Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 10
لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ
لَا يَرْقُبُوْنَ : لحاظ نہیں کرتے ہیں فِيْ : (بارہ) میں مُؤْمِنٍ : کسی مومن اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد وَ : اور اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
وہ لحاظ نہیں کرتے کسی مومن کے بارے میں کسی قرابت کا اور نہ کسی عہد کا، یہی لوگ ہیں جو حدود کو توڑنے والے ہیں۔
لَایَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّاوَّلَاذِمَّۃً ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمَ الْمُعْتَدُوْنَ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُاالزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ( التوبۃ : 10، 11) (وہ لحاظ نہیں کرتے کسی مومن کے بارے میں کسی قرابت کا اور نہ کسی عہد کا، یہی لوگ ہیں جو حدود کو توڑنے والے ہیں۔ پس اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم آیات کی تفصیل بیان کررہے ہیں ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں۔ ) انفرادی زندگی میں بھی مسلمان دشمنی گزشتہ آیت کریمہ میں ان کی اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ ان کی اجتماعی سوچ مسلمانوں کے خلاف ہے اور اجتماعی سوچ میں وہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ انفرادی زندگی میں بھی ان کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو ان سے کیسی ہی قرابت کیوں نہ رکھتاہو اور اس کے ساتھ چاہے کتنے ہی معاہدات ہوں اگر وہ صاحب ایمان ہے تو محض ایمان لانے کے جرم میں یہ نہ تو اس کی قرابت کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ اس سے معاہدے کا پاس کرتے ہیں ان کے نزدیک اگر کوئی جرم ناقابلِ معافی ہے تو وہ ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے والاان کا چاہے بیٹا کیوں نہ ہو محبت اور شفقت کے تمام جذبات اس کے لیے ممنوع قرار پاتے ہیں۔ جب حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جارہا تھا اور یہ شق بھی لکھی جاچکی تھی کہ جو شخص مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا مسلمان اسے واپس کافروں میں مکہ معظمہ بھیجنے کے پابند ہوں گے لیکن اگر مدینہ سے کوئی شخص مرتد ہو کر مکہ معظمہ آجائے تو قریش اسے بھیجنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ یہ سراسر یک طرفہ فیصلہ تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اسے بھی قبول فرمالیا۔ عین اس وقت قریش کا سفیرسہیل ابن عمرو کا بیٹا ابوجندل بیڑیاں کھنکھناتا ہوا افتاں وخیزاں مسلمانوں کے پاس پہنچ گیا اور مسلمانوں کو اپنے زخم دکھائے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پر بہت تشدد کیا گیا ہے۔ سہیل نے کہا کہ ہم فیصلہ کرچکے ہیں کہ آپ کسی مسلمان کو پناہ نہیں دیں گے اس لیے یہ میرا بیٹا اگرچہ مسلمان ہوچکا ہے لیکن آپ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابھی معاہدہ پورا نہیں ہوا۔ اس لیے ابھی اس کی پابندی لازم نہیں۔ سہیل نے کہا اگر آپ اس کی پابندی قبول نہیں کرتے تو معاہدہ پھاڑدیتا ہوں۔ حضور نے یہاں تک فرمایا کہ میں ذاتی طور پر اس لڑکے کے لیے تم سے درخواست کرتا ہوں۔ وہ کسی طرح نہیں ماناحتی کہ اسے مارتا پیٹتا اپنے ساتھ واپس لے گیا۔ ابوجندل اس کے بیٹے تھے جو ہر طرح سے باپ کی شفقت کے مستحق تھے۔ لیکن وہ ایمان لانے کا جرم کرچکے تھے اس لیے کفر کی نگاہ میں ان کے تمام رشتے کٹ چکے تھے۔ اس آیت کریمہ میں پروردگار یہی بات فرما رہے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے ایک ایک فرد سے ایسی دشمنی ہے کہ جس نے انھیں بالکل اندھا کردیا ہے، باپ کو باپ ہونا یاد نہیں اور بیٹے کو بیٹا ہونا۔ انھوں نے اپنے رویے سے ثابت کردیا ہے کہ وہ انسانیت کی ہر حد کو پھلانگ چکے ہیں۔ اعتراض کرنے والے بتائیں کہ جن لوگوں کا تاریخی پس منظر یہ ہو جن کا ذہنی سانچہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام دشمنی میں ڈھل چکاہو جنھیں انسانیت کی ایک ایک قدر سے دشمنی ہو ان سے معاہدے کرنا چہ معنی دارد ؟ دشمنی کے باوجود اللہ کی رحمت کا فیضان اس کے باوجود اللہ کی رحمت کی آغوش اسقدر وسیع ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے بالآخر اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اگر یہ دین کسی انسان کا بنایا ہوا ہوتا تو اس میں رحمت و محبت کی یہ برکھا کبھی برستی دکھائی نہ دیتی۔ اس میں جذبات کا یہ توازن کبھی ممکن نہ ہوتا۔ جس کا اظہار اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ اپنی ساری اسلام دشمنی اور عقربی فطرت کے باوجود اگر یہ لوگ توبہ کرلیں۔ توبہ کا معنی ہوتا ہے لوٹنا یعنی یہ کفر سے اسلام کی طرف لوٹ آئیں اسلام انسان کا اپناگھر ہے اور باقی تمام ازم اور راستے اس کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے جب کوئی شخص بگاڑ کے ان راستوں سے پلٹ کر اسلام کی طرف آتا ہے تو یوں سمجھئے کہ وہ اپنے گھر اور اپنی ماں کی آغوش میں آجاتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ لوٹ آئیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ یہاں رک کر ذرا غور فرمائیے دنیا میں اللہ کے اولوالعزم رسولوں کے سوا شاید آپ کو کہیں اور یہ مثال نہ مل سکے کہ کسی نے اپنے خون کے پیاسوں، جان کے دشمنوں، اپنے پیاروں کے قاتلوں اور برسہا برس تک اذیت پہنچانے والوں کو صرف ایک کلمہ بولنے کی وجہ سے اس طرح اپنی آغوش میں لیاہو کہ برسوں سے اس راستے پر چلنے والے قربانیاں دینے والے، زندگیاں کھپانے والے اور ہر طرح کا دکھ اٹھانے والے جس قدرومنزلت اور سلوک کے مستحق ہیں آنیوالے کو بھی اسی سلوک کا مستحق سمجھا جائے۔ جو حقوق ومراعات حضرت ابوبکر اور عمر ( رض) کو اسلامی مملکت میں حاصل ہیں وہی حقوق ومراعات اس کو میسر آجائیں۔ اس کی عبادات اسی طرح قبول کی جائیں۔ معاشرتی زندگی میں اس کو وہی احترام ملے۔ معاشی راستے اس کے لیے بھی ویسے ہی کھلے ہوں یہ بھی اگر شہادت کے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے تو جنت کے راستے اس کے لیے بھی کھل جائیں۔ خونی رشتے اس کے سامنے ماند پڑجائیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ( رض) جنگ بدر کے قیدیوں کو دیکھنے کے لیے نکلے تو آپ نے دیکھا کہ ایک گھر میں ایک انصاری جن قیدیوں کو باندھ رہا ہے ان میں ان کا بھائی بھی ہے آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ انصاری بھائی اس کو کس کر باندھنا تاکہ یہ بھاگ نہ جائے۔ بھائی نے یہ بات سنی تو آنکھوں میں آنسو آگئے رو کر کہا کہ مصعب ! مجھے یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ تمہارا خون اس قدر سفید ہوگیا ہے۔ تم بجائے میری سفارش کرنے کے مجھے کس کر باندھنے کی ترغیب دے رہے ہو۔ حضرت مصعب نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ تم میرے بھائی نہیں ہو، میرا بھائی وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے۔ یہ وہ اسلامی اخوت ہے جو خونی رشتوں پر غالب آجاتی ہے۔ یہی وہ اخوت ہے جس کی یہاں ترغیب دی جارہی ہے کہ ان لوگوں نے اگرچہ اکیس (21) سال تک تم پر خوفناک مظالم توڑے ہیں دیکھنا انھیں دیکھ کر تمہارے زخم سلگنے نہ لگیں۔ تم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرو، یہ اپنی منزل سے بچھڑے ہوئے لوگ ہیں جو اب پلٹ آئے ہیں تو تمہاری توجہ اور محبت کے مستحق ہیں۔ اللہ کے اسی حکم کا نتیجہ تھا کہ جن کے جرائم بظاہر ناقابلِ معافی تھے انھیں بھی آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ ہر طرح کے حصول مراتب کے دروازے ان کے لیے کھول دیئے۔ حضرت وحشی ( رض) جو حضرت حمزہ ( رض) کے قاتل ہیں۔ ان کے جرم کی شدت کو کون بھول سکتا تھا۔ لیکن انھیں بھی معاف کردیا گیا۔ ہند جس نے حضرت حمزہ ( رض) کی نعش مبارک کو مثلہ کیا، آپ کا بند بند کاٹا وہ ایمان قبول کرنے کے لیے حاضر ہوئیں آپ نے پوچھنا بھی پسند نہ فرمایا۔ ابوسفیان جو باربار لشکر کشی کرتے رہے ان کا نہ صرف ایمان قبول کیا گیا بلکہ انھیں عزت بھی بخشی گئی۔ اسلامی ریاست میں کبھی کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کو یہ طعنہ نہیں دیا تھا کہ تم تو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ کے یہاں مقام و مرتبہ میں بعد میں ایمان لانے والے سابقین کے برابر نہیں ہوسکتے۔ لیکن دنیا میں حقوق ومراعات کے لحاظ سے اسلام نے کسی فرق کی گنجائش نہیں رکھی۔ اسلام سے وفاداری کے لیے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی یہ بھی یاد رہے کہ اخوت دینی میں شامل ہونے کے لیے صرف توبہ کافی نہیں تمام فرائض کی پابندی ضروری ہے۔ لیکن اظہارِ وفاداری کے لیے سب سے پہلے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی ضروری ٹھہرائی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز، نماز کا وقت آتے ہی فرض ہوجاتی ہے۔ آدمی کسی وقت بھی اسلام قبول کرے سب سے پہلے نماز ہی کے فرض سے اس کا واسطہ پڑے گا اور مزید یہ بات بھی کہ اسلام کی بنیاد اللہ کی عظمت اور اس کی کبریائی کے سامنے جھکنے پر ہے اور اسلامی زندگی کی پہچان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت میں ہے۔ نماز میں ان دونوں باتوں کی طرف سب سے زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے۔ آدمی کا ایک ایک عمل ان دونوں باتوں کا عکاس بن جاتا ہے۔ زکوٰۃ مالی معاملات کی پاکیزگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی سے حقوق العباد کے شعور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس میں انسانوں کے درمیان طبقات کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے اور لوگوں کے ساتھ رحم ومروت کے جذبات کو جلا ملتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کی پابندی کو اسلام کی قبولیت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف قتال پر لوگوں کو مطمئن کیا تھا۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ ہم اللہ کی آیات کو اسی طرح تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو اور وہ احکامِ خداوندی کو آسانی سے سمجھ سکیں لیکن اس کا فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو علم رکھتے ہیں یا علم کا شوق رکھتے ہیں
Top