Ruh-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 23
اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَۙ
اِلَّا : مگر مَنْ : جس نے تَوَلّٰى : منہ موڑا وَكَفَرَ : اور کفر کیا
رہا وہ شخص جو منہ موڑے اور انکار کرے
اِلاَّ مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ ۔ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ ۔ (الغاشیۃ : 23، 24) (رہا وہ شخص جو منہ موڑے اور انکار کرے۔ تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔ ) آپ کی تمام تبلیغی مساعی کے باوجود جو شخص حق سے منہ پھیرے گا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اولاً تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں عذاب کا شکار ہوجائے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کی وجہ سے وہ دنیا میں عذاب سے بچا رہا تو آخرت کا عذاب جو عذاب جہنم ہے وہ تو اس کے لیے لازمی ہوگا۔ اس لیے کہ دنیا میں تو بعض دفعہ پروردگار اپنی حکمت کی وجہ سے ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ لیکن آخرت چونکہ دارالجزاء اور دارالعدل ہے۔ وہاں نیک عمل کی جزاء بھی ضرور ہوگی اور برے عمل پر سزا بھی ضرور ہوگی۔ ایمان کا صلہ ملے گا، اور کفر پر سخت عذاب ہوگا۔ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ اسے عذاب اکبر اس لیے کہا گیا ہے کہ دنیا کا کوئی عذاب بھی اپنی شدت میں جہنم کے عذاب کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اور نہ کوئی عذاب ہمیشگی اور پائیداری میں اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس لیے سابق سورة میں اس کی شدت کی طرف اضافہ کرتے ہوئے اسے النَّارُالْـکُبْرٰی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور قرآن کریم کے متعدد مقامات پر عذاب اکبر ہی کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ کَذَلِکَ الْعَذَابُ ، وَلَعَذَابُ الْآ خِرَۃِ اَ کْبَرُ ، اس میں دنیا کے عذابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آخرت کے عذاب کو اکبر فرمایا گیا ہے۔ حالانکہ دنیا میں جس قوم پر عذاب آیا ہے اس کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ بعض دفعہ ان کی دھرتی الٹ دی گئی ہے اور وہ تاریخ میں عبرت بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن ان عذابوں کے مقابلے میں آخرت کے عذاب کو عذاب اکبر قرار دینا ایسا تصور پیدا کرتا ہے جس سے پِتَّہ پانی ہونے لگتا ہے۔
Top