Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 90
وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
وَقَالَ : اور بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَئِنِ : اگر اتَّبَعْتُمْ : تم نے پیروی کی شُعَيْبًا : شعیب اِنَّكُمْ : تو تم ضرور اِذًا : اس صورت میں لَّخٰسِرُوْنَ : خسارہ میں ہوگے
ان بڑوں نے جنھوں نے اس کی قوم میں سے کفر کیا کہا کہ اگر تم شعیب کی پیروی کرو گے تو بڑے خسارے میں پڑو گے۔
وَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعْتُمُ شُعَیْبًا اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ۔ (الاعراف : 90) ” ان بڑوں نے جنھوں نے اس کی قوم میں سے کفر کیا کہا کہ اگر تم شعیب کی پیروی کرو گے تو بڑے خسارے میں پڑو گے “۔ مسلمانوں کو وارننگ اس وارننگ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ شعیب تمہیں جس زندگی کی دعوت دے رہے ہیں وہ اللہ کی بندگی کے سوا ہر بندگی سے بغاوت کی دعوت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تم ہمارے دست نگر رہے ہو۔ پشتوں سے تم ہماری چاکری کرتے چلے آئے ہو۔ ہمارے فیصلوں کے خلاف سوچنے کی بھی تم نے کبھی ہمت نہیں کی ‘ تمہاری زندگی کا کوئی فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف کبھی نہیں ہوا لیکن شعیب کی دعوت تمہیں اللہ کی بندگی کے سوا باقی سب سے آزادی کی دعوت دے رہی ہے وہ تمہیں مساوات انسانی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ تم یہ سمجھنے لگے ہو کہ اللہ نے سب انسانوں کو آزاد اور برابر پیدا کیا ہے اگر تم نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا ہم سے کھلا تصادم ہوگا اور پھر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کس طرح کے نقصان اور خسارے میں پڑجاؤ گے۔ تمہارے مستقبل کے ساتھ ساتھ تمہارے بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری زندگیوں کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں۔ تمہاری خواتین کی عزتیں پامال ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے ‘ تمہاری معاشی زندگی ایک عذاب بن کے رہ جائے اور تمہارے لیے زندگی کا سانس لینا زندگی کا سب سے مشکل مسئلہ بن جائے۔ اگر تم ان خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہو تو پھر شوق سے شعیب پر ایمان لائو اور اس کی دعوت کو قبول کرو اور اگر ان خطرات کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں تو پھر تمہیں ایمان لانے سے پہلے سو دفعہ سوچ لینا چاہیے۔ دوسرا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ شعیب جس ایمانداری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق و دیانت کے جن مستقل اصولوں کی پابندی کرانا چاہتا ہے ‘ اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہراہوں کے چورا ہے پر بستے ہیں اور مصر و عراق کی عظیم الشان متمدن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کردیں اور بےضرر اور پرامن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پوزیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق، راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھوٹ اور بےایمانی اور بداخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبردست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہوجائے گی۔ دونوں مطالب میں سے کوئی مطلب بھی مراد لیا جائے مقصود قوم شعیب کا ان لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور وارننگ دینا تھا کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی غلطی کی یا ایمان لا کر ان کے اتباع پر ثابت قدم رہے تو پھر سوچ لو تمہارا انجام کیا ہوگا جب اس قوم کی جسارتیں اس حد تک پہنچ گئیں کہ پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو براہ راست دھمکی دی کہ اگر تم نے ہمارے دین کی مخالفت نہ چھوڑی اور نئے دین کی دعوت بند نہ کی تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے جب دیکھا کہ انھوں نے اس سے کوئی اثر قبول نہیں کیا اور ان کی ثابت قدمی میں کوئی فرق نہیں آیا تو پھر مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گویا انھوں نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اس معاملے کو ختم کر کے ہی دم لینا ہے تو اللہ کا غضب جوش میں آیا اور اس کے دائمی قانون کے مطابق ان کی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا۔ اگلی آیات کریمہ میں اسی عذاب کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top