Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی اس کے لیے جھک جائیے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے۔ بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا۔
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ وَاِنْ یُّرِیْدُوْآاَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ لا وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ ط لَوْاَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ ط اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ ( الانفال : 61 تا 63) (اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی اس کے لیے جھک جائیے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا۔ اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو اللہ آپ کے لیے کافی ہے اور وہی ہے جس نے آپ کی تائید کی اپنی مدد سے اور مومنین کے ذریعے سے۔ اور ان کے دلوں میں ان کے لیے الفت ڈال دی اگر آپ ساراخرچ کردیتے جو کچھ زمین میں ہے تو بھی ان کے دلوں میں آپ محبت نہ ڈال سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی بیشک وہ غالب اور حکیم ہے۔ ) مصالحت کی اجازت مسلمانوں کی غیرمسلموں سے لڑائی، قتال فی سبیل النفس یا فی سبیل البلاد نہیں بلکہ فی سبیل اللہ ہے۔ اس کا مقصد دنیا سے فتنہ ختم کرنا اور اللہ کے دین اور اس کی حاکمیت کو غالب کرنا ہے۔ ظاہر ہے یہ مقصد کفر کو ختم کیے یا مغلوب کیے بغیر ممکن نہیں لیکن یہ حیرانی کی بات ہے کہ ایسا واضح مقصد رکھنے والی قوم کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اگر تمہارا دشمن تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے تو تم ان کے مظالم اور زیادتیوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ اس کا ہاتھ تھام لو اور تم بھی صلح کے لیے تیار ہوجاؤ کیونکہ مقصد دنیا میں خون بہانا نہیں بلکہ فساد فی الارض کو ختم کرنا ہے۔ غلبہ دین کی ضرورت کے لیے بعض دفعہ لڑائی لڑنی پڑتی ہے لیکن درحقیقت اس کا مقصد دنیا سے خون ریزی اور فساد کے تمام امکانات کو ختم کرنا ہے۔ یہ امکانات جس طرح غلبہ سے ختم ہوتے ہیں اسی طرح دعوت الی اللہ کے امکانات پیدا ہونے سے بھی ختم ہوتے ہیں۔ اگر دشمن اس شرط پر صلح کرلیتا ہے کہ مجھے مسلمانوں کی تبلیغ و دعوت پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو مسلمانوں کو اپنا ہدف حاصل کرنے میں ایک ایسا موثر ذریعہ مل جاتا ہے جس کے نتیجے میں دلوں کی دنیا بدل جاتی ہے۔ نیا انسان پیدا ہوتا ہے نئی سوسائٹی وجود میں آتی ہے۔ معاہدہ حدیبیہ جو صرف دو سال تک چل سکا لیکن اس کے نتائج دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ حدیبیہ میں پندرہ سو مسلمانوں کو ساتھ لے کر آئے تھے اور اس وقت تک آپ کی نبوت کو انیس سال گزر چکے تھے۔ لیکن دو سال کے بعد آپ جب فتح مکہ کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر تھا۔ یہ حیران کن اضافہ دوسالوں میں مسلمانوں کی دعوت وتبلیغ، مسلمانوں کے اخلاق اور معاملات میں مسلمانوں کی صفائی اور دیانت و امانت کا نتیجہ تھا۔ اس لیے یہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں مسلمانوں کا رویہ صلح جویانہ لیکن جسورانہ ہونا چاہیے۔ اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہ ایک رسک معلوم ہوتا ہے کیونکہ قریش سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ کسی وقت بھی مسلمانوں کو دھوکہ دے سکتے تھے۔ لیکن جس قوم کو اپنے نظریے اور اپنے اخلاق سے تاریخ بنانا ہوتی ہے وہ ایسے خطرات سے کھیلے بغیر نہیں رہ سکتی۔ لیکن اللہ کا یہ بےحد کرم ہے کہ ان خطرات کو دیکھتے ہوئے پروردگار نے اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ اطمینان بھی دلایا کہ وہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔ دشمن جو کچھ کررہا ہے یا کرے گا اللہ ہر وقت اسے سنتا ہے اور ان کی درپردہ سازشوں کو جانتا بھی ہے۔ تم اللہ کے بھروسے پر ان خطرات کو انگیخت کرو۔ اللہ اس کے برے نتائج سے تمہاری حفاظت کرے گا کیونکہ دنیا میں لوگوں سے تمہاری دشمنی کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کی خاطر ہے۔ تم آج اللہ سے اپنا رشتہ توڑ لو تمہارے آج کے دشمن تمہارے دوست بن جائیں گے۔ تمہاری دوستی اور دشمنی جب صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے وفاداروں کو لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔ اس کا اصول ہی یہ ہے کہ جو اس کا ہوجاتا ہے اللہ بھی اس کا ہوجاتا ہے۔ سچ کہا ظفر علی خاں نے ؎ یثرب سے اب بھی گونجتی ہے یہ صدا سنو ! وہ جو خدا کے ہوگئے ان کا خدا ہوا رہی یہ فکر کہ وہ آپ کو دھوکہ دیں گے تو آپ کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ جسے اللہ اپنی حفاظت میں لے لے اسے دنیا کی کوئی قوت گزند نہیں پہنچا سکتی۔ بڑی سے بڑی قوت کسی کے لیے کفائت نہیں کرسکتی لیکن اللہ آپ کی مدد کے لیے کافی ہے۔ اس کی تائید ونصرت کا مشاہدہ کرنا ہو تو قریبی تاریخ میں جنگ بدر کا واقعہ پیش آیا ہے اس کے واقعات میں غور کر کے دیکھ لو کس طرح اس نے اپنی نصرت سے تمہاری مدد کی اور کس طرح مٹھی بھر مسلمانوں سے آپ کی فتح کا سامان کیا اور کس طرح مسلمانوں کو آپ کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا۔ غورکیجئے ! ان لوگوں کی اپنی تاریخ کیا ہے مکہ کے مہاجرین مختلف قبائلی تعصبات میں بٹے ہوئے اور کبر ونخوت میں گرفتار تھے۔ اسی طرح اوس و خزرج کے لوگ جو ہمیشہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے تھے۔ جنھوں نے سالہا سال تک ” حربِ بسوس “ لڑی جس میں ہزاروں آدمی کام آئے ان کے اختلافات، تعصبات، مفادات اور رسوم وآداب کو دیکھتے ہوئے کوئی آدمی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں۔ جو لوگ ایک دوسرے کے دیوتا کو برداشت نہیں کرتے تھے، جنھوں نے پوجا پاٹ کے لیے الگ الگ بت بنا رکھے تھے، جو قبیلے کی عصبیت کی دیواروں سے کبھی باہر جھانکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، ان کے دلوں کو جس طرح جوڑا گیا، جس طرح وہ ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جس طرح باہمی اخوت میں پروئے گئے، جس طرح وہ ایک دوسرے کی ضرورت کی خاطر جان دینے کے لیے بھی تیار ہوگئے، یہ ایک ایسی حیرت انگیز تبدیلی ہے جس کو ممکن بنانے والی اللہ کی ذات کے سوا دنیا میں کوئی اور قوت نہیں اس لیے پروردگار نے فرمایا کہ اگر آپ زمین بھر کے خزانے ان کے اختلافات دور کرنے کے لیے خرچ کر ڈالتے تو بھی آپ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ سراسر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کردی۔ بیشک وہ عزیز اور حکیم ہے۔ وہ جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی اور ساتھ ہی ساتھ وہ حکمت والا بھی ہے اس لیے وہ جو کام بھی کرتا ہے وہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
Top