Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 22
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ الصُّمُّ : بہرے الْبُكْمُ : گونگے الَّذِيْنَ : جو کہ لَا يَعْقِلُوْنَ : سمجھتے نہیں
بیشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو سمجھتے نہیں
اِنَّ شَرَّالدَّ وَآبِّ عِنْدَاللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَایَعْقِلُوْنَ ۔ (الانفال : 22) (بےشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو سمجھتے نہیں۔ ) بدترین خلائق لایعقل جانور ہیں ” دَوَآبٌّ“ دابّۃٌ کی جمع ہے۔ اہل لغت کے نزدیک ہر زمین پر چلنے والے کو دابّۃ کہا جاتا ہے۔ مگر عرف ومحاورہ میں صرف چوپایہ جانوروں کو دابّۃ کہتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات سے افضل پیدا فرمایا ہے۔ اس کی تخلیق احسن تقویم میں ہوئی ہے۔ اسے صلاحیتوں سے مالا مال کیا گیا ہے۔ اسے حواس خمسہ عطا فرمائے گئے ہیں۔ جس سے وہ محسوسات میں راہنمائی لیتا ہے۔ پھر اسے جوہرِ عقل عطا فرمایا گیا ہے جس سے حواس سے حاصل کردہ معلومات کو عقل کی قوت سے کام لے کر ایجادات واختراعات میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح دنیا میں ایسا تنوع، ایسی رنگا رنگی اور ایسی جدت کو بروئے کار لاتا ہے جس سے انسانی زندگی حیوانیت سے بالکل الگ ہو کر اپنی وسعت اور ہمہ ہمی میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور پھر یہی وہ عقل ہے جو قوت تمیز بن کر خیر وشر کی شناخت میں انسان کو راہنمائی مہیا کرتی ہے۔ اللہ کے ہاں جزا وسزا کا ترتب اللہ کی عطا کردہ اسی قوت پر ہوتا ہے۔ تو جو شخص عقل سے کام نہیں لیتا اس کے لیے ناممکن ہے کہ وہ جہانِ خیر وشر میں کسی ایسے فیصلے تک پہنچ سکے جو دنیا اور آخرت میں خیر و فلاح کا باعث ہو۔ یہ وہ انسانی سطح ہے جو ہدایت و ضلالت کے حوالے سے پیغمبروں کی اصل مخاطب ہے۔ اس لیے جو آدمی اس سطح سے گر جاتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ حیوانیت کی سطح پر اتر گیا کیونکہ حیوان بھی اپنے پاس حواس کی دولت تو رکھتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی کے معمولات انجام دیتے ہیں۔ زندگی کی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ بچوں کو پالتے ہیں۔ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے اپنے بھٹ بناتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص حواس کی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے صحیح فیصلہ کرنا تو دور کی بات ہے وہ کسی بات کو نہ سنتا ہے اور نہ بولتا ہے یعنی کوئی اسے پکارتا ہے تو وہ سنتانھیں اور نہ خود کسی کو پکارتا ہے تاکہ کوئی اس کے کام آسکے۔ تو یہ وہ حیوان ہے جسے حیوانوں میں سے بھی بدترین قرار دیا گیا ہے۔ حیوانوں میں بھی عزت کے لائق وہی حیوان ہوتے ہیں جو اپنے مالک کی بات سنتے ہیں اور وہ حیوان جو گدھے کی طرح صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں وہ حیوانوں میں بھی حیوانوں جیسی عزت نہیں پاتے۔ مدارج کی اس تقسیم کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا کہ جو منافقین اللہ کے رسول جیسی دلآویز شخصیت اور دل میں اتر جانے والے لب و لہجہ کو بھی سننے کے قابل نہیں سمجھتے اور اگر سنتے بھی ہیں تو سننے کے تقاضوں پر کان نہیں دھرتے۔ تو یہ تو ایسے حیوان ہیں جو حیوانی صفات سے بھی محروم ہیں اور ایسے انسان ہیں جو انسانی صفات سے محروم ہیں کیونکہ یہ بہرے بھی ہیں اور گونگے بھی۔ یہی حیوانی صفات ہیں اور یہ عقل سے کام نہیں لیتے یہ انسانی صفت ہے۔ ایسے لوگوں کو خود سوچنا چاہیے کہ اس روش کا آخر انجام کیا ہوگا ؟ کیونکہ انسانی زندگی کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کی سنے، دوسروں سے پوچھے اور سمجھے اور پھر اپنی حاصل کردہ معلومات سے عقل کے ذریعے کچھ اخذ کرنے کی کوشش کرے اور جہاں تک انسان کی اجتماعی زندگی کا تعلق ہے اس کا آغاز سمع و اطاعت سے ہوتا ہے تو اس اجتماعیت میں رہنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نظم اور اپنے نظم کے سربراہ کی ہدایات کو سنیں، سمجھیں اور انھیں قبول کریں کیونکہ کوئی بھی اجتماعی نظم جسے دنیا میں اپنا وزن ڈالنا ہو اور جسے ایک مضبوط قوت بن کر اٹھناہو اور جس کے پیش نظر ایک صالح معاشرے کی تشکیل ہو اور جو خیر کی قوت بن کر دنیا کو راہ راست دکھانے کی فکر بھی رکھتاہو اس کی اصل قوت سمع و اطاعت میں مضمر ہوتی ہے۔ فوج ہر ملک کی منظم اور مضبوط قوت سمجھی جاتی ہے۔ اس کی تنظیم اور اس کی قوت کا راز کس بات میں ہوتا ہے ؟ صرف سمع اطاعت میں۔ کوئی سپاہی یا کوئی افسر فوج میں رہ کر اپنی مرضی کرنے کی عادت نہیں بنا سکتا۔ وہاں سب کو اپنے سے بالا کی بات سننا اور اطاعت کرنا پڑتی ہے اور اسی کے نتیجے میں ان کے اندر ایک ڈسپلن پیدا ہوتا ہے اور فوج کے تمام افراد ایک اکائی بن کر سیسہ پلائی دیوار میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان تین آیتوں میں بنیادی طور پر یہی حقیقت واشگاف کی گئی ہے کہ ایک مضبوط قوت بننے کے لیے تمہیں اپنے اندر سمع اطاعت کی خو پیدا کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو تم حیوانوں کی ایک بھیڑتو بن سکتے ہو ایک مضبوط امت نہیں بن سکتے۔
Top