بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کیا گزرا ہے انسان پر کوئی وقت لامتناہی زمانے میں جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا
ھَلْ اَ تٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔ (الدہر : 1) (کیا گزرا ہے انسان پر کوئی وقت لامتناہی زمانے میں جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ ) ھَلْ کا مفہوم ھَلْ اَ تٰی عَلَی الْاِنْسَانِ … آیت کے اس پہلے فقرے میں ” ھَلْ “ کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ” ھَلْ “ قَد کے معنی میں ہے جس سے جملے کے معنی میں تاکید پیدا کرنا مقصود ہے۔ لیکن بیشتر اہل علم اس کو استفہام ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ” ھَلْ “ کبھی بھی قَد کے معنی میں نہیں ہوتا۔ جہاں اس کا شبہ ہوتا ہے تو وہ قلت فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ استفہام ہرحال میں سوال ہی کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ ہماری زبان کی طرح عربی زبان میں بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کبھی تو استفہام کسی بات کو پوچھنے کے لیے آتا ہے کہ فلاں واقعہ ہوا ہے یا نہیں۔ اور کبھی انکار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی سوال اس غرض کے لیے کیا جاتا ہے کہ مقصود مخاطب کے ذہن کو کسی بات پر سوچنے کے لیے مجبور کرنا ہوتا ہے۔ علیٰ ھذا القیاس مختلف اغراض اور متفرق معانی کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے جس کا تعین سیاق وسباق سے کیا جاتا ہے۔ آیت زیربحث میں سوالیہ فقرہ دراصل صرف سوال کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ مخاطب کو سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے کہ جس پروردگار نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر حالت سے کرکے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا، وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہوگا۔ دَھْر سے مراد حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ … دَھْر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتداء انسان کو معلوم ہے اور نہ انتہاء۔ اور حِیْنٌ سے مراد اس لامتناہی زمانے کے اندر ایک خاص زمانہ مراد ہے جس میں کوئی ایسی کام وجود میں آیا ہو جو گفتگو کرتے ہوئے متکلم کے پیش نظر ہو۔ اس لحاظ سے اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ ایک ایسا زمانہ جو ازل اور ابد کی شان رکھتا ہے اس کے ایک مخصوص زمانے میں انسان کی تخلیق کا فیصلہ ہوا اور اسے عدم سے وجود میں لانے کا آغاز ہوا۔ اس سے مراد وہ وقت بھی ہوسکتا ہے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو وجود دیا گیا۔ اور اگر سائنس کی تشریح کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب وہ ایک جرثومے کی شکل میں وجود میں آیا اور پانی، کیچڑ، مٹی کے اندر رینگنے والی ایک حقیر مخلوق کی حیثیت اختیار کی۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے اور اکثر اہل علم نے اسی کو مراد لیا ہے کہ اس سے مراد وہ وقت ہے جب میاں بیوی کے اتصال سے ایک نئے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوا۔ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا … جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تخلیق کا آغاز تو ہوگیا تھا لیکن ابھی وہ ایسے مرحلے میں تھا کہ انسان کی حیثیت و عظمت کو دیکھ کر اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، جس کی تفصیل بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ میاں بیوی کے اتصال سے پہلے باپ کے نطفے میں پیدا ہونے والے بچے کا ایک حصہ خوردبینی کیڑے کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور دوسرا حصہ ماں کے نطفے میں ایک خوردبینی بیضے کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ یہ تجزیہ آج کا انسان تو کرسکتا ہے لیکن بہت مدت نہیں گزری جب انسان یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ پیدا ہونے والا بچہ باپ کے نطفے کے کیڑے اور ماں کے نطفے کے بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے۔ اب طاقتور خوردبینوں سے ان دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اس کیڑے میں اور کتنا انسان ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتا ہے۔ پھر استقرارِ حمل کے وقت ان دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خلیّہِ (Cell) وجود میں آتا ہے۔ ایک ایسا ذرہ بےمقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقتور خوردبین ہی سے نظر آسکتا ہے اور اسے دیکھ کر بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوئی انسان بن رہا ہے یا کچھ اور۔ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حقیر سی ابتداء سے نشو و نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی۔ تو وہ کس قدوقامت، کس شکل و صورت، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جس پروردگار نے ایک ناقابلِ ذکر چیز کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک ایسے انسان کی شکل میں پیدا کیا جو کائنات کا گل سرسبد اور اشرف المخلوقات ہے کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ تمام کائنات کو تباہ کرنے کے بعد نئی تخلیق سے ہر چیز کو بروئے کار لائے اور انسانوں کو میدانِ حشر میں جمع کرکے ان کے اعمال کا حساب لے۔
Top