Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! خیانت نہ کرو اللہ سے اور رسول سے اور خیانت نہ کرو آپس کی امانتوں میں، اس حال میں کہ تم جانتے ہو۔
یٰٓاَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَخُوْنُْوْٓا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ ع (الانفال : 27 تا 28) (اے ایمان والو ! خیانت نہ کرو اللہ سے اور رسول سے اور خیانت نہ کروآپس کی امانتوں میں، اس حال میں کہ تم جانتے ہو۔ اور جان لو کہ بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بیشک اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ ) شانِ نزول مفسرین نے ان آیات کا ایک شان نزول بھی لکھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہود کے قبیلوں میں سے بنو قریظہ کا قبیلہ ابھی تک مدینہ میں آباد تھا اس سے پہلے دو قبیلے اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کے ساتھ بقائے باہمی اور مدینہ کے دفاع کے معاہدے میں شریک تھا۔ لیکن غزوہ خندق میں جب یہود کے دوسرے قبیلے کے سرداروں نے انھیں انگیخت کیا اور بہکایا تو ان کے بہکاوے میں آکر انھوں نے مسلمانوں سے معاہدہ توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے لیے ایک ایسی خطرناک صورتحال پیدا کردی جس سے عہدہ برآ ہونا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خصوصی تائید اور نصرت سے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ ایک تیز آندھی اور طوفان نے کفار کی فوج کے خیمے الٹ دیئے، دیگیں اوندھی ہوگئیں، جانور رسیاں تڑاکر بھاگ نکلے، ایک ایسا ہراس طاری ہوگیا جس کا جدھر منہ اٹھا وہ پناہ کی تلاش میں ادھر چل پڑا۔ صبح ہونے تک ہزاروں کا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا غلبہ عطا فرمایا اور مسلمان دوپہر تک اپنے خیموں سے گھروں کو لوٹ آئے۔ لیکن عصر کی نماز سے پہلے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور اللہ کا حکم پہنچایا کہ بنو قریظہ کو عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے فوراً ان کا محاصرہ کرلیاجائے۔ شروع شروع میں تو بنو قریظہ نے بڑی ہیکڑی دکھائی لیکن 21 روز کے محاصرے نے ان کے تمام کس بل نکال دئیے۔ مجبور ہو کر انھوں نے نبی کریم ﷺ سے وطن چھوڑ کر ملک شام چلے جانے کی درخواست کی۔ لیکن آپ نے ان کی گزشتہ عہد شکنیوں کو دیکھتے ہوئے اس کو منظور نہیں فرمایا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ صلح کی ایک ہی صورت ہے کہ سعدبن معاذ ( رض) تمہارے بارے میں جو کچھ فیصلہ کریں اس پر راضی ہوجاؤ۔ انھوں نے درخواست کی کہ سعد بن معاذ ( رض) کی بجائے ابولبابہ ( رض) کو یہ کام سپرد کردیا جائے کیونکہ حضرت ابو لبابہ کے اہل و عیال اور جائداد بنو قریظہ میں تھے۔ اس لیے بنو قریظہ کا خیال تھا کہ حضرت ابو لبابہ ہمارے معاملہ میں رعایت کریں گے۔ آپ نے ان کی درخواست پر حضرت ابو لبابہ ( رض) کو بھیج دیا۔ بنو قریظہ کے سب مرد وزن ان کے گرد جمع ہو کر رونے لگے اور یہ پوچھا کہ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اتر آئیں تو کیا ہمارے معاملہ میں وہ کچھ نرمی فرمائیں گے۔ ابو لبابہ ( رض) کو معلوم تھا کہ ان کے معاملہ میں نرمی برتنے کی رائے نہیں ہے۔ انھوں نے کچھ ان لوگوں کی گریہ وزاری سے اور کچھ اپنے اہل و عیال کی محبت سے متاثر ہو کر اپنے گلے پر تلوار کی طرح ہاتھ پھیر کر اشارہ سے بتلا دیا کہ ذبح کیے جاؤ گے۔ گویا اس طرح آنحضرت ﷺ کا راز فاش کردیا۔ مال واولاد کی محبت میں یہ کام کر تو گزرے مگر فوراً تنبہ ہوا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خیانت کی ہے۔ جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ آپ کی خدمت میں لوٹنے کی بجائے سیدھے مسجد میں پہنچے اور مسجد کے ایک ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب انھیں رسول اللہ ﷺ ہی اپنے دست مبارک سے کھولیں گے اور وہ آئندہ بنو قریظہ کی سرزمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ محسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں دیر ہورہی ہے پھر جب تفصیلات کا علم ہوا تو فرمایا اگر وہ میرے پاس آگئے ہوتے تو میں ان کے لیے مغفرت کی دعا کردیتا اور توبہ قبول ہوجاتی۔ لیکن جب وہ وہی کام کربیٹھے ہیں تو اب میں بھی انھیں ان کی جگہ سے کھول نہیں سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے۔ حضرت ابو لبابہ ( رض) 6 رات مسلسل ستون سے بندھے رہے ان کی بیوی ہر نماز کے وقت آکر کھول دیتی اور وہ نماز سے فارغ ہو کر پھر اسی ستون سے بندھ جاتے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر صبح دم ان کی توبہ نازل ہوئی۔ اس وقت آپ حضرت ام سلمہ ( رض) کے مکان میں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابو لبابہ ( رض) کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہ نے اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر مجھ سے کہا : اے ابو لبابہ ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ یہ سن کر صحابہ انھیں کھولنے کے لیے اچھل پڑے، لیکن انھوں نے انکار کردیا کہ انھیں رسول اللہ ﷺ کی بجائے کوئی اور نہ کھولے گا۔ چناچہ جب نبی کریم ﷺ نماز فجر کے لیے نکلے اور وہاں سے گزرے تو انھیں کھول دیا۔ شانِ نزول میں اگرچہ صرف حضرت ابولبابہ ( رض) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے لیکن آیت کریمہ کا مفہوم ایک واقعہ میں محدود نہیں۔ پوری امت میں یہ بات مسلمہ ہے کہ اگر کوئی حکم قرآن کریم میں کسی خاص موقعہ پر نازل ہوا ہے تو اس موقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا بلکہ پوری امت اور تمام مواقع کے لیے عام ہوتا ہے۔ لیکن اس کے عموم کا ذکر کرنے سے پہلے اس واقعہ پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ حضرت ابو لبابہ ( رض) نے کوئی خیانت نہیں کی کوئی جرم نہیں کیا، بجز اس کے کہ بنو قریظہ سے پرانے تعلقات اور ان کے مردو زن کا رونا دھونا دیکھ کر ان کی طبیعت پسیج گئی اور انھوں نے چونکہ آپ کو مشورہ کے لیے طلب کیا تھا کہ ہمیں اپنے آپ کو قلعوں سے اتر کر نبی کریم ﷺ کے سپرد کردینا چاہیے یا نہیں۔ تو آپ کو چونکہ معلوم تھا کہ ان کے کرتوت اور ان کی خطرناک عہد شکنیوں نے معافی کے تمام دروازے بند کردیئے ہیں اور آنحضرت ﷺ کوئی سخت فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس لیے انھوں نے اشارۃً یہ بتلادیا کہ تمہاری خیر نہیں۔ اس سے یہ تو ممکن تھا کہ وہ چند دن اور اڑے رہتے اور مسلمانوں کو محاصرے کی مزید صعوبتیں اٹھانی پڑتیں۔ لیکن جو طے ہوچکا تھا اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا تھا وہ تو صاف نظر آرہا تھا۔ لیکن اس تھوڑی سی کوتاہی پر آنحضرت ﷺ کے راز کے افشا ہونے کے خیال سے حضرت ابو لبابہ پر خشیت الہٰی کا ایسا حملہ ہوا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا سامنا بھی نہ کرسکے بلکہ براہ راست اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کی تربیت کس قدر مکمل تھی اور وہ کس طرح اللہ سے ڈرتے تھے اور ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی رضا کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کی کوتاہی تاریخ میں وہ اہمیت نہیں رکھتی جو اہمیت ان کی توبہ کو ہے اور ان کے اس رویے کو ہے جو انھوں نے اختیار کیا۔ غلطی ہوجانا اور حالات کے تاثر میں بہہ جانا اگرچہ ایک کمزوری ہے لیکن یہ انسانی کمزوری ایسی ہے جس کا صدور عموما ً ہوجاتا ہے۔ لیکن جس طرح سے انھوں نے توبہ کی اور اپنی ذات کو اللہ کے سامنے سپر انداز کردیا وہ ایک ایسی مثال ہے جس پر تاریخ ہمیشہ ناز کرتی رہے گی کیونکہ : اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے اک بار خطا ہوجاتی ہے سو بار ندامت ہوتی ہے جہاں تک اس آیت کے مضمون کے عموم کا تعلق ہے۔ اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امانتوں سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں جو کسی بھی شخص پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے سپرد کی جاتی ہیں۔ خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ داریاں ہوں یا اجتماعی معاہدات کی یا جماعت کے رازوں کی یا شخصی یا جماعتی اموال کی یا کسی ایسے عہدہ ومنصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اس کے حوالے کردے۔ بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ امانت اس سرمائے کا نام ہے جو آدمی کسی شخص کے پاس حفاظت کے لیے بطور امانت رکھتا ہے۔ بلاشبہ یہ بھی امانت ہے لیکن جیسے میں نے عرض کیا کہ امانت کا ایک وسیع تصور ہے جس میں پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی سمٹ آتی ہے۔ ہم جس ذمہ داری اور جس منصب کو ایک حلف اور وعدے کے ساتھ قبول کرتے ہیں وہ درحقیقت ایک امانت ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی خیانت کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو دو آدمیوں کا آپس میں قول وقرار، دو قوموں کے درمیان معاہدات، ہر ذمہ داری سے متعلق رازوں اور فنڈز کی حفاظت، حتی کہ مجلسی باتوں کو دوسروں تک نہ پہنچانے کی احتیاط، یہ سب امانت کا حصہ ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے ایک تو امانت کے تصور کو محدود کردیا اور دوسرا اس کی اہمیت آہستہ آہستہ زندگی سے خارج کردی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پوری قوم زندگی کے ہر دائرے میں بےاعتبار ہو کر رہ گئی۔ جس مومن کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ مومن وہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی زندگی بھی اس کے پاس امانت رکھنے کے لیے تیار ہوجائیں اور انھیں بھروسہ ہو کہ ہماری زندگی کو ٹھیس نہیں لگے گی۔ وہ مومن ہر ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پوری طرح برہنہ ہو کر رہ گیا ہے اور ہماری زندگی کے فیصلے کرنے والوں کو نہ صرف کہ اس کا احساس نہیں بلکہ اس کا اندازہ بھی نہیں کہ ہم کتنے بڑے حادثے سے دوچار ہوچکے ہیں۔ دوسری آیت کریمہ میں وہ تمام ایمانی کمزوریاں جن کا تعلق عہد وفا سے ہو یا حقوق و معاملات سے، وہ مالی خیانتیں ہوں یا ذمہ داری کی خیانتیں، ان کا حقیقی سبب واضح فرمایا گیا ہے۔ انسان جب بھی راہ راست سے پھسلتا ہے یا کسی بھی خیانت کا ارتکاب کرتا ہے تو ہمیشہ اس کے پس منظر اور تہہ منظر میں مال کی محبت یا اولاد کی محبت کی کار فرماہوتی ہے۔ جو آدمی زندگی کا سب سے بڑا مقصد مال و دولت کے حصول کو بنالیتا ہے اسے دولت کی کوئی مقدار بھی آسودگی نہیں بخشتی بلکہ جب وہ کسی ایک مقدار پر پہنچتا ہے تو اس کی جوع البقر اور بھڑکتی ہے وہ استسقاء کے بیمار کی طرح اور زیادہ بےچین ہوتا ہے۔ ایک کارخانے کے بعد دوسرا کار خانہ اور ایک کوٹھی کے بعد دوسری کوٹھی اس کی بےکلی کا سبب بن جاتی ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے قدم بڑھاتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی بھوک اور پیاس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ آگ برابر پھیلتی چلی جاتی ہے تاآنکہ آدمی پر سکرات الموت طاری ہوجاتے ہیں۔ جس طرح مال و دولت کی محبت میں کہیں نقطہ انجماد نہیں اور نہ کہیں نقطہ اختتام ہے یہی حال اولاد کی محبت کا بھی ہے۔ آدمی اپنی ذات میں کفایت بھی کرلیتا ہے، محنت بھی کرتا ہے، مشکل وقت بھی گزار لیتا ہے، لیکن اولاد کا موہوم مستقبل ہمیشہ اسے پریشان رکھتا ہے۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ہوس اور بہتر سے بہتر سکول میں تعلیم اپنی بساط سے باہر ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کوئی جائز راستہ نظر نہیں آتا تو پھر ناجائز راستے اختیار کرنے میں بھی تأمل نہیں ہوتا۔ تاریخ کی بڑی بڑی غداریاں اور بڑی بڑی سازشوں میں شرکت یا مال و دولت کی محبت کی وجہ سے ہوئی ہے اور یا اولاد کی محبت کی وجہ سے۔ اس لیے قرآن کریم نے باربار انہی دونوں چیزوں کو انسان کے لیے آزمائش قرار دیا ہے کہ دیکھنا مال کی محبت تمہیں حلال اور حرام اور جائز ناجائز سے بےنیاز نہ کر دے۔ اسی طرح اولاد کی محبت حق سے انحراف کا ذریعہ نہ بنے۔ اگر تم نے محبت کے ان دونوں رشتوں پر حق کی مہر نہ لگائی اور تقویٰ کی زنجیر نہ پہنائی اور اللہ کا خوف دامن گیر نہ ہوا تو پھر یاد رکھو کہ تم اس آزمائش میں ناکام ہوجاؤ گے۔ یہ صحیح ہے کہ مال و دولت میں بڑی اپیل ہے اور اولاد بڑھاپے کا سہارا ہے لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو شخص ان دونوں کمزوریوں پر قابو پالیتا ہے اس کے لیے اللہ کے یہاں اجر عظیم ہے۔ اگر اجر عظیم پر ایک مومن مراقبہ کرلے تو کوئی غلط سے غلط اکساہٹ اسے خیانت پر مجبور نہیں کرسکتی۔
Top