Ruh-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بنائے گئے
اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ۔ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ ۔ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ ۔ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ۔ (الغاشیۃ : 17 تا 20) (کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بنائے گئے۔ اور آسمان کو نہیں دیکھتے کیسے اٹھایا گیا۔ اور پہاڑوں پر نظر نہیں ڈالتے کہ کیسے جمائے گئے۔ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی۔ ) قیامت پر سامنے کی چیزوں سے استدلال قیامت کے ذکر کے ضمن میں پہلے اہل جہنم کا تذکرہ کیا گیا اور پھر اہل جنت کا۔ اور دونوں جس طرح جزاء و سزا سے گزریں گے اس کی منظرکشی کی گئی۔ ان باتوں کا تذکرہ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کیا گیا جو قیامت کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔ اور ان کے انکار کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ وقوع قیامت کو مستبعدازعقل سمجھتے تھے اور ہر بات کا جواب صرف یہ دیتے تھے کہ تم جو قیامت کا تصور پیش کرتے ہو اور آخرت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہو یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے۔ ان میں سے کسی بات کو بھی عقل تسلیم نہیں کرتی۔ ایسے لوگوں کو آفاق کی بعض نہایت نمایاں نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ انھیں اگر قیامت کی ہر بات خلاف عقل معلوم ہوتی ہے اور وہ بجاطور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی باتوں کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں، تو سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنے گردوپیش میں آفاق کی نشانیاں دیکھتے ہیں اگر وہ ان کے سامنے موجود نہ ہوتیں اور انھیں کہا جاتا کہ ایسا ہوا ہے یا ہوگا تو یہ کبھی اسے تسلیم نہ کرتے۔ لیکن اب جبکہ وہ وجود میں آچکی ہیں تو انھیں ان کے ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ مگر جو چیزیں ان کے تجربے اور مشاہدے میں ابھی نہیں آئی ہیں ان کے بارے میں وہ بےتکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ ان کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ چناچہ ایسی ہی نشانیوں میں سے چار نشانیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن میں سے سب سے پہلے اونٹ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کے بعد آسمان کی طرف، پھر پہاڑوں کی طرف اور آخر میں زمین کی طرف۔ سبب ان کی طرف توجہ دلانے کا یہ ہے کہ یہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تقریباً عرب میں رہنے والے ہر شخص کا سابقہ پڑتا ہے۔ مثلاً اس ماحول میں رہنے والا کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس کے پاس اپنا اونٹ نہ ہو۔ جب وہ اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا تھا تو سر پر اسے آسمان کی تنی ہوئی چھت دکھائی دیتی تھی۔ اور اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے پہاڑ نظر آتے تھے اور نیچے زمین بچھونے کی طرح بچھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ چناچہ انھیں باتوں کی طرف جو ہر شخص کا روز کا معمول تھیں توجہ دلاتے ہوئے سب سے پہلے اونٹ کا ذکر فرمایا۔ کہ کیا یہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اسے کس طرح بنایا گیا اور کیسا بنایا گیا ہے اور کن صفات و خصوصیات کے ساتھ اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اونٹ ایک عظیم الجثہ جانور ہے اور طویل قدوقامت رکھتا ہے اور نہایت طاقتور ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی ضروریات کو اس طرح کا بنایا ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی اس کو رکھنے میں دشواری محسوس نہیں کرتا۔ مالک اگر اسے چارہ خرید کر نہیں ڈال سکتا تو وہ اسے چھوڑ دے وہ اپنا پیٹ خود بھر لے گا۔ اونچے درختوں کے پتے توڑنے کی زحمت کرنے کی بھی ضرورت نہیں، یہ خود درختوں کی شاخیں کھا کر گزارا کرلیتا ہے۔ اپنی تمام جسامت اور طاقت کے باوجود اس کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے جہاں چاہو لے جاؤ، وہ بےچون و چرا اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اتنا وفادار ساتھی ہے کہ حضر میں، سفر میں اور صحرا میں ہر جگہ اپنے مالک کا ساتھ دیتا اور سفینے کی طرح اس کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ عرب میں پانی بہت کم ہوتا ہے۔ قدرت نے اس کے پیٹ میں ایک ریزرو ٹینکی ایسی لگا دی ہے کہ سات آٹھ روز کا پانی پی کر یہ اس ٹینکی میں محفوظ کرلیتا ہے اور تدریجی رفتار سے وہ اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اتنے اونچے جانور پر سوار ہونے کے لیے سیڑھی نہیں لگانا پڑتی بلکہ قدرت نے اس کے پائوں کو تین تہوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یعنی ہر پائوں میں دو گھٹنے بنا دیئے ہیں کہ جب وہ تہ کرکے بیٹھ جاتا ہے تو اس پر چڑھنا اترنا آسمان ہوجاتا ہے۔ کسی بڑی سے بڑی مشقت سے بھی انکار نہیں کرتا۔ اس کا گوشت پوست دودھ ہر چیز مالک کے کام آتی ہے۔ یہاں تک کے اس کا بول و براز بھی رائیگاں جانے والی چیز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنے گوناگوں فوائد اور مصالح کے ساتھ یہ جانور آپ سے آپ پیدا ہوگیا اور انسان نے اس کو اتفاق سے پکڑ کر اپنے لیے سازگار بنا لیا ہے۔ یا رب کریم نے اپنی قدرت یا حکمت سے اس کو پیدا کیا اور اس کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ ظاہر ہے کہ عقل اس دوسری بات ہی کی گواہی دیتی ہے۔ اور اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا انسان پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اپنے رب کا شکرگزار بن کر زندگی گزارے جس نے اس کے لیے بغیر کسی استحقاق کے زندگی کی یہ آسائشیں فراہم کی ہیں۔ ورنہ ایک دن اپنے رب کے آگے جوابدہی اور اپنے کفرانِ نعمت کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ اس کے بعد آسمان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو اسے کیسا بلند کیا گیا اور کیسے اٹھایا گیا ہے۔ اس کی بلندی اور اس کی وسعت کا کوئی اور چھور نہیں۔ لیکن اتنی بڑی چھت کے لیے کوئی ستون نظر نہیں آتا۔ پھر اس سے بھی بڑی عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کب سے قائم ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود کوئی ماہر سے ماہر انجینئر بھی اس میں کسی معمولی سے معمولی رخنہ یا خلاء کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ زمین سے انتہائی دور ہونے کے باوجود اس کے سورج، چاند، ستارے اور سیارے زمین کی رونق اور اس کے لیے روشنی، حرارت اور زندگی کا ذریعہ ہیں۔ اسی سے بارش نازل ہوتی ہے، اسی کے سورج سے اہل زمین کے چولہے جلتے ہیں، اسی سے اناج میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور اہل زمین کی روزی کا بہت حد تک اس پر انحصار ہے۔ انسان ذرا غور کرے کہ جس خالق کی قدرت و حکمت کا یہ حال ہے کہ وہ آسمان جیسی حیرت انگیز مخلوق پیدا کرسکتا ہے تو کیا اس کے لیے انسانوں کو ازسرنو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے بعض جگہ براہ راست انسان سے سوال کیا کہ ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَائُ ” کیا تمہیں پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا۔ “ اس کے بعد پہاڑوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو انھیں کیسے گاڑ دیا گیا ہے۔ یہ کس طرح رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمے کھڑے ہیں۔ وہ کس طرح زمین کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں، کس طرح ہَوائوں اور بادلوں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ خود پتھر کے ہیں لیکن قدرت نے ان کے اندر سے مخلوق کی سیرابی کے لیے شیریں پانی کے سوتے جاری کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے اندر قیمتی خزانے لیے ہوئے امین کا حق ادا کررہے ہیں۔ ان میں ایسے پہاڑ بھی ہیں جو ناقابلِ عبور ہیں لیکن قدرت نے ان کے اندر درے اور راستے نکال دیئے ہیں۔ اس کے بعد زمین کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ زمین کیسے بچھ گئی ہے جس پر انسان رہتا اور بستا ہے، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں، جس کے چشموں اور کنوئوں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ اس کی مسطح سطح پر انسانوں کی آبادیاں ہیں، میدانوں میں ان کے کھیت اور باغ و چمن ہیں۔ ان کے چوپایوں اور گلوں کے لیے پیٹ بھرنے کے غیرمحدود وسائل موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق حاذق حکیم کی کاریگری کے بغیر ہوگیا ہے۔ یہ تمام نشانیاں انسان کو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بےپناہ ہے۔ اس کی حکمت نے ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد کا پابند کیا ہے۔ اس کی سب سے اشرف مخلوق انسان ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کو بیشمار صلاحیتیں دے کر عقل اور شعور سے نواز کر اور اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے نیکی اور بدی کے دونوں راستوں کو کھول کر شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دے۔ اور کبھی اس کو اپنے حضور میں حاضر کرکے اس کے اعمال کی جواب طلبی نہ کرے۔ نہ اس کی نیکی کی جزاء دے اور نہ اس کی نافرمانی پر سزا دے۔
Top