Ruh-ul-Quran - An-Naba : 4
كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَۙ
كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ : ہرگز نہیں عنقریب وہ جان لیں گے
ہرگز نہیں، وہ عنقریب جان لیں گے
کَلاَّ سَیَعْلَمُوْنَ ۔ ثُمَّ کَلاَّ سَیَعْلَمُوْنَ ۔ (النبا : 4، 5) (ہرگز نہیں، وہ عنقریب جان لیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، وہ جلد جان لیں گے۔ ) منکرین کے استہزاء کا جواب اور تنبیہ اہلِ مکہ نے جس طرح قیامت جیسی اہم حقیقت کو استہزاء کا موضوع بنا لیا تھا اور اپنی مجلسوں میں اس طرح کے سوال و جواب کیے جارہے تھے گویا یہ حقیقت نہیں بلکہ بازاری لوگوں کا بنایا ہوا کوئی قصہ ہے۔ اس پر نہایت زوردار الفاظ میں تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ پہلے حرف تنبیہ لایا گیا پھر فعل مضارع پر حرف استقبال لا کر اس تنبیہ میں اضافہ فرمایا گیا۔ اور فعل وہ لایا گیا جو بجائے خود تنبیہ پر دلالت کرتا ہے۔ اور مزید یہ کہ جملے کی تکرار کے ساتھ اس تنبیہ کو تاکید کی انتہاء تک پہنچا دیا گیا۔ حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور ان کا جس طرح کا رویہ ہے اور جس طرح قیامت کے تصور کو انھوں نے ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے ان تمام باتوں کا انجام وہ عنقریب دیکھ لیں گے۔ تب انھیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم جو کچھ کہتے تھے ان میں سے کوئی بات صحیح نہ تھی۔ حقیقت وہی تھی جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی۔ بعض اہل علم نے اس میں ایک لطیف نکتہ پیدا کیا ہے کہ یہاں جملے کا تکرار تاکید کے لیے نہیں بلکہ بیان حقیقت کے لیے ہے۔ پہلے جملے میں جس سے باخبر کیا گیا ہے وہ، وہ عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ان کی امتوں پر آتا رہا ہے اور تمام معذب قومیں جس کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔ اور دوسرے جملے میں آخرت کے عذاب کا ذکر ہے۔ اہل مکہ کو ان دونوں عذابوں سے ڈرایا گیا ہے۔ اس لیے ایک جیسے دو جملے لا کر ان دونوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ اگر تم آنحضرت ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ کی نبوت کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تم پر دنیا میں بھی عذاب آسکتا ہے۔ اور جہاں تک آخرت کا تعلق ہے وہاں کا عذاب تو ہر کافر کے لیے ایک حقیقت ہے۔
Top