Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 19
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ١ۚ اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا
وَيَطُوْفُ : اور گردش کرینگے عَلَيْهِمْ : ان پر وِلْدَانٌ : لڑکے مُّخَلَّدُوْنَ ۚ : ہمیشہ (نوعمر) رہنے والے اِذَا رَاَيْتَهُمْ : جب تو انہیں دیکھے حَسِبْتَهُمْ : تو انہیں سمجھے لُؤْلُؤًا : موتی مَّنْثُوْرًا : بکھرے ہوئے
اور ان اہل جنت کی خدمت میں ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو گے
وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ج اِذَارَاَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْـثُـوْرًا۔ (الدہر : 19) (اور ان اہل جنت کی خدمت میں ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو گے۔ ) اہلِ جنت کے خدام اہلِ جنت کی خدمت کے لیے جن خدام کو لگایا جائے گا وہ بڑی عمر کے لوگ نہیں بلکہ نوخیز لڑکے ہوں گے جنھیں قرآن کریم میں غلمان کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ اپنی عمر کے اعتبار سے وہ یقینا نہایت چاک و چوبند، چست اور سرگرم ہوں گے جو خدمت کرکے لطف اٹھائیں گے اور اہل جنت ان کی خدمت کے انداز سے محظوظ ہوں گے۔ مزید فرمایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ نوجوان ہی رہیں گے۔ ان کے سن و سال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جس کی وجہ سے ان کی مستعدی برابر قائم رہے گی اور مسلسل خدمت کا فرض انجام دینے کی وجہ سے ان کے اندر مخدوموں کا مزاج، عادت اور ذوق پہچاننے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجائے گی۔ دنیا میں بعض ایسی کمزوریاں ہیں جن کا تدارک ممکن نہیں۔ نوجوانی میں مستعدی، سرگرمی اور جوش پایا جاتا ہے لیکن تجربے میں کمی کے باعث مختلف مزاجوں کو سمجھنے کی صلاحیت میں کمی رہتی ہے اور جن لوگوں میں مسلسل تجربے کے باعث صلاحیت توانا ہوجاتی ہے وہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ چستی اور سرگرمی سے محروم ہوجاتے ہیں جبکہ خدمت کے لیے ان دونوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان خدام کو ان دونوں جوہروں سے مالامال رکھیں گے تاکہ اہل جنت کی خدمت میں کبھی کمی نہ رہے۔ اِذَارَاَیْتَہُمْ حَسِبْتَہُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْـثُـوْرًا … احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص جوانِ رعنا ہوگا، حُسنِ صورت میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اس کی شخصیت خوشیوں کا مرقع اور مسرتوں کی خوشبو بکھیرنے والی ہوگی۔ اس کا ذوق نہایت پاکیزہ، نہایت بلند اور نہایت نازک ہوگا۔ ایسے لوگوں کی خدمت کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ سلوٹوں سے اٹے ہوئے چہرے، میلے کچیلے ہاتھ اور بےذوقی کے پتلے ان کے گرد جمع کردیئے جاتے جو انھیں بجائے خوشیاں دینے کے تکدر کا ذریعہ بنتے۔ جنت چونکہ خوشیوں کا مرکز اور ہر طرح کے آزار سے پاک جگہ کا نام ہے اس لیے جس چیز سے تکدر کا شبہ بھی ہوتا ہو اس کے وہاں داخلے کی بھی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ اس لیے خدام ایسے رکھے گئے جن کے جمال، جن کی نظافت، جن کی خوش ادائی اور جن کی خوش لباسی کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوگا جیسے یہ انسانی شکلوں میں چمکتے ہوئے موتی ہیں جو اہل جنت میں خدمت کی غرض سے بکھیر دیئے گئے ہیں۔
Top