Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 26
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاذْكُرُوْٓا : اور یاد کرو اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم قَلِيْلٌ : تھوڑے مُّسْتَضْعَفُوْنَ : ضعیف (کمزور) سمجھے جاتے تھے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے تھے اَنْ : کہ يَّتَخَطَّفَكُمُ : اچک لے جائیں تمہیں النَّاسُ : لوگ فَاٰوٰىكُمْ : پس ٹھکانہ دیا اس نے تمہیں وَاَيَّدَكُمْ : اور تمہیں قوت دی بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَرَزَقَكُمْ : اور تمہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہوجاؤ
اور یاد کرو ! جس وقت تم تھوڑے تھے اور ملک میں دبے ہوئے تھے ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک نہ لیں تو اللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی نصرت سے نوازا اور تم کو پاکیزہ نعمتوں کا رزق بخشا تاکہ تم شکر گزار بنو
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ ( الانفال : 26 ) (اور یاد کرو ! جس وقت تم تھوڑے تھے اور ملک میں دبے ہوئے تھے ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک نہ لیں تو اللہ نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی نصرت سے نوازا اور تم کو پاکیزہ نعمتوں کا رزق بخشا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ) اللہ کے خصوصی احسانات کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ان احسانات کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر بطور خاص کیے گئے ہیں اور جن کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ مکہ معظمہ میں تیرہ سال تک مسلمانوں نے نہایت اذیت ناک زندگی گزاری۔ ان کا اپنا شہر جس میں اللہ کا گھر اور اللہ کا حرم موجود ہے ان کے لیے جہنم بنادیا گیا تھا۔ قریش کی جانب سے جب ایذا رسانی انتہا کو پہنچ گئی تو مسلمانوں نے چھپ کردو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی لیکن مستقل طور پر تیرہ سالوں میں کہیں بھی دارالامان میسر نہ آسکا اور نہ دور دور تک کہیں اس کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ اہل مکہ نے جب رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے لیے اپنے دل بالکل بند کرلیے تو آپ نے طائف کا سفر فرمایا لیکن طائف کے سرداروں نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا اسے آپ ساری زندگی نہ بھول سکے۔ اسے اللہ کا غیر معمولی فیصلہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اچانک مدینہ منورہ کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ مدینہ کے آئے ہوئے حاجیوں میں سے 6 آدمی آپ سے ملے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر دوسرے سال ایک معقول تعداد آپ سے ملنے کے لیے آئی اور انھوں نے محض تقدیرِ الہٰی سے وہ فیصلہ کیا جو آپ کی ہجرت کا سبب بنا اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے حالات میں ایک ٹھکانہ اور دارالامان بخشا جبکہ مسلمانوں کی تعداد بھی بہت تھوڑی تھی اور قریش مکہ آپ کے اور دیگر مسلمانوں کے بارے میں نہایت مکروہ عزائم رکھتے تھے۔ آپ کے قتل کی منصوبہ بندی تو اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی تھی جب اللہ تعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور آپ قریش کی تمام کوششوں کے باوجود بخیریت تمام مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ پھر ابھی یہاں پہنچے ایک سال ہی ہوا ہوگا کہ آپ پر جنگ مسلط کردی گئی بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے کے ساتھ ہی آپ کو دھمکیاں دی جانے لگیں دشمنوں کو آپ کے خلاف انگیخت کیا جانے لگا۔ سازشوں کا ہر طرف جال پھیلادیا گیا لیکن ان تمام حالات میں اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر اپنی نصرت سے آپ کو نوازا۔ قریش نے جو قدم بھی اٹھایا وہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ بالآخر جنگ بدر ایک ہی سال کے بعد قریش کے لیے عذاب کی پہلی قسط ثابت ہوئی۔ ان کی اصل قوت میدان میں ڈھیر ہوگئی جبکہ مسلمانوں کے پاس مقابلے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ لیکن یہ سراسر اللہ کی تائید ونصرت تھی جس نے مسلمانوں کو جزیرہ عرب میں ایک قابل لحاظ قوت بنادیا۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ کوئی بہت بڑی بستی نہ تھی جس میں ہزاروں آدمیوں کے وسائل معاش کا انتظام ہوسکتا۔ لیکن ہجرت کے فرض ہوجانے کے بعد ہر مسلمان ہونے والا مدینہ منورہ کا رخ کرنے لگا اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہل مدینہ تنگ آکر ہر آنے والے کو اگلنا شروع کردیتے لیکن اس پر تاریخ ہمیشہ انگشت بدنداں رہے گی کہ آج جبکہ کہیں بھی مہاجرین کا سیلاب آتا ہے تو حکومتیں ہل کر رہ جاتی ہیں حالانکہ ہر حکومت کے پاس آج کے دور میں بےپناہ وسائل ہیں۔ لیکن اہل مدینہ نے جس طرح آنے والوں کے لیے اپنے دل وا کیے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے وسائل میں برکت عطا فرمائی وہ بجائے خود اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ جس کو بطور خاص ذکر فرمایا کہ اللہ نے تمہیں پاکیزہ نعمتوں کا رزق بخشا اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا تاکہ مسلمان اللہ کے شکر گزار ثابت ہوں۔ دنیا میں جابجا اللہ کی نعمتیں پھیلی ہوئی ہیں اور بڑے سے بڑا کافر ان سے شاد کام ہورہا ہے۔ لیکن مسلمان جو اپنے اللہ اور کائنات کے بارے میں حقیقی تصورات کا حامل ہے اسے جب یہ نعمتیں ملتی ہیں تو اس کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔ شکر ادا کرنے کی تین صورتیں ہیں۔ 1 زبان سے محسن کے احسانات کا تذکرہ کیا جائے، حمد وثنا کے کلمات سے اس کی تحسین کی جائے اور زبان کی پوری طلاقت لسانی کو ادائے شکر میں صرف کردیا جائے۔ 2 اعضاء وجوارح کو محسن کا شکر ادا کرنے کے لیے ہر ممکن خدمت کے لیے تیار کیا جائے۔ محسن آئے تو اس کے قدموں میں بچھنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ وہ کوئی کام کہے تو بلاتاخیر اسے بجا لایاجائے۔ یہ آرزو کی جائے کہ ایسی کون سی صورت ہو کہ میں اپنے محسن کے کسی کام آسکوں اور اس کی کسی ضرورت کو پورا کرسکوں جس سے میرا محسن مجھ سے خوش ہوجائے۔ 3 دل و دماغ کو محسن کے احسان کے تصور سے آباد رکھا جائے۔ دل حمد وثناء کے تصور سے معمور رہے جب بھی دل و دماغ میں محسن کا تصور آئے تو یوں محسوس ہو کہ بہارآگئی ہے۔ اللہ کریم کے بارے میں اس کی نعمتوں کو دیکھتے ہوئے اس کے مسلمان بندوں کے ایسے ہی تشکر کے جذبات ہونے چاہیئں۔ وہ زبان سے اللہ کی حمد وثناء کریں، زیادہ سے زیادہ اس کا ذکر کریں، دل و دماغ میں اس کی نعمتوں کی یاد تازہ کریں اور اپنے اعضاء وجوارح کو اس کی اطاعت پر لگا دیں۔ عبادات کے وقت میں عبادت ہو، معاملات میں عہد کی پابندی اور زبان کی پاسداری ہو۔ لوگوں سے میل جول میں حقوق کی رعایت ہو اجتماعی زندگی میں عدل و احسان کی عمل داری ہو، ہر سانس اس کی یاد میں آباد رہے اور دل کی ہر دھڑکن اسی کے تصور سے شاداب ہو اسی کے دین کے غلبے کی فکر رہے اسی کی رضا کا حصول زندگی کا سب سے بڑا ہدف بن جائے، حتٰی کہ اس کے دین پر زندگی کو قربان کردینا کامیابی کی علامت ٹھہرے۔
Top