Ruh-ul-Quran - An-Naba : 39
ذٰلِكَ الْیَوْمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا
ذٰلِكَ : یہ ہے الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ : دن برحق فَمَنْ : پس جو کوئی شَآءَ : چاہے اتَّخَذَ : بنالے اِلٰى رَبِّهٖ : اپنے رب کی طرف مَاٰبًا : ٹھکانہ
وہ دن برحق ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرے
ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ ج فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ مَاٰ بًا۔ (النبا : 39) (وہ دن برحق ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرے۔ ) اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس قوم پر عذاب نہیں بھیجتا اور نہ قیامت کے روز ان سے بازپرس کرے گا جن پر اتمامِ حجت نہ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے محض اپنے فضل و کرم سے یہ بات لے رکھی ہے کہ میں کسی کو بھی پکڑنے سے پہلے کسی نہ کسی ڈرانے والے کو اس قوم میں ضرور بھیجوں گا۔ وہ ان کے سامنے ضروریاتِ دین کو واضح کرے گا اور اس نظام حق کی ایک ایک بات کو کھولے گا جس پر عمل کرنے سے آخرت میں سرخروئی ملتی ہے۔ اور جب کسی پیغمبر کے واسطے سے اس فرض کو انجام دے دیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ اسی کو براء تِ ذمہ کہتے ہیں۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کی بعثت مبارکہ سے اس ذمہ داری کو باحسن طریق انجام دے دیا گیا۔ اور اب اہل عرب کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے یہ فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کا آنا یقینی ہے، کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ تم پر یہ بات پوری طرح واضح کردی گئی ہے۔ تو جس شخص کو آخرت کی سرخروئی عزیز ہے اور وہ جہنم کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے تو وہ اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔ یعنی وہ راستہ جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے۔
Top