Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
وہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہمہ گیر ہوگی
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا۔ (الدہر : 7) (وہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہمہ گیر ہوگی۔ ) ابرار کی پاکیزہ فطرت اور ان کی صفات کسی نیک کام کرنے کا عہد کرلینا اور اسے اپنے اوپر لازم کرلینا اسے نذر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے جنھیں ابرار کے نام سے یاد کیا گیا ہے جن کی فطرت اور سرشت میں ایفائے عہد کی روح کارفرما ہے۔ وہ جب کسی نیک کام کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیتے ہیں تو پھر اسے پورا کرنا ازبس ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کو اس سیاق وسباق میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جن نیک بندوں کا حال یہ ہے کہ وہ خود جس نیکی کے کام کو اپنے اوپر لازم کرلیں تو اس کی مخالفت کرنے کا تصور نہیں کرسکتے تو ان کے بارے میں یہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے ان پر لازم کر رکھے ہیں جو ان کے فرائض اور واجبات میں شامل ہیں اور جنھیں بجالانے کا انھوں نے عہد کر رکھا ہے وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ تو کہنا صرف یہ ہے کہ ابرار کی اصل علامت اور پہچان یہ ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حالت میں اور ساری زندگی بقدرہمت اللہ تعالیٰ کے وفادار، اس کے شریعت کے پابند اور اس کے رسول کی سنت کے اتباع کرنے والے ہیں۔ نذر کی حقیقت کو جاننے کے لیے تو جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے وہ کافی ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات کے لیے فقہ کی کتابوں کی ورق گردانی کرنا پڑے گی اور یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ البتہ بہت اختصار کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن طبیعتوں میں نیکی کا جذبہ ہوتا ہے وہ بعض دفعہ اس جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر بعض ایسے نیکی کے کام اپنے اوپر لازم کرلیتے ہیں جسے مذہب نے لازم نہیں کیا ہوتا۔ اس لحاظ سے نذر کا تصور اسلام کا پیدا کردہ نہیں بلکہ اس کی اہمیت سابق ادیان میں بھی رہی ہے۔ وہ لوگ بھی جب کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتے تو اس کی اہمیت کے پیش نظر، نذر مان لیتے تھے۔ اسلام نے اس تصور کی تہذیب کرتے ہوئے اس کے بارے میں تفصیلی احکام دیئے ہیں۔ ان کے پیش نظر فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرے کہ وہ اس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں شکرانے میں فلاں نیک کام کروں گا۔ یہ دونوں قسم کی نذریں فقہاء کی نگاہ میں بالکل صحیح ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ انھیں پورا کرنا واجب ہے۔ اور ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذرتبرّر کہا جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کسی ناجائز کام کو کرنے یا کسی واجب کام کے نہ کرنے کا عہد کرے۔ چوتھے یہ کہ آدمی مباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا یا کوئی خلاف اولیٰ کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان میں سے تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اسے پورا کرنا چاہیے، بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردینا چاہیے اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ نذر پوری کرے یا کفارہ ادا کرے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشادات میں اس اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن پہلی تینوں قسم کی نذروں کے بارے میں فقہاء کی آرا بالکل واضح ہیں اور وہی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا … مُسْتَطِیْر، کا معنی عام اور ہمہ گیر ہے۔ اسے ابرار کی نئی صفت بھی کہا جاسکتا ہے اور ایفائے نذر کی علت بھی۔ اگر نئی صفت قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے جنھیں ابرار کہا گیا ہے وہ ہمیشہ اندیشہ آخرت سے گراں بار رہتے ہیں۔ ان کا ہر فرد چاہے وہ کیسی ہی ذاتی حیثیت کا مالک ہو، آخرت کی ہولناکی سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس دن کی ہولناکی اس قدر ہمہ گیر اور عام ہوگی کہ کوئی شخص بھی اس کی دست برد سے بچا ہوا نہیں ہوگا۔ وہی لوگ اس سے محفوظ رہیں گے جنھیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا۔ اور اگر اسے ایفائے نذر کی علت قرار دیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر تو ہر وقت کاربند رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے سرتابی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ بلکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے زائد بھی کسی نیکی کی نذر مان لیتے ہیں تو اس کا بھی ایفاء کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے دن سے واسطہ پڑنے والا ہے جس کی آفت نہایت عام اور ہمہ گیر ہوگی۔
Top