Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّمَا
: جو کچھ
غَنِمْتُمْ
: تم غنیمت لو
مِّنْ
: سے
شَيْءٍ
: کسی چیز
فَاَنَّ
: سو
لِلّٰهِ
: اللہ کے واسطے
خُمُسَهٗ
: اس کا پانچوا حصہ
وَلِلرَّسُوْلِ
: اور رسول کے لیے
وَ
: اور
لِذِي الْقُرْبٰي
: قرابت داروں کے لیے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیموں
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور مسکینوں
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافروں
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
اٰمَنْتُمْ
: ایمان رکھتے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَمَآ
: اور جو
اَنْزَلْنَا
: ہم نے نازل کیا
عَلٰي
: پر
عَبْدِنَا
: اپنا بندہ
يَوْمَ الْفُرْقَانِ
: فیصلہ کے دن
يَوْمَ
: جس دن
الْتَقَى الْجَمْعٰنِ
: دونوں فوجیں بھڑ گئیں
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہیں غنیمت ملے تو بیشک اس کا خمس اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر ہم نے اپنے بندے پر اتاری فیصلہ کے دن جس دن بھڑ گئیں دونوں جماعتیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتََقَی الْجَمْعٰنِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ ( الانفال : 41 ) (اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہیں غنیمت ملے تو بیشک اس کا خمس اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری فیصلہ کے دن جس دن بھڑ گئیں دونوں جماعتیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) آپ کو یاد ہوگا کہ سورة ُ الانفال کی پہلی آیت میں مسلمانوں نے انفال یعنی مال غنیمت سے متعلق سوال کیا تھا۔ وہاں اس کا اجمالی جواب دیا گیا تھا اور پھر جنگ مسلمانوں اور ان کی مصلحت کے حوالے سے جو باتیں زیادہ ضروری تھیں ان کی طرف کلام کا رخ پھر گیا اور ایک سے دوسری حقیقت واشگاف ہوتی گئی ان بنیادی اور اساسی حقائق کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی سوال کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے۔ مالِ غنیمت سے کیا مراد ہے ؟ اور اس کی حیثیت میں نے عرض کیا کہ نفل اور غنیمت دونوں ایک ہی چیز ہیں غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو دشمن سے حاصل کیا جائے۔ اس لحاظ سے اسلامی شریعت میں اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ مال غنیمت ہے جو لڑائی اور دشمن کی شکست کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے۔ اسے غنیمت یا نفل کہتے ہیں اور دوسرا وہ مال غنیمت ہے جو بغیر لڑائی کے صلح اور رضامندی سے حاصل ہوجائے۔ مثلاً دشمن مرعوب ہو کر جزیہ دینے پر صلح کرلے یا خراج دینا قبول کرلے یا اپنی دشمنی اور جرائم کی معافی کے لیے اپنے مکان اور اپنی زمینیں چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ وہ جو کچھ چھوڑ کر جائے گا وہ سب کچھ مسلمانوں کے قبضے میں آجائے گا۔ اسے ” فَئی “ کہتے ہیں۔ مالِ غنیمت کے سہام کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلی بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس سورة کی پہلی آیت میں صرف اسی حقیقت کے ذکر پر اکتفا کیا گیا تھا وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام کائنات کا اصل مالک اللہ جل جلالہٗ ہے۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز پر اس کی ملکیت ہے۔ انسان براہ راست اپنی ذات میں کسی چیز کا مالک نہیں بجز اس کے کہ قانون کسی چیز کو اس کی ملکیت میں دے دے۔ سورة یٰسین میں جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اولم یروا انا خلقنا لھم مما عملت ایدینا انعام فھم لھا مالکون (کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ چوپائوں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا پھر لوگ ان کے مالک ہوگئے۔ ) یعنی تخلیق کے اعتبار سے ذاتی ملکیت صرف اللہ کو حاصل ہے انسانوں کو جانوروں پر تصرف کا حق ذاتی ملکیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ملکیت کی وجہ سے ہے جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔ انسانوں کی یہ ملکیت قانوناً اور اخلاقاً اس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک وہ اللہ کی حیثیت اور اس کے قانون کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب وہ کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرکے اللہ سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ اللہ کی عطاکردہ ملکیت سے محروم ہوجاتے ہیں اور قانونی اور اخلاقی طور پر ان کا جان ومال مباح ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کا عملی وقوع اس وقت ہوتا ہے جب ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے رسول بھیجتے ہیں کتابیں اتارتے ہیں اور اس طرح سے ان پر اتمامِ حجت کردیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ راہ راست اختیار نہیں کرتے اور بغاوت سے اطاعت کی طرف نہیں آتے تو پھر اللہ اپنے رسول اور رسول پر ایمان لانے والوں کو ان سے جہاد و قتال کا حکم دے دیتا ہے۔ ان کا قتل جائز ٹھہرتا ہے اور ان کے مال دوبارہ پھر خالصتاً اللہ کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور ان کا حق ملکیت ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے جہاد و قتال کے نتیجے میں مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ہاتھ آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملک سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوتا ہے کیونکہ کافروں کی ملک جب ختم کردی گئی تو پھر ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹ گئی اور صرف اس پر اللہ کی ملکیت باقی رہی۔ اب جب وہ مال مسلمانوں کی ملکیت میں آئے گا تو وہ اللہ کی ملکیت سے براہ راست منتقل ہو کر آئے گا اور درمیان میں کسی انسانی ہاتھ کا واسطہ نہیں ہوگا جبکہ انسان کے پاس جتنا مال اور جیسا مال بھی آتا ہے وہ انسانوں کے واسطہ سے آتا ہے چاہے وہ ہبہ کی صوت میں ہو، میراث کی صورت میں یاتجارت کے نتیجے میں ہر جگہ انسان انسانوں سے وصول کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ جو مال انسانی ہاتھوں سے آئے گا اس میں انسانی ہاتھوں کا میل بھی شامل ہوگا اور جو مال براہ راست اللہ کی ملک سے مسلمانوں کی ملک میں منتقل ہوگا وہ ایسی ہر آلودگی سے پاک ہوگا۔ چناچہ مال غنیمت کی اسی طہارت، پاکیزگی اور فضیلت کی وجہ سے پہلی امتوں کو اس کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ خالصتاً اللہ کی ملکیت ظاہر کرنے کے لیے حکم دیا گیا کہ ایسے مال کو کسی بلند جگہ پر رکھ دو تاکہ اللہ کی طرف سے آگ آکر اسے جلا دے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے اسے قبول فرمالیا۔ نبی کریم ﷺ پر پروردگار کے جو خصوصی انعامات ہوئے ہیں ان میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو جسے حدیث میں ” اطیب الاموال “ کہا گیا ہے، اس امت کو استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ لیکن اس تصور کو ان کے دل و دماغ میں راسخ کردیا کہ یہ کبھی مت بھولنا کہ یہ مال براہ راست اللہ کی ملکیت ہے۔ تمہاری ملک میں اللہ نے اپنی عطا کے طور پر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس بنیادی تصور نے مسلمانوں کو مال غنیمت کے بارے میں اس حد تک محتاط کردیا تھا کہ وہ اپنے طور پر مال غنیمت میں سے ایک سوئی لینے کے بھی روادار نہیں ہوتے تھے۔ ہر چیز اپنی اصل حالت میں مرکز پر پہنچائی جاتی تھی۔ مرکز کی طرف سے جب اس کی تقسیم ہوتی تو ہر ایک کو اس کا حصہ مل جاتالیکن وہ اپنے طور پر کسی چیز کو روکنا اس لیے حرام سمجھتے تھے کہ یہ سارا مال اللہ کا ہے جسے اللہ کے رسول کی تحویل میں دیا گیا ہے وہ جیسے سمجھیں گے اسے تقسیم فرمائیں گے۔ اسی تصور نے قرون اولیٰ میں مسلمانوں کے اندر وہ اخلاق پیدا کیا کہ بڑی بڑی جنگوں میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ کسی سپاہی نے اپنے طور پر مال غنیمت میں سے کوئی چیز ہتھیانے کی کوشش کی ہو۔ قیصر وکسریٰ جیسی حکومتوں کے تخت الٹ دیئے گئے ان کی صدیوں کی جمع کی ہوئی دولت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئی اور وہاں سے سینکڑے میل دور اسے مدینہ منورہ میں منتقل کیا گیا لیکن انتہائی تعجب کی بات ہے کہ جنگ کے دوران، جنگ کے بعدیا مدینہ کے سفر میں کوئی ایک مثال بھی ایسی سامنے نہ آئی جسے خیانت سے تعبیر کیا جاسکتا بلکہ مورخین یہ کہتے ہیں کہ جب یہ اربوں روپے کا مال غنیمت مدینہ منورہ پہنچا ہے تو مسلمانوں کے سالار نے اس سامان کی جو فہرست ساتھ بھجوائی تھی اس فہرست میں اور اس مال میں ایک سوئی کا بھی فرق نہیں تھا۔ دوسرا تصور دوسرا تصور جو نفل اور غنیمت کے لفظ سے لیا گیا وہ یہ ہے کہ غنیمت کارکردگی کا صلہ نہیں بلکہ سرتاسر انعام ہے کیونکہ غنم الشیء کے معنی ہوتے ہیں فاز بہ ونالہ بلابدل اس نے فلاں چیز بغیر کسی عوض کے حاصل کرلی اور جو چیز کسی کے عوض میں حاصل ہو اسے غنیمت نہیں کہتے اسے اجرت کہا جاسکتا ہے یا کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے لیکن غنیمت نہیں کہا جاسکتا۔ مقصود یہ تصور دینا ہے کہ اسلامی جہاد و قتال میں اگرچہ گردنیں اترتی ہیں، خون بہتا ہے، جسم زخمی ہوتے ہیں، ایک قیامت سے آدمی گزرتا ہے، لیکن ان میں سے کسی قربانی کا صلہ بھی دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ہر قربانی کا بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس طرح عطا فرمائیں گے کہ جب لینے والا ان بیش قیمت نعمتوں کو دیکھے گا تو آنحضرت کے ارشاد کے مصداق وہ تمنا کرے گا کہ کاش ! میری کھال اللہ کے راستے میں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتی تاکہ آج میں اس کا اور بھی صلہ وصول کرتا۔ غزا اور شہادت کا صلہ اللہ کے ہاں اخروی انعامات ہیں جو اس کی ابدی زندگی میں محفوظ کردیئے جاتے ہیں۔ دنیا میں وہ کسی عوض اور معاوضے کا روادار نہیں ہوتاوہ جانتا ہے کہ جہاد و قتال میرا فرض ہے اس راستے میں اگر جان چلی گئی تو یہ فرض کی ادائیگی ہے اور اگر اس راستے میں پوری زندگی بھی صرف ہوگئی تو یہ فرض کی ادائیگی کی ایک کوشش ہے جس پر مجاہد کبھی یکسو اور مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ اس کے دل میں یہ کھٹک باقی رہتی ہے کہ اللہ نہ کرے میری قربانیوں کو رد کردیا جائے۔ وہ بڑی سے بڑی قربانی دیتا ہے اور ساتھ ہی قبولیت کی بھیک بھی مانگتا ہے۔ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو یہ تصورات دیئے ہوں اس میں مال غنیمت کے حوالے سے کسی اختلاف کے پیدا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب یہ تصورات ماند پڑنے لگتے ہیں اور دلوں میں مال غنیمت کی ہوس پیدا ہونے لگتی ہے تو محض اس ہوس کی وجہ سے جیت بھی ہار میں تبدیل ہوجاتی ہے اور کامیابیاں ناکامیاں بن جاتی ہیں۔ خوارزم شاہ نے دولت دنیا کی ہوس اور تخت وتاج کی نخوت میں مبتلا ہو کر ایک بہت بڑی سلطنت تباہ کروالی۔ اس کا بیٹا تلافی کے لیے اٹھا اس نے شجاعت اور بہادری کے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے اور ایک دو جنگوں میں تاتاریوں کو عبرتناک شکست بھی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب تاریخ بدل جائے گی اور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو شاید حاصل کرلیں گے۔ لیکن محض مال غنیمت میں اختلاف کی وجہ سے چالیس ہزار کا لشکر اسے چھوڑ کر چلا گیا جی سے ہی تاتاریوں کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اپنے زخم چاٹنے کی بجائے آندھی کی طرح اٹھے اور طوفان بن کر حملہ آور ہوئے اب سلطان کے پاس فرار کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ ایسے ہی عبرتناک نتائج سے بچنے کے لیے قرآن کریم نے مال غنیمت کے بارے میں وہ تصورات دیئے کہ جس نے عموماً مسلمانوں کو ایسی شرم ناک صورتحال سے دوچار ہونے سے محفوظ رکھا۔ ضابطہ تقسیم ان بنیادی تصورات کے بعد اس ضابطہ تقسیم کو بیان کیا جارہا ہے جس کے مطابق مال غنیمت تقسیم کیا جائے گا۔ سورة انفال کی پہلی آیت میں یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ مال غنیمت اجتماعی ملکیت ہے اس کا براہ راست مالک اللہ ہے اور اس کے عملی نمائندے اللہ کے رسول ہیں۔ اس لیے اس کی تقسیم فوج کے ذمہ دار اپنی مرضی سے نہیں کرسکیں گے بلکہ پہلے یہ مال جمع کرکے اجتماعی تحویل میں دیا جائے گا اس کے بعد نبی کریم اسے اللہ کے نبی اور سربراہِ مملکت کی حیثیت سے تقسیم فرمائیں گے اور آپ کے بعد یہ ذمہ داری اسلامی مملکت کے سربراہ پر ہوگی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس ضابطہ تقسیم کو تفصیلاً بیان کرنے کی بجائے صرف اس کے خمس کو بیان کیا گیا۔ لیکن قرآن کریم کے اسلوب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اسی میں پورے ضابطے کو بیان کردیا گیا ہے کیونکہ ماغنتم کے لفظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں مجاہدین کا حق تسلیم کیا ہے اور اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے اپنے حق سے اس مال کو ان کے حق میں منتقل فرمایا۔ اب رہی یہ بات کہ ان کا حق کتنا ہے تو اس میں سب سے پہلے اس حق کو ذکر فرمایا جو سب سے اہم اور سب سے اشرف ہے وہ یہ کہ پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور ذوی القربیٰ اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا۔ باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے۔ البتہ ! اس تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ اس کی تفصیل احادیث اور فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کے حصے کا تعلق ہے تو یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر چیز سے بےنیاز اور غنی ہے اس کا حق رسول اللہ ﷺ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس لیے اصلاً پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کا ہے اور یہ حق آپ کا اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ہے اور اسے آپ بعد میں بیان کردہ مستحقین پر صرف فرمائیں گے۔ رسول ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام ذمہ داریاں اپنے سر لے رکھی تھیں۔ لیکن سربراہِ مملکت کی حیثیت سے جب آپ کا ایک ایک لمحہ ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے لیے صرف ہونے لگا تو اب ضروری تھا کہ ریاست کے واسطے سے جو وسائل پیدا ہوتے ہیں اس میں آنحضرت ﷺ کا حق بھی رکھا جاتا۔ چناچہ اسی لیے مال غنیمت میں سب سے پہلے آپ کا حق رکھا گیا کہ آپ اس خمس میں اپنی ذات اور اپنی ازواجِ مطہرات پر بھی خرچ کریں گے اور ان ذوی القربیٰ پر بھی جن کی کفالت کی ذمہ داری آپ پر ہے یا آپ اخلاقاً جن کی مدد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان میں بنوہاشم تو اس لیے شریک تھے کہ وہ آپ کا خاندان تھا اور بنو مطلب کو آپ نے اس لیے شریک فرمالیا تھا کیونکہ شعب ابی طالب کے ہولناک مصائب میں انھوں نے خود اپنے آپ کو بنی ہاشم کے ساتھ شریک رکھا تھا اور مزید یہ بات بھی کہ آنحضرت ﷺ پر اور آپ کی وجہ سے آپ کے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ کا لینا ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ لوگوں کے ہاتھوں کا میل ہے جو آپ کی ذات اور آپ کے خاندان کے لیے مناسب نہیں اور اگر کہیں اسلام اس کی اجازت دے دیتا تو مسلمان آنحضرت ﷺ کے قرابت داروں کو آپ کی نسبت کی وجہ سے دوسروں کو محروم کرکے بھی زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ دینے کی کوشش کرتے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنی ہاشم کو مستقلاً ریاست کے وسائل سے محروم نہیں کیا جاسکتا تھا اس لیے مال غنیمت کے خمس میں سے ان کا بھی حق رکھا اور ذوی القربیٰ پر ” لام “ لاکر بطور خاص اس کی اہمیت کو واضح فرمایا۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں تو ذوی القربیٰ سے مراد بنی ہاشم اور بنی مطلب ہی تھے اور انھیں کا خمس میں حصہ رکھا گیا۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا حصہ کس کو پہنچتا ہے ؟ اس میں مسلمانوں میں اختلاف ہوا۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد یہ حصہ منسوخ ہوگیا۔ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ حضور کی وفات کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے گا۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندانِ نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ تحقیق سے تیسری بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ خلفائے راشدین کے زمانے میں حضرت علی ( رض) کو تمام ذوی القربیٰ کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے واسطے سے ذوی القربیٰ میں یہ حصہ تقسیم کیا جاتا تھا۔ رہے یتیم، مسکین اور مسافرتو یہ ذوی القربیٰ میں سے بھی ہوسکتے ہیں اور اس سے باہر بھی خمس کو ان پر خرچ کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔ خمس میں ان کے متعین حقوق نہیں بلکہ اس کا اختیار سربراہِ مملکت کو ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق ان پر خرچ کرے اور ان کی ذمہ داریوں کو محسوس کرے۔ ذوی القربیٰ کے تحت ان کو ذکر کرنا بجائے خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طبقے کی عزت افزائی فرمائی ہے اور ان کی ضرورتوں کا احساس دلایا ہے۔ اسلامی نظام کو غور سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یتیموں اور مسکینوں کی حیثیت سربراہِ ریاست کے کنبے کی ہے۔ سربراہِ حکومت کو جس طرح اپنے کنبہ کی فکر کرنی پڑتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اس کو یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کی مدد کرنی پڑتی ہے۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل اس کی بہترین مثال ہے۔ وہ راتوں کو چھپ کر اس لیے گشت کرتے تھے تاکہ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت سے آگاہ ہوسکیں اور کہیں مدینہ سے باہر کے مسافروں کا قافلہ اترا ہے تو اس کے حالات کا جائزہ لے سکیں اور پھر ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جس طرح اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے اس طرح تو ایک باپ بھی شائد اپنے بچوں کے حوالے سے نہیں سوچتا۔ وہ ہرمسکین اور یتیم اور مسافر کی ذمہ داری براہ راست اپنے اوپر محسوس کرتے تھے۔ وہ اسلام کے مزاج شناس تھے وہ جانتے تھے کہ جس مملکت میں یتیم دھکے کھائیں، مسکین لاوارث ہوں اور مسافر کا کوئی پرسانِ حال نہ ہو اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتََقَی الْجَمْعٰنِ تقسیمِ غنیمت سے متعلق احکام محض انتظامی احکام نہیں ہیں بلکہ اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن نازل کیا یعنی جس دن دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو پھر تمہیں ان احکام کی پابندی میں کمزوری نہیں دکھانی چاہیے اور اگر ان احکام کی بجاآوری میں ذرا سا پس وپیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے ایمان میں بھی کمزوری ہے اور بدر کے دن تم نے جس طرح اللہ کی طرف سے نصرت و تائید اترتے دیکھی ہے اس کی بھی ناقدری ہے۔ ایسی صورتحال میں تم اس دن سے کیا فائدہ اٹھاسکتے ہو جبکہ وہ ” یوم الفرقان “ ہے یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا دن۔ جس دن ایک مٹھی بھر جماعت نے ایک بڑے لشکر کو محض اللہ کی تائید اور نصرت اور حق کی پاسداری کی برکت سے شکست سے دوچار کیا اور جس نے بھی اس صورتحال پر غور کیا اسے یقین ہوگیا کہ آج کے دن حق و باطل کا فیصلہ ہوگیا۔ حق کے حق ہونے کا کوئی شبہ نہیں رہا اور باطل کے باطل ہونے میں کوئی اخفا نہیں رہا اور اسے یقین ہوگیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو اس کے راستے میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونگے وہ تھوڑے بھی ہوں، بےدست وپا بھی ہوں تب بھی اللہ کی قدرت سے کامیاب ہوں گے۔
Top