Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 42
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الدُّنْيَا : ادھر والا وَهُمْ : اور وہ بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الْقُصْوٰي : پرلا وَالرَّكْبُ : اور قافلہ اَسْفَلَ : نیچے مِنْكُمْ : تم سے وَلَوْ : اور اگر تَوَاعَدْتُّمْ : تم باہم وعدہ کرتے لَاخْتَلَفْتُمْ : البتہ تم اختلاف کرتے فِي الْمِيْعٰدِ : وعدہ میں وَلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : جو کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہو کر رہنے والا لِّيَهْلِكَ : تاکہ ہلاک ہو مَنْ : جو هَلَكَ : ہلاک ہو عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَّيَحْيٰي : اور زندہ رہے مَنْ : جس حَيَّ : زندہ رہنا ہے عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَسَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یاد کرو ! جب تم وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ دور کے کنارے پر اور قافلہ تم سے نیچے تھا اگر تم آپس میں میعاد ٹھہرا کر نکلتے تو میعاد پر پہنچنے میں ضرور تم مختلف ہوجاتے لیکن اللہ کو کر ڈالنا تھا ایک کام جو مقرر ہوچکا تھا تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے حجت دیکھ کر ہلاک ہو اور جسے زندگی حاصل کرنا ہے وہ حجت دیکھ کر زندگی حاصل کرے اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط وَلَوْتَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِیْ الْمِیْعٰدِ لا وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا 5 لا لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْییٰ مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍ ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ لا (الانفال : 42 ) (یا دکرو ! جب تم وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ دور کے کنارے پر اور قافلہ تم سے نیچے تھا اگر تم آپس میں میعاد ٹھہرا کرنکلتے تو میعاد پر پہنچنے میں ضرور تم مختلف ہوجاتے لیکن اللہ کو کر ڈالنا تھا ایک کام جو مقرر ہوچکا تھا تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے حجت دیکھ کر ہلاک ہو اور جسے زندگی حاصل کرنی ہے وہ حجت دیکھ کر زندگی حاصل کرے اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ) جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ کی کارسازی جنگ بدر جس طرح وقوع پذیر ہوئی اور جیسے کچھ اس کے نتائج نکلے اس پر غور کرنے سے قدم قدم پر اللہ کی تدبیر اور قدرت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ہر صاحب بصیرت محسوس کرنے لگتا ہے کہ جن حالات سے مسلمان گزر رہے تھے اور مسلمانوں کی جماعتی حیثیت جس صورتحال سے دوچار تھی اور وسائل کی کمیابی نے مسلمانوں کے لیے جس طرح کے مسائل پیدا کر رکھے تھے اسے دیکھتے ہوئے مسلمانوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ قریش مکہ کی طاقت سے ٹکرانے کی کبھی غلطی کرسکتے تھے۔ مسلمان امت تعمیر کے مراحل سے گزر رہی تھی اور اسلامی ریاست ابھی پوری طرح استحکام پیدا نہیں کرسکی تھی۔ مدینہ میں پھیلے ہوئے دشمن ابھی تک مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ ایسی صورتحال میں کسی بڑے اقدام کا فیصلہ کرنا آسان کام نہ تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ بھی ابھی تک لشکر کشی کا فیصلہ نہیں کرپائے تھے۔ وہ عرب کی روایت کو دیکھتے ہوئے ڈرتے تھے کہ جنگوں کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے۔ اگرچہ انھیں اپنی طاقت کا زعم تھا لیکن ابھی مزید تیاری کی فکر میں تھے اور اسی تیاری کے لیے انھوں نے ایک بڑا قافلہ ٔ تجارت ملک شام بھیجا تھا تاکہ اس کے منافع سے فوجی ضرورتیں پوری کی جاسکیں۔ لیکن ان تمام موانع کی موجودگی میں جنگ بدر کے حالات کا پیدا ہوجانا اور پھر دونوں فوجوں کا بیک وقت میدانِ جنگ میں پہنچ جانا اللہ کی قدرت کے ظہور کے سوا کچھ نہیں۔ فوجیں ہزار منصوبہ بندی کے ساتھ کسی جنگ کا فیصلہ کرتی ہیں لیکن میدانِ جنگ میں اس طرح ایک ساتھ دونوں فوجوں کا پہنچنا کہ جس میں نہ تقدیم کی شکایت ہو نہ تاخیر کی، ایک حیران کن بات ہے۔ چناچہ انہی باتوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس آیت کریمہ میں پروردگار نے میدانِ جنگ کا نقشہ کھینچا ہے تاکہ ہر صاحب بصیرت جان سکے کہ یہاں قدم قدم پر اللہ کی منصوبہ بندی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔” عدوۃ “ عربی زبان میں ایک جانب کو کہتے ہیں اور ” دنیا “ ادنیٰ سے بنا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں قریب تر۔ آخرت کے مقابلے میں اس جہان کو بھی دنیا اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے۔” قصویٰ “ ، اقصیٰ سے بنا ہے۔ اقصیٰ کے معنی ہیں بعید تر۔ میدانِ جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے تم اور قریش جس طرح میدانِ بدر میں پہنچے حیرانی کی بات ہے کہ اس کے قریبی کنارے پر تم تھے اور دوسرے کنارے قریش تھے اور جس قافلے کو بچانے کے لیے قریش نکلے تھے وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ تین میل کے فاصلے پر جارہا تھا۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے دو فوجوں کا ایک ہی میدان میں اور ایک ہی دن صبح شام کے فاصلے سے پہنچ جانا جنگ کی تاریخ کا ایک حیرت ناک واقعہ ہے کیونکہ فوجوں کا پس وپیش اور فوجوں کا دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش، عزائم کو چھپا کر رکھنے کے لیے اقدام کا رخ کسی اور طرف رکھنا یہ فوجوں کے معمولات میں سے ہیں۔ لیکن دونوں فوجوں کا اچانک آمنے سامنے آجانا اور دونوں کا آمادہ جنگ ہونا اور پس وپیش کے کسی امکان کا باقی نہ رہنا یہ سراسر اللہ کی منصوبہ بندی تھی جو کھلی آنکھوں سے نظر آتی تھی۔ جنگ کا مقصد اس کے بعد فرمایا کہ یہ منصوبہ بندی بےسبب نہیں تھی اور یہ محض حسن اتفاق نہ تھا بلکہ یہ حسن اتفاق اللہ کی منصوبہ بندی سے وجود میں آیا تھا اور پیش نظر یہ تھا کہ قریش اور مسلمانوں کا ایک تصادم ہو جس میں نظربظاہر فتح کی تمام علامتیں اور تمام اسباب قریش کے ساتھ ہوں اور مسلمانوں کے پاس بجز اللہ کی تائید ونصرت کے یقین اور حسن کردار کے اسباب کی دنیا کے کوئی چیزنہ ہو۔ دنیا اس تصادم سے پہلے یقین رکھتی ہو کہ مسلمان موت کے منہ میں جارہے ہیں اور ان کے دین نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ لیکن جب تصادم کا غبار چھٹے اور جنگ کا نتیجہ سامنے آئے تو مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کامیاب اور کامران دکھائی دے اور قریش کی بےپناہ قوت لاشوں کے انبار میں بدل جائے اور ایک بڑی تعداد قیدیوں کی صورت رسیوں میں بندھی ہوئی دکھائی دے، پورا لشکر ڈرے ہوئے جنگلی جانوروں کی طرح بھاگتا ہوا دکھائی دے، تو یہ ساری صورتحال خود منہ سے بولتی ہے کہ جس پروردگار نے اس جنگ کی منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ہم یہ جنگ اس لیے کروا رہے ہیں تاکہ حق و باطل کا فرق واضح ہوجائے۔ حق غالب آجائے اور باطل مغلوب ہوجائے۔ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ باطل مٹ جانے والی چیز ہے اور حق غالب آنے والی قوت ہے۔ حق کی قبولیت زندگی کی علامت ہے اور کفر سے تعلق ہلاکت اور بربادی ہے۔ اس جنگ کی صورت میں سب کچھ واضح ہوجانے کے بعد اب جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی زندگی اور حق کی دلیل دیکھ کر زندہ رہے اور جس کی قسمت میں ہلاک ہونا ہے وہ بھی دلیل دیکھ کر ہلاک ہو تاکہ اہل کفر کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ابہام کی دھند چھٹ جائے۔ چناچہ یہ ہے وہ حقیقت جسے بروئے کار لانے کے لیے اللہ نے اس جنگ کا اہتمام فرمایا اور اسے فرقان بنادیا۔ بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
Top