Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 30
وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۗۖ
وَمَا تَشَآءُوْنَ : اور تم نہیں چاہوگے اِلَّآ : سوائے اَنْ : جو يَّشَآءَ اللّٰهُ ۭ : اللہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور تم نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقینا اللہ تعالیٰ بڑا علیم و حکیم ہے
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ ط وَالظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّلَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۔ (الدہر : 30، 31) (اور تم نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقینا اللہ تعالیٰ بڑا علیم و حکیم ہے۔ اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ) توفیق کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کتاب نصیحت و ہدایت بنایا اور نبی کریم ﷺ کو ہادی بنا کر بھیجا اور اس ہدایت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور شعور بخشا اس کی فطرت کو فجور اور تقویٰ کا الہام کیا۔ اور نفس لوامہ سے کسی حد تک اس کی مدد فرمائی۔ باایں ہمہ انسان کی ہدایت کو اپنی سنت اور قانون کا پابند ٹھہرایا۔ وہ یہ کہ کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اس کی اپنی مشیت پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ اس کو نصیحت اس وقت نصیب ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہو کہ وہ اسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا بلکہ ہر فعل اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مشیت بندے کی مشیت سے اس وقت ملتی ہے جب وہ اپنے سمع و بصر سے کام لے اور خیر و شر اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی اس صلاحیت کی قدر کرے جو اس نے اس کے اندر ودیعت فرمائی ہے اور برابر اللہ تعالیٰ سے توفیق کی التجا کرتا رہے۔ مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان صلاحیتوں سے کام لینے کی بجائے حُبِ دنیا کا اسیر ہو کر عیش و عشرت کو ہی اپنا مقصد زندگی بنا لے اور کسی کلمہ نصیحت کو سننے کا روادار نہ ہو، ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی ہدایت سے محروم رہتا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم تیار کر رکھی ہے اور ان کا یہ انجام صرف اس وجہ سے ہوگا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لینے کی بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرکے اپنے اوپر ظلم کیا اور بجائے اپنے آپ کو رحمت کا مستحق بنانے کے جہنم کا مستحق بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بندوں کے حالات سے بخوبی واقف ہے اس لیے وہ اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر بندوں کے بارے میں فیصلے فرماتا ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ محرومی کے فیصلے کی زد میں آجاتے ہیں۔
Top