Ruh-ul-Quran - An-Naba : 36
جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًاۙ
جَزَآءً : بدلہ ہے مِّنْ رَّبِّكَ : تیرے رب کی طرف سے عَطَآءً : بدلہ/ بخشش حِسَابًا : بےحساب/ کفایت کرنے والی
جزاء اور کافی انعام تیرے رب کی طرف سے ہے
جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَـآئً حِسَابًا۔ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَـھُمَا الرَّحْمٰنِ لاَ یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ (النبا : 36، 37) (جزاء اور کافی انعام تیرے رب کی طرف سے ہے۔ جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، بڑی رحمت والا ہے، یہ اس سے بات کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ) جنت کے اعمال کا صلہ بھی اور اللہ تعالیٰ کی عطا بھی اوپر جنت کی جن نعمتوں کا ذکر آیا ہے یہ جزاء ہے مومنین کے لیے اور عطا ہے ان کے رب کی طرف سے۔ یعنی یہ دادودہش اور یہ قدرافزائی ایک تو یہ مومنوں کے اعمال کا صلہ ہے کہ انھوں نے ہر طرح کے حالات میں جس طرح اسلام قبول کیا پھر اس کے لیے استقامت دکھائی اور ہر طرح کی سہولتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا یہ نعمتیں اس کا بدلہ ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ اور اس کا انعام ہے۔ بظاہر ان دونوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے کیونکہ بدلہ اور جزاء تو اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے بدلے میں ہو۔ اور عطا وہ ہے جو کسی چیز کے بدلے کی بجائے بطور انعام اور احسان ہو۔ لیکن حقیقت میں ان میں تضاد نہیں۔ قرآن کریم نے ان دونوں لفظوں کو یکجا جمع کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت میں دخول اور اس کی نعمتیں صورت اور اور ظاہر کے اعتبار سے تو اہل جنت کے اعمال کی جزاء ہیں۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالص عطائے ربانی ہے۔ کیونکہ انسانی اعمال تو ان نعمتوں کا بدلہ بھی نہیں بن سکتے جو ان کو دنیا میں میسر ہیں۔ آخرت کی نعمتوں کا حصول تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا انعام ہے۔ ” حِسَابًا “ کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آئمہ تفسیر میں بعض نے پہلے اور بعض نے دوسرے معنی لیے ہیں۔ پہلا معنی یہ ہے حِسَابًا، عَطَائً ، کَافِیًا، کَثِیْرًا یعنی ایسی عطا جو اس کی تمام ضرورتوں کے لیے کافی وافی اور کثیر ہو۔ اور دوسرا معنی حساب کا موازنہ اور مقابلہ۔ حضرت مجاہد نے اس جگہ یہی معنی لے کر مطلب آیت کا یہ قرار دیا کہ عطائے ربانی اہل جنت پر ان کے اعمال کے حساب سے مبذول ہوگی۔ اس عطاء میں درجات بحسابِ اخلاص اور احسانِ عمل کے ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ اہل ایمان کے لیے یہ صلہ جو اوپر مذکور ہوا اس خدائے رحمن کی طرف سے ہوگا جو آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی ساری ہی چیزوں کا مالک ہے۔ کوئی دوسرا کسی چیز میں اس کا شریک وسہیم نہیں۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ باوجود اس کے کہ اہل جنت پر انعامات کی بارش ہوگی۔ باایں ہمہ میدانِ حشر میں رعب اور ہیبت کا عالم یہ ہوگا کہ کسی کو اپنے رب سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑے گی۔ اور کسی میں لب کشائی کی طاقت نہیں ہوگی۔ غالباً یہ بات مشرکین کی غلط فہمی کے ازالے کے لیے بھی فرمائی گئی ہے کیونکہ وہ عقیدہ شفاعت کے غلط تصور کی وجہ سے نچنت بیٹھے تھے اور انھیں اس خیال سے بڑا سہارا ملتا تھا کہ اگر قیامت آئی بھی تو ہماری واپسی اپنے معبودوں کی طرف ہوگی اور وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی رسائی رکھتے ہیں، وہ جو چاہیں گے خدا سے کہہ سکیں گے اور جو چاہیں گے منوا سکیں گے۔ اس لیے فرمایا کہ وہاں تو اذن خدا وندی کے بغیر کسی کو لب کشائی کی بھی ہمت نہیں ہوگی، بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو یہ اعزاز عطا فرمائے۔
Top