Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 28
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ١ۚ وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں پیدا کیا وَشَدَدْنَآ : اور ہم نے مضبوط کئے اَسْرَهُمْ ۚ : ان کے جوڑ وَاِذَا شِئْنَا : اور جب ہم چاہیں بَدَّلْنَآ : ہم بدل دیں اَمْثَالَهُمْ : ان جیسے لوگ تَبْدِيْلًا : بدل کر
ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں اور ہم جب چاہیں گے ٹھیک ٹھیک ان ہی کی مانند بدل دیں گے
نَحْنُ خَلَقْنٰـہُمْ وَشَدَدْنَـآ اَسْرَھُمْ ج وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْـنَـآ اَمْثَالَھُمْ تَبْدِیْلاً ۔ (الدہر : 28) (ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں اور ہم جب چاہیں گے ٹھیک ٹھیک ان ہی کی مانند بدل دیں گے۔ ) مخالفین کو دھمکی اور ایک شبہ کا جواب قریش اور دیگر اہل مکہ دنیا کی محبت میں اندھے ہو کر عقل اور نصیحت کی کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آخرت کے بارے میں قرآن کریم کی تنبیہات بھی ان پر اثرانداز نہیں ہو رہیں کیونکہ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے دل و دماغ میں دنیا طلبی کے سوا اور کوئی خیال نفوذ اختیار نہیں کرتا۔ چناچہ اپنے اس اندھے پن کے باعث قیامت اور آخرت کے وقوع میں قسم قسم کے اشتباہات پیدا کرتے ہیں جس میں سب سے بڑا اعتراض ان کا یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں سالوں میں جو لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور آج ان کا نام و نشان بھی کہیں موجود نہیں، آخر انھیں ازسرنو کیسے جسم و جان کے ساتھ اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا محال امر ہے جس کے وقوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چناچہ ان کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے پیش نظر آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کاش یہ اعتراض کرنے والے کبھی سوچیں کہ ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کیے کہ آج ان میں سے کسی کو اپنی جسمانی قوت پر فخر ہے اور کسی کو اپنی طلاقتِ لسانی پر، کسی کو اپنی شہ سواری پر ناز ہے اور کسی کو اپنی چابکدستی پر، لیکن وہ اس بات پر غور کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے کہ جس پروردگار نے انھیں پہلے تخلیق فرمایا اور پھر انھیں جسم کی مختلف رعنائیوں سے نوازا، اب کیا اس کی قدرت بانجھ ہوگئی ہے کہ وہ دوبارہ انسانوں کو پیدا نہیں کرسکتا۔ ان کے رگ پٹھے اور جوڑ بند کا ذکر شاید اس لیے فرمایا گیا ہے کہ یہ جسم کے نازک ترین حصے ہیں لیکن ان پر پورے جسم کا بوجھ ڈالا گیا ہے، مجال کیا ہے کہ وہ کہولت کی عمر سے پہلے کبھی کام کرنے میں کمی بیشی کریں۔ ہاتھ پائوں اور انگلیوں کے بعض ریشے اور جوڑوں میں استعمال ہونے والے اعصاب اس قدر نازک ہیں کہ چھو جانے سے بھی ان کا ٹوٹ جانے کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ کثرت استعمال کے باوجود وقت سے پہلے کبھی کسروانکسار سے دوچار نہیں ہوتے۔ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْـنَـآ اَمْثَالَھُمْ تَبْدِیْلاً … اس فقرے کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اس قدر وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ وہ جب چاہے فناو زوال کے ہزاروں مراحل کے بعد بھی ایسے ہی نازک لیکن مضبوط جوڑ بند کے انسان وجود میں لاسکتا ہے کیونکہ اس کے لیے کوئی چیز محال نہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ پروردگار جب چاہے ان سرکشی کرنے والوں کو ہلاک کرکے انہی کی جنس کے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ لے آئے جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ معنی مراد لیا جائے کہ پروردگار جب چاہے ان کی شکلیں بدل ڈالے۔ کسی کو مفلوج کردے، کسی کا چہرہ مسخ کردے، کسی کو بیماری کا شکار کردے۔ جس پروردگار کی قدرت میں یہ سب کچھ ہو لیکن وہ اپنے بندوں پر ہمیشہ رحم کرے بجائے اس کے کہ اس کی قدرت کو چیلنج کیا جائے اس کی رحمت کا طلبگار ہونا چاہیے۔ شَدَدْنَـآ اَسْرَھُمْ … شَدَّ اَسْرً ا کے معنی ہڈیوں اور اعصاب کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جوڑنے کے ہیں۔
Top