم قسم کے اتہامات باندھے۔ کبھی آپ کو جھوٹا کہا گیا ‘ کبھی یہ کہا گیا کہ تم پر جادو کردیا گیا ہے۔ یعنی ہر ممکن طریق سے یہ کوشش کی گئی کہ لوگ آپ کی دعوت کے قریب نہ پھٹکیں اور جب دیکھا کہ ہماری ساری اذیتوں اور ہمارے سارے اتہامات کے باوجودصالح اپنی دعوت سے باز نہیں آتے اور لوگوں میں آپ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے تو پھر انھوں نے آپ سے قسم قسم کے معجزات کا مطالبہ شروع کردیا اور گمان یہ کیا کہ جب ہم آپ سے غیر معمولی قسم کے مطالبات کریں گے اور حضرت صالح اسے پورا نہیں کرسکیں گے تو خود بخود ان کی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ ان کے قریب آنا چھوڑ دیں گے اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ مایوس ہو کر اور مخالفتوں سے تنگ آکر دوبارہ اپنے آبائی دین میں پلٹ جائیں گے۔ اونٹنی کا معجزہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جو غیر معمولی مطالبات کیے ان میں سے ایک مطالبہ غیرمعمولی اونٹنی کا بھی تھا۔ انھوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ہماری فلاں پہاڑی جس کا نام کاتبہ ہے اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکال کر دکھایئے جو دس مہینے کی گابھن ہو اور قوی اور تندرست ہو اور اس چٹان سے نکلنے کے بعد وہ ایک بچہ بھی جنے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ اگرچہ اس طرح کے مطالبات کرنا کوئی اچھی بات نہیں لیکن تم اگر اس پر اصرار کرتے ہو تو پھر مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ مطالبہ پورا کردیا تو تم مجھ پر ایمان لے آئو گے۔ چناچہ ساری قوم نے آپ سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تو صالح (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا مانگی کہ الٰہی آپ کی قدرت سے تو کوئی کام مشکل نہیں اگر آپ ان کا یہ مطالبہ پورا کردیں تو یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایمان لے آئیں گے چناچہ تھوڑی ہی دیر بعد پہاڑی کے اندر جنبش پیدا ہوئی اور اس کی ایک بڑی چٹان پھٹ کر اس میں سے ایک اونٹنی اسی طرح کی نکل آئی جیسا ان کا مطالبہ تھا۔ صالح (علیہ السلام) کا یہ کھلا ہوا حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر ان میں سے کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے اور باقی تمام قوم نے بھی ارادہ کرلیا کہ ایمان لے آئیں مگر قوم کے چند سردار جو بتوں کے خاص بجاری اور بت پرستی کے امام تھے انھوں نے ان کو بہکا کر اسلام قبول کرنے سے روک دیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم نے عہد شکنی کی اور خطرہ ہوا کہ ان پر کوئی عذاب نہ آجائے تو پیغمبرانہ شفقت کی بناء پر ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ اس اونٹنی کی حفاظت کرو اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچائو پھر شاید تم عذاب سے محفوظ رہو ورنہ فوراً تم پر عذاب آجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں اسی معجزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ہے کہ دیکھو تم نے جس معجزے کا مطالبہ کیا تھا وہ ناقۃ اللہ کی صورت میں تمہارے سامنے موجود ہے۔ تمہارے عہد کا تقاضہ تو یہ تھا کہ تم فوراً ایمان لے آتے لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اب بھی تمہیں مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اٹھائو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اس اونٹنی کو تکلیف نہ پہنچانا۔ یہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے جائے اور جہاں چاہے چارہ کھائے تم ہرگز اسے نہیں روکو گے۔ بلکہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی فرمایا گیا کہ جس کنویں سے تمہارے جانور پانی پیتے ہیں اسی کنویں سے یہ بھی پانی پیئے لیکن اب شرط یہ ہوگی کہ ایک دن یہ اونٹنی پانی پیئے گی اور دوسرے دن تمہارے جانور پانی پئیں گے۔ قرآن کریم نے اونٹنی کو ناقتہ اللہ کہہ کر اس کو بطور ایک معجزہ کے پیش کیا ہے لیکن اس کے وجود میں آنے کا وہ واقعہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ اس کا ذکر ہمیں یا تو اخبار آحاد میں ملتا ہے یا اسرائیلی روایات میں لیکن ناقتہ اللہ کا لفظ اور بطور معجزہ کے اس کا ذکر کیا جانا اور پھر اس اونٹنی کا بےجھجک ہر جگہ گھومتے پھرنا اور ایک مدت تک قوم کا اس اونٹنی کو برداشت کرنا یہ ضرور اشارہ کرتا ہے کہ اس اونٹنی کا وجود میں آنا یقینا کسی محیر العقول طریقے سے ہوا ہوگا ورنہ حضرت صالح (علیہ السلام) اگر کسی عام اونٹنی پر ہاتھ رکھ کر یہ فرما دیتے کہ آج سے یہ اونٹنی اللہ کی اونٹنی ہے دیکھنا تم اس کو گزند نہ پہنچانا ورنہ اللہ کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا تو محض یہ بات حضرت صالح (علیہ السلام) کے ارشاد فرمانے کے باوجود قوم پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی اس لیے کہ وہ لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ کا پیغمبر ہی کب مانتے تھے کہ ان کی بات پر یقین کرلیتے وہ جو ایک مدت تک اونٹنی کو برداشت کرتے رہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ اونٹنی جس طرح وجود میں آئی ہے یقینا اس کے پیچھے کوئی غیبی طاقت ہے اگر ہم نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو وہ غیبی طاقت ہمارا نقصان کرے گی۔ اس اندیشے نے انھیں مدت تک روکے رکھا۔ اگرچہ ہم نے ضروری حد تک یہ واقعہ بیان کردیا ہے لیکن مزید تفصیل اور تحقیق کے لیے قصص القرآن کا ایک نوٹ نقل کرتے ہیں۔ اس کے مصنف لکھتے ہیں قرآن عزیز سے اس سلسلہ میں صرف دو باتیں ثابت ہیں ‘ ایک یہ کہ ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے نشان (معجزہ) طلب کیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے ” ناقہ “ کو بطور نشانی پیش کیا ‘ دوسرے یہ کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ ہدایت کردی تھی کہ وہ اس کو ضرر نہ پہنچائے اور پانی کی باری مقرر کرلے کہ ایک روز ناقہ کا اور دوسرا قوم کا اور اگر اس کو نقصان پہنچایا تو یہی قوم کی ہلاکت کا نشان ہوگا چناچہ انھوں نے ” ناقہ “ کو ہلاک کردیا اور خدا کے عذاب سے خود بھی ہلاک ہوگئے۔ اس سے زائد جو کچھ ہے اس کا مداریا ان روایاتِ حدیث پر ہے جو اخبارِ آحاد کے درجہ میں شمار ہیں اور یا بائبل اور تاریخِ قدیم کی روایات پر ‘ جہاں تک اخبارِ آحاد کا تعلق ہے محدثین کے نزدیک ان میں سے بعض صحیح روایات ہیں اور بعض ضعیف ‘ اس لیے حافظ عماد الدین ابن کثیر نے سورة اعراف کی تفسیر میں ” ناقۃ اللہ “ کے وجود میں آنے کی روایت کو سند روایات کے اصول پر نقل نہیں فرمایا بلکہ ایک تاریخی واقعہ کی طرح تحریر فرمایا ہے۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ قوم ثمود جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی تبلیغِ حق سے اکتا گئی تو اس کے سرخیل اور سر کردہ افراد نے قوم کی موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اے صالح ! اگر تو واقعی خدا کا فرستادہ ہے تو کوئی نشانی دکھا تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ نشانی آنے کے بعد بھی انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو ‘ قوم کے ان سرداروں نے بتاکید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے۔ تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہی سے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشان چاہتے ہیں ‘ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سامنے والے پہاڑ میں سے یا بستی کے اس پتھر میں سے جو کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر کہ جو گابھن ہو اور فوراً بچہ دے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے درگاہِ الٰہی میں دعا کی اور اسی وقت ان سب کے سامنے پہاڑ یا پتھر میں سے حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے بچہ دیا۔ یہ دیکھ کر ان سرداروں میں جندع بن عمرو تو اسی وقت مشرف باسلام ہوگیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں کے مہنتوں ذؤاب بن عمرو اور جناب اور ان کے کاہن رباب بن صفر نے ان کو اس سے باز رکھا اور اسی طرح باقی دوسروں کو بھی اسلام لانے سے روکا۔ اب حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمہاری طلب پر بھیجی گئی ہے ‘ خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو ایک دن اس ناقہ کا ہوگا اور ایک دن ساری قوم اور اس کے سارے چوپائوں کا اور خبردار اس کو کوئی اذیت نہ پہنچے ‘ اگر اس کو آزار پہنچا تو پھر تمہاری بھی خیر نہیں ہے۔ قوم نے اگرچہ اس حیرت انگیز معجزہ کو دیکھ کر ایمان قبول نہ کیا لیکن دلوں کے اقرار نے اس کو آزار پہنچانے سے باز رکھا اور یہ دستور جاری رہا کہ پانی کی باری ایک روز ناقہ کی رہتی اور تمام قوم اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتی اور دوسرے روز قوم کی باری ہوتی اور ناقہ اور اس کا بچہ بغیر روک ٹوک چراگاہوں میں چرتے اور آسودہ رہتے ‘ مگر آہستہ آہستہ یہ بات بھی ان کو کھٹکنے لگی اور آپس میں صلاح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کردیا جائے تو اس باری والے قصے سے نجات ملے ‘ کیونکہ ہماری چوپائوں کے لیے اور خود ہمارے اپنے لیے یہ قید ناقابل برداشت ہے۔ یہ باتیں اگرچہ ہوتی رہتی تھیں لیکن کسی کو اس کے قتل کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی ‘ مگر ایک حسین و جمیل مالدار عورت صدوق نے خود کو ایک شخص مصدع کے سامنے اور ایک مالدار عورت عنیزہ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی کو قیدار کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگر وہ دونوں ناقہ کو ہلاک کردیں تو یہ تمہاری ملک ہیں ‘ تم ان کو بیوی بنا کر عیش کرو۔ آخر قیدار بن سالف اور مصدع کو اس کے لیے آمادہ کرلیا گیا اور طے پایا کہ وہ راہ میں چھپ کر بیٹھ جائیں گے اور ناقہ جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کردیں گے اور چند دوسرے آدمیوں نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔ غرض ایسا ہی کیا گیا اور ناقہ کو اس طرح سازش کر کے قتل کر ڈالا اور پھر آپس میں حلف کیا کہ رات ہونے پر ہم سب حضرت صالح (علیہ السلام) اور اس کے اہل و عیال کو بھی قتل کردیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلائیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہے۔ اور بچہ یہ دیکھ کر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور چیختا اور بولتا ہوا پہاڑی میں غائب ہوگیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو جب یہ خبر ہوئی تو حسرت و افسوس کے ساتھ قوم کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ آخر وہی ہوا جس کا مجھے خوف تھا ‘ اب اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو تین دن کے بعد تم کو تباہ کر دے گا ‘ اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اور اس نے رات میں سب کو تباہ کردیا اور آنے والے انسانوں کے لیے تاریخی عبرت کا سبق دے گیا۔ اس واقعہ کے ساتھ ساتھ محدث ابن کثیر نے چند روایاتِ حدیثی بھی بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً غزوہ تبوک کے موقعہ پر جب آپ ﷺ کا گزر حجر پر ہوا تو صحابہ نے ثمود کے کنوئیں سے پانی بھرا اور آنا گوندھ کر روٹیاں تیار کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو پانی گرا دینے ‘ ہانڈیاں اوندھی کردینے اور آٹا بیکار کردینے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ بستی ہے جس پر اللہ کا عذاب ہوا ‘ یہاں نہ قیام کرو اور نہ یہاں کی اشیاء سے فائدہ اٹھائو ‘ آگے بڑھ کر پڑائو ڈالو ایسا نہ ہو کہ تم بھی کسی بلا میں مبتلا ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ان حجر کی بستیوں میں یا تو اللہ سے ڈرتے عجز وزاری کرتے اور روتے ہوئے داخل ہوا کرو ورنہ ان میں داخل ہی نہ ہوا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اپنی غفلت کی وجہ سے عذاب کی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤ۔ اور ایک رویت میں ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ حجر میں داخل ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے نشانیاں طلب نہ کیا کرو ( دیکھو صالح۔ ) کی قوم نے نشان طلب کیا تھا اور وہ ناقہ پہاڑ کی کھوہ سے نکلتی اور اپنی باری میں کھا پی کر وہیں واپس چلی جاتی اور جو اس کی باری کا دن تھا اس میں قوم ثمود کو اپنے دودھ سے سیراب کرتی تھی ‘ مگر ثمود نے آخرکار سرکشی کی اور ناقہ کی کونچیں کاٹ کر اس کو ہلاک کردیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان پر ” چیخ کا عذاب “ مسلط کردیا اور وہ اس عذاب سے گھروں کے اندر ہی مردہ ہو کر رہ گئے صرف ایک شخص ابورغال نامی باقی بچا جو حرم میں گیا ہوا تھا لیکن جب وہ حدود حرم سے باہر آیا تو فوراً اسی عذاب کا شکار ہوگیا۔ حافظ ابن کثیر نے یہ تینوں روایات سند کے ساتھ مسند احمد سے نقل کر کے ان کی توثیق کی ہے۔ اس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن عزیز سے یہ تو یقین کے ساتھ ثابت ہے کہ ” ناقۃ اللہ “ اللہ کا ایک نشان تھی اور اپنے اندر ضرور کوئی ایسی خصوصیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے وہ ایسا نشان کہلا سکے جس کا ذکر قرآن عزیز اس اہمیت کے ساتھ کر رہا ہے ” ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ اٰیَۃ “ یہ ناقۃ اللہ تمہارے لیے نشان ہے اور پھر پانی کی باری جس طرح ناقہ اور قوم ثمود کے درمیان تقسیم فرمائی وہ خود ایک مستقل دلیل ہے کہ یہ ” ناقہ “ ضرور اپنے اندر ایسی حیثیت رکھتی تھی جو نشان الٰہی کہلا سکے۔ لیکن یہ بات کہ ” ناقہ “ کا وجود کس طرح ہوا اور کن وجوہ سے ” نشانِ الٰہی “ یا ” معجزہ “ بنی ‘ قرآن عزیز اس سے ساکت ہے۔ البتہ مختلف صحیح اخبارِ آحاد سے اس واقعہ پر ضرور روشنی پڑتی ہے جس کی تفصیل ابن کثیر سے ابھی نقل ہوچکی مگر واقعہ کی تفصیلی صراحت و وضاحت وہاں بھی موجود نہیں ہے بلکہ کتب تفسیر میں اسرائیلیات سے منقول ہے یا ضعیف روایات سے اخذ کی گئی ہے ‘ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ واقعہ کے اجمال و تفصیل میں فرقِ مراتب کا ضرور خیال رکھا جائے ‘ جس قدر قرآن عزیز نے تصریح کی ہے وہ بغیر کسی تاویل کے واجب الاعتقاد ہے اور جس قدر صحیح روایات سے (اگرچہ وہ آحاد ہی کے درجہ کی ہیں) اس اجمال کی تفصیل کا پتہ ملتا ہے وہ اجمال کی تفصیل کی حیثیت سے قابل قبول ہیں گو قرآن عزیز کی تصریحات کے درجہ کو نہ پہنچ سکیں اور ان سے زیادہ باقی تفصیلات کی حیثیت وہی ہے جو عام تاریخی وقائع اور اسرائیلیات کی حیثیت ہے۔ قوم نے اگرچہ ایمان نہ لا کر عہد شکنی کی لیکن جیسا کہ عرض کیا ان کو مزید مہلت دی گئی اور عذاب کے فوری وقوع کا فیصلہ نہیں فرمایا گیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغی کاوشیں مزید تیز کردیں اور ہر اس پہلو سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی جس سے طبیعتیں متاثر ہوسکتی ہیں چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top